ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی :

ملک کی علمی پیشرفت کا اصلی مقصد ، ایران کو عالمی سطح پر علمی مرکز اورمرجع میں تبدیل کرنا ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےآج صبح علم وصنعت یونیورسٹی کے ہزاروں طلباء کے ولولہ انگیز اجتماع میں طلباء تحریک کی سرگرمیوں اور خصوصیات کی تشریح کی اور یونیورسٹی کو " علم وتحقیق" اور " امیدوں کے پروان چڑھنے" کے دو اہم اور حیاتی عناصر کا مرکز و محور قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر قوم اور حکام ملکر اسلامی نظام کے تشخص کے اصلی معیاروں کی حفاظت کریں توکسی بھی دشمن میں اس ملک کو نقصان پہنچانے کی ہمت و طاقت نہیں ہوگي۔

رہبر معظم نے طلباء کی دلنشیں فضا میں اپنی موجودگی پر مسرت کا اظہارکیا اور صداقت ، خلوص، جوانی ، طراوت و شادابی اور روحی آمادگي کو طلباء کی اہم خصوصیات قراردیتے ہوئے فرمایا: یونیورسٹی طلباء ملک کا اہم اورعظیم سرمایہ ہیں جو حال اور مستقبل میں بنیادی اور فیصلہ کن نقش ایفا کرنے کی ذمہ داری اپنے دوش پر لئے ہوئے ہیں۔

رہبر معظم نے " علم وتحقیق" کو یونیورسٹی کا ایک اہم عنصر اور اسے قومی عزت و وقار اور قومی حیات کے لئے باعث فخر قراردیتے ہوئے فرمایا: حالیہ برسوں میں علم و سائنس کے مختلف میدانوں میں جو سریع حرکت وجود میں آئی ہے اسے کسی ٹھہراؤ کے بغیرجاری رہنا چاہیے تاکہ ملک کی علمی پسماندگی کا مزید سرعت کے ساتھ جبران ہوسکے۔

رہبر معظم نے نانو، طبی ، ایٹمی اور جدید علوم کے مختلف شعبوں میں حاصل ہونے والی پیشرفت کو ملک میں موجود انسانی اور علمی ظرفیتوں اور توانائیوں کا مظہر قراردیا اور ایرانی قوم کی عظیم ذہانت اور ملک کی علمی درخشاں تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک میں علمی حرکت کے جاری رکھنے کا اصلی مقصد ایران کو دنیا کے علمی مرکز اور مرجع میں تبدیل کرنا ہے اور یہ عظيم تمنا ایرانی سرزمین کے طلباء اور ماہرین کی جد وجہد ،ہمت اور کوششوں کے نتیجے میں پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گی۔

رہبر معظم نے " ما می توانیم" ہم کرسکتے ہیں کے نعرے، جامع علمی نقشہ کی تیاری، اس نقشہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئےطلباء ، یونیورسٹیوں اور ریسرچ سینٹروں کے فعال تعاون اور جامع علمی نقشہ کے نفاذ پر صحیح نگرانی کو ایرانی قوم کی طرف سےعلم و دانش کی بلند ترین چوٹیوں کو فتح کرنے کے مقدمات قراردیتے ہوئے فرمایا: ان مقدمات کو سنجیدگي اور امید کے ساتھ طے کریں تاکہ ایران کی موجودہ جوان نسل ایران کو دنیا کے علمی مرکز و مرجع میں تبدیل ہونے کا مشاہدہ کرسکیں۔

رہبر معظم نے طلباء کی تمناؤں اور امیدوں کی تشریح ، طلباء تحریک کی تشکیل اور تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تاریخی حقائق کی روشنی میں طلباء تحریک نے ہمیشہ ڈکٹیٹر، تسلط پسند ،مستبد اور ظالم طاقتوں کا مقابلہ کیا اور پورے وجود کے ساتھ عدل و انصاف کی حامی رہی ہے اور جو شخص بھی طلباء تحریک کا مدعی ہے اسے ان خصوصیات کا پابند ہونا چاہیے۔

رہبر معظم نے 16 آذر 1332 ہجری شمسی میں تہران یونیورسٹی میں امریکہ کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں تین طلباء کی شہادت کو استکباری اور سامراجی طاقتوں کے خلاف طلباء تحریک کے اہم اقدامات قراردیتے ہوئے فرمایا: طلباء تحریک 1342 ہجری شمسی میں شروع ہونے والی علماء تحریک کے ساتھ ملحق ہوگئی اور طلباء اور یونیورسٹی کے افراد ،علماء کے دوش بدوش چل پڑے اور علماء تحریک کا قوت بازو بن کر انقلاب اسلامی کی کامیابی کے اہم عوامل میں تبدیل ہوگئے۔

رہبر معظم نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز میں جہاد سا زندگی اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تشکیل کو طلباء کی ہوشیاری اور ذہانت پر مبنی اقدام قراردیا اوراسے طلباء تحریک کے حقیقی علائم کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ایسے مسلح افراد اور گروہوں کا مقابلہ جنھوں نے یونیورسٹی کو اپنا اڈہ بنالیا تھا ، امریکی جاسوسی اڈے پر قبضہ کی عظيم حرکت ، یونیورسٹی جہاد کی تشکیل، آٹھ سالہ دفاع مقدس میں فعال اور مؤثر کردار اور حالیہ تیس برسوں میں دشمن کی سازشوں کا مؤثر مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ طلباء تحریک استکبار کی مخالف ، بدعنوانیوں سے مقابلہ ، ظلم و استبداد کی مخالف، انحرافی رجحانات کی مخالف اور عدل و انصاف کے سائے میں رہ کرقوم اور انقلاب اسلامی کے اہداف کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

رہبر معظم نے سیاسی و انقلابی فکر پر مبنی فضا اور گفتگو کو طلباء تحریک کے دیگر نمایاں کارنامے قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ ممکن ہے بعض افراد یا بعض طلباء کا طور طریقہ دوسرا ہو، لیکن طلباء تحریک کے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے طلباء کا اصلی ڈھانچہ اپنی ذاتی خصلت اور عظيم امیدوں کی بنیاد پر فلسطین ،عراق اور افغانستان کی قوموں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنانے والوں کا سخت مخالف ہے۔

رہبر معظم نے طلباء انجمنوں کی تشکیل کی تشریح اور سیاسی احزاب اور طلباء انجمنوں کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: سیاسی گروہ قدرت تک پہنچنے کی تلاش و کوشش میں سرگرم رہتے ہیں لیکن طلباء قدرت تک پہنچنے کی فکر نہیں کرتے بلکہ اہداف و مقاصد تک پہنچنے کی فکر کرتے ہیں اور سیاسی تنظیموں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ طلباء انجمنوں کو قدرت تک پہنچنے کا وسیلہ قراردیں۔ البتہ طلباء کو بھی اس نکتہ پر خاص توجہ رکھنی چاہیے۔

رہبر معظم نے طلباء کے درمیان اجتماعی کام کا موقع فراہم کرنے کوطلباء انجمنوں کا ایک اور مثبت عمل قراردیا اور دشمنوں کی طرف سے یونیورسٹیوں اور طلباء پر سرمایہ لگانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: طلباء انجمنوں کو طلباء کے ساتھ اپنا رابطہ مضبوط کرنا چاہیے اور طلباء کو غریزی جذابیت ، سیاسی مکر وفریب اور بناوٹی عرفان اور معنویت کے گرداب اور بھنور سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

رہبر معظم نے طلباء تحریک کو اپنے ذاتی اہداف کا مسلسل پیچھا کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: قومی اتحاد کی حفاظت میں مدد اور ایرانی عوام کی طرف سےدشمنوں کی سازشوں کو غیر مؤثر بنانے میں بھر پور شرکت ،طلباء انجمنوں کے حقیقی اہداف میں شامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے دلائل ، برطانوی استعمار کی طرف سے تحریک مشروطیت پر قبضہ کرنے اور ظالم و جابرو بے رحم اور وابستہ ڈکٹیٹر کو برسراقتدار لانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: عظیم اسلامی تحریک عوام کی ہمت اور امام راحل (رہ) جیسی بےمثال شخصیت کی قیادت میں کامیاب ہوئی اور قوم میں صبر و بصیرت کے دو اصلی عوامل پیدا ہوگئے جو انقلاب کی کامیابی اور بقا کا راز بن گئے ۔

رہبر معظم نے ایران میں اسلامی نظام کے قیام کو ایرانی عوام کی تاریخی ضرورت کا جواب قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی اور دینی تحریک کے علاوہ کوئی دوسری تحریک امریکہ سے وابستہ شہنشاہی نظام کی جڑیں اکھاڑ کر نہیں پھینک سکتی تھی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تحریک انقلاب اسلامی، قوم کی عظیم لہراور عوامی یکجہتی بھی، دینی جذبہ ،علماء اور امام خمینی (رہ) کی قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کی مختلف سازشوں اور اس کےدباؤ کے مد مقابل تیس برسوں میں جمہوری اسلامی ایران کے نظام کی پائداری کو اسلامی نظام کا تشخص قراردیتے ہوئے فرمایا: جمہوری اسلامی نظام منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کا حامل ہے اور یہی مثبت اور منفی پہلو دشمنی کی اصل وجہ ہیں۔

رہبر معظم نے جمہوری اسلامی کے منفی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دنیا کی طاقتوں کی طرف سے استثمار کی نفی ، تسلط پذیری کی نفی، قوموں کی تحقیر کی نفی، سیاسی وابستگي کی نفی، تسلط پسند طاقتوں کی مداخلت اور نفوذ کی نفی ،سیکولرزم کے بے لگام نظریے کی نفی ، اسلامی جمہوریہ ایران کے منفی پہلوؤ میں شامل ہیں۔

رہبر معظم نے اسلامی نظام کے مثبت پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی اور قومی تشخص اور اسلامی قدروں کا اثبات، دنیا کے مظلوموں کا دفاع، علم و دانش کی چوٹیوں کو فتح کرنے کی جد وجہد، جمہوری اسلامی کے مثبت پہلوؤں میں شامل ہیں اور ان مثبت پہلوؤں پر استقامت بھی جاری ہے۔

رہبر معظم نے فرمایا: اگر ہم ان مثبت اور منفی پہلوؤں سے ذرا برابر بھی پیچھے ہٹیں گےتو قطعی طور پر عداوتوں اوردشمنیوں میں کمی واقع ہوجائے گي اور یہ جو کہا جارہا ہے کہ جمہوری اسلامی ایران کو اپنی رفتار بدلنا چاہیے اس کا مطلب یہی ہے کہ ایران منفی اور مثبت پہلوؤں کو ترک کردے۔

رہبر معظم نے اسلامی نظام کی طرف سےان خصوصیات کو ترک نہ کرنے کے عزم پرتاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام نے گذشتہ تیس برسوں میں دشمن کے وسیع اور مسلح محاذ کے مقابلے میں منفی اور مثبت پہلوؤں پر استقامت کا مظاہرہ کرکے اس پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ہے۔

رہبر معظم نے مشرق وسطی میں امریکہ کی موجودہ صورتحال کا پندرہ سال پہلے سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ گذشتہ برسوں کی نسبت سب سے زیادہ منفور ، سب سے زیادہ ناکام اور مشرق وسطی بالخصوص فلسطین ، عراق اور افغانستان میں اس کے تمام منصوبے شکست سے دوچار ہیں اور اس کے ان منصوبوں کا اصلی نشانہ اسلامی جمہوریہ ایران تھا جو اب کافی آگے پہنچ گیا ہے۔

رہبر معظم نے فرمایا: دشمن کے مد مقابل استقامت و پائداری اور بعض میدانوں میں ترقی اور پیشرفت ، اسلامی جمہوری نظام کے ذاتی اقتدارو توانائي اور اس کی ظرفیت اور بقا کا مظہر ہیں۔

رہبر معظم نے استقامت اور اسلامی جمہوریہ کی بقا کی حفاظت کے لئے بعض شرائط کو لازمی قراردیا اوراسلامی جمہوری نظام کے اصلی تشخص اور حقوق کی ساخت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوری نظام کا سرکاری اور حقوقی ڈھانچہ وہی نظام کے اصلی ارکان ہیں جو قوہ مجریہ ، مقننہ اور عدلیہ اور دیگر اداروں پر مشتمل ہیں اور انتخابات ہیں جن کا ذکر بنیادی آئین میں موجود ہے ان کی حفاظت ضروری ہے لیکن اسلامی جمہوریہ کی حقیقی بقا کے لئے یہ کافی نہیں ہیں۔

رہبر معظم نے اسلامی نظام کے حقیقی تشخص اور اصلی ڈھانچے کی حفاظت کو سب سے اہم ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: نظام کا حقیقی تشخص نظام کے معنا اور مضمون اور روح کے حکم میں ہیں اور حقوقی ڈھانچے کی حفاظت ، حقیقی تشخص کی حفاظت کے بغیر بے معنی اور بے فائدہ ہے۔

رہبر معظم نے فرمایا: نظام کا اصلی تشخص اور حقیقی ڈھانچہ عدل و انصاف، انسانی کرامت، اقدار کی حفاظت، مساوات اور اخوت و برادری پیدا کرنے کی جد وجہد، اخلاق اور دشمن کے نفوذ کے مد مقابل پائداری جیسے اعلی اہداف و مقاصد پر مشتمل ہے۔

رہبر معظم نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم اسلامی اخلاق سے دور ہوجائیں ، اگر ہم عدل و انصاف کو بھول جائیں، اگر حکام کا عوامی ہونا کمرنگ ہوجائے، اگر عوام کی خدمت اور ان کے لئے فداکاری کا معاملہ حکام کے ذہن اور عمل سے ختم ہوجائے ، اگر سادہ زندگی بسر کرنا اور عام لوگوں کی سطح پر باقی رہنا حکام کے ذہن سے نکل جائے، اگر دشمن کے مقابلے میں استقامت و پائداری کے بجائے حکام کے بین الاقوامی رابطوں پر ذاتی کمزوریاں حکمفرما ہوجائیں تو اس صورت میں اسلامی جمہوریہ کے اصلی تشخص کے بہت سے حصہ ختم ہوجائیں گےاور ایسے شرائط میں نظام کے ظاہری ڈھانچے اور اس کے ہمراہ اسلامی لفظ سے کچھ نہیں بن پائے گا۔

رہبر معظم نے فرمایا: اسلامی سیرت اور روح کی حفاظت کے لئے بہت زيادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے خصوصا اس بات پر بھی توجہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی تشخص اور سیرت میں تبدیلی تدریجی ہوتی ہے اور اکثر لوگوں کی اس پر توجہ مرکوز نہیں ہوتی، اور ممکن ہے لوگ ایسے وقت بیدار ہوں جب معاملہ ہاتھ سے نکل جائے۔

رہبر معظم نے طلباء کو حلقہ مفکرین کی بینا آنکھ قراردیا اور اسلامی نظام کے ظاہر اور باطن کی حفاظت اور اسے انحراف سے بچانے کے لئے طلباء کی اہم ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گذشتہ تیس برسوں بالخصوص حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کی دو دہائیوں کے دوران نظام اسلامی کے تشخص اور اس کی روح کو ختم کرنے کے سلسلے میں سیاسی ، اخلاقی اور اجتماعی شعبوں میں بہت سی کوششیں کی گئیں جو عوام کی بیداری اور خداوند متعال کی مدد سے کسی نتیجہ تک نہ پہنچ سکیں۔

رہبر معظم نے فرمایا: ایک دور میں ہم نے اپنے ذرائع ابلاغ میں مشاہدہ کیا کہ سرکاری طور پر دین کو سیاست سے الگ کرنے کی تبلیغ کی جاتی تھی یا اس سے بڑھ کر شاہ کی ظالم اور سفاک حکومت کا دفاع کیا جاتا تھا۔

رہبر معظم نے فرمایا: اعتقادی اور فکری اور اسلامی تشخص کے معیاروں کو اجاگر کرنے سے، ایسے مسائل پیدا نہیں ہونگے ، انصاف پسندی ، حکام کی سادہ زندگی ، جد وجہد میں خلوص، علم کی تلاش میں پیہم و لگاتارکوشش، بیرونی طاقتوں کے تسلط اور ان کی طمع کے مد مقابل استقامت اور قومی حقوق کا دلیرانہ دفاع ، اسلامی تشخص کے معیاروں میں شامل ہیں ۔

رہبر معظم نے ایٹمی ٹیکنالوجی کو ملک کی دسیوں ضرورتوں کو پورا کرنے اور اسے قومی حقوق کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: دشمن نے اپنی توجہ اس نکتہ پر مرکوز کی لیکن قوم نے بھی پائداری کا مظاہرہ کیا اور اگر قوم اور حکام اپنے اس حق سے صرف نظر کریں تو دشمن کو انھیں دوسرے حقوق سے محروم کرنے کا راستہ مل جائے گا۔

رہبر معظم نے عدل وانصاف کے نفاذ اور سادہ زندگی بسر کرنے کو اسلامی نظام کے تشخص کا اصلی معیار قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے اوائل میں حکام کی طرف سے سادہ زندگي بسر کرناایک اہم اور قابل قدر بات تھی لیکن آہستہ آہستہ اس کا رنگ پھیکا پڑ گیا لیکن آج پھر حکام میں سادہ زندگی بسر کرنے کی طرف مائل نظر آرہے ہیں۔

رہبر معظم نے" جہاد و شہادت کی تکریم" عوام پر اعتماد اور قوم کی حقیقی شراکت کو اسلامی نظام کے تشخص کا ایک اور معیار قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض لوگ عوام کا نام ضرور لیتے ہیں لیکن عوام کی حقیقی شراکت پر اعتقاد نہیں رکھتے لیکن جمہوری اسلامی کی بنیاد عوام پر اعتماد اور ان کی شراکت کے گہرے اعتقاد پر مبنی ہے۔

رہبر معظم نے اسلامی نظام کے حقیقی معیاروں کی تشریح میں حکام کی شجاعت و خود اعتمادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر ایک دن حکام کے درمیان شاہ سلطان حسین کی طرح کمزور اور ڈرپوک حکام پیدا ہوجائیں تو عوام جتنے بھی قوی اور بہادر کیوں نہ ہوں جمہوری اسلامی کا کام تمام ہوجائے گا کیونکہ ڈرپوک اور کمزور حکام شجاع اور بہادر قوموں کو بھی ڈرپوک اور کمزور بنادیتے ہیں۔

رہبر معظم نے مسلمان قوموں کو جمہوری اسلامی کی گہری اسٹراٹیجک قراردیااور امریکہ کی طرف سے ایران اور دوسری مسلمان قوموں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی پیہم کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود مسلمان قومیں ایران کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہیں کیونکہ مسلمان قوموں بالخصوص فلسطینی مسلمانوں کی حمایت جمہوری اسلامی ایران کے اصلی تشخص میں شامل ہے اور یونیورسٹی طلباء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلامی نظام کی ان خصوصیات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان میں حاضر رہیں۔

رہبر معظم نے گذشتہ تیس برسوں میں دشمن کی سازشوں کی ناکامی اور شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر قوم اور حکام اسلامی نظام کے اصلی معیاروں کی حفاظت کریں ، ہم سب ہوشیار رہیں اور اسلامی نظام کو اندرونی طور پر مضبوط بنانے کی جد وجہد جاری رکھیں تو اس صورت میں دشمن اپنی تمام سازشوں اور تبلیغات کے باوجود ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

رہبر معظم نے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے طلباء اور جوان نسل کی طرف سے علمی اور اقتصادی حصول کو لازمی قراردیتے ہوئےفرمایا: جس دن اس ملک کو علمی اور قومی عزت کا مقام مل جائے گا اس دن ایران کی لائق قوم کے خلاف دشمن پروپیگنڈے کرنے سے مایوس ہوجائیں گے اور یہ درخشاں اور تابناک دن اس عظیم قوم کےروشن مستقبل سے دور نہیں ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے مختلف میدانوں میں علم و صنعت یونیورسٹی کی علمی اور انقلابی خدمات و افتخارات نیز با صلاحیت، نیک و صالح، ممتاز ،مفید اور مؤثرافراد کی تربیت کو اس یونیورسٹی کی اہم خصوصیات قراردیتے ہوئےفرمایا: دفاع مقدس کے عظیم اور نامورکمانڈر حاج احمدمتوسلیان اور ملک کے موجودہ فعال اور انقلابی صدر ، علم و صنعت یونیورسٹی کی کارکردگی کے اعلی اور ممتازنمونے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل علم و صنعت یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر جبل عاملی نے یونیورسٹی کی اسی سالہ تاریخ اور گزشتہ تیس برسوں میں یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا کی علمی خدمات اور اسلامی انقلاب کے دفاع سے متعلق ان کی کوششوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا : یونیوسٹی کے اکیڈمک بورڈ کے اراکین کی تعداد 370 اور گریجوئیشن، پوسٹ گریجوئيشن اور ڈاکٹریٹ کی سطح پر تعلیم میں مشغول طلبا کی تعداد گيارہ ہزار ہے اور اس یونیورسٹی نے انقلاب کی راہ میں 104 شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ علم و صنعت یونیورسٹی ملک کی آٹھ بنیادی یونیورسٹیوں میں شامل ہے اور اس یونیورسٹی کا صنعت کے ساتھ مضبوط رابطہ ہے اور عالمی سطح پر اس کی علمی سرگرمیاں انرجی ، ماحولیات، نانو، کمپوزٹ اور فضائی ٹیکنالوجی پر محیط ہیں۔

علم و صنعت یونیورسٹی کے سربراہ نے اساتید کے احترام و اکرام اور ریسرچ و تحقیقات کی اہمیت پر تاکید کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج علم صنعت یونیورسٹی کے بورڈ اور اعلی کونسل کے اراکین سے بھی ملاقات کی اور ان کی زحمات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس اجلاس میں علم وصنعت یونیورسٹی کے بعض اساتذہ نے یونیورسٹی کی علمی توانائی اور معنوی فضا پر مختصر رپورٹ پیش کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی یونیورسٹی میں داخل ہونے کے بعد گمنام شہیدوں کے مزار پر حاضر ہوئے اور ان کے درجات کی بلندی اورایصال ثواب کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی ۔

700 /