تہران ، آج نماز جمعہ کا عظیم الشان اجتماع رہبر معظم اور قوم کے شاندار شکوہ ، معنویت اور امام زمانہ(عج) کی یاد کے عطر افشاں نمونے سے لبریز تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امنہ ای نے آج تہران میں اتحاد و یکجہتی پر مبنی اورتاریخی نماز جمعہ میں اہم خطاب میں خداوند متعال کی یاد ، اس کی مدد و نصرت پر اعتماداوراطمینان و سکون میں مزیداضافہ کوگذشتہ 30 برسوں میں ایران کی مؤمن قوم کا خطرناک طوفانوں سے گزرنےکا سب سے اہم اور اصلی عامل قرار دیا اور انتخابات میں رقابتوں اور اس کے بعدرونما ہونے والے مختلف پہلوؤں کی واضح اور روشن تشریح کرتے ہوئے فرمایا: 22 خرداد (مطابق 12 جون ) کے صدارتی انتخابات میں قوم کی بے مثال اور شاندار شرکت، قومی اعتماد ، شادابی اور امید کی عظیم نمائش ، دشمنوں کے لئے سیاسی زلزلہ اور انقلاب وایران کے دوستوں کے لئے تاریخی جشن و سرور تھا اور انتخابات میں 40 ملین شرکت کرنے والے ووٹروں نے امام (رہ) ، انقلاب اور شہداء کو ووٹ دیئے ہیں اور چاروں محترم امیدوار بھی اسلامی نظام سے متعلق افراد ہیں لہذا سب کو قوانین کے دائرے میں رہ کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے دوسرے خطبے کے دوران عوام کے احساسات و جذبات اور تکبیروں کی گونج میں انتخابات سے متعلق گونا گوں مسائل کی وضاحت و تشریح کے ہمراہ " قوم ، صدارتی امیدواروں ، ممتاز شخصیات، سیاسی افراد " نیزمغربی سامراجی حکومتوں کے بعض رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے الگ الگ مطالب بیان کئے۔
رہبر معظم نے ایران کی مؤمن و آگاہ قوم کی تجلیل اور22 خرداد مطابق 12 جون کے انتخابات میں 40 ملین کے قریب ووٹروں کی شرکت کو عوام کی انتخابات میں بھر پورشرکت ، ذمہ داری کا احساس اورعظیم عوامی نمائش قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کے ساتھ عوام کی ولولہ انگیز محبت اور والہانہ لگاؤ اور انتخابات میں عوام کی 85 فیصد شرکت اسلامی جمہوری نظام اور ایرانی عوام پر ولی عصر امام زمانہ (عج) کی خاص عنایت اور خداوند متعال کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کا مظہر ہے۔
رہبر معظم نے دسویں صدارتی انتخابات میں ملک بھر میں جوانوں کے ذوق و شوق اور شعور سے مملو شرکت کو جوانوں کی موجودہ نسل میں انقلاب کی پہلی نسل کے سیاسی تعہد و ذمہ داری کے احساس و استمرارکا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: میں دل کی گہرائی سے ایرانی عوام اور اپنے جوانوں کی عظمت کے سامنے تواضع اور انکساری کا اظہار کرتا ہوں ۔
رہبر معظم نے عوام کے مختلف سلیقہ و انداز اور صدارتی انتخابات میں ان کی طرف سے مختلف امیدواروں کو ووٹ دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام کی متفاوت و مختلف آراء کے پس پردہ ملک اور اسلامی نظام کی حفاظت کا مجموعی احساس اس طرح موجیں مارتا نظر آتاہے کہ مرد و عورت ، پیر و جوان ، مختلف مذاہب کے پیروکار ، اقوام اور دیہاتی و شہری سب نے ملکر اس تاریخی اور ناقابل فراموش واقعہ کو رقم کیا ہے جو ایران اور انقلاب کے دشمنوں کے لئے سیاسی زلزلہ اور دنیا میں ایرانی قوم کے دوستوں کے لئے تاریخی اور حقیقی جشن شمار ہوتا ہے۔
رہبر معظم نے 22 خرداد (12جون) کے انتخابات کو انقلاب ، امام (رہ) اور شہیدوں کے ساتھ قوم کی عظیم وفاداری کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام کی اس عظیم شرکت کی بدولت انقلاب اسلامی نے پیشرفت و ترقی اور سربلندی کے لئے تازہ سانس لی ہے اور اسلامی نظام کے دشمنوں کے سامنے دینی عوامی اور جمہوری حکومت کی حقیقی عظمت کو پیش کیا ہے۔
رہبر معظم نے صدارتی انتخابات میں قومی اعتماد، شادابی ، آزادی اورامید کے ہمراہ شرکت کو سامراجی ذرائع ابلاغ کی معاندانہ تبلیغات کے جواب میں ایرانی قوم کا جواب قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام پر قوم کا اعتماد 22 خرداد کے انتخابات میں ایک بار پھر نمایاں ہوا جبکہ اسلام و ایران کے دشمن انتخابات کے بارے میں شک و تردید پیدا کرکے قومی اعتماد کو متزلزل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ عوام کی مشارکت کو کم کرکے اسلامی نظام کی مشروعیت اور اس کےجواز پر سوالیہ نشان لگا دیں ،اگر وہ اپنے اس شوم مقصد میں کامیاب ہوجائیں تو اس نقصان و زیان کا ازالہ ناممکن ہوجائے گا ۔
رہبر معظم نے 22 خرداد کے انتخابات کے بارے میں کئی ماہ پہلے سے سامراجی میڈیا کی طرف سے دھاندلی کے پروپیگنڈےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میں نے یکم فروردین کی تقریر میں ملک کے اندر اپنے دوستوں کو سفارش کی تھی دھاندلی کے بارے میں دشمن کی بات کو نہ دہرائیں کیونکہ وہ اس اعتماد پر سوالیہ نشان لگانا چاہتا ہے جو نظام نے حکام اور ان کی کارکردگی کی بدولت گزشتہ 30 برسوں میں حاصل کیا ہے ۔
رہبر معظم نےامیدواروں کی انتخاباتی تبلیغات کے دوران رقابتوں کو سنجیدہ ، آزاد اور ٹی وی مناظرات کو صاف وشفاف اور صریح قراردیتے ہوئے فرمایا: صدارتی انتخابات میں چاروں امیدواروں کی باہمی رقابت در حقیقت اسلامی نظام کے حامی افراد کی باہمی رقابت تھی جبکہ صہیونی ذرائع ابلاغ جھوٹ اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعہ اس رقابت کو اسلامی نظام کے حامیوں اور مخالفوں کی رقابت قراردینے کی کوشش کرتےتھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والےچاروں افراد کے بارے میں اپنی وسیع معلومات اور قریبی شناخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان میں ایک امیدوار موجودہ خدمتگذار،محنتی اور مورد اعتماد صدرہیں دوسرے امیدوار آٹھ سال تک میری صدارت میں وزیر اعظم رہ چکے ہیں تیسرے امیدوار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر اور دفاع مقدس کے اصلی کمانڈروں میں شامل رہے ہیں اور چوتھے امیدوار دو مرتبہ پارلیمنٹ کے اسپیکر رہ چکے ہیں یہ تمام امیدوار اسلامی نظام کے حامی اور اسلامی نظام سے متعلق ہیں لہذا امریکی، برطانوی اور صہیونی میڈیا کے گمراہ کن پروپیگنڈوں کے برعکس ان کی رقابت در حقیقت اسلامی نظام کے حامیوں کی باہمی رقابت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چاروں امیدواروں کے نظریات، سیاسی مؤقف اور پروگراموں میں اختلاف کی طرف اشارہ رکتے ہوئے فرمایا: سیاسی نقطہ نگاہ اور نظریات کا یہ اختلاف، نظام کے دائرے کے اندر ہے، البتہ میں ان میں بعض کو اسلامی نظام کی خدمت کے لئے زیادہ مناسب سمجھتا ہوں تاہم میں نے اپنا نظریہ عوام کے سامنے ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی اس کا عوام کے سامنے اظہار کرنا ضروری تھا کہ عوام اس کے مطابق عمل کرتے کیونکہ انتخابات عوام کا حق ہے اور اس کے نتائج عوام کی تشخیض اوررائے کی بنیاد پرہوتے ہیں۔
رہبر معظم نے ٹی وی پر براہ راست نشر کئے جانے والے مناظروں کو بہت ہی اچھا ،اہم، نیا اور دلچسپ قدم قرار دیتے ہوئےفرمایا: مناظرے صاف وشفاف، سنجیدہ و دو ٹوک اور اغیار کے ان پروپیگنڈوں کو غیر مؤثر بنانے میں اہم ثابت ہوئے جنمیں انتخابی مقابلہ کو غیر حقیقی قرار دیا جا رہا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے وضاحت ، صراحت، سنجیدگی اور تنقید کے سیلاب کے سامنے افراد کی جوابدہی اور دفاع پر مجبور ہونے اور احزاب و گروہوں کے موقف کے واضح ہونے کو مناظروں کے مثبت نکات شمار کرتے ہوئےفرمایا: مناظرے اور دیگر تبلیغاتی پروگرام دیکھ کر عوام کو فیصلے کی طاقت و توانائی ملی، انہیں محسوس ہوا کہ اسلامی نظام میں اندرونی اور بیرونی معاملہ نہیں ہے یہ نظام عوام کو غیر نہیں سمجھتا بلکہ حقیقی معنی میں عوام کو آگاہانہ انتخاب کا حق دیتا ہے۔
رہبر معظم نے آزادی بیان ، ذہنوں کی تربیت اور قوم کی انتخابی صلاحیت میں اضافے کو مناظروں کے دیگر مثبت نتائج قرار دیا اور مناظروں کے موضوعات کے سڑکوں پر اور گھروں کے اندر تک پہنچ جانے کی طرف اشارہ رکتے ہوئےفرمایا: گذشتہ انتخابات کی نسبت موجودہ انتخابات دس ملین ووٹروں کا اضافہ یقینا انتخابات میں عوام کی فکری و ذہنی شراکت کا ایک اہم نتیجہ تھا جس کی بنا پر عوام نے انتخابات میں بھر پورشرکت کی، اس لحاظ سے مناظرے پسندیدہ ثابت ہوئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اعلی عہدیداروں کی سطح پر مناظروں کے جاری رکھنےکو ضروری قرار دیتے ہوئےفرمایا: مناظروں کو عیوب ونقائص اورمنفی اثرات سے پاک کرکے جاری رکھنا چاہئے تاکہ تمام لوگ اور عہدیدار خود کو عوام کے سامنے تنقید اور جواب دینے کی پوزیشن میں محسوس کریں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مناظروں کے عیب و نقائص اورمنفی پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بغض و کدورت و کینہ پیدا ہونے، افواہوں کا سہارا لینے، بحثوں میں منطقی پہلوؤں کی کمی اور جذباتی اور غصہ و خشم پیدا کرنےکو مناظروں میں دونوں فریقوں کا نقص قرار دیا اور ان عیوب ونقائص کے بارے میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اس بات پرافسوس ہے کہ بعض اوقات مناظرہ تخریبی رخ نمایاں ہوتا تھا اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کو مبالغے کے ساتھ سیاہ و تاریک ظاہر کیا جاتا اور دوسری طرف سے گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی اور عملکو سیاہ و تاریک قرار دیا جا رہا تھا جس کے نتیجے میں امیدواروں کے حامیوں کے درمیان سخت تشویش و اضطراب پیدا ہو جاتا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عیب و نقائص بیان کرنے میں مناظرے کے دونوں فریقوں کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے فرمایا: ایک فریق ملک کے قانونی صدر کی آشکارا اور شرمناک انداز میں توہین کر رہا تھا، بہتان اور الزام عائد کر رہا تھا اور حکومت کی چار سالہ کارکردگی کو غلط پیش کرکے عوامی و جمہوری صدر کوجھوٹا، رمال اور نالائق کہہ رہا تھا اور اخلاقیات و قانون و انصاف کو پیروں تلے روند رہا تھا تو دوسرا فریق بھی ایسے ہی اقدامات کے ذریعہ انقلاب کی تیس سالہ درخشاں کارکردگی کو کمرنگ کرنے کی کوشش میں تھا اور ایسی شخصیتوں پر انگلی اٹھا رہاتھا جنہوں نے اسلامی نظام کی راہ میں اپنی پوری عمر گزاری ہے اور ایسے الزامات کا ذکر کر رہا تھا جو ابھی قانونی مراکز میں ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جناب ہاشمی رفسنجانی اور جناب ناطق نوری کے نزدیکی افراد کی مالی بد عنوانیوں کا مناظروں تذکرہ کرنے پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: البتہ کسی نے ان دونوں حضرات پر مالی بد عنوانی کا الزام عائد نہیں کیا ہے اگر ان کے اعزاء کے متعلق بھی کوئی الزام ہے تو اسے قانونی مراکز اور طریقوں سے ثابت ہونے سے قبل میڈیا کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے معاشرے بالخصوص نوجوان نسل کے ذہنوں میں غلط تاثر پیدا ہوگا۔
رہبر معظم نے جناب ہاشمی رفسنجانی سے اپنی پچاس سالہ آشنائی اور انقلاب و نظام کے لئے ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جناب ہاشمی رفسنجانی شاہی ظلم و استبداد کے خلاف جد وجہد کے زمانے میں تحریک کے انتہائی اہم اور بنیادی ارکان میں شامل تھے اور انقلاب کے بعد وہ حضرت امام (رہ) کے انتہائی با اثر ساتھیوں میں تھے، وہ متعدد باردرجہ شہادت کے قریب پہنچ گئے۔ امام(خمینی رہ) کی رحلت کے بعد سے اب تک وہ رہبری کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جناب ہاشمی، انقلاب سے قبل اپنا مال و متاع انقلاب اسلامی کی تحریک میں صرف کرتے رہے اور گزشتہ تیس برسوں کے دوران بھی انہوں نے بہت سی ذمہ داریاں سنبھالیں اور حساس ترین مواقع پر انقلاب اور نظام کی خدمت میں حاضر رہے، انہوں نے کبھی بھی انقلاب سے اپنے لئے دولت جمع نہیں کی، عوام کو چاہئے کہ وہ ان حقائق پر توجہ دیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے ساتھ ہی متعدد امور میں جناب ہاشمی رفسنجانی سے اپنے اختلاف نظر کا ذکر کرتے ہوئےفرمایا: یہ اختلاف نظر فطری بات ہے، عوام کو اس سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوناچاہئے اور کسی الگ انداز سے نہیں سوچنا چاہئے۔
رہبر معظم نے فرمایا: جناب ہاشمی اور صدر مملکت کے درمیان 1384 ہجری شمسی (دو ہزار پانچ عیسوی)سے ہی خارجہ پالیسی، سماجی انصاف کے نفاذ کے طریقے اور بعض ثقافتی مسائل کے سلسلے میں اختلاف نظر رہا ہے، البتہ صدر مملکت کے نظریات میرے نظریات سے قریب تر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جناب ناطق نوری کو بھی انقلاب کی انتہائی خدمت گزار شخصیت قرار دیتے ہوئےفرمایا: نظام اور انقلاب سے جناب ناطق کے قلبی لگاؤ میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
رہبر معظم نے مناظرے کے عیوب و نقائص برطر کرنےکی ضرورت پر مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میں نے انہی دنوں مناظرے کے بعد صدر مملکت کو متنبہ کیا تھاکیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ مان جائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مالی بد عنوانیوں پر نظر رکھنے اور اس کے خلاف اقدام سے متعلق اسلامی نظام کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر ملک میں اقتصادی بد عنوانی نہ ہوتی تو کچھ سال قبل میں تینوں قوا (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) کے نام آٹھ نکاتی خط نہ لکھتا ،البتہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ دنیا کا سب سے صحت مند سیاسی و سماجی نظام ہے اورصیہونی مراکز اور اداروں کا حوالہ دیکر ملک پر بد عنوانی کا الزام عائد نہیں کرنا چاہئے اور حکام اور افراد پر مالی بد عنوانی کے سلسلے میں سوالیہ نشان نہیں لگانا چاہئے۔
رہبر معظم نے مزید فرمایا: ایران کی عزیز قوم نے بارہ جون کو عالمی سطح پر ایک اہم اور تاریخی کارنامہ انجام دیا لیکن بعض دشمن عناصر ، اسلامی نظام کی اس نمایاں اور عظیم کامیابی کو قومی شکست میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں اور انتخابات کو مشکوک قرار دیکر اس کوشش میں ہیں تاکہ عالمی سطح پرانتخابات میں عظیم عوامی شراکت ایرانی قوم کے نام ثبت نہ ہوجائےحالانکہ وہ ثبت ہو چکی ہے اور اب اس حقیقت کو کوئی بدل نہیں سکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں قوم کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا: چاروں امیدواروں کو ووٹ دینے والے تمام افراد انقلاب اور نظام کے حامی اور نظام سے وابستہ ہیں، انشاء اللہ انہیں اجر الہی نصیب ہوگا، لہذا یہ کہنا چاہیے کہ انقلاب کو 40 ملین ووٹ ملے ہیں نہ کہ 24 ملین 5 لاکھ کہ جو منتخب صدر نے حاصل کئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: عوام کو مکمل اطمینان حاصل ہے اور امیدواروں کے بعض حامیوں کو بھی اطمینان رکھنا چاہئے کہ اسلامی جمہوری نظام عوام کے ووٹوں میں خیانت نہیں کر سکتا اور نہ ہی ہمارے ملک میں انتخابات کے نظام میں اس کی کوئی گنجائش ہے، اور وہ بھی تقریبا 11 ملین ووٹوں کی دھاندلی۔!
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پھر بھی میں نے نگراں کونسل پر زوردیاہے کہ شکوک و شبہات میں مبتلا افراد کی جانب سے پیش کی جانے والی ٹھوس شکایتوں کا مکمل طورپر جائزہ لیں اور اگر کہیں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی ضرورت پڑے تو امیدواروں کے نمایندوں کی موجودگی میں یہ کام انجام دیا جائے۔
رہبر معظم نے شکایتیں پیش کرنے کے لئے قانونی اداروں کو واحد راستہ قرار دیتے ہوئےفرمایا: میں غیر قانونی بدعتوں کے دباؤ میں نہیں آؤں گا کیونکہ فطری بات ہے کہ ہر انتخابات میں بعض افراد کامیاب نہیں ہوتے، اگر آج قانون کو نظر انداز کر دیا گيا تو مستقبل میں کسی بھی انتخابات پر اعتماد باقی نہیں رہے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات سے متعلق شکایتوں کا جائزہ لینے سے مخصوص قانون کے جامع ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: قانون نے جس طرح امیدواروں کو نگرانی اور شکایت کرنے کا حق دیا ہے، شکایتوں کا جائزہ لینے کی راہ بھی معین کر دی ہے، سارے کام قانونی طریقہ سے ہونے چاہییں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے دوسرےخطبہ میں اسی طرح سیاسی شخصیات، امیدواروں اور سیاسی جماعتوں اور احزاب کے سربراہوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یہ ملک کے لئے ایک حساس اور تاریخی مرحلہ ہے، آپ دنیا، مشرق وسطی اور ہمسایہ ممالک کی حالت پر نظر ڈالئے، دنیا کی معاشی صورت حال سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہم انتہائی تاریخی موڑ پر پہنچ گئے ہیں، لہذا ہم سب کا فرض ہے کہ اس تاریخی مرحلے میں ہوشیاری اور توجہ سے کام لیں اور کسی غلطی کا ارتکاب نہ کریں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا : عوام نے انتخابات کے سلسلے میں اپنا فریضہ اچھی طرح پورا کیا ہے، اب جو سیاستدانوں اور عوامی رہنماؤں کو بھی اپنی رفتار و گفتار کے سلسلے میں بہت محتاط رہنا چاہیے کیونکہ ان کی معمولی انتہا پسندی سے، عوامی انتہا پسندی کےحساس اور خطرناک مرحلے میں پہنچ جائے گی جن کے ایسے خطرناک نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں جن پر وہ خود بھی قابو نہیں پاسکیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا : انتہا پسندانہ حرکت سے دوسروں کی انتہا پسندی کا موقع ملے گی۔ اگر سیاسی شخصیات نے قانون شکنی کی کوشش کی تو دانستہ یا غیردانستہ طور پر وہ بد امنی، بحران اور لا قانونیت کے ذمہ دار ہوں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں ان تمام قدیمی دوستوں اور بھائیوں سے سفارش کرتاہوں کہ وہ وسیع القلبی کا ثبوت دیتے ہوئے خود کو قابو میں رکھیں اور دشمن کے ہاتھوں کا آلہ کار نہ بنیں اور گھات میں بیٹھے بھوکے بھیڑیوں کو دیکھیں جنہوں نے اپنے چہرے سے اب سفارت کاری کی نقاب اٹھا دی ہے غفلت سے کام نہ لیں۔
رہبر معظم نے فرمایا: ان افراد کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنے عمل کی جوابدہی کے بارے میں غور کریں اور رہبر کبیر انقلاب اسلامی کی آخری وصیتوں کو یاد کریں جن میں انھوں نے فرمایا ہے کہ سب کو چاہیے کہ قانون کو فصل الخطاب قراردییں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انتخابات کرانے کا فلسفہ یہ ہے کہ تمام اختلافات بیلٹ بکس پر حل جائيںانتخابات اس لئے کرائے جاتے ہیں تاکہ بیلٹ بکس کے ذریعہ پتہ چل جائے کہ عوام کیا چاہتے ہیں نہ کہ سڑکوں پر اختلاف حل کئے جائیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر یہ ہونے لگے کہ ہر دفعہ انتخابات کے بعد کامیاب نہ ہونے والا فریق سڑکوں پر نکل آئے اور دوسری طرف کامیاب فریق بھی اپنے حامیوں کو لیکرسڑکوں پر آجائے تو پھر سرے سے انتخابات کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور عوام کی کیا خطا ہے کہ ہمارے ان اقدامات سے اپنے کارو بار اور روزمرہ کی زندگی میں مشکلات سے دوچار ہوں۔
رہبر معظم نے فرمایا : سڑکوں کے اجتماعات دراندازی کرنے والوں اوردہشت گردوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے بہترین جگہ ہے۔ اگر ان اجتماعات میں کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونماہو جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ عام لوگ اور بسیج سے وابستہ افراد جو پچھلے دنوں اپنی جان گنوا چکے ہیں، ان کا ذمہ دار کون ہے اور کون ان کے سلسلے میں جواب دے گا؟ قتل کے ان واقعات پر سامنے آنے والے احساسات اور جذباتی رد عمل کے سلسلے میں کون جواب دہ ہے؟
رہبر معظم نے تہران یونیورسٹی کے علاقے میں پیش آنے والے کچھ دردناک واقعات پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات کے بعد سڑکوں پر زور آزمائی در حقیقت انتخابات اور جمہوریت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے، میں سب سے یہی کہناچاہوں گا کہ اس غلط روش کو ترک کردیں اور اگر ترک نہ کیا تو اس کے خطرناک نتائج کی ذمہ داری انہی پر عائدہوگی۔
رہبر معظم نے مزید فرمایا: یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ نظام پر دباؤ ڈالنے کے لئے سڑکوں پر اجتماعات منعقد کرنے سے مسائل حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی اور نہ ہی حکام کو اس بات پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ مصلحت کے پیش نظر ان کے مطالبات مان لئے جائیں کیونکہ دباؤ میں آکر غیر قانونی مطالبہ تسلیم کر لینا ایک طرح کی ڈکٹیٹرشپ کا آغاز ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ تصور اور اندازہ غلط ہے اور ان غلط اندازوں کے اگر کچھ سنگین نتائج برآمد ہوئے تو ان کے لئے براہ راست وہ لوگ ذمہ دار ہونگے جوپس پردہ حکم دے رہے ہیں اور اگرضرورت پڑی تو مناسب وقت پر انھیں عوام کے سامنے پیش بھی کردیا جائے گا ۔
رہبر معظم نے تمام افراد کو مہر و محبت ،اخوت و دوستی ، باہمی افہام و تفہیم اور قانون پر عمل کرنے کی دعوت دیتے ہوئےفرمایا: قانون، دوستی اور محبت و پیار کا راستہ کھلا ہوا ہے، میں امید کرتا ہوں کہ سب اس راستے کا انتخاب کریں گے اور 40 ملین عوام کی فتح کا ملکرجشن منائیں گے اور دشمن کو اس عظیم جشن میں خلل اندازی کا موقع فراہم نہیں کریں گے۔ آپ نے ساتھ ہی متنبہ کیا کہ اگر بعض افراد نے کوئی اور راستہ اختیار کیا تو میں پھر حاضر ہونگا اور عوام سے مزید کھل کر بات کروں گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات کے سلسلے میں بعض یورپی ممالک اور امریکہ کے مؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: انتخابات سے قبل ہی مغربی ذرائع ابلاغ اور مغربی حکام نے یہ کوشش شروع کردی تھی کہ انتخابات میں عوام کی شرکت کو کمرنگ بنایا جائے اور انتخابات کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں لیکن انتخابات میں 40 ملین افراد کی شرکت نے مغربی ذرائع ابلاغ اور حکام کو مبہوت و مایوس کر دیا اور انہیں سمجھا دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق معاملات میں ایک نیا باب شامل ہو گیا ہے جسے تسلیم کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔
رہبر معظم نے انتخابات کے بعد پیش آنے والے بعض مسائل اور اعتراضات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان حالات میں بعض مغربی حکام نے موقع پرستی کا ثبوت دیا اور ان کا لب و لہجہ تبدیل ہو گیا اور رفتہ رفتہ ان کے چہرے سےنقابیں اٹھتی گئیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس ہفتے کے آغاز سے ہی بعض مغربی حکومتوں کے رہنماؤں اور وزرائے خارجہ نے اسلامی نظام سے اپنی دشمنی ظاہر کرنا شروع کر دی اور برطانوی حکومت ان میں سب سے زیادہ خبیث ثابت ہوئی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض امریکی حکام کے بیانوں کا حوالہ دیا جن میں امریکی حکام نے کہا تھا کہ ہم اسی دن کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ لوگ سڑکوں پر نکلیں
رہبر معظم نے فرمایا: یہ بیان ایسے وقت دئیے گئے کہ جب دوسری طرف وہ خط ارسال کر رہے تھے اور اسلامی جمہوریہ سے تعلقات میں دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے، آخر ان کی کس بات پر یقین کیا جائے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس وقت ملک کے اندر بھی بیرونی دشمنوں کے آلہ کار سرگرم عمل ہو گئے اور تخریبی کاروائيوں، آتش زنی، لوٹ کھسوٹ اور بد امنی کا سلسلہ شروع کردیا جس کا تعلق نہ تو عوام سے ہے اور نہ ہی امیدواروں کے حامیوں سے بلکہ اس کا تعلق قوم دشمن عناصر اور مغربی و صیہونی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کاروں سے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس صورت حال کو دیکھ کر دشمنوں کی طمع میں اضافہ ہوگيا اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ بعض چھوٹے ممالک کی طرح ایران میں بھی وہ کسی صیہونی سرمایہ دار کے کروڑوں ڈالروں کی مدد سے انقلاب لانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ ان نادان دشمنوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے اب بھی ایرانی قوم کو نہیں پہچانا۔
رہبر معظم نے فرمایا: اس درمیان جو چیز سب سے زیادہ قابل نفرت تھی وہ انسانی حقوق کے متعلق امریکی حکام کی ہمدردی اور ایرانیوں کی نسبت سختی نہ کرنے کے مدعی بن گئے ۔ لیکن جو لوگ افغانستان و عراق میں بھیانک جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور جو صیہونی حکومت کی سیاسی و مالی مدد کر رہے ہیں وہ کیونکر انسانی حقوق کا دم بھر سکتے ہیں؟
رہبر معظم نے امریکہ میں داؤدی فرقے کے اسی سے زائد افراد کے قتل عام کی بل کلنٹن کی ڈیموکریٹ حکومت کی کاروائی کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا: جو لوگ اسی مردوں، عورتوں اور بچوں کو زندہ زندہ آگ میں جلا چکے ہوں کیا انھیں انسانی حقوق کی کوئی پہچان اور تمیز ہے؟
رہبر معظم نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا :اسلامی جمہوریہ ایران انسانی حقوق اور مظلوموں کے دفاع کا علمبردار ہے اور اسے مغربی ممالک کی نصیحت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی اور یورپی حکام کو کم از کم کچھ شرم تو آنی چاہئے اوراس قسم کی جاہلانہ حرکتوںکو ترک کر دینا چاہئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے دوسرے خطبے کے آخری حصے میں حضرت ولی عصرامام زمانہ (عج) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے سید و سردار، جو کچھ ضروری تھا وہ ہم نے انجام دیا، جو کہنا تھا وہ ہم نے کہہ دیا اور کہتے رہیں گے۔ میرے پاس ایک جان ہے میرا ناقص جسم ہےجس کی کوئی خاص قیمت نہیں اور تھوڑی سی آبرو ہے جسے آپ نے عطا کیا ہے، ہم نے اسے انقلاب اور اسلام کی راہ میں قربان کرنے کے لئے اپنی ہتھیلی پر رکھا ہوا ہے ہم پوری طاقت سے اس راہ پر آگے بڑھتے رہیں گے، آپ اس انقلاب اور اس ملک کے حقیقی مالک اور وارث ہیں، آپ ہمارے لئے دعا کیجئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے پہلے خطبے میں مومنین کے قلبی و معنوی سکون و اطمینان کے سلسلے میں ذکر الہی اور ایمان کی تاثیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مختلف حوادث جو دلوں کو تشویش و اضطراب میں مبتلا کر دیتے ہیں اس وقت اللہ تعالی کی یاد اور اس کے ذکر کی پناہ لینا چاہئے اور اللہ تعالی کے وعدوں پر اعتماد اوربھروسہ رکھنا چاہئے، ایسی صورت میں اللہ تعالی مومنین پر معنوی سکون و اطمینان نازل کرے گا اور یہ سکون و اطمینان دلوں کی قوت اور قدم کے استحکام کا باعث بنے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی ابتدا سے لیکر اب تک رونما ہونے والے گوناگوں حوادث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان حوادث اور طوفانوں میں سے ہر ایک کی اتنی طاقت تھی کہ ایک قوم اور نظام کو اکھاڑ پھینکے لیکن یہ مضبوط کشتی مؤمن عوام کے مضبوط و مستحکم ایمان اور ارادوں پر استوار ہے ان طوفانوں میں ذرا برابر متزلزل نہیں ہوئی جس سے الہی عنایات اوررحمتوں کے نزول کا اندازہ ہوتا ہے۔
رہبر معظم نے ذکر خدا سے غفلت اور غرور کو رحمت الہی کے ختم ہو نے کا باعث قرار دیتے ہوئےفرمایا: ہوشیاررہنا چاہئے کہ سیاسی ہیجانات اور قیاس آرائیاں جو ایک آزاد ملک میں فطری بات ہے، کہیں ہمیں خدا کےذکر اور بنیادی مقصد سے منحرف نہ کر دیں۔
رہبر معظم نے جوانوں کی معنویت اور ایمان کی طرف توجہ دلائی اور تمام افراد بالخصوص جوانوں کو معنوی فرصتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: رجب کا مہینہ قریب ہے یہ مہینہ معرفت کا بہت بڑا دریا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں ۔