ایران کی وفادار ، پائدار اور بصیر قوم نے آج رہبر کبیر اور بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کی اکیسویں برسی کے موقع پر مرحوم امام (رہ) کے ساتھ اپنی والہانہ محبت اور وفاداری کے عظیم جلوے پیش کئے اور رہبر معظم انقلاب اسلامی اور زمانہ کے ولی فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے ساتھ امام خمینی(رہ) کے نورانی راستے پر گامزن رہنے کے لئے تجدید عہد کیا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم مطہر میں عوام کے عظيم الشان اجتماع سے خطاب میں امام خمینی (رہ) کو انقلاب اسلامی کا ممتاز اور روشن معیار قراردیا اور امام (رہ) کی سیرت و روش کے بغیر امام کے عدم تشخص کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلام ناب محمدی (ص) پر دائمی اعتماد ،مکتب اسلام کے دائرے میں جاذبہ و دافعہ قوت ، الہی وعدوں پر محکم یقین، تقوی و معنوی محاسبات، انقلاب اسلامی کے لئے عالمی نگاہ، عوام پر اعتماد،اور کسی قسم کے فیصلہ اور قضاوت کے وقت افراد کی موجودہ صورتحال پر توجہ امام خمینی(رہ) کے راستہ پر گامزن رہنے کے اصلی معیاروں میں شامل ہیں اور ان معیاروں کی صحیح تشریح اور ان پر مسلسل توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلابات کی سماجی اور اجتماعی حرکتوں میں اصلی جہات کی حفاظت کو انحراف اور دگرگونی سے بچنے کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: وہ افراد یا ادارے جو انقلابات کے تشخص کو بدلنے کے خواہاں ہوتے ہیں وہ کسی سرکاری پرچم یا واضح علامت کے ساتھ سامنے نہیں آتے بلکہ ان کی حرکت ورفتار بالکل مخفی اور پنہاں ہوتی ہےلہذا ہر قسم کے انحراف کو روکنے کے لئے انقلابات میں معیاروں کا وجود بہت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے اسلامی انقلاب میں امام خمینی(رہ) کی شخصیت اور ان کی راہ و روش سب سے اہم اور اصلی معیار ہیں جو امام خمینی (رہ) کی رفتار ،گفتار اور ان کے وصیتنامہ میں واضح اور نمایاں طور پر جلوہ گر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے اصلی معیاروں کی درست تشریح کی ضرورت و وضاحت اور انھیں فراموش یا پنہاں نہ رکھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امام خمینی(رہ) کے نظریات اور خیالات کو غلط بیان کرنا یا انھیں فراموش یا پنہاں کرنا اس قطب نما کے مانند ہے جو خراب ہوجانے کے بعد صحیح سمت کی نشاندہی بند کردیتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام خمینی (رہ) کے مؤقف اور نظریات کو درست و صحیح اور واضح و روشن بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: امام خمینی (رہ) کی شخصیت کی پہچان اور ان کا تشخص ان کے صریح ، ٹھوس اور واضح مؤقف ہے جس نے دنیا میں عظیم زلزلہ پیدا کیا اور قوموں کے سوئے ہوئےضمیرکو بیدار کردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سامراجی طاقتوں، رجعت پسندوں،مغربی لیبرل ڈیموکریسی اور منافقین کے بارے میں حضرت امام خمینی(رہ) کے صریح مؤقف کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا: ہم بعض افراد کی خوشآمد گوئی کے لئے امام خمینی (رہ) کے مؤقف کو پنہاں یا کمرنگ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امام خمینی (رہ) کا تشخص ان کی سیرت اور راہ و روش میں نمایاں طور پر جلوہ گر ہے امام خمینی (رہ) کے تشخص کو سلب کرنے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی کوئي خدمت نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام خمینی(رہ) کے بعض افکار اور اصولوں کا انکار یا انھیں پنہاں کرنے پر بعض افراد پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: کج فہمی پر مبنی یہ کام وہی افراد انجام دے رہے ہیں جو کبھی امام (رہ) کے افکار کے مروج یا ان کے پیروکار تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جوانوں کو امام خمینی (رہ) کے وصیتنامہ اور ان کے افکار کا مطالعہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: امام خمینی(رہ) کے وصیتنامہ میں ان کے نظریات و افکار کا خلاصہ واضح طور پر موجود ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی اور ولی امر مسلمین نے اسلام ناب محمدی (ص) کو امام خمینی (رہ) کے افکار کاایک اصلی معیار قراردیتے ہوئے فرمایا: امام خمینی (رہ) کے نزدیک اسلام ناب وہ اسلام ہے جو ظلم کے ساتھ بر سرپیکار ، عدل و انصاف پر مبنی اور غریبوں ، ناداروں اور مستعفین کا حامی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام خمینی (رہ)کی نگاہ میں، اسلام ناب کے مد مقابل امریکی اسلام کو قراردینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکی اسلام وہی تشریفاتی اسلام ہے جس کی ظلم و ستم اور تسلط پسندی کے خلاف بالکل کوئی توجہ نہیں اور جو تسلط پسند اور منہ زور طاقتوں کی مدد اور ہمراہی کرتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: امام خمینی(رہ) اسلامی حاکمیت کے سائے میں اسلام ناب کے تحقق کو ممکن اور اسلامی جمہوریہ ایران کو اسلامی حاکمیت کی راہیں ہموار کرنے کا مظہر سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے اسلامی نظام کی حفاظت کو سب سے اہم واجبات قراردیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امام خمینی (رہ)کا اصلی مقصد وہدف اسلام ناب کو عملی جامہ پہنانا تھا اور ہدف کی بنیاد پر امام خمینی (رہ) آخری لمحہ اور اپنی تمام قدرت کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کی حفاظت پر قائم رہے اور انھوں نےدنیا کے سامنے ایک نئے سیاسی نظام کا ماڈل پیش کیا جو عوامی رائے اور اسلامی شریعت پر مبنی تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مکتب اسلام کے دائرے میں رہ کر امام (رہ) کی قوت دافعہ اور جاذبہ کو راہ امام (رہ) کا دوسرا عمدہ معیار قراردیتے ہوئے فرمایا: سیاسی میدان میں ہر قسم کی محبت و نفرت اور تولی و تبری بھی امام (رہ) کی فکر اور ان کے نظریے کے مطابق اور تابع ہونی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام خمینی (رہ) کے قوہ دافعہ اور جاذبہ کو بہت ہی وسیع و عریض قراردیتے ہوئے فرمایا: امام خمینی(رہ) کی کسی سے ذاتی اور شخصی دشمنی نہیں تھی اور ان کے ٹھوس و قاطع اقدامات صرف اور صرف اسلام کی خاطر تھے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف نظریات و عقائد رکھنے والے تمام گروہوں اور اقوام کے لئے امام (رہ) کی مہربان آغوش ہمیشہ بازرہتی تھی لیکن اس کے باوجود امام خمینی(رہ) نےسختی کے ساتھ کمیونزم ، لبرالزم اور مغربی نظام پر فریفتہ افراد کو دور کردیا اور متعدد بار سخت و تلخ تعبیروں کے ساتھ رجعت پسندوں کی بھی مذمت کی اور انھیں اپنے سے الگ کردیا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: راہ امام (رہ) کے ان واضح اور روشن خطوط، اصولوں اور معیاروں کے مطابق ایسے لوگ خود کو امام (رہ) کا پیروکار اور مطیع قرار نہیں دے سکتےجو امام (رہ) کے مخالفین اور ان کےدشمنوں کے ساتھ ساز و باز اور ہمراہی کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاسی سلسلے میں قرمایا: اگر امریکہ، اسرائیل، سلطنت طلب ، منافقین اور امام (رہ) کے دشمن اور معاندین ایک شخص کے اردگرد جمع ہوجائیں اور اس کا احترام اور اس کی تعظيم و تکریم کریں اور وہ شخص یہ دعوی کرے کہ میں امام (رہ) کے راستے پر گامزن ہوں تو یہ دعوی قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی یہ دعوی حقیقت پر مبنی ہوسکتاہے کیونکہ امام خمینی (رہ) واضح الفاظ میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ اگر اسلام دشمن عناصر ہماری تعریف و تکریم کریں تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم خیانتکار ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی یوم قدس کے دن امام خمینی(رہ) کے مؤقف کے خلاف عمل کرنے والے افراد اور گذشتہ برس عاشور کے دن ذلت و رسوائی کا مظاہرہ کرنے والے افراد کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: اگر کوئی شخص ایسی نازیباحرکات اور اعمال کا ساتھ دے یا ان کے مقابلے میں خاموشی اور سکوت اختیار کرے جو امام (رہ ) کے نظریہ و اصول کے بالکل خلاف ہیں تو حقائق و ادارک کی روشنی میں قوم ایسے شخص کو امام (رہ) کا حامی اور پیروکار قرار نہیں دےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے الہی وعدوں پر محکم یقین اور الہی و معنوی اثرات و محاسبات کو مدنظر رکھنے کو امام کی راہ و روش کا ایک دوسرا معیار قراردیتے ہوئے فرمایا: امام خمینی (رہ) اپنی تدابیر اور فیصلوں میں سب سے پہلے معنوی اثرات ومحاسبات کو مد نظر رکھتے تھے اور ہر کام انجام دینے میں صرف اللہ تعالی کی رضا اور اس کی خوشنودی کا حصول ان کا اصلی مقصدرہتا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام خمینی (رہ) کی سرگرمیوں میں غرور و غفلت اور خوف و مایوسی کےنہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امام(رہ) تمام سیاسی، سماجی اور ذاتی مسائل میں حتی اپنے مخالفین اور معاندین کے بارےمیں فیصلوں میں تقوی و پرہیزگاری کے راستہ سے ذرہ برابر بھی منحرف نہیں ہوئے اور یہ سب کے لئے بالخصوص انقلابی ، مؤمن اور امام (رہ) سے والہانہ محبت رکھنے والے جوانوں کے لئے بہترین درس اور اعلی نمونہ ہے کہ حتی دشمن اور مخالف کے ساتھ بھی مکمل طور پرحق و تقوی اور عدالت کے ساتھ رفتار رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام (رہ) کی راہ و روش کے دیگر معیاروں میں عوام پر ان کے اعتماد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امام (رہ) نےانتخابات اور ملک و معاشرے کے دیگر مسائل میں عوام کے اعتماد پر مبنی عظيم امور انجام دیئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے دو مہینے بعد نظام کے تعین کے لئے ریفرینڈم کرانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کسی بھی انقلاب میں اتنے کم فاصلے میں نظام کے تعین کے سلسلے میں عوام کی آراء کی جانب رجوع کرنا کم نظیر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سخت ترین شرائط ،حتی مسلط کردہ جنگ کے دوران انتخابات منعقد کرانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب کی تیس سالہ عمر میں تمام انتخابات وقت پر منعقد ہوئے حتی ایک دن بھی انتخابات میں تاخیرنہیں ہوئی جبکہ دنیا کے ڈیموکریسی کے دعویدار نظاموں میں ایسا مسئلہ موجود نہیں ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امام خمینی (رہ) کے اصلی معیاروں میں ایک معیار یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں تحریک انقلاب اسلامی ایک عالمی تحریک تھی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تحریک انقلاب اسلامی کے عالمی ہونے کے اعلان میں امام خمینی (رہ) کی شجاعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امام (رہ) کا یہ اقدام دیگر ممالک کے امور میں مداخلت یا استعمار کی شکل میں صدور انقلاب سے بالکل متفاوت و مختلف ہے امام (رہ) کا مقصد و مقصود یہ تھا کہ دنیا کی تمام قومیں اس تاریخی حرکت کے عطر و لطافت سےاستفادہ کریں اور آگاہی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: فلسطینی عوام کی حمایت میں امام خمینی(رہ) کا منطقی اور مؤثر دفاع انقلاب اسلامی پر امام (رہ) کی عالمی نگاہ کا ایک عملی نمونہ ہے امام صاف و صریح فرماتے تھے کہ اسرائیل ایک ناسور ہے اور اس ناسور کا علاج اس کے ختم کرنے اور نکالنے پر منحصر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی عوام کے دفاع میں امام خمینی(رہ) کے مؤقف کو سب سے زیادہ منطقی مؤقف قراردیتے ہوئے فرمایا: عالمی منہ زور طاقتوں نے ظلم وستم و شنکجہ اور ایک قوم کو ملک بدر کرکے ایک جغرافیائی حصہ کو ختم کیا اس کی جگہ اسرائیل کے نام پر ایک جعلی اور غاصب حکومت کو تشکیل دیا جبکہ ان کا یہ اقدام سوفیصد غلط اور غیر منطقی اقدام ہے لیکن اس آشکارا تاریخی ظلم و ستم کے خلاف امام خمینی(رہ) نےسوفیصد منطقی مؤقف کی روشنی میں تاکید کرتے تھے کہ غاصب اور جعلی حکومت کو ختم اور حذف ہونا چاہیے اور فلسطین کے اصلی اور حقیقی ملک کو دوبارہ معرض وجود میں لانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: غاصب اسرائیل کے مقابلے میں امام خمینی(رہ) کا مؤقف بالکل واضح ، صاف اور صریح تھا لیکن اب اگر کوئی اشارہ کے ساتھ بھی اس موضوع پر بات کرتا ہے تو امام (رہ)کی حمایت و پیروی کے بعض مدعی افراد اس پر اعتراض کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے راہ امام خمینی (رہ) کے اہم معیاروں کی تشریح ، فیصلوں اور قضاوت میں افراد کی موجودہ حالت کومد نظر قراردینےکے بارے میں امام (رہ) کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امام خمینی (رہ) نےکئی بار اس بات پرتاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ افراد کے بارے میں قضاوت اور فیصلے ان کی موجودہ اور فعلی صورتحال کو مد نظر رکھ کر کرنے چاہییں اور یہ مسئلہ امام خمینی (رہ) کے راستہ پر گامزن رہنے کے لئے بہت ہی عمدہ اور اہم معیار ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: اگر افراد کی موجودہ حالت ان کی ماضی کی حالت کے ساتھ ہم آہنگ ہےتو پھران کے بارے میں ماضی سے تمسک قابل قبول ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھران کا ماضی ملاک و معیار نہیں بن سکتا کیونکہ وہ اپنےماضی کے خلاف عمل کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں صدر اسلام میں طلحہ و زبیر کے درخشاں کارناموں اور پھر ان کے مؤقف میں نمایاں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت علی (ع) کی طلحہ و زبیر کے ساتھ ٹھوس اور قاطع رفتار افراد کی موجودہ حالت کے بارے میں ہر طرح کا فیصلہ اورقضاوت کرنے کے سلسلےمیں ایک تاریخی نمونہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے پہلے دور کے بعض ساتھیوں کے ساتھ امام (رہ) کی سخت رفتار کو اس اہم معیار پر امام (رہ) کے عملی نمونہ کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض افراد حتی نجف کے دور سے امام (رہ) کے ہمراہ تھے لیکن امام (رہ) نے انھیں ایک مرحلے پر غلط مؤقف اختیار کرنے کی بنا اپنے سے الگ کردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام (رہ) اور راہ امام(رہ) کے اہم معیاروں کے بارے میں بحث کو سمیٹتے ہوئے تمام افراد بالخصوص جوانوں کو امام (رہ) کے اقوال ان کے اصولوں اور وصیتنامہ کا غور مطالعہ کرنے کی سفارش کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی(رہ) کی رحلت کے بعد ایرانی عوام کی طاقت و قدرت اور ترقی و پیشرفت میں اضافہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سادہ لوح اور غافل افراد کی ہمراہی کے باوجود دشمنوں کا ہر منصوبہ ایرانی عوام کی بصیرت و آگاہی کی بدولت اسلامی جمہوریہ ایران کے مضبوط و مستحکم ہونے کا موجب بنےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات کے بعد رونما ہونے والے واقعات میں امریکہ ، برطانیہ، مغربی ممالک، سلطنت طلب اور منافقین کی حمایت کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا: دشمنوں اور فتنہ پروروں کی سازشوں کے مقابلہ میں ایرانی عوام نے 9 دی اور 22 بہمن 1388 ہجری شمسی میں اپنی عظمت اور اتحاد کے شاندار جلوے پیش کئے اور اس کے بعد بھی ایران کے ذہین اور فہیم جوان اور عوام تقوی ، پرہیزگاری اور بصیرت کے ساتھ دشمنوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنادیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسرے خطبے میں بعض اہم بین الاقوامی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری ، غزہ کے محاصرے اور اس سے متعلق اہم مسائل پر خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور وہاں یہودیوں کی آباد کاری کو فلسطین میں اسلام کی جڑ یں ختم کرنے کی ناپاک سازش قراردیتے ہوئے فرمایا: عالم اسلام کو اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس سنگین جرم کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیےاور اس شوم منصوبے کو ناکام بناناچاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غزہ کے محاصرے کو وحشیانہ اورسنگین جرم قراردیتے ہوئےفرمایا: غزہ میں 15لاکھ افرادکا محاصرہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت کے سائے میں جاری ہے جو انسانی حقوق کے مدعی ہیں لیکن افسوس ہےکہ اس سلسلے میں بعض عرب اور اسلامی ممالک بھی محض تماشا دیکھ رہے ہیں جبکہ بعض پس پردہ خیانت کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غزہ کے محصور فلسطینیوں کے لئے امداد لے جانے والے عالمی قافلہ پر آزاد سمندر میں اسرائیل کے وحشیانہ حملے اور اس سلسلے میں اسرائیل کے جھوٹے پروپیگنڈے کو صہیونیوں کی وحشیانہ خصلت کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: اسرائیل کے اس وحشیانہ عمل کے بارے میں ایران گذشتہ تیس سال سے آواز بلند کررہا ہے لیکن امریکہ اورمغرب کی دیگر جھوٹی اور فریبکار طاقتوں نےکبھی اس پرتوجہ مبذول نہیں کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غزہ کے امدادی کارواں پر صہیونیوں کے حملے کو اسرائیلیوں کی بہت بڑی غلطی اور اشتباہ قراردیتے ہوئے فرمایا: جس طرح اسرائیل نے لبنان پر حملے یا اس کے بعد غزہ پر حملے میں اشتباہ کا ارتکاب کیااسی طرح اس واقعہ میں بھی اسرائیل نے سخت اشتباہ کیا ہے اور اسرائیل کے پیہم اور مسلسل اشتباہات اس بات کا مظہر ہیں کہ اسرائیل کی غاصب حکومت تیزی کے ساتھ نابودی کی جانب گامزن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نیویارک میں این پی ٹی کے ایک مہینے تک جاری رہنے والےاجلاس کے نتیجہ کو بین الاقوامی اہم اور قابل غور مسائل میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: اس اجلاس میں جو نتیجہ سامنے آیا وہ منہ زور طاقتوں کی مرضی منشاء اور منصوبہ کے بالکل خلاف تھا کیونکہ 189 ممالک نے این پی ٹی معاہدے میں اسرائیل کے الحاق کو لازمی قراردیا ہے اور اس اجلاس میں ایٹمی ہتھیاروں کی نابودی پر بھی خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: این پی ٹی اجلاس میں جو کچھ ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں اب امریکہ جیسی منہ زور اور متکبر طاقتوں کی بات ماننے کے لئے کوئي بھی ملک تیار نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ تیس برسوں عالمی رائے عامہ میں ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ اب نہ صرف قومیں بلکہ حکومتیں بھی امریکہ کا مقابلہ کرتی ہیں اور اس کی مرضی و منشاء کے خلاف رائے دیتی ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں کے اختتام میں فرمایا: بین الاقوامی سطح پریہ مسائل اور واقعات، ایران کی عظیم قوم کے لئے اللہ تعالی کی بشارتیں اور خوشخبریاں ہیں۔