رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں فریضہ حج کو اجتماعی اور فردی تربیت کے اصلی عناصر کا حامل قراردیا اور امت مسلمہ کے امید بخش و تابناک و درخشاں افق اور مسلمانوں کے مد مقابل اسرائیلی صہیونزم اور امریکہ کی شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امت مسلمہ خداوند متعال کے سچے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے اپنےایمان و خلوص ، امید و جہاد اور صبر و بصیرت کے ساتھ سب سے دشوار گھاٹیوں اور مراحل سے عبور کر جائے گي ۔
اس پیغام کا متن آج صحرائے عرفات میں مشرکین سے برائت کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا گيا پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سرزمین وحی نے مؤمنین کے جم غفیر کو اپنی سالانہ ضیافت پر جمع کیا ہےپوری دنیا سے مشتاق روحیں آج قرآن اور اسلام کی پیدائش کے مقام پرحج کے اعمال انجام دے رہی ہیں اوران میں غورو فکر، بشریت کو اسلام و قرآن کے جاودانہ سبق کی یاد دلاتا ہے اور یہ اعمال خود بھی کام کرنے اورعملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں نمایاں اقدام کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس درس کا اصلی مقصد انسان کی ابدی سرافرازی ، نجات اور اس کا راستہ انسان کی صحیح تربیت اور صالح معاشرے کی تشکیل ہے۔ وہ انسان جس کےدل اور عمل میں یکتا خدا کی عبادت کے جلوے موجزن ہوں اور وہ اپنے آپ کو شرک ، اخلاقی برائیوں اور منحرف خواہشات سے دور رکھے؛ اور ایسا معاشرہ تشکیل دے جس کی تعمیر میں انصاف ، حریت، ایمان ، نشاط اور انسان کی پیشرفت و زندگی کی تمام علامات موجود ہوں۔
فریضہ حج میں اجتماعی اور فردی تربیت کے اصلی عناصر کو جمع کیا گيا ہے، احرام باندھنے اور فردی تشخص سے باہر نکلنے ، بہت سی نفسانی خواہشات اور لذات کو ترک کرنے اور خانہ خدا اور کعبہ توحید کے گرد طواف کرنے ، ابراہیم بت شکن اور فدا کار کے مقام پر دو رکعت نماز کی ادائيگی ، صفا و مروہ کے دو پہاڑوں کے درمیان سعی و تلاش ، میدان عرفات میں ہر رنگ و نسل کے توحید پرستوں اورموحدوں کےعظیم اجتماع میں آرام و سکون کی فضا ، مشعر الحرام میں رات کا کچھ حصہ عبادت و بندگی اور راز ونیاز میں بسر کرنا اور پھر منی میں حاضر ہونا ، اور شیطانی علامتوں پر پتھر پھینکنا ، قربانی کرنا ، غریبوں اور نیازمندوں کو اطعام اور کھانا کھلانا ،یہ سب منزلیں تعلیم و تربیت اور مشق و یادآوری کا مظہر ہیں۔ اس کامل مجموعہ میں ایک طرف خلوص و پاکیزگی اور مادی سرگرمیوں سے دوری اور دوسری طرف سعی و کوشش اور استقامت و پائداری؛ خدا کے ساتھ انس و خلوت ، مخلوق خدا کے ساتھ اتحاد، یک رنگی و ہمدلی ؛ ایک طرف دل وروح کو آراستہ و پیراستہ کرنا اور دوسری طرف امت اسلامی کے عظيم پیکر میں انسجام پیدا کرنےکی فکر ؛ ادھر حق کی بارگاہ میں خشوع، ادھر باطل کے مد مقابل پائداری و استقامت ؛مختصر یہ کہ یہاں ایک طرف آخرت کی فضا میں پرواز اور دوسری طرف دنیا کو آراستہ بنانےکے لئے عزم راسخ کی تعلیم اورمشق و تمرین متحدہ طور پر ہوتی ہے " وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّار" .
یہی وجہ ہے کہ خانہ کعبہ ، حج کے مناسک ،انسانی معاشرے کے لئے قیام و قوام کا باعث اور انسانوں کے لئے عظیم فوائد و برکات کا سرچشمہ ہیں : " جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس» و «ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ"
ہر ملک اور ہر نسل کےمسلمانوں کو آج زيادہ سے زیادہ فریضہ حج کی قدر و قیمت کو جاننا اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیےکیونکہ آج امت اسلامی کا افق سب سے زيادہ تابناک و درخشاں ہے اور اسلام نے جو اہداف مسلمان معاشرے اور فرد کے لئے پیش کئے ہیں آج ان تک پہنچنے کی امید پہلے سے کہیں زيادہ ہے۔ اگر گذشتہ دو صدیوں کے دوران مسلمان مغرب کے مادی تمدن اور الحادی مکتبوں کے مقابلے میں شکست و اضمحلال سے دوچار رہے ہیں لیکن اب پندرھویں صدی ہجری میں مغرب کے سیاسی اور اقتصادی مکاتب کو شکست و ہزیمت اور ناتوانی کا سامنا ہے جبکہ اسلام نے مسلمانوں کی بیداری اور آگاہی کی بدولت ایک نئے ،خوشگوار اورتازہ دور کا آغاز کیا ہے جس میں عدل و انصاف ، منطق اور توحیدی افکارجلوہ گر ہیں۔
وہ لوگ جو ماضی قریب میں مایوسی و ناامیدی کا زمزمہ کرتے تھے اور مغربی تمدن کے حملے کے سامنے اسلام اور مسلمانوں بلکہ معنویت اور دینداری کی بنیادوں کو ویران سمجھتے تھے آج وہ مغربی تمدن کےحملہ آوروں کے زوال و ضعف اور ان کے مقابلے میں اسلام اور قرآن کی سرافرازی کو مشاہدہ کررہے ہیں اور اپنی زبان اور دل سے اس کی تصدیق و تائید کررہے ہیں۔
میں مکمل اطمینان سے کہتا ہوں : یہ ابھی کام کا آغاز ہے ، اور حق کی باطل پر فتح کےخدا وند متعال کے وعدے کے کامل محقق ہونے اور اسلام کے نئے تمدن اور امت قرآن کی تعمیر و ترقی کا مرحلہ قریب ہے: " وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ "
خدا وند متعال کے اٹل وعدے کے علائم کا پہلا اور فیصلہ کن مرحلہ ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی اور اسلام کے بلند و بالا نظام کا قیام تھا جس نے ایران کو اسلامی تمدن و حاکمیت کے مضبوط و مستحکم مرکز میں تبدیل کردیا یہ معجز نما واقعہ اس وقت رونما ہوا جب اسلام کے خلاف ہر طرف سے سیاسی، فوجی ، فکری اور اقتصادی لحاظ سے زہریلے پروپیگنڈوں کا بازار گرم تھا اور انقلاب اسلامی کی کامیابی نے عالم اسلام میں نئی امید اور نیا جذبہ پیدا کردیا اور زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بھی خدا وند متعال کی مدد سے مزید استحکام پیدا ہوگيااور امیدوں کو مزید قوت مل گئی ہے اس واقعہ کو تین عشرے گذر گئے ہیں ، مشرق وسطی اور ایشیا اور افریقہ کے مسلمان ممالک اس وقت مخالفت کا کامیاب اسٹیج بن گئے ہیں۔، فلسطین اور اسلامی انتفاضہ ، فلسطین میں مسلمان حکومت کی تشکیل، لبنان میں اسرائیل کی غاصب و خونخوارحکومت پر حزب اللہ کی تاریخی فتح ؛ اورعراق میں صدام ملعون کی ملحد و ڈکٹیٹر حکومت کی ویرانیوں پر عوامی اور مسلمان حکومت کی تشکیل، افغانستان اوروہاں کمیونسٹوں اور ان کی آلہ کار حکومت کی ذلت آمیز شکست؛ مشرق وسطی پر تسلط جمانے کے لئے امریکہ کے تمام منصوبوں کی ناکامی و شکست؛ اسرائیل کی صہیونی وغاصب حکومت کے اندر وسیع پیمانے پر اختلافات و بحران ؛ علاقہ کے سبھی یا اکثر ممالک میں اسلام کے حق میں عوامی لہربالخصوص جوانوں اورروشن خیال افراد میں؛ اقتصادی پابندیوں کے باوجود جمہوری اسلامی ایران میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں واضح ترقی و پیشرفت ؛ اکثر مغربی ممالک میں اقلیتی مسلمانوں میں اسلامی تشخص کا احساس؛ اور اس صدی یعنی پندرھویں صدی میں یہ تمام علامتیں دشمن کے مقابلہ میں اسلام کی پیشرفت اور کامیابی کی واضح علامتیں ہیں۔
بھائیو اور بہنو! یہ تمام کامیابیاں خلوص اور جد و جہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہیں، جب خدا کی آواز خدا کے بندوں کے حلق سے نکل کر کان تک پہنچی؛ جب حق کے مجاہدوں کی ہمت و طاقت میدان میں آگئی ؛ اور جب مسلمانوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد و پیمان پر عمل کیا، خداوند قادر نے بھی اپنے وعدہ کو پورا کیااور تاریخ کا راستہ تبدیل ہوگيا:" أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم" " إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ " " وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز" " إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ"
ابھی یہ ابتدائی مرحلہ ہے، مسلمان قوموں کو ابھی سخت ترین گھاٹیوں سے عبور کرنا ہے اور ایمان ، خلوص ، امید و جہاد، بصیرت اور صبر کے بغیر ان دشوار گھاٹیوں سے عبور کرنا ممکن نہیں ہوگا، اور خداوند متعال کے وعدے پر مایوسی ، ناامیدی ، بے صبری ، عجلت ، بدظنی اور سستی کے اظہارسے یہ راستہ طے نہیں ہوپائے گا۔
زخمی دشمن اپنے تمام وسائل و امکانات کو لیکرمیدان میں آگیا ہے اور مزید لے آئے گا، اس صورت میں مسلمانوں کوہوشیار اور آگاہ رہنا چاہیے اور عقل و خرد ، و شجاعت اور موقع و محل کی شناخت کے ساتھ آگے بڑھناچاہیے اس صورت میں دشمن کی تمام سازشیں اور کوششیں ناکام ہوجائیں گي، امریکہ اور صہیونیزم نے گذشتہ تین عشروں میں اپنی تمام کوششوں کو صرف کیا اپنے تمام وسائل سے کام لیا لیکن پھر بھی انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، اور آئندہ بھی شکست ہی ان کا مقدر ہوگي ۔ انشاءاللہ
دشمن کے عمل میں شدت و سختی اس کی کمزوری و ناتوانی کی علامت ہے فلسطین اور بالخصوص غزہ کو مشاہدہ کیجئے اسرائیل کی غیر انسانی حرکت اور اس کی ظالمانہ کارروائیوں کو دیکھئے، ظلم کی تاریخ میں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی ، غزہ کے عوام ، غزہ کے مردوں ، عورتوں اور بچوں کے مدمقابل یہ اسرائیل کی شکست و ناتوانی کی علامت ہے، غزہ کے لوگ خالی ہاتھوں سے اسرائیل کی غاصب حکومت کے مدمقابل ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ اسرائیل کی حمایت امریکہ جیسی ظالم و جابر حکومت کررہی ہے غزہ کے عوام پر یہ دباؤ حماس کی عوامی حکومت سے انھیں منحرف کرنے کے لئے ہے لیکن غزہ کے عوام نے دشمن کی تمام سازشوں کو اپنے پاؤں تلے روند دیا ہے خدا وند متعال کا دورد و سلام ہو غزہ کے ان عظیم عوام پر جو دشمن کے مد مقابل چٹان کی طرح کھڑے ہیں غزہ کے لوگ اور حماس حکومت، عملی طور پرقرآن کریم کی ان آیات کی تفسیر پیش کررہے ہیں :" وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ" .
حق و باطل کے اس معرکہ میں فتح حق کو نصیب ہوگی ،فلسطین کی صابر اور مظلوم قوم کو آخر کار دشمن پر فتح و کامیابی حاصل ہوگي " وَ كانَ اللَّہُ قَوِيًّا عَزِيزاً. " فلسطینی عوام کی مقاومت جاری ہے آج امریکی اور بعض یورپی حکومتوں کے انسانی حقوق ، جمہوریت اور آزادی کے دعو ے جھوٹے اور بے بنیاد ثابت ہوچکے ہیں جس کی بنا پر دنیا میں امریکہ کی آبرو ختم ہوگئی ہے جس کی تلافی و جبران اس کے لئےممکن نہیں ہوگا اسرائيل کی ظالم حکومت بھی پہلے سے کہیں زیادہ مضمحل اور روسیاہ ہوچکی ہے اور بعض عرب حکومتیں بھی اس عجیب امتحان میں اپنی آبرو کھوچکی ہیں۔ وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ. والسلام علي عباداللہ الصالحین
سيّدعلي حسيني خامنہاي
4 ذيحجۃالحرام 1429
13 آذر 1387