ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی:

اسلامی نظام کی اساس و بنیاد" اطیعوااللہ واطیعوا الرسول " پر استوار ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح خبرگان کونسل کے سربراہ اور اراکین کے ساتھ ملاقات اور اپنے اہم خطاب میں اسلامی نظام کو اللہ تعالی کی اطاعت اور الہی نقشہ پر استوار قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کے تشخص، اس کی سرحدوں اور معیاروں کی حفاظت ایک بنیادی مسئلہ ہے اور جولوگ بنیادی آئین کی روشنی میں حکمیت ، قانون اورنظام کے تشخص کو قبول کرتے ہیں وہ نظام کے مجموعہ کا حصہ ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آیہ شریفہ" اطیعوااللہ  واطیعوا الرسول " کو اسلامی نظام کی اساس و بنیاد قراردیتے ہوئے فرمایا: انسانی معاشرے کی سعادت کے لئے اللہ تعالی کی اطاعت کا مرتبہ فردی عبادات اور مسائل سے کہیں زیادہ بلند وبالا ہے اور اس کو محقق کرنے کے لئے ایک قوم کی ہمہ گیر تلاش و جد وجہد ضروری ہے اسلامی جمہوریہ ایران بھی اللہ تعالی کے بنائے ہوئے نقشہ کا مظہر اور نتیجہ ہے۔

رہبر معظم نے قوم کی سرنوشت میں اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کے راستے پر گامزن رہنے کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: غیر الہی اور غلط سماجی نظاموں میں شخصی اقدامات ملک و معاشرے کو سعادت تک نہیں پہنچا سکتے لیکن الہی نقشہ پر استوار نظام میں فردی غلطیاں قابل اصلاح اور مشکلات و نقائص کو بھی دور کرنے کا جامع نظام ہے اور اس حقیقت کی روشنی میں قوموں کی سعادت کے لئے الہی نقشہ پر استوار نظام کی اہمیت واضح اور اجاگرہوجاتی ہے۔

رہبر معظم نے گذشتہ اکتیس برسوں میں منہ زور طاقتوں کے مقابلے میں اسلامی نظام کے تشخص و سرحدوں کی حفاظت کو ایرانی قوم کے لئے حقیقی چیلنج قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کے وجود اور اس کے بابرکت آثار سے عالم اسلام میں جو بیداری پیدا ہوئی ہے اس نے سامراجی طاقتوں کے مفادات کو خطرے میں ڈال دیا اور اسی وجہ سے سامراجی ، ظالم اور منہ زور طاقتیں  اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہیں لہذا اسلامی نظام اور اس کے ارکان کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے سب کو تلاش وکوشش کرنی چاہیے۔

رہبر معظم نے توحید کو نظام کا اصلی ستون اور عدالت و انسانی کرامت و عوامی مطالبات وآراء کو نظام کے دیگر ارکان قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظریہ کے تحت مختلف میدانوں بالخصوص انتخابات میں عوام کی موجودگی اور شرکت، ملک و معاشرے کے اصلی اور اہم امورہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابات نہ تقلیدی ہیں نہ صوری ، بلکہ حقیقی انتخابات ہیں۔

رہبر معظم نے عوام کی رضامندی کو خواص کی مرضی پر ترجیح دینے کے سلسلے میں مالک اشتر کے نام حضرت علی (ع) کے خط کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات کی بنیاد درحقیقت ملکی امور میں عوام کی سرگرم و فعال شرکت اور ان کی موجودگی ہے  اوریہ اتنا اہم مسئلہ ہےجو اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے والے دشمنوں کی روز افزوں مایوسی کا موجب بن گیا ہے۔

رہبر معظم نے انتخابات کے بعد فتنہ پروری کی کوششوں کو عوامی آراء کی نفی ، انتخابات میں قوم کی وسیع شرکت پر سوالیہ نشان اور اسلامی نظام پر الزام و اتہام کا موجب قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض افراد اس عظیم گناہ کا ارتکاب کرنے کے باوجود اس راستے پر چلنے کے لئےحاضر نہیں ہوئے جو قانون نے معین کئے ہیں۔

رہبر معظم نے اسلامی نظام میں انتخابات کے مثبت آثار اور انتخابات میں عوام کی آراء کو خود ان کی تشخیص کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: جمہوریت کے مدعی اکثر ممالک میں عوامی آراء فیصلہ کن نہیں بلکہ  وہاں سرمایہ دار گروہ اپنا نقش ایفا کرتے ہیں جبکہ اسلامی نظام میں قوم خود اپنی تشخیص کے مطابق عمل کرتی ہے البتہ ممکن ہے اس تشخیص میں کسی جگہ اشتباہ ہوجائے بہر حال فیصلہ عوام کا ہے اور عوام کے فیصلے کے سامنے سب کوسرتسلیم خم کرناچاہیے۔

رہبر معظم نے صحیح و سالم رقابت، معاشرے میں شوق ونشاط  ،نظام کی طاقت و قدرت اور مدیریت میں تغییر و تحول کے لئے اسلامی نظام کے انتخابات میں عوام کی بھر پورشرکت کو عظیم برکت کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: ایک سماجی و اجتماعی نظام کے استمرار کی بہترین شکل ثبات وپائداری کے ساتھ ساتھ تحول و تبدیلی میں مضمر ہے اور اسی بنیاد و اساس پراسلامی جمہوریہ ایران میں ثبات اور بنیادی اصولوں کی حفاظت کے ضمن اور اسلامی نظام  کے دائرے میں انتخاباتی رقابتیں اور مقابلے انجام پذیر ہوتے ہیں لہذا اگر کوئی شخص غلط اقدام کے ذریعہ یا اس دائرے سے ہٹ کر انتخاباتی رقابتوں میں وارد ہوجائے تو اس شخص نےانتخابات کے درست و صحیح قوانین و مقررات کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔

رہبر معظم نے اسلامی نظام کے دشمنوں کے ساتھ صاف وشفاف اور واضح حدبندی کو  انتخاباتی رقابتوں میں شرکت کے لئے اہم اور ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: حدوں کو کمرنگ بنانا بہت بڑی غلطی ہے جو عوام کے لئے تشویش و پریشانی کا باعث  ہے لہذا اسلامی نظام کے مخالفین سے برائت و نفرت کا اظہار اور حدوں کو مکمل طور پر واضح و صاف کرنا ضروری ہے۔

رہبر معظم نے اسی سلسلے میں فرمایا: اگر حدیں واضح نہ ہوں تو کچھ لوگ بغیر شناخت کےجرم و جنایت کی غرض سے وارد ہوسکتے ہیں جبکہ کچھ لوگ عدم توجہ کی بنا پر حد سے خارج بھی ہوسکتے ہیں لہذا حد بندی نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

رہبر معظم نے ذاتی و حزبی مفادات و مصلحتوں پر قومی اور ملکی مفادات و مصلحتوں کی برتری و فوقیت کو سالم انتخابات منعقد کرانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئےفرمایا: اگر انتخابات ان خصوصیات کے تحت منعقد ہونگے بیشک وہ عوام کی نشاط و رضامندی اور ملک کی ترقی و پیشرفت کا سبب قرار پائیں گے۔

رہبر معظم نے بہت سے موارد میں اسلامی نظام کی موجودہ پوزیشن کو پہلے سے کہیں بہتر قراردیتے ہوئے فرمایا: آج حضرت امام خمینی(رہ) کا گرم نفس ہمارے درمیان موجود نہیں اور دفاع مقدس جیسا کوئی واقعہ بھی سامنےنہیں جو جوانوں کے جوش و ولولہ کا سبب تھا لیکن عوام بالخصوص جوانوں نے انقلاب اسلامی کے اکتیس برس گزرنے کے بعد  بھی نیک نیتی اور صاف دل کے ساتھ  اس سال 22 بہمن کو اپنی موجودگی کے بے مثال جلوے پیش کئے اور نو دی کے دن تاریخ میں عظیم اور یادگار واقعہ کو رقم کیا۔

رہبر معظم نے یونیورسٹی اور معاشرے میں قوم بالخصوص جوانوں کی بصیرت ، آگاہی ، غیرت و ہمت اور ان کے احساس ذمہ داری کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: اس سال عوام ہر سال کی نسبت جوش ولولہ اور کثرت کے ساتھ میدان میں حاضر ہوئے کیونکہ انھوں نے خطرہ محسوس کیا اور وہ سمجھ گئے کہ کچھ لوگ انتخابات کے بہانے سے  اسلامی نظام کے چہرے کو داغدار بنانا چاہتے ہیں اور بعض لوگ امام (رہ)و انقلاب اور اسلامی نظام کا نام لینے کے باوجود سخن وعمل میں اسلامی نظام کے اعلی اہداف کے خلاف ہیں۔

رہبر معظم نے حکام کی طرف سے عوام کی قدر دانی کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: قوم کی اس فیصلہ کن شرکت کے ذریعہ ہمیں دینداری اور اللہ تعالی کی اطاعت کو درک کرنا چاہیے  اور خدمت و مزید تلاش و کوشش کے ذریعہ اس کی قدر کرنی چاہیے۔

رہبر معظم نے ایرانی عوام کے خلاف دشمنوں کے وسیع محاذ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: صہیونیوں کے زیر نظر اکثر مراکز اور کمپنیاں اپنے تمام وسائل کے ساتھ اسلامی نظام کا مقابلہ جاری رکھنے پر کمر بستہ ہیں اور ملک کے اندر بھی بعض عناصر ان کا تعاون و پروپیگنڈہ کرکے ان کا اعتماد حاصل کررہے ہیں اور اسلامی نظام پر چوٹ لگانے کے لئے انھیں موقعہ فراہم کررہے ہیں لیکن قوم کی قابل تحسین بیداری ، ان کے ایمان  اور اسلامی نظام کے ساتھ ان کی وفاداری و عہد ، اللہ تعالی کی پشتپناہی کا باعث بناہے اور ملک و قوم کو مختلف میدانوں میں پیشرفت و ترقی حاصل ہوئی ہے۔

رہبر معظم نے تشخصی اور اصلی مسائل میں دشمنوں کے ساتھ حد بندی پر دوبارہ تاکید کے ساتھ  فرعی مسائل میں اختلاف نظر کو پیشرفت کا سبب قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کی تقویت و حفاظت کی غرض سے ہر بات اور ہر اقدام کو غور و فکر کے بعد بیان یا انجام دینا چاہیے۔

رہبر معظم نے خواص کے لئے بصیرت کی بار بار تکرار کی تشریح اور مشروطہ دور میں بعض خواص عناصرکی غفلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس دور میں مغرب نواز افراد کی سازشوں کی حقیقت آشکار نہ ہوسکی ، جس کی وجہ سے بنیادی انحراف پیدا ہوگیا لیکن اس غلطی کو دوبارہ نہیں دہرانا چاہیے۔

رہبر معظم نے اسلامی قصاص قانون کے مخالف عناصر کے مقابلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی حساسیت اور ان کے ساتھ سخت رفتار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے وسیع النظر امام (رہ) نے اس مسئلہ کی حقیقت کو درک کرلیا اور اسی وجہ سے وہ اس پر سختی سے عمل کرتے تھے۔

رہبر معظم نے نظام کی کلیات پر حساسیت کو اصل قرار دیا اور درجہ دو کے مسائل کو اصلی مسائل سے الگ کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: فرعی مسائل میں اختلاف اہم نہیں ، ان کو حل کیا جاسکتا ہے لیکن اصلی مسا‏ئل میں اسلامی نظام کے چاہنے والوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان حد بندی واضح ہونی چاہیے۔

 رہبر معظم نے اسلامی نظام کو کشتی نجات قراردیا اور اسلامی نظام کے دائرے میں موجود تمام افراد کو دعوت دیتے ہوئے فرمایا: جو لوگ قانون اور اکثریت آراء کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور انتخابات میں 40 ملین افراد کی شرکت کے قوی نقطہ کو کمزور اور ضعیف نقطہ میں بدلنا چاہتے ہیں وہ عملی طور پر اس کشتی نجات سے خارج ہورہے ہیں اور اسلامی نظام کے دائرے میں شرکت کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔

رہبر معظم نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں خبرگان کونسل کوبہت ہی اہم اور استثنائی ادارہ قراردیتے ہوئے فرمایا: خبرگان کونسل میں مشہور و معروف علماء موجود ہیں اور عوام کو ان پر رہبری کے انتخاب اور اس سے متعلق مسائل سمیت تمام امور میں مکمل اعتماد ہے۔

رہبر معظم نے خبرگان کونسل کے اراکین کی تلاش و کوشش پر شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: امید ہے کہ اللہ تعالی  آپ کی کوششوں کو قبول فرمائے۔

اس ملاقات کے آغاز میں خبرگان کونسل کے سربراہ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے کہا: خبرگان کا اجلاس 9 دی اور 22 بہمن میں عوام کی عظیم ریلیوں سے متاثر ہوکر نشاط و مزید آمادگی کے ساتھ منعقد ہوا اور خبرگان کونسل کا یہ طولانی اجلاس آرام و سکون کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے مزید کہا: خبرگان کونسل کے ارکان کے علاوہ دو مہمان دیگر بھی تھے جھنوں نے اندرونی حالات اور خارجہ پالیسی پر روشنی ڈالی۔

خبرگان کونسل کے نائب سربراہ آیت اللہ ہاشمی شاہرودی نے خبرگان کونسل کے دو روزہ اجلاس کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: خبرگان کونسل کا ساتواں اجلاس خبرگان کونسل کے سربراہ کےخطاب سے آغاز ہوا اور اس کےبعد خبرگان کونسل کے بعض اراکین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

 

700 /