ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی

دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے نفاذ کی کوششیں جہاد کے مانند ہیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے اجرائی اہلکاروں اور حکام کے ساتھ ملاقات میں اپنے اہم بیان میں ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں کوششوں کو جہاد سے تعبیر کیا اور تینوں قوا اور مختلف اداروں کی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر تمام حکام اور ادارے ہمت سے کام لیں تو آئندہ 2 یا 3 برسوں میں دفعہ 44 کے نفاذ کے اچھے نتائج سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ اور ملک کے تابناک مستقبل کی امیدوں میں اضافہ ہوجائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے گذشتہ دومرحلوں یکم خرداد 1384 اور گیارہ تیر ماہ 1385 میں ابلاغ اور ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں ہونے والے اقدامات پر عدم رضایت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کی ملک کے اقتصادی میدان میں عظیم فوائد پر عدم توجہ اور غفلت نیز مختلف شعبوں اور اداروں میں ایک مشترکہ سوچ تک نہ پہنچنےکی بنا پریہ مشکل وجود میں آئی ہے اور اس اجلاس کا مقصد اس موضوع کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور ایک واحد نظریے تک پہنچنا ہے۔

رہبر معظم نے بعض تشکیلات، قوانین اور اداروں کے کردار میں تبدیلی کو دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: ان تبدیلیوں کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں تینوں قوا اور تمام اداروں کی اہم ذمہ داری ہے۔ تمام اقتصادی منصوبے اور سرگرمیاں دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے دائرے میں ہونی چاہییں ۔

رہبر معظم نے انقلاب اسلامی کے بعد آنے والی اقتصادی تبدیلیوں کو ملک میں عمیق سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کے لئے غیرمناسب دیتے ہوئے فرمایا: البتہ اقتصادی میدان میں بہت سے اہم امور انجام پائے ہیں لیکن عوام کی درآمد میں محسوس اضافہ، ناخالص قومی پیداوار میں رشد، بین الاقوامی اقتصادی رقابتوں میں شرکت، فقر و محرومیت کا خاتمہ اور عدل و انصاف پر مبنی اچھے اقتصادی نمونے کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے تھا اور ملک کی اقتصادی ترقی اور رونق اور سماجی انصاف کو نمایاں طور پر عالمی سطح پرپیش کرنا چاہیے تھا ۔

رہبر معظم نے قومی ثروت میں اضافہ اور سماجی انصاف کو اسلامی اقتصاد کے دو بنیادی ستون قراردیتے ہوئے فرمایا: جو بھی اقتصادی نسخہ ، سفارش اور طریقہ ان دو اہداف کو پورا کرے وہ قابل قبول ہے اور جس اقتصادی نسخہ میں قومی ثروت میں اضافہ اور سماجی انصاف پر توجہ نہ ہو وہ ملک اور قوم کے لئے مفید نہیں ہے۔

رہبر معظم نے دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے نفاذ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی اور فقر و غربت کے خاتمہ کے لئے ثروت کی پیداوار کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: قومی ثروت میں اضافہ کے لئے سرمایہ کاری اور اقتصادی پیداوار کا راستہ تمام لوگوں کے لئے فراہم کرنا چاہیے۔ تاکہ پڑھے لکھے جوان اور لائق مدیر مختلف اداروں کی حمایت کے سائے میں ثروت پیدا کرنے کے بڑے منصوبے انجام دے سکیں۔

رہبر معظم نے بنیادی آئین میں اقتصادی روش کو اعتدال پر مبنی ، ہوشیارانہ اور منصفانہ قراردیا اور دفعہ 44 میں ملک کی اقتصادی سرگرمیوں کو حکومتی ، سبسڈی اور نجی شعبوں میں تقسیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دفعہ 44 کے ذیل میں درج شرائط کی بنیاد پر اس تقسیم کا اصلی مقصد اور اعتبار ملک کی اقتصادی ترقی اور رونق ہے لہذا ہر دور میں اس اصلی مقصد پر توجہ رکھنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کےپہلے عشرے میں خاص حالات اور مسلط کردہ جنگ کے پیش نظر انقلاب کے پہلے دس برسوں میں حکومتی مالکیت کے حد سے زیادہ فروغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ سلسلہ دوسرے اور تیسرے عشرے میں بھی حکومتی کمپنیوں کے بہت زیادہ اضافے اور حکومتی کمپنیوں کو عوام کے سپرد نہ کئے جانے کے ساتھ جاری رہا جس کے نتیجے میں بنیادی آئین کی دفعہ 44 کے برخلاف حکومت کا عمل دخل اور اس کی مالکیت روز بروز بڑھتی گئی اور وہ درآمدات جنھیں ملک اور عوام کی اقتصادی ترقی اور رونق میں صرف ہونا چاہیے تھا ان کا بےکار و بے سود کاموں میں مصرف ہوا جس سے ملک کےاقتصاد کو نقصان پہنچا ہے۔

رہبر معظم نے بنیادی آئین کی دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے نفاذ کی اہمیت اور ضرورت پر زوردیا اور بیس سالہ منصوبہ کے اہداف کے محقق ہونے کے لئے سرمایہ کاری کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اس قسم کی سرمایہ کاری حکومت کے بس سے باہر ہے ادھر حکومت کے دوش پر پیشرفتہ اور مؤثر ٹیکنالوجی کے میدان میں سنگين ذمہ داری ہے جن میں نجی کمپنیاں وارد نہیں ہوسکتیں اور حکومت کو ان شعبوں میں اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔

رہبر معظم نے سماجی انصاف فراہم کرنے کے بارے میں پائي جانے والی تشویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: البتہ بعض غیر ملکی عناصر آشکارا تبلیغات یا سفارتی مذاکرات میں موجودہ شرائط کا ذمہ دار حکومت کو قراردینے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ مشکل گذشتہ برسوں کے دوران وجود میں آئی ہے اور غلط روش و طریقہ کار نیز بنیادی آئین کی دفعہ 44 پر عدم توجہ اس کا اصلی سبب ہے۔رہبر معظم نے دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے نفاذ کے اصلی اہداف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: غیر ضروری اقتصادی سرگرمیوں سے حکومت کا الگ ہونا، ملک کے اقتصادی میدان میں سرمایہ کاری کے لئے حقیقی راستہ کا ہموارہونا، نجی کمپنیوں کاکمزور طبقات کی حمایت کرنا، حکومت کا پالیسی وضع کرنا ، ہدایت اور نظارت کے فرائض انجام دینا، حکومتی کمپنیوں کو نجی شعبوں میں دینے کے بعد حاصل ہونے والی درآمدات کے مصرف کا مشخص ہونا ، کمپنیوں کو نجی شعبوں میں دینے کے لئے حکومتی اقدامات کی ضرورت پر توجہ کرنا، ابلاغ شدہ پالیسیوں کے اہم ترین اہداف ہیں۔

رہبر معظم نے عدالت حصص و شیئرز کا استقبال اور ان حصص سے معاشرے کے کمزور طبقات کو بہرہ مند بنانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے نفاذ کا مطلب ملک کے خزانے کی نیلامی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کم منافع کو کثیرمنافع میں تبدیل کرکے اس سے ملک کی اقتصادی حالت کوبہتر بنانا اور معاشرے کے محروم طبقات فائدہ پہنچانا ہے۔

رہبر معظم نے قانونی اور شرعی طریقہ سے حاصل کی جانی والی دولت و ثروت کو اسلامی نقطہ نظر میں پسندیدہ عمل قراردیتے ہوئے فرمایا: ہرقسم کی ثروت و دولت کی پیداوار معاشرے کے ثروتمند ہونے کی علامت ہےاور اگر دولت و ثروت کی پیداوار نیک کام کی نیت سے، ملک کی پیشرفت میں مدد بہم پہنچانے اور غریب و نادار افراد کی مدد کرنے کی غرض سے ہو تو یہ نیکی اور حسنہ شمار ہوتی ہے لہذا یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اسلام دولت و ثروت کا مخالف ہے ۔

رہبر معظم نے اقتصادی بد عنوانیوں کے ساتھ سنجیدگی سے نمٹنے کو قانونی و شرعی ثروت و دولت کی پیداوار کے لئے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصادی بد عنوانیوں سے مقابلہ اور ان کی روک تھاک کے ذریعہ صحیح اور سالم اقتصادی رقابت اور دفعہ 44 کے نفاذ کی راہیں ہموار ہونگی ۔

رہبر معظم نے اسی سلسلے میں قوانین کی اصلاح ، طریقہ کار اور شفافیت کو اقتصادی بد عنوانیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے لازمی قراردیتے ہوئے فرمایا: حکومت ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کو چاہیے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو پورا کریں۔

رہبر معظم نے دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے نفاذ میں اندرونی اور بیرونی مخالفین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے نفاذ کے سلسلے میں عملی کوششیں ایک قسم کا جہاد ہیں بعض عناصران پالیسیوں کی بدولت ملک کے اقتصاد میں پیشرفت و ترقی اوررونق آجانے کی وجہ سے مخالفت کرتے ہیں اور ان میں اکثر بیرونی عناصر اور ممالک شامل ہیں جو ایران کے اقتصاد کو کمزور رکھ کر اس پر کسی مناسب موقع پر دباؤ برقرارکرنا چاہتے ہیں۔

رہبر معظم نے دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے اندرونی مخالفین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ لوگ دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کی اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ یا ان کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے یا ان کے اختیارات اور سرگرمیاں محدود ہوجائیں گی۔

رہبر معظم نے دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کی اہمیت اور اہداف کی وضاحت کرنے کے بعد تینوں قوا اور مختلف اداروں کی ذمہ داریوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اس کام کے مختلف پہلؤں کا مطالعہ ، ماہرین سے صلاح و مشورہ اور عجلت سے اجتناب ضروری ہے لیکن بہر حال دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے نفاذ میں سرعت ہونی چاہیے اور حکومت کے مختلف اداروں سے منسلک حکام کو اس سلسلے میں کام جاری رکھنا چاہیے اور سنجیدگی کے ساتھ مشخص پروگرام تدوین کرنا چاہیے۔

رہبر معظم نے پارلیمنٹ میں ضروری قوانین کی تدوین اور منظوری، عدلیہ کی طرف سے مشروع اور قانونی مالکیتوں کی مکمل حمایت اور اس سلسلے میں خصوصی عدالتوں کی تشکیل اور دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کی تمام شقوں کو ایک پیکر کے عنوان سے مد نظر رکھنا ، عوام اور نجی شعبے میں سرگرم افراد کو کامل اور دقیق اطلاعات فراہم کرنا، ہر قسم کے ناجائز فائدہ کی روک تھام کرنا ایسے اقدامات ہیں جو دفعہ 44کلی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے اہم ہیں۔

رہبر معظم نے اپنے خطاب کے اختتام میں فرمایا: تینوں قوا کے سربراہوں کی ہمت اور حکومت کے مختلف اداروں کی کوششوں کے نتیجے میں آئندہ 2 ، 3 سال تک بنیادی آئین کی دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے مثبت آثار آشکار اور ملک کے تابناک مستقبل کے سلسلے میں سب پر امید ہوجائیں گے۔

اس ملاقات میں صدر کے معاونین، بعض وزراء اور وزارتخانوں کے اعلی حکام ، تمام صوبوں کےگورنر، پارلیمنٹ کی سربراہ کونسل کے اراکین، پارلیمنٹ اور دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے کمیشنوں کے سربراہان ، پارلیمنٹ کے بعض نمائندے ، عدلیہ کے نائب سربراہ اور بعض اعلی قضات ، مجمع تشخیص مصلحت نظام کے بعض اراکین، اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری، مجمع تشخیص مصلحت نظام کے اسٹراٹیجک سینٹر کے سربراہ ، ریڈیو، ٹی وی کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹرز، مؤثر خارجہ پالیسی کونسل کے سربراہ ، تہران کے میئر، شہداء اور جانباز فاؤنڈیشن کے بعض اعلی حکام، فرمان امام (رہ) ادارہ کے ارکان، شعبہ تجارت و تعاون کے ارکان ، اسلامی انجمنوں کے ارکان ، ایران سرمایہ کاری صنعت ادارے کے ارکان اور حضرت امام رضا (ع) اور شاہ عبد العظیم کے روضوں کے متولیان موجود تھے۔

700 /