ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

محفل انس با قرآن و بین الاقوامی اور ممتاز قراء و اساتذہ کے اجتماع میں خطاب

قرآن کی حقیقی تلاوت ایک پیغمبرانہ عمل ہے، قراء پیغمبرانہ کام انجام دے رہے ہیں۔

رہبرِ معظم انقلاب اسلامی نے ماہِ مبارک رمضان کے پہلے دن شام کے وقت ’’محفل انس با قرآن و بین الاقوامی اور ممتاز قراء و اساتذہ کے اجتماع‘‘ میں، قرآن کی شفا بخش تعلیمات کی انفرادی، اجتماعی اور قومی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی: قرآنی معاشرہ اس طرح عمل کرے کہ کتابِ الٰہی کے روحانی سرچشمے دلوں، افکار اور نتیجتاً تمام لوگوں کے اعمال و کردار میں جاری ہو جائیں۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای، جو دو گھنٹے سے زائد ممتاز قراء کی تلاوت، گروہی تلاوت اور اندرون ملک اور بیرون ملک سے آئے ہوئے گروہوں کی تواشیح کے سامع رہے، نے ماہِ مبارک رمضان کو مومنین کیلئے حقیقی اور عظیم عید قرار دیتے ہوئے مبارکباد دی اور ملک میں قراء کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد پر خداوند متعال کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: مختلف مشکلات کے علاج کے لیے قرآن کے بے انتہا سرچشموں کی طرف معاشرے کی ضرورت، ایک سنجیدہ اور حقیقی ضرورت ہے۔

آپ نے کتابِ الٰہی کی انفرادی ضرورتوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: حسد، بخل، بدگمانی، کاہلی، خودپرستی، خواہش پرستی اور ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دینے جیسے روحانی و اخلاقی امراض کا علاج قرآن میں مضمر ہے۔

رہبر انقلاب نے معاشرے کے آپسی روابط کے ضمن میں فرمایا: اجتماعی مسائل، خصوصاً سماجی انصاف جو توحید کے بعد اسلام کا اہم ترین مسئلہ ہے — کے علاج کے لیے ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے قرآن کو دیگر اقوام سے تعلقات کے میدان میں بھی ایک واضح اور دقیق رہنما قرار دیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کو دیگر اقوام سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن آج ہمیں کافروں یا منافقوں پر مشتمل ایک وسیع طاقتور محاذ کا سامنا ہے، اور قرآن کریم نے ان کے ساتھ برتاؤ کے مختلف مراحل کی وضاحت کی ہے کہ کس وقت بات کی جائے، کس مرحلے پر تعاون ہو، کب ان کے منہ پر مکہ مارا جائے اور کب تلوار کھینچی جائے۔

آپ نے فرمایا کہ قرآن کی درست تلاوت اور اس کا صحیح سماع، ان سب امراض کے ازالے کا باعث بنتا ہے اور مزید فرمایا: جب قرآن اچھی طرح تلاوت اور سنا جائے، تو انسان میں اصلاح اور نجات کی تحریک بھی پیدا ہوتی ہے۔

رہبر انقلاب نے قرآن کریم کی ایک آیت کے حوالہ سے فرمایا کہ پیغمبر اکرمؐ کا مقصد آیات کی تلاوت، تزکیہ (یعنی روح و جان کی بیماریوں کا علاج)، کتاب کی تعلیم (یعنی فردی و اجتماعی زندگی کا عمومی سانچہ سکھانا)، اور حکمت کی تعلیم (یعنی عالمِ وجود کی حقائق کی معرفت دینا) تھا، اور مزید فرمایا: قرآن کی تلاوت ایک پیغمبرانہ عمل ہے اور قراء دراصل پیغمبر کا کام انجام دے رہے ہیں۔

آپ نے قرآن کی مفاہیم کو عوام کی فکری مسلمات میں تبدیل کرنا تلاوتِ صحیح کی ایک اہم خصوصیت قرار دیا اور فرمایا: قراء اس طرح تلاوت کریں کہ قرآن کے ہزاروں اہم عنوانات اور موضوعات عوام کے اذہان و افکار میں راسخ ہو جائیں اور ان کی عملی بنیاد بنیں۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے اچھی تلاوت کو عوام کے قرآنی علم میں اضافے کا بھی سبب قرار دیا اور فرمایا: تلاوت اگر آداب کے ساتھ انجام دی جائے تو ہر پہلو میں معجزہ گری دکھاتی ہے۔

رہبر انقلاب نے قرآن کی تلاوت کا سب سے اہم ادب، خداوند کے حضور حقیقی احساسِ موجودگی قرار دیا اور فرمایا: قرآن کو معنی پر توجہ کے ساتھ اور ترتیل کے انداز میں پڑھنا چاہیے تاکہ وہ اثر انداز ہو۔

آپ نے ترتیل کا صحیح مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا: ترتیل ایک روحانی امر ہے اور اس کا مطلب ہے تدبر، سمجھ اور توقف کے ساتھ تلاوت۔ البتہ جو کچھ ملک میں ’’ترتیل‘‘ کے عنوان سے انجام پاتا ہے وہ اچھا اور قیمتی ہے اور اسے مزید عام ہونا چاہیے۔

رہبر انقلاب نے ایک اور نصیحت کے طور پر تاکید کی کہ قاری کا مقصد، سب سے پہلے خود کلامِ وحی سے استفادہ اور تاثیر پذیری ہونا چاہیے اور اس کے بعد مخاطب پر اثر ڈالنا۔ آپ نے فرمایا: اگر اس مقصد پر توجہ دی جائے تو خوش آہنگ صوت و لحن کا استعمال بھی کوئی عیب نہیں، چنانچہ آج ہمارے قراء عمدہ لحن کے استعمال سے — جن میں سے بہت سے نقل نہیں ہیں — سامعین کے دلوں میں خشوع، ذکر اور تسبیح کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔

آپ نے تلاوت کے اثر میں معانی کے فہم کو اہم قرار دیا اور فرمایا: آج انقلاب کے ابتدائی دنوں کے مقابلے میں، ہمارے قراء وحی کے مفاہیم سے بہتر واقفیت رکھتے ہیں، لیکن آیات کے معانی کا عمومی سطح پر فہم بڑھنا چاہیے، اور اس کام کے لیے طریقے تلاش کرنا وزارتِ تعلیم، ادارہ تبلیغات اسلامی اور دیگر قرآنی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

قاری کے ظاہر و صورت کا مسئلہ بھی ایک اور نکتہ تھا جس کی طرف حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اچھی سیرت کے ساتھ ساتھ، قاری کی صورت بھی اچھی اور اہلِ صلاح و معنویت جیسی ہونی چاہیے۔

آپ نے ایرانی قراء کے بیرونِ ملک سفر اور وہاں کے اچھے استقبال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بین الاقوامی قرآنی محافل میں ایرانی لباس پہننا ایک امتیاز ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: ایک اور مسئلہ، تلاوت میں الحانِ حرام کا استعمال نہ کرنا ہے۔

رہبر انقلاب نے وزارتِ ارشاد، ادارہ تبلیغات، اوقاف، صداوسیما اور عوامی گروہوں سمیت مختلف اداروں کی قرآنی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی: ان تمام اداروں کو باہمی ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے، اور اس ہم آہنگی کے لیے قرآن کی اعلیٰ کونسل کی پالیسیوں کا لحاظ ضروری ہے۔

آپ نے قرآنی میدان میں اعلیٰ سطح کی پیداوار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صداوسیما کو ان کی حمایت کا ذمہ دار قرار دیا اور فرمایا: خوش قسمتی سے ملک نے قرآنی میدان میں تیز رفتار ترقی کی ہے، اور انقلاب سے پہلے کے دور کے مقابلے میں — جب قرآن مہجور تھا اور اس کی تلاوت چند قراء تک محدود تھی — آج پورے ملک میں، حتیٰ کہ چھوٹے شہروں اور بعض دیہاتوں میں بھی، عمدہ اور ممتاز قراء موجود ہیں۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے آخر میں امید ظاہر کی کہ ان لطیف نکات پر عمل درآمد کے ذریعے قرآن کا روحانی سرچشمہ دلوں، افکار اور عوام کے اعمال میں جاری و ساری ہو جائے۔

اس تقریب میں، متعدد قراء نے آیاتِ کلام‌اللہ مجید کی تلاوت کی، اور مختلف گروہوں نے ہمخوانی اور ابتهال پیش کیے۔

 

 

700 /