رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ خامنہ نے ماہ رمضان کے تیسرے جمعہ کے موقع پر تہران کے روزہ داروں کے با شکوہ اور عظیم اجتماع سے خطاب کر تے ہوئے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی سیاسی حکمت عملی اور راہ و روش پر روشنی ڈالتےہوئے ، امام خمینی کی سیاسی حکمت عملی اور سیرت کو ، سیاست علوی کے مطابق قرار دیا اور اس بات پر تاکید کی کہ عالمی یوم قدس ، عظیم الشان امام کی سب سے برجستہ یادگاروں میں سے ایک ہے اور خدا کے فضل و ہدایت کے سایے میں آنے والے جمعہ کے دن ، ہماری عظیم اور بیدار قوم ، اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، دنیا کی ظلم ستیز قوموں کی صف اول میں فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کا پر چم لہرائے گی ۔
موصوف نے یوم قدس کو ، بیت المقدس سے " امام ، انقلاب ، اور ملت ایران " کے والہانہ عشق کی علامت قرار دیا اور ایران کے اس اقدام پر عالمی استکبار اور صیہونیوں کے غیض و غضب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : دشمن نے ہمیشہ ہی ان مظاہروں کو کمزور کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے لیکن ہماری باشرف قوم ، تہران اور پورے ملک میں اس دن کو پورے تزک و احتشام کے ساتھ منائے گی اور ایران کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمان بھی اس دن کو پوری شان و شوکت سے منائیں گے اور ایک بار پھر قدس کی یاد کو تازہ کریں گے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یوم قدس کو ایرانی قوم کےاتحاد و یکجہتی کا مظہر قرار دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے اختلاف و تفرقہ سے مقابلہ کرے پر زور دیتے ہوئے فرمایا : ہمارے عوام ہوشیار رہیں کہ کہیں بعض افراد ان عظیم مظاہروں کو اختلاف و تفرقہ ڈالنے کے لئیے استعمال نہ کریں چونکہ فلسطین کی حمایت کی پرچمداری صرف ایرانی قوم کے اتحاد کی صورت میں ممکن ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے پہلے خطبے میں ، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی سیاسی سیرت اور راہ و روش کے مختلف پہلووں پر روشننی ڈالتے ہوئے اسے معنویت اور اخلاق پر مبنی قرار دیا ۔
موصوف نے سیاست میں معنویت اور اخلاق کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے عوام اورمعاشرے کے کمال کا باعث قرار دیا اور مزید فرمایا : اگر سیاست ، اخلاق و معنویت سے عاری ہو تو طاقت ، ثروت اور دنیوی اغراض و مقاصد کے حصول کا باعث بنے گی اور سماج اور سیاستدانوں کے گلے کا پھندا بن جائے گی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی نگاہ میں حکومت کے بے وقعت ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، انصاف کے قیام ، طلم و نانصافی سے پیکار اور حق کے دفاع کو امیر المؤمنین علیہ السلام کی جانب سے منصب حکومت کو قبول کرنے کے اسباب و علل کے طور پر گنوایا اور اس بات کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی سیاست کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مکر و فریب سے عاری تھی حالانکہ سیکولر اور سیاست اور دین میں جدائی کے نظریہ پر قائم سیاسی نظاموں میں ہر قسم کا مکر و فریب رواہے ۔
موصوف نے مزید فرمایا : امام المتقین کے سیاسی مکتب میں جھوٹ اور مکر کے لئیے کوئی جگہ نہیں ہے اور امیر المؤمنین ہمیشہ ہی اس بات پر زور دیتے تھے کہ کوئی بھی ان سے چاپلوسی اور خوشامدانہ لہجے میں بات نہ کرے ۔
جہاں تک ممکن ہو اپنے مخالفین حتیٰ دشمنوں سے مدارا ، امیر المؤمنین کی سیاست کا ایک اور طرہ امتیاز تھا ، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت نے مختلف مواقع اور واقعات میں جہاں تک ممکن تھا مخالفین کے سلسلے میں روا داری اور خوش خلقی سے کام لیا لیکن جب کوئی چارہ نہ رہا تب پوری سختی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دشمنوں اور مخالفین سے عقل و منطق کی روشنی میں گفتگو کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے سیاسی مکتب فکر کی ایک اور خصوصیت قرار دیا اور فرمایا: تمام مخالف دھڑوں اور سیاسی حلقوں سے آپ کا سلوک ایک جیسا نہیں تھا اور آپ ان لوگوں، جو حق پسندانہ اہداف رکھتے تھے لیکن جہالت کی بناپر انحراف کا شکار ہو گئے تھے اور ان لوگوں کے درمیان جو ابتدا سے راہ باطل پر گامزن تھے فرق رکھے جانے کے قائل تھے اور ساتھ ہی آپ انحراف اور دین کی ظاہری چیزوں کو حربہ بنائے جانے کی شدت سے مخالفت کرتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسرے خطبے کے آغاز میں سیاسی شخصیات اور حلقوں نیز موجودہ و سابق حکام کو مخاطب کرتے ہوئے گزشتہ تیس برسوں کے دوران ملت ایران اور انقلاب کی بنیادی تحریک میں رونما ہونے والے کچھ اختلافات کا جائزہ لیا اور بعض اختلافات کی وجہ اصولوں اور نظریات کا اختلاف قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ بعض اختلافات کی وجہ در حقیقت کچھ مفادات تھے جبکہ بعض اختلافات اصولوں پر عملدرآمد کی روش کے بارے میں تھے لہذا ان دونوں کے سلسلے میں مختلف موقف ہونا چاہئے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اختلافات کے سلسلے میں امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: امام (خمینی رہ) حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے طرز عمل کی تاسی کرتے ہوئے، معترض سیاسی حلقوں کی ماہیت و حقیقت کے مطابق ان کے سلسلے میں موقف اختیار کرتے تھے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عبوری حکومت، قصاص کے بل کے مخالفین اور منافقین کی تنظیم کے ساتھ امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے برتاؤ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: امام (خمینی رہ) پہلے تو رواداری برتتے اور نصیحت کرتے تھے لیکن جب یہ روش بے نتیجہ ثابت ہوتی تو پھر دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہتے تھے۔ آپ نے اسی سلسلے میں یاد دلایا کہ امام (خمینی رہ) کا یہ طرز عمل صدر مملکت سے بھی بلند عہدہ داروں کے سلسلے میں دیکھا گيا، اس طرح سے کہ امام (خمینی رہ) نے اپنی عمر کے اواخر میں ان لوگوں کے سلسلے میں دو ٹوک رخ اختیار کیا جن کے بارے میں محسوس کر لیا کہ رواداری کی گنجائش نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معترض حلقوں کے انقلابی و مذہبی ماضی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان میں بعض اختلافات کی وجہ اصولوں پر عملدرآمد کے سلسلے میں نظریاتی اختلاف تھا لیکن بعض لوگوں نے بنیادی قسم کے اختلافات یا مفادات کی رسہ کشی کے ذریعے معاملے کو امام (خمینی رہ) اور انقلاب سے ٹکراؤ کی حد تک پہنچا دیا اور غلط اصولوں کو مہلک زہر کی مانند نظام کے پیکر میں اتار دینے کی کوشش کی، جب امام (خمینی رہ) کو اس خطرے کا احساس ہوا تو آپ نے رواداری کو در کنار کرتے ہوئے ان کا سختی سے مقابلہ کیا۔ آپ نے بنیادی اصولوں میں اختلاف کے بر خلاف طرز فکر اور طرز عمل کے اختلاف کو معاشرے کے لئے منفعت بخش قرار دیا اور فرمایا: مختلف نظریات اور تنقیدی افکار والے افراد اور حلقوں کا وجود ملک کے حق میں ہے، بشرطیکہ یہ اختلاف، اصولوں یعنی اسلام، آئین اور امام (خمینی رہ) کے ہدایات اور وصیتنامے کے دائرے میں رہے، وہ مسائل نہیں کہ جن کو اصول کا نام دیا جاتا ہے لیکن در حقیقت وہ انقلاب کے اصولوں اور بنیادوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پروپیگنڈوں کے بر عکس جو افراد یا حلقے الگ نظرئے کے حامل ہیں اور انہیں الگ طرز فکر کا مالک سمجھا جاتا ہے، اسلامی نظام کو ان سے کوئی بیر نہیں ہے لیکن اگر کوئی حلقہ ضرب لگانے اور وار کرنے پر اتارو ہو جائے اور انقلاب کے سامنے شمشیر بکف ہوکر کھڑا ہو جائے تو جس طرح دنیا میں کہیں بھی اس چیز کو تحمل نہیں کیا جاتا، ایران میں بھی اسلامی نظام اپنے دفاع کے تحت اس کا مقابلہ کرے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے مختلف مکاتب فکر کے سلسلے میں بیشتر کو اپنی سمت کھینچنے اور کم سے کم افراد کو اپنے سے دور کرنے کو اسلامی نظام کی حکمت عملی قرار دیا اور فرمایا: نظام جب تک مجبور نہ ہو جائے کسی بھی حلقے کے خلاف قدم نہیں اٹھاتا، بنابریں اگر کوئی شخص اور حلقہ تشدد پر اتارو نہ ہو، معاشرے کے امن و سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے، نظام کے بنیادی اصولوں سے نہ ٹکرائے اور افواہیں نہ پھیلائے، اس وقت تک وہ اپنی سرگرمیاں انجام دینے اور اظہار خیال کرنے کے لئے آزاد ہے اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خطبہ دوم میں سیاسی کارکنوں اور شخصیات نیز با اثر افراد کو انحراف اور بد عنوانی کے سلسلے میں نرمی دکھانے کی جانب سے محتاط رہنے کی بار بار نصیحت کی۔ آپ نے چھوٹے انحراف اور لغزش کے سلسلے میں عدم حساسیت کو بڑی لغزش اور سقوط کا مقدمہ قرار دیا اور قرآنی آيت کی روشنی میں فرمایا: لغزشیں تدریجی طور پر انسان کو اندر سے بد عنوان بنا دیتی ہیں اور یہ بد عنوانی کبھی عمل اور کبھی کبھی نظرئے میں انحراف پر منتج ہوتی ہے، بنابریں سب کے سب تقوی کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک دوسرے اور منجملہ اپنے اہل خاندان کے سلسلے میں محتاط رہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں عوام کو حکام کو نصیحت کرنے کی دعوت دی اور فرمایا: عوام مختلف طریقوں اور روشوں سے حکام کو نصیحت کریں تاکہ وہ لغزش کا شکار نہ ہو جائیں کیونکہ حکام کی لغزش، نظام، ملک اور عوام سب کے لئے زیادہ خطرناک ہے۔ آپ نے اسلامی نظام کو بھی ایک انسان کی مانند لغزش، انحراف اور بد عنوانی کی زد پر بتایا اور فرمایا: اگر ہم سب نے احتیاط سے کام نہ لیا تو ممکن ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا نام اور ظاہری شکل تو باقی رہ جائے لیکن نظام کی سیرت، روش اور کارکردگي غیر اسلامی ہو جائے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کھلی فضا میں عدل و انصاف، دینی طور طریقے اور اخلاق اسی طرح فکری، علمی و صنعتی ترقی کی جانب معاشرے اور ملک کی پیش قدمی اور دشمنوں اور ظلم کے عالمی محاذ کے مقابلے میں استقامت و پائیداری کو فساد و بیماری سے نظام کی سلامتی کی نشانیاں قرار دیا اور فرمایا: عوام بیدار رہیں اور یاد رکھیں کہ اگر معاشرے اور نظام کی روش اس سے مختلف ہو اور بڑے طبقاتی فاصلے، فساد و فحاشی کے لئے آزادی کے استعمال اور دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کے سامنے پسپائی کا جذبہ اور احساس کمزوری جیسے مسائل پیدا ہو جائیں تو انہیں اسلامی نظام کی بیماری کی علامت سمجھنا چاہئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام خمینی کے اصولوں اور نعروں پر سنجیدگی سے عمل آوری کو مسائل کا حل اور قومی افتخار و وقار و ترقی کی ضمانت قرار دیا اور فرمایا: جیسا کہ حالیہ بلووں کے دوران عیاں ہوا، دشمن نظام کو حاصل عوامی حمایت پر ضرب لگانے کے لئے ہر آن تیار بیٹھا ہے لہذا سب کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بارہ جون کے انتخابات میں پچاسی فیصدی یعنی چار کروڑ رائے دہندگان کی شرکت کو نظام پر عوام کے اعتماد کا دلکش نظارہ قرار دیا اور فرمایا: دشمن اور بد قسمتی سے کچھ اندر کے لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور عوام کے عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں، انشاء اللہ سب دیکھیں گے کہ آئندہ برسوں کے انتخابات میں بھی، دشمنوں اور داخلی غافل کے نا واقف افراد کی کوششوں کے باوجود عوام پر زور شرکت کریں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہر حکومت کے لئے دوست اور دشمن کے وجود کو فطری بات قرار دیا اور فرمایا: دنیا میں کوئی حکومت ایسی نہیں ہے کہ ملک کے اندر اور باہر سارے افراد اس کے حامی یا سب کے سب اس کے مخالف ہوں۔ تاریخ میں بھی ہر حکومت کے کچھ مخالف اور کچھ حامی رہے ہیں، البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس قسم کے افراد حکومت کی مخالفت یا حمایت کر رہے ہیں۔
آپ نے ایران سے عالمی لٹیروں اور سامراجی عناصر منجملہ امریکا اور برطانیہ کی دشمنی اور خبیث صیہونیوں کی مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ مخالفتیں ملت ایران کے لئے باعث فخر ہیں، اس سے کسی کو ہراساں ہونے یا دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی ضرورت نہیں ہے، دنیا بھر میں با ایمان و حریت پسند قومیں اور خود مختار سیاستداں اس قوم اور اس نظام کے حامی ہیں اور یہ صف بندی اسلامی جمہوریہ کی حقانیت کی علامت ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک اور اس کے درخشاں مستقبل کو نوجوان نسل سے متعلق قرار دیا اور فرمایا: عزیز نوجوانوں کو چاہئے کہ ہوشیاری اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اس نظام کے تسلسل و تکمیل کے لئے کوششیں کریں کیونکہ نظام کی سائنسی، اقتصادی، سیاسی، اطلاعاتی اور عالمی قوت و طاقت پوری قوم کے عز و وقار بالخصوص ملک کے بلند ہمت نوجوانوں کے لئے مایہ افتخار ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خطبہ دوم میں کے آخری حصے میں عمومی ہوشیاری کو ضروری قرار دیا اور فرمایا: عوام ہوشیار رہیں کہ کچھ عناصر ان حرکتوں کے ذریعے جو گزشتہ دس برسوں کے دوران پہلے بھی انجام دے چکے ہیں لیکن قوم کی ہوشیاری سے ان پر قابو پا لیا گیا، قوم کے سامنے نقلی اسلامی جمہوریہ نہ پیش کر دیں اور امام (خمینی رہ) اور انقلاب کے ہمیشہ تر و تازہ رہنے والے پر کشش نعروں کو کمزور نہ بنا دیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں آیت اللہ طالقانی مرحوم، آیت اللہ مدنی شہید کو یاد کیا اور فرمایا: ان دونوں عظیم شخصیتوں کی یاد نماز جمعہ سے وابستہ ہو گئی ہے اور ایرانی قوم اور تاریخ ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔