منجی عالم بشریت ، حضرت ولی عصر(عج)، مہدی موعود ارواحنا لمقدمہ فداہ کی ولادت باسعادت کی آمد سے قبل ، صدارتی حکم کی تنفیذ کی تقریب ، معنویت اور شکوہ سے سرشار فضا میں آج صبح منعقد ہوئی اور رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 22 خرداد کے یادگار انتخابات میں 40 ملین عوام کی شرکت کا خیر مقدم و تجلیل اور قوم کی رائے کو تنفیذ کرتے ہوئے جناب احمدی نژاد کو صدارت کے عہدے پر منصوب کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جناب احمدی نژاد کے دوسرے مرحلے کی صدارتی تنفیذ کے موقع پر دسویں صدارتی انتخابات میں ایران کےآگاہ ، باشعوراور سربلند عوام کی 85 فیصد شرکت کو امید افزا ، دلبستگي اور گذشتہ تیس برسوں میں ایران کی سرافراز قوم کی تلاش و کوشش کا واضح نتیجہ قراردیا اور خداوند متعال کے فضل و کرم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عوام کی ٹھوس اور بے مثال رائے کو انقلاب اسلامی کی عزتمندی وٹھوس مذاکرات، فقر و معاشی بحران ، تجمل پرستی اور تبعیض سے مقابلہ اور بین الاقوامی تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں شجاعانہ استقامت اور پائداری کا مظہر قراردیا۔
آقای احمدی نژاد کی صدارتی تنفیذ کے حکم کا متن رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دفتر کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین محمدی گلپائگانی نے پڑھ کر سنایا جو حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خداوند متعال کے شکر گذار ہیں کہ اس نے ایران کو پھر سرافراز اور ایرانی عوام کو پھر ایک عظیم اور یادگار واقعہ خلق کرنے کا موقع فراہم کیا۔22 خرداد 1388 ہجری شمسی ایرانی قوم کی سرنوشت کا ایک ایسا درخشاں صفحہ بن گيا جس کی ہر سطر کو ایرانی عوام نے اپنے عزم و ہمت سے رقم کیا اور اپنی ہوشیاری اور ہمت سے اس کی حفاظت کی ، حالیہ انتخابات میں عوام کی 85 فیصد شرکت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو اپنی تیس سالہ تلاش و کوشش اور جد وجہد کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور دلچسپی ہے اور وہ خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے دل میں پختہ عزم لئے ہوئے ہے۔
یہ سب خداوند قادر ومتعال کے فضل اور اس کی رحمت کا نتیجہ ہے اور مجھ جیسے ناتواں انسان اور خاشع دلوں کو اس کی قدر کرنی چاہیے اور اپنے معبود کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کرنا چاہیے۔
عوام کی بے مثال اور ٹھوس رائے سے صدر محترم کا انتخاب ان خصوصیات کی بنا پر ہوا ہے جو نویں حکومت کے چار سالہ دور میں محقق ہوئی ہیں اور جن سے عوام کی اکثریت کی سمت و سو مشخص ہوتی ہے۔ یہ رائے آبرومندانہ مذاکرات اور انقلاب اسلامی کی سرافرازی و سربلندی کے لئے ہے، یہ رائے بین الاقوامی تسلط پسند اور منہ زور طاقتوں کےمد مقابل استقامت اور پائداری دکھانےکے لئے ہے، یہ رائے فقرو تبعیض، معاشی بحران اور اشرافی گری کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے، یہ رائے سادہ زندگی بسر کرنے اور عوام کے قریب ترہونے اور مستضعفین و ناتواں افراد کی ہمدردی کرنے کے لئے ہے، یہ رائے مسلسل جد وجہد و تلاش و کوشش اور عوام کی خدمت کے لئے ہے۔
یہ وہ اہم امور ہیں جن کا قوم اپنے منتخبین سے مطالبہ کرتی ہے اور قوم جب بھی کسی کو اس راستہ پر گامزن پاتی ہے اسے دل وجان سے چاہتی ہے اور انقلاب اسلامی کی بدولت حاصل ہونے والی آزادی رائے کا استعمال کرکے اسے مسند اقتدار پر بٹھاتی ہے۔
میں منجی عالم بشریت ، حجت خدا، امام صالحین حضرت حجۃ بن الحسن روحی فداہ (عجل اللہ فرجہ )کی میلاد مسعود کی آمد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور جناب ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کو دسویں صدارتی انتخاب میں ان کی کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ایرانی عظیم عوام کی پیروی میں ان کی آراء کو تنفیذ اور اس شجاع ، آگاہ ، فہیم اور با شعور مرد کواسلامی جمہوریہ ایران کے دسویں صدر کے عہدے پر منصوب کرتا ہوں ، میں عوام کی خدمت ، کلمہ اسلام کی سربلندی ،قوم و ملک کے لئےعظیم اور شایستہ اقدامات ، عدالت اور پیشرفت کی سمت جد و جہد کے لئے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی توفیقات چاہتا ہوں۔
واضح رہے کہ عوام کی آراء اور میری جانب سے ان کی تنفیذ کا حکم اس وقت تک ہے جب تک وہ اس پائدار اور مضبوط راستے پر گامزن ہیں ۔
آخر میں امام بزرگوار اور شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن کی بدولت یہ عظیم کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور خداوند متعال سے ان کی پاک اراواح پر رحمت و غفران طلب کرتا ہوں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
12/مرداد/ 1388
صدراتی حکم کی تنفیذ کی تقریب میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت ولی عصر (عج) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اور اس عظیم عید اور صدارتی حکم کی تنفیذ کے باہمی تقارن کو ایک مبارک امر قراردیتے ہوئے فرمایا: دینی عوامی حکومت کا جذاب اور نیا واقعہ معاشرے کی آج کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئےسنجیدہ جواب شمار ہوتا ہےجو انتخابات میں عوام کی حیرت انگیز اور بے مثال شرکت اور اسلام و الہی معیاروں پر ان کے اہتمام اور خاص توجہ کا مظہر ہے۔
رہبر معظم نے انقلاب اسلامی سے قبل ستم شاہی دور میں عوام کی ملکی فیصلوں میں عدم موجودگی اور جمہوریت و انسانی حقوق کے دعویداروں کی طرف سےطاغوتی و ڈکٹیٹرحکومت کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قوم کے عظیم انقلاب کے سائے میں " عوام کی میدان میں موجودگی اور الہی احکام کے سامنے خشوع اور معنویت" اسلامی جمہوریہ کے نام سے ایک حقیقت بن گئے ہیں۔
رہبر معظم نے جمہوریت اور اسلامیت کی ترجیح کی بحث کو انحرافی اور بے معنی قراردیتے ہوئے فرمایا: جمہوریت اور اسلامیت کے دو عنصر ایکدوسرے سے الگ اور جدا نہیں ہیں؛ کیونکہ عوام پر اعتماد اور ان کی رائے اور مطالبہ کا احترام اسلامیت اور الہی احکام کے اندر موجود ہے۔
رہبر معظم نے حالیہ دس عشروں کے نشیب و فرازاور واقعات کو اسلامی جمہوری نظام کے مفید و اہم ہونے کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: حالیہ تیس برسوں میں مختلف سیاسی رجحانات کی موجودگی میں تقریبا 30 انتخابات کا انعقاد ، اصل نظام، بنیادی آئین اور ملک کے بنیادی اور اہم عہدیداروں کا عوام کے ذریعہ انتخاب ایک بہت بڑی ظرفیت کی علامت ہے اور اگر اکثر بیرونی مبصرین بری نیت نہ بھی رکھتے ہوں تو بھی وہ اس کے فہم و درک سے عاجز رہ گئے ہیں۔
رہبر معظم نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد والے برسوں میں طاقت وقدرت کے آرام کے ساتھ منتقل ہونے اور مختلف عہدوں پرمختلف افراد کے فائز ہونے کو انقلاب اسلامی کی قابل تعریف ظرفیت قراردیتے ہوئے فرمایا: ان برسوں میں عہدیداروں کے بعض شعبوں اور ان کی کارکردگی میں اسلامی نظام کے سلسلے میں بعض اشکالات کو مشاہدہ کیا گیا ہےلیکن انقلاب اسلامی نے ان موارد کو ہضم کرکے انھیں عملی طور پر ترقی و پیشرفت کے راستے پر گامزن کیا اور اپنی ظرفیت اور تجربات میں اضافہ کے ساتھ اپنے راستے پر پوری طاقت و قدرت کے ساتھ گامزن ہے۔
رہبر معظم نے اسلامیت اور جمہوریت کی ذاتی ترکیب کو اس کے دوام اور آسیب سے محفوظ رہنے کا راز قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام اور حکام کی ہوشیاری اور خدا وند متعال کے فضل سے یہ حقیقت ہمیشہ محفوظ رہےگی۔
رہبر معظم نے تنفیذ کی پرشکوہ تقریب میں اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں پیغامات ، تجربات اور 22 خرداد کے اہم انتخابات کے امتحانات کی تشریح فرمائی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوم کے اعتماد کو حاصل کرنے میں اسلامی نظام کی طاقت کو صدارت کے انتہائی اہم انتخابات کا پہلا پیغام قراردیا۔
رہبر معظم نے اسی سلسلے میں فرمایا: بعض لوگ انقلاب کے بعداس بات کے منتظر تھے کہ اسلامی نظام کی شان وشوکت عوام کی نظروں میں کم اور بے رنگ ہوجائے لیکن عوام نے حالیہ انتخابات میں عالمی ریکارڈ کو توڑ کر ثابت کردیا ہے کہ اسلامی نظام تیس سال بعد بھی عوام کے اعتماد کو حاصل کرنے میں پہلے سے کہیں زيادہ کامیاب رہا ہے اور انتخابات کے بعد رونما ہونے والے بعض واقعات کی وجہ سے اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر معظم نے نظام اور عوام کے درمیان باہمی اعتماد کو 22 خرداد کے انتخابات کا دوسرا پیغام قراردیتے ہوئے فرمایا: مختلف قسم کے سیاسی رجحانات کے اظہارات اور ان کی بحث و گفتگو کے لئے راستہ باز رکھنا اسلامی نظام کی خود اعتمادی اور قوم کی طرف سے نظام پر اعتماد کا مظہرتھا۔
رہبر معظم نے اسی سلسلے میں فرمایا: عوام نے بھی اس کے عوض نظام پر اعتماد کیا اور بیلٹ بکسوں میں بڑی وسیع تعداد میں ووٹ ڈال کر نظام کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا ثبوت پیش کیا اور اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی بے اعتمادی کے بارے میں جو بعض باتیں کی جاتی ہیں وہ اگر تعصب اور عناد کی بنا پر نہ بھی ہوں تو غفلت کی بنا پر ضرور ہیں۔
رہبر معظم نے فرمایا: عوام پر اعتماد در حقیقت نظام کا اصلی سرمایہ ہے اور تمام حکام اور مختلف شعبوں کے اہلکاروں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی رفتار کے ذریعہ عوام کے اس اعتماد کو مزید مضبوط بنائیں ۔
رہبر معظم نے عوام میں امید و نشاط کو حالیہ انتخابات کے پیغام کا تیسرا نکتہ قراردیتے ہوئے اس کی تشریح فرمائی۔
رہبر معظم نے فرمایا: افسردہ دل اور ناامید لوگ انتخابات کے میدان میں حاضر نہیں ہوتے، اور حالیہ انتخابات میں عوام کے مختلف طبقات اور جوانوں کی بھر پور شرکت اس بات کی واضح علامت ہے کہ ان کے اندر معاشرے کے مستقبل کے بارے میں امید موجود ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 22 خرداد کے انتخابات کے پیغامات کے بعد اس اہم واقعہ کے تجربات کا جائزہ پیش کیا۔
رہبر معظم نے ان تجربات پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لئے عوام اور حکام کو دعوت دیتے ہوئے فرمایا: انتخابات کے حوادث نے ہمیں اچھی طرح آگاہ کیا ہے کہ دشمن ہمیشہ اور حتی ہمارے اچھے شرائط میں بھی انقلاب اسلامی اور قوم کو چوٹ لگانے کے لئے ان کی کمین میں بیٹھا ہوا ہےاور دشمن کے ممکنہ حملوں سے غفلت بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔