ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی:

دفعہ 44 کے کامل اور صحیح اجرا سے ملک کے اقتصاد میں حقیقی رونق پیدا ہوگي

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای آج سہ پہر کو صدر اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں انقلاب اسلامی کے اقدار پر عمل، انصاف پسندی ، سادہ زندگی بسر کرنے، اشرافیانہ زندگی سے دوری ، عوام کی لگاتار خدمت اور سامراجی طاقتوں سے مقابلہ کے  بنیادی خطوط اور اصولوں کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حکومت کے بنیادی خطوط میں عوام کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں سہولیات فراہم کرنا اور  بلند مدت منصوبہ پر مزید توجہ اور زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا شامل ہے۔

یہ ملاقات ہفتہ حکومت اور انقلاب کے اوائل میں ایران کے سابق صدر شہید رجائی اور وزیر ا‏عظم شہید باہنر کی شہادت کی مناسبت سے منعقد ہوئی ، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ان دو گرانقدر شہیدوں کو انقلاب اسلامی کے گرانقدر اصولوں کا پابند اور مخلصانہ تلاش و کوشش اور جد و جہد کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی نے ان شہیدوں کے اخلاص کی بنا پر ان نورانی اور جاودانی چہروں کی یاد کو زندہ اور باقی رکھا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے ان مخلص بندوں کے لئے یہ بہترین پاداش اور جزا ہے جو اپنے تمام وجود کے ساتھ اسلام کی سرافرازی کے لئے تلاش وکوشش کرتے ہیں، اور اسلامی و انقلابی اقدار پر قائم رہ کر نمایاں خدمات انجام دیتے ہیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سنہ 1388 کے منظم فتنہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس فتنہ کی وجہ سے ملک کی پیشرفت و ترقی کو شدید چوٹ پہنچی اور اس کی وجہ سے دشمن کے اندر کافی جرئت پیدا ہوئی ، لیکن حکومت اور قوم نے اعتماد، ایمان، استقامت کے ساتھ تمام امور کو اجھے انداز سے آگے بڑھایا، اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے حکومت کو اچھی  توفیقات اور اچھی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور یہ کارنامے بھی شہید رجائی اور شہید باہنر کے خطوط پر پابندی سے چلنے اہم نمونوں میں شمار ہوتے ہیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے  انقلاب اسلامی کے نعروں پر پابندی سے عمل کو فخر و سربلندی اور سر افرازی کے احساس کا با‏عث اور حکومت کی کامیابی کی رمز قراردیا اور صدر و کابینہ کے ارکان سے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: عوام نےبھی عدل و انصاف کی حمایت، دین پر عمل، اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلے کے آپ کے نعروں کا خیر مقدم کیا ہے اور ان خطوط پر چلنے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلےمیں سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنے کی تلاش و کوشش جاری رکھنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کی سرگرمیوں میں ضروری امور کی تشریح کے سلسلے میں عوام کی فلاح و بہبود اور سہولیات و آسانیاں فراہم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام کے لئے آسانیاں اور سہولیات فراہم کرنے کے سلسلے میں خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کی زندگی کے مختلف شعبوں میں سلامتی ، آسانی اور سہولت کے آثار نمایاں ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طویل المدت منصوبہ کوحکومتی اقدام کے لئے ایک اہم اور ضروری منصوبہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: طویل المدت منصوبہ ملک کا 20 سالہ منصوبہ ہے جو دقت کے ساتھ اور حقائق کی روشنی میں مرتب کیا گيا ہے اور تمام شرائط میں اس منصوبہ پر خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ پانچ سال میں اس اہم دستاویز کے اجرا کے آغاز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس مدت میں جو راستہ طے کیا گیا ہے اس کا پھر سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور اس طرح سے عمل کرنا چاہیے تا کہ مختلف زمانوں اور مرحلوں کے مطابق  20 سالہ منصوبہ کے اہداف محقق ہوجائیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: یہ دستاویز بہت ہی اہم دستاویز ہے اگر اس پر توجہ نہ کرتے ہوئے دس سال کےمنصوبے سے آگے بھی بڑھ جائیں تو قدرتی طور پر باقی ماندہ مدت میں اس دستاویز کے اہداف کو مکمل کرنا ممکن نہیں رہےگا لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اس  اہم ذمہ داری کو ایسے ماہر افراد کے سپرد کرے جو دقت ، تدبیر اور غور و فکر کے ساتھ اس بنیادی سوال کا جواب دیں  کہ کیا اس طویل المدت منصوبہ اور دستاویز میں پیشرفت وقت کے  مطابق جاری رہی ہے یا نہیں ؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کے چوتھے عشرے کے نعرے یعنی پیشرفت اور عدل و انصاف کو حکومت کے دیگر عملی اقدامات میں قراردیتے ہوئے فرمایا: چوتھے عشرے کہ جو دوسال گزرے ہیں ان میں اچھے اور نمایاں کام انجام دیئے گئے ہیں لیکن عدل و انصاف کے محقق ہونے کے بارے میں واضح اور روشن معیاروں کو تدوین کرنی چاہیے تاکہ اقتصادی، سماجی، تعلیمی ، ثقافتی اور دوسرے مختلف شعبوں میں معیاروں کے مطابق عدل و انصاف کے نعرےکو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پانچ سالہ قومی ترقیاتی منصوبے کو بھی حکومت کی اہم ترجیحات کا حصہ قرار دیا اور پارلیمنٹ میں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے پر بحث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ مقننہ اور مجریہ کے حقیقی تعاون اور صلاح و مشورے کے ساتھ یہ منصوبہ بحسن و خوبی اور انسجام کے ساتھ تدوین اور منظوری کے مراحل تک پہنچ جائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ پانچ سالہ منصوبے میں بنیادی تبدیلی کرنے سے پارلیمنٹ کے گریز اور پارلیمنٹ کی طرف سےاس منصوبے کو علاقائی اور فروعی منصوبے کی حیثیت سے دیکھنے سے اجتناب پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا : حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے تیار کردہ منصوبہ کو بے عیب و نقص نہ سمجھے اسے نا قابل تنقید و ناقابل ترمیم تصور نہ کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کی طرف سے اقتصادی اور معاشی اقدامات کے بارے میں صدر جمہوریہ کی جانب سے اس ملاقات میں بیان کردہ اچھےنکات کی طرف اشارہ کیا اور اقتصادی ومعاشی تبدیلی کے پروگرام کی تمام شقوں پر عمل کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا : سبسیڈی کو با مقصد بنانے کے علاوہ بینکاری کے نظام، قومی کرنسی اور دیگر موضوعات کے بارے میں اس پروگرام کے دوسرے حصوں پر بھی اچھی طرح توجہ رکھنا اور عمل کرناضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی اور معاشی شعبے میں طویل المدت منصوبوں پر توجہ کو ضروری قرار دیا اور ترقیاتی منصوبے میں معین شدہ پیداوار کی شرح میں اضافہ اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ پر تاکید کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کو روزگار کے مسئلے پر مسلسل اور خاص توجہ دینے کی ہدایت اور سفارش کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفعہ 44 کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لئے انجام پانے والے امور کے بارے میں مزیدغور و فکر اورجائزہ لینے کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا: دفعہ چوالیس کا اصلی مقصد اور خلاصہ یہ ہے  کہ اقتصادی و معاشی شعبہ میں سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری رہے عوامی مدیریت ہو اور  نجی شعبہ اقتصادی اور معاشی میدان میں سرگرم عمل رہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اس دفعہ کے فلسفہ وجودی پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے سرمایہ کاری، نگرانی اور ہدایت کے عمل کو بدستور اپنے اختیار میں رکھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض شعبوں میں نجی سیکٹر کی طرف سے بہت بڑی سرمایہ کاری کی توانائی کے فقدان کی طرف اشارہ  کرتے ہوئے فرمایا : حکومت کی پالیسی اور اقدامات ایسے ہونے چاہییں تا کہ نجی سیکٹر بڑی سرمایہ کاری کے لئے بھی کمر ہمت باندھ لے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفعہ 44 کے صحیح اور مکمل اجراء کو وسط مدت اورطویل المیعاد کام قرار دیتے ہوئےفرمایا : اگر اس کام کو عملی جامہ پہنادیا جائے تو حقیقت میں ملک کی معیشت کو بہت بڑآ فروغ ملے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں حکومت کے انتظامی فرائض کے بارے میں اہم نکات پیش کئے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں عوام اور حکام کے قانونی فرائض کے تعین میں وزراء اور کابینہ کے اہم منصب و مقام اور ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا : حکومت کے فیصلوں میں تمام وزراء مؤثر اور شریک ہیں لہذا انہیں مکمل طور پر آمادگی اور ماہرانہ تیاری کے ساتھ کابینہ کی بحثوں میں شرکت کرنی چاہیے تاکہ منظور ہونے والے بل صحیح انداز میں تیار اور مکمل ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف اداروں کی ترقی میں باہمی امداد کو بھی وزیروں کے اہم انتظامی فرائض کا حصہ قرار دیا اور حکومت کے اندر بعض فطری اختلافات کو رائے عامہ کے سامنے آشکار اور برملا کرنے کے بعض اداروں کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: اس طرح کے مسائل کو کابینہ کے اجلاس میں حل کر لینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خارجہ پالیسی سمیت مختلف شعبوں میں موازی اورتکراری کاموں سے پرہیز اور وزراء کے اختیارات و فرائض کے دائرے میں ان پر مکمل اعتماد کو اہم انتظامی نکات میں شمار کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کابینہ کے ارکان کو تنقید برداشت کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا : بہت سے امور میں حکومت حق بجانب ہوتی ہے لیکن پھر بھی کابینہ کے ارکان کو چاہیے کہ وہ تنقید سننے کا جذبہ اور وسیع النظری کا مظاہرہ کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافتی مسائل پر حکومت کی توجہ اور اس شعبے کے لئے بجٹ کی منظوری پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا اور ثقافتی بجٹ کے استعمال کی کیفیت کے بارے میں انتہائی احساس ذمہ داری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: ثقافتی امور کے لئے بجٹ کی تخصیص میں اہداف و حقا‍ئق کے مد نظر ترجیحات کا تعین کیا جانا چاہیے اور پھر کام کی فنکارانہ اور ہنری مضبوطی کی جانب پوری توجہ مبذول کرنی چاہیے کیونکہ ثقافتی شعبے میں مصنوعی اور تصنع آمیز کاموں سے نہ صرف یہ کہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے واضح طور پر نقصان بھی پہنچے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کی سفارتی کوششوں کو لائق تحسین اور قابل شکر قرار  دیتے ہوئے فرمایا: سیاسی رفت وآمد سے زیادہ جس چیز پر توجہ مبذول کرنی چاہیے وہ سفارتکاری کےصحیح سمت و سو کا تعین ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے وزارت خارجہ کو ایسے جملہ امور کی منظم اور منسجم راہنمائی کا مرکز اور محور قراردیا جو کسی نہ کسی صورت میں خارجہ پالیسی یا دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات سے مربوط ہیں۔
اس ملاقات میں صدر جمہوریہ ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے مختلف شعبوں میں حکومت کی کوششوں اور خدمات پر مفصل رپورٹ پیش کی۔

صدر احمدی نژاد نے پہلے نویں اور دسویں حکومتوں کے بنیادی طرز عمل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: عوام کو خدمات بہم پہنچانے کے شوق اور جوش و جذبہ کو فروغ ، عوام بالخصوص محروم طبقے کے سامنے تواضع و انکساری، مسلسل  تلاش اور دگنی محنت و عمل، عدل و انصاف کے قیام کی کوشش، انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے راستے پر حرکت اور اسلامی و انقلابی اقدار کی حمایت حکومت کی بنیادی پالیسیوں کا حصہ ہے اور اسی اساس و بنیاد پر پروگرام مرتب کئے جاتے ہیں۔

 صدر جمہوریہ نے عدل و انصاف کی ترویج کے لئے حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا : عوامی خدمات کے سلسلے میں تہتر صوبائی سفر، انصاف حصص کی تقسیم، معاشرے کی نچلی سطح تک بینک کی سہولیات کی فراہمی، رہائشی مکانات اور دیہی علاقوں کی تعمیر نو، گیس سپلائی کے نیٹ ورک میں توسیع، سبسیڈی کو زراعت اور محروم علاقوں تک پہنچانا، طبی مراکز کی تعداد میں اضافہ، خاندانی سطح پر ڈاکٹر نامی منصوبے پر عملدرآمد اور حکومتی ڈھانچے میں موزوں و مناسب اقدامات اور اشرافیانہ حالت کا خاتمہ وہ اہم اقدامات ہیں جو حکومت نے انصاف کو فروغ دینے اور لوگوں کو خدمات بہم پہنچانےکے سلسلے میں انجام دیئے ہیں۔

صدر احمدی نژاد نے اس کے بعد مختلف شعبوں میں حکومت کے بعض اقدامات اور اقتصادی اور معاشی امور میں پیشرفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : اقتصادی شعبے میں کی جانے والی کوششوں کی بنیاد معاشی ڈھانچے کی اصلاح پر استوارتھی اور اسی ابنیاد پر  رہائشی مکانات ،سونا، زر مبادلہ اور آٹو موبائل کے بازار کو کنٹرول کیا گیا اور وسائل کو سرمایہ کاری بازار کی جانب موڑدیا گیا ہے اور اسٹاک ایکسچینچ میں رشد و نمو انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے۔

صدر احمدی نژاد نے اقتصادی تغیر و تحول کو اقتصادی منصوبوں کا حصہ قراردیتے ہوئے کہا: سبسیڈی کو بامقصد بنانے کا منصوبہ اقتصادی تحول کا اصلی محور ہے اور اس کے بنیادی ڈھانچے کو تیار کرلیا گیا ہے اور عنقریب اس کو نفاذ کے لئے پیش کردیا جائے گا۔

صدر احمدی نژاد نے اقتصاد کے شعبہ میں بعض اعداد و شمار بھی پیش کئے۔

٭ برآمدات میں توسیع؛ سنہ 1384 ہجری شمسی سے لیکر 1388 ہجری شمسی تک تیل کے علاوہ دیگر برآمدات 96 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ سنہ 1360 سے لیکر 1383 تک تیل کے علاوہ دیگر برآمدات 60 ارب ڈالر تک تھیں ۔

درآمدات: حالیہ برسوں میں متوسط درآمدات کا سلسلہ 3/9 فیصد تک رہا ہے جبکہ اس سے پہلے درآمدات کا سلسلہ  ہر سال 25 فیصد تک رہا تھا۔

غیر ملکی سرمایہ کاری: غیر ملکی سرمایہ کاری 3 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور ایران غیر ملکی سرمایہ جذب کرنے میں دنیا کے چھٹے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔

دفعہ 44 کا بعض شعبوں میں نفاذ اور اجرا: نویں اور دسویں حکومت کے دور میں 7 ہزار ارب تومان  دیئے گئے ہیں جبکہ یہ عدد 1372 ہجری شمسی سے لیکر  1383 ہجری شمسی تک 3 سو ارب تومان تک تھا۔

بازار پر کنٹرول اور اشیاء کی تقسیم پر نگرانی، حکومت کے مجموعہ میں کمی اور خدمات بہم پہنچانے میں اضافہ ، بینکی اور بیمہ کے شعبوں میں اصلاحات، قومی کرنسی میں استحکام ایسےدیگر اقدامات تھے جو صدر احمدی نژاد نے اقتصادی شعبہ کی رپورٹ میں بیان کئے۔

صدر احمدی نژاد نے دیگر شعبوں میں حکومت کی سرگرمیوں اور خدمات کے سلسلے میں  مزید اعداد و شمار پیش کئے:

۔ بڑی شاہراہوں کی متوسط تعمیر سال میں 46 کلو میٹر سے بڑھ کر 106 کلومیٹر 

۔ ٹرانزیٹ میں 40 فیصد اضافہ

۔ بجلی کے شعبہ میں 3 گنا سرمایہ کاری

۔ تیسرے منصوبہ میں تیل کے شعبہ میں سرمایہ کاری میں اضافہ 6/39 سے بڑھ کر چوتھے منصوبہ میں 5/88 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

۔ حالیہ ایک برس میں کیمیکل کے دس منصوبوں کا افتتاح

۔ملک کے اندر پٹرول کی مکمل فراہمی

زراعت کے شعبہ میں پیداوار میں 87 ملین ٹن سے 107 ملین ٹن تک اضافہ

۔ زراعت کے شعبہ میں روزگار کی فراہمی میں دوگنا اضافہ

۔ دیہاتوں میں دس ہزار ارتباطی دفاتر کی تاسیس

۔ موبائل کی فراہمی میں  1/5 ملین سے بڑھ کر 1/52 میں تک اضافہ

۔ سینٹرل بینک کے قرضہ میں دو ہزار ارب تومان کی کمی

۔ بے روزگاری میں 2/11 فیصد کمی

صدر احمدی نژاد نے آئندہ نسل کے لئے آتیہ مہر امام رضا(ع) نامی صندوق کی تاسیس کو حکومت کا ایک جامع و کامل اور مناسب منصوبہ قراردیتے ہوئے کہا: قومی خلاقیت اور پیشرفت صندوق کا منصوبہ بھی حکومت کے دیگر اقدامات میں شامل ہے۔

صدر احمدی نژاد نے انٹیلیجنس اور سکیورٹی کے شعبہ میں حکومت کے اقدامات کے بارے میں غیر ملکی انٹیلیجنس سروسز اور دشمن کی سرگرمیوں پر مکمل نگرانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئےکہا: خارجہ پالیسی کے شعبے میں حکمت، تدبیر اور مصلحت کے تناظر میں حکومت نے فعال کردار ادا کیا ہے اور اسی بنیاد پر صدر نے 81 ممالک کا دورہ کیا اور ستر بین الاقوامی  وفود کی میزبانی کی ہے۔ صدر احمدی نژاد نے تہران میں منعقدہ ایٹمی ترک اسلحہ کانفرنس اور نیویارک میں این پی ٹی معاہدے پرنظر ثانی کانفرنس میں ایران کی فعال شرکت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : عوام کی حمایت سے حکومت نے اقتصادی پابندیوں اور سیاسی دباؤ کے باوجود سامراجی طاقتوں کے سیاسی دبدبے کو ختم کردیاہے۔

صدر احمدی نژاد نےثقافتی شعبہ میں پیشرفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئےکہا: دسویں حکومت میں ثقافت کے شعبہ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے  اور ثقافتی پیداوار میں اسلامی اور ایرانی ثقافت کے احیاء کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

صدر احمدی نژاد نے دیگر قوا بالخصوص پارلیمنٹ کے ساتھ تعاون اور ہمدلی کی فضا پیدا کرنے، قانون کی بالا دستی اور زیادہ سے زیادہ رعایت نیز آزاد اور منصفانہ فضا ایجاد کرنے کو حکومت کے دیگر اقدامات قراردیتے ہوئےکہا: ہمارا اس بات پر اعتقاد اور یقین ہے کہ امام (رہ) اور رہبری کا راستہ نیز نظام ولایت ایک جامع اور مترقی نظام ہے اور حکومت قانون کے دائرے میں رہ کر دیگر قوا کے ساتھ اتحاد اور یکجہتی کے اصول پر قائم رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دےگی۔

اس ملاقات کے اختتام پر حاضرین نےرہبر معظم  انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز مغرب و عشاء ادا کی اور اس کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ روزہ افطار کیا۔

 

700 /