رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج شام ملک بھر کے ہزاروں طلباء اور سیاسی، سماجی، ثقافتی تنظیموں کے فعال اراکین اور ثقافتی گروہوں سے ملاقات کے دوران، طالبعلمی شناخت کی پختگی اور مسائل کے تجزیے و تنقید کے ضمن میں نہایت اہم اور بصیرت افروز نکات بیان فرمائے۔ آپ نے ایرانی نوجوانوں کے مغرب سے دو مختلف تجربات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: پہلا تجربہ خودفراموشی اور شیفتگی کا باعث بنا، لیکن دوسرا تجربہ—جس کی راہ پر آج کا طلبہ طبقہ گامزن ہے—مغرب کی حقیقتوں کے ادراک، خودمختاری کی آرزو اور مغربی تہذیب کے مسائل سے شعوری دوری پر استوار ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہای نے موجودہ امریکی حکومت سے مذاکرات کو لاحاصل اور پابندیوں کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنانے والا قرار دیا۔ آپ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکہ دنیا کی رائے عامہ کو مذاکرات کے بہانے دھوکہ دینا چاہتا ہے، فرمایا: "ہم ایٹمی اسلحہ کے خواہاں نہیں، اگر ایسا ارادہ رکھتے تو اب تک اسے تیار کر چکے ہوتے۔ علاوہ ازیں، ہم ہر ممکن جارحیت کا بھرپور اور فیصلہ کن جواب دیں گے۔"
رہبر انقلاب نے تنظیموں کے نمائندہ طلباء کی تقاریر کو فکری بلوغت، تجزیاتی گہرائی اور فہم و شعور کی پیش رفت کی علامت قرار دیا اور ان خیالات کو امید افزا اور مستقبل کیلئے نوید بخش قرار دیا۔
آپ نے فرمایا: "البته یہ لازم نہیں کہ میں طلباء کی تمام آراء سے متفق ہوں۔ مثلاً ایک طالبعلم نے کہا کہ صہیونی حکومت کے خلاف حساس مواقع پر ہمارے سکیورٹی و عسکری ادارے صرف بیانات جاری کرتے ہیں، جبکہ تحقیق سے معلوم ہو گا کہ یہ بات خلافِ واقع ہے، اور جنہیں اقدام کرنا تھا، انہوں نے بروقت اپنے فرائض انجام دیے۔"
حضرت آیتاللہ خامنہای نے ایک اور طالبعلم کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: "میرا اعتماد اب بھی نوجوانوں پر قائم ہے اور میری ساری امیدیں انہی سے وابستہ ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنے صحیح موقف پر ثابت قدم رہیں، استقامت کا مظاہرہ کریں، اور راہ کی رکاوٹوں کے باعث شک، کمزوری یا انحراف کا شکار نہ ہوں۔"
رہبر انقلاب نے وزارتِ علوم اور وزارتِ صحت کے ذمہ داران کو سخت تاکید کی کہ وہ طلباء کی جانب سے پیش کیے گئے نکات پر مکمل توجہ دیں اور ان کی بھرپور طریقے سے پیروی کریں۔
آپ نے گزشتہ برس کے متعدد واقعات کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا: "گزشتہ سال انہی دنوں میں شہید رئیسی، سید حسن نصر اللہ، ہنیہ، صفی الدین، سنوار، ضیف اور دیگر ممتاز انقلابی شخصیات ہمارے درمیان موجود تھیں، لیکن آج وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ دشمن اس فقدان کو ہماری کمزوری تصور کرتا ہے، لیکن میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگرچہ ان عزیزوں کا نہ ہونا ہمارے لیے ایک عظیم نقصان ہے، پھر بھی ہم بہت سے میدانوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوئے ہیں اور کسی بھی اہم مسئلے میں کمزور نہیں ہوئے۔"
حضرت آیتاللہ خامنہای نے مزاحمتی محاذ کی طاقت کے تسلسل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: "اگر کسی قوم یا جماعت میں "ہدف" اور "جد و جہد" کے دو بنیادی عناصر موجود ہوں، تو کوئی بھی طاقت ان کی مجموعی تحریک کو متزلزل نہیں کر سکتی۔"
رہبر انقلاب نے اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "روزہ داری کا مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے۔ تقویٰ ہی انسان کو برائیوں، وسوسوں، بدنیتی، خباثت، فسق، شہوت پرستی، فرائض سے غفلت اور واجبات کے ترک سے محفوظ رکھتا ہے۔"
آپ نے تقویٰ کے دو اہم دنیوی ثمرات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: "تقویٰ دنیا میں ہی مختلف میدانوں—خصوصاً اقتصادی اور سکیورٹی کے شعبوں—میں راہ گشا ہے اور وسعت پیدا کرتا ہے۔"
حضرت آیتاللہ خامنہای نے فرمایا: "الٰہی ہدایت کا حصول ہر انسان کی معراج ہے، اور فلاح، سعادت اور نجات صرف خداوند متعال کی ہدایت کے زیر سایہ ممکن ہے، جو کہ تقویٰ کا ہی نتیجہ ہے۔"
رہبر انقلاب نے تقویٰ کے حصول کو انفرادی ارادے اور مصمم عزم کا مرہونِ منت قرار دیتے ہوئے فرمایا: "امام خمینیؒ کی نصیحت تھی کہ تقویٰ کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے مردانہ اور قاطعانہ فیصلہ ضروری ہے۔"
حضرت آیتاللہ خامنہای نے اپنی تقریر کے مرکزی حصے میں ایرانی طالبعلم کی شناخت کی تشریح کرتے ہوئے مغرب اور مغربی تہذیب کے ساتھ ایرانی نوجوانوں کے دو مختلف رویّوں کا تفصیل سے جائزہ لیا اور فرمایا: "پہلا تجربہ، 'شیفتگی اور خودباختگی' پر منتج ہوا، جبکہ دوسرا تجربہ، 'مغربی تہذیب کی گہری پہچان، مغربی حقیقتوں کے مقابل انتخابی اور تنقیدی رویّہ، خودمختاری کا شعور اور بعض پہلوؤں میں گہرا اختلاف اور مکمل جدائی کا احساس' تھا۔"
آپ نے تقریباً ایک صدی قبل ایرانی نوجوانوں کا مغرب سے پہلا سامنا اس دوگانہ تصور—'ترقی یافتہ مغرب اور پسماندہ ایران'—کی پیدائش کا سبب قرار دیا اور فرمایا: "اگرچہ یہ تصور اُس وقت کی ایک تلخ حقیقت تھا، مگر اس کا انجام ہرگز خودباختگی اور مغرب کی اندھی تقلید نہیں ہونا چاہیے تھا۔ دوسری قوم کی برتری کو دیکھ کر انسان کو اپنے نقائص کی اصلاح کرنی چاہیے، نہ کہ مغلوب ہو کر اس کی غلامی اختیار کرے۔"
رہبر انقلاب نے مغرب کے علمی و صنعتی ارتقاء کے مقابل شیفتہ ہونے کو ایرانی قوم کی داخلی توانائیوں سے غفلت کا باعث قرار دیا اور فرمایا: "یہ تجربہ ایک مثبت خودشناسی کی صورت اختیار کر سکتا تھا، مگر افسوس کہ اس نے خودباختگی کو جنم دیا، اور اندرونِ ملک کچھ عناصر نے اس روش کو فروغ دے کر عوام کو مغرب کی ظاہری چکاچوند—خصوصاً اخلاقی اور ثقافتی پہلوؤں—کی نقالی پر آمادہ کیا؛ حالانکہ ترقی کا اصل منبع تو علم، تحقیق اور محنت ہے۔"
آپ نے رضاخان کو مغرب پسندی کی بدترین مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا: "انگریزوں نے اُس آمر کو برسراقتدار لایا اور جب ان کے مفادات نے تقاضا کیا، تو اسے ہٹا بھی دیا۔ مگر اس قلیل مدت میں ہی رضاخان کے زہریلے بیانیے نے مغرب کی مکمل اطاعت اور اس میں مدغم ہونے کی سوچ کو قوم کے ذہنوں میں راسخ کر دیا اور ایران کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ حتیٰ کہ ایرانی شناخت کا کوئی نشان—نہ قومی معیشت، نہ آزاد داخلہ و خارجہ پالیسی، اور نہ ہی قومی لباس—زندہ بچ سکا۔"
رہبر معظم نے مغرب کی دوسری آمد کو، چند تلخ تاریخی واقعات—جیسے برطانوی و تزاری روسی افواج کے ہاتھوں ملک کے کچھ حصوں پر قبضہ، قحط اور ہزاروں ایرانیوں کی ہلاکت، داخلی انقلابی تحریکوں کا کچلا جانا اور تیل کے توہین آمیز دارسی معاہدہ—کا نتیجہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: "ان واقعات نے مغرب کی اصلیت کو ایرانی قوم، خصوصاً نوجوانوں پر آشکار کر دیا اور ان کی جھوٹی مسکراہٹوں اور مہذب ظاہری انداز کے پس پردہ چھپی ہوئی خباثت اور خیانت بے نقاب ہو گئی، جس کے نتیجے میں ملک میں مغربی تہذیب کے لیے شیفتگی میں نمایاں کمی آئی۔"
آپ نے تحریکِ ملی نفت کو مغرب کی حقیقت کو آشکار کرنے والے ایک تاریخی موڑ سے تعبیر کیا اور فرمایا: اگرچہ مصدق نے انگلستان کے خلاف جدوجہد میں امریکہ پر تکیہ اور اس سے امید لگائی تھی، لیکن وہی امریکہ اس کے لیے پشیمانی کا باعث بنا، اور اس کے خلاف ہونے والی بغاوت امریکہ ہی کے پیسے اور وسائل سے انجام پائی۔
حضرت آیتاللہ خامنہای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ۲۸ مرداد ۱۳۳۲ کی بغاوت کا نتیجہ یہ تھا کہ مغرب پر انحصار ترقی کا سبب نہیں بلکہ رکاوٹ ہے، فرمایا: یہ حقیقت بھی عیاں ہو گئی کہ مغربی طاقتیں ہر اُس چیز سے جو ان کے مفادات اور لالچ کے خلاف ہو، بےرحمی سے نمٹتی ہیں۔
رہبر انقلاب نے امریکہ کے خلاف طلباء کی مزاحمتی تحریکوں، جیسے نیکسن کے سفر کے خلاف تہران یونیورسٹی کے طلباء کی ۱۶ آذر کی قیام اور حکومت کے ہاتھوں تین طلباء کی شہادت کو مغرب کی حقیقت آشکار ہونے کے اثرات میں شمار کیا، اور فرمایا: اگرچہ مغرب سے وابستگی کا رجحان انقلاب کی کامیابی سے پہلے کمزور ہو چکا تھا، لیکن یہ رجحان باقی رہا۔ اگر ۱۳۵۷ میں انقلاب برپا نہ ہوتا تو ملک ایک ایسے راستے پر گامزن ہوتا جہاں بڑھتی ہوئی خارجی وابستگی کے نتیجے میں ہم اپنی تمام روحانی دولتوں سے محروم اور خالی ہو جاتے۔
آپ نے امام خمینیؒ کی منفرد اور بےمثال صلاحیت کو پوری قوم سے رابطہ قائم کرنے اور بات چیت کرنے میں قرار دیا، نہ کہ کسی مخصوص طبقے یا پارٹی سے، اور فرمایا: امامؒ نے عوام کی صلاحیتوں اور ملت کی ثقافتی اور تاریخی شناخت کو یاد دلا کر سب کو غفلت سے نکالا۔ انہوں نے عوام پر اعتماد کیا، ان سے تقاضا کیا، اور انہیں میدان میں لے آئے۔ قوم نے بھی استقامت دکھائی، خوفزدہ نہ ہوئی، اور دشمنوں کے تسلط و لوٹ مار کا خاتمہ کر دیا۔
حضرت آیتاللہ خامنہای نے فرمایا: دنیا کے غنڈے انقلاب اسلامی کے خلاف سازش اور دشمنی سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "پہلے ہم" — یعنی ساری دنیا کو ہمارے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینی چاہیے۔ آج سب اس مفاد پرستی کو دیکھ رہے ہیں، اور ایرانِ اسلامی دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ڈٹ کر اعلان کیا ہے کہ ہم کسی بھی حالت میں دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات پر مقدم نہیں رکھیں گے۔
آپ نے دشمن کی کوششوں کا ہدف، خصوصاً جدید مواصلاتی ذرائع کے ذریعے، ایران پر دوبارہ مغرب کے نفوذ اور بالادستی کو مسلط کرنے اور ایرانی طالبعلم نوجوانوں میں انقلاب سے پہلے والی کمزوری، تابع داری اور وابستگی کی روح کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش قرار دیا، اور فرمایا: اس سازش کا مقابلہ اس پختہ اور طاقتور روح سے کیا جا سکتا ہے، جس کا نمونہ آج کے طلباء کی گفتگو میں نمایاں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی کوششوں کے باوجود دینی، اخلاقی اور عرفانی میدان میں بھی اچھی پیش رفت ہوئی ہے، اور ایسے فکری عناصر وجود میں آئے ہیں جو عصرِ حاضر کی زبان پر عبور رکھتے ہوئے اسلامی مفاہیم کو بیان کر رہے ہیں۔
حضرت آیتالله خامنہای نے فرمایا: آج کی یونیورسٹی، نہ صرف انقلاب سے پہلے کی یونیورسٹی سے، بلکہ بیس سال پہلے کی یونیورسٹی سے بھی زیادہ آگاہ اور فہیم ہے۔ اور برخلاف بعض پروپیگنڈوں کے، آج کا ایرانی طالبعلم اور نوجوان زیادہ استقامت اور بہتر فہم کے ساتھ دشمن کے مقابلے کے لیے صفِ اول میں موجود ہے۔
رہبر انقلاب نے اپنی گزشتہ تاکید کو دہراتے ہوئے، کہ مواد کی تیاری — خصوصاً مجازی فضا میں — اہم ہے، فرمایا: طالبعلم کا مقام استاد کی مانند ہے — خبردار کرنے والا اور رہنمائی کرنے والا — اور اسے مواد کی تیاری اور مسائل کی وضاحت میں دوگنا کوشش کرنی چاہیے۔
آپ نے اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں گزشتہ سال کی نصیحتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: طلباء تنظیموں کو یونیورسٹی کے اندرونی معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ یونیورسٹی کا جوان دشمن یا معاند نہیں ہے، بلکہ وہ سننے اور قبول کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ اس بنا پر طلباء تنظیموں سے توقع ہے کہ وہ اپنی صحیح فکر کے ذریعے یونیورسٹی کے ماحول کو متاثر کریں۔
حضرت آیتاللہ خامنہای نے ایک اور تاکید میں طلباء کو ہدایت کی کہ ملک کے بنیادی مسائل اور انقلاب و معاشرے کی عمومی حرکت سے متعلق امور پر قابلِ اعتماد فکری عناصر کے ساتھ فکری نشستیں منعقد کریں۔ اور فرمایا: مختلف میڈیا کے تجزیوں کی بنا پر تشویش اور تردد کا شکار نہ ہوں، بلکہ درست تحقیق کے ساتھ غلط باتوں پر غلبہ پائیں۔
آپ نے طلباء کی بعض تنقیدوں اور اعتراضات کی جڑ کو مسائل کے مختلف پہلوؤں سے لاعلمی قرار دیا، اور مثال دیتے ہوئے فرمایا: جیسے بعضوں نے "وعدہ صادق ۲" آپریشن کے وقت پر اعتراض کیا کہ فلاں وقت کیوں انجام نہیں دیا گیا اور اگر دیا جاتا تو فلاں واقعہ نہ ہوتا، یہ درست اعتراض نہیں ہے، کیونکہ ان امور کے ذمہ داران کی انقلاب سے محبت اور وابستگی ہم سے کم نہیں ہے، لہٰذا ان پر الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: وہ لوگ حساب و کتاب سے کام لیتے ہیں، اور اگر آپ ان کی جگہ ہوتے تو یہی کرتے۔ اس لیے دوسروں کو موردِ الزام بنانے سے پرہیز کریں، اور یہ احتمال دیں کہ فیصلوں میں درست محاسبات دخیل ہیں۔
آپ نے تنقید کے اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا: تنقید میں کوئی حرج نہیں، لیکن تنقید تہمت سے مختلف ہے۔ سوالات اور ابہام پیش کرنا کوئی غلط بات نہیں، بشرطیکہ جواب دینے کا موقع بھی فراہم کیا جائے۔ البتہ بعض سوالات ایسے ہوتے ہیں جن کا جواب دینا ممکن نہیں ہوتا، ایسی صورت میں ابہام بھی نہ اُٹھائیں اور مفروضات کو حقیقت نہ سمجھیں۔
حضرت آیتاللہ خامنہای نے مزید فرمایا: اختلاف ڈالنا، مایوس کرنا، اختلاف کا ماحول بنانا، فیصلہ سازوں کے بارے میں سامعین کو بدگمان کرنا، اور تعطل کی تصویر کشی کرنا، ان سب سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ بعض اوقات اعتراضات اس انداز میں پیش کیے جاتے ہیں کہ سننے والے کو لگتا ہے آگے کوئی راستہ ہی نہیں ہے، اور یہ انداز غلط ہے کیونکہ اس سے عوام میں ناامیدی پیدا ہوتی ہے، اور اس سے شدید پرہیز کرنا چاہیے۔
آپ نے مجازی فضا میں کیے گئے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیوں رہبر نے تمام وزیروں کے اعتماد کے ووٹ ملنے پر خوشی کا اظہار کیا، حالانکہ ان میں سے کچھ افراد معیاروں پر پورا نہیں اترتے؟ آپ نے فرمایا: طالبعلم کی فکر کا مرکز ایسے مسائل نہیں ہونے چاہییں بلکہ ملک کے اصل مسائل ہونے چاہییں۔ حکومت کا بروقت مکمل بن جانا اور تمام وزارتوں کا چل پڑنا ایک مثبت عمل ہے، کیونکہ اگر کسی وزیر کو اعتماد کا ووٹ نہ ملے تو وہ وزارت خانہ کافی مدت تک بغیر وزیر کے رہتا ہے، اور یہ اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہے کہ وہ وزیر جو بعض معیاروں پر پورا نہیں اترتا، اپنی ذمہ داری سنبھال لے، چاہے اس کی بعض خصوصیات ناپسندیدہ ہی کیوں نہ ہوں۔
رہبر انقلاب نے اپنی تقریر کے اختتامی حصے میں امریکہ سے مذاکرات کے بارے میں چند نکات بیان کیے۔
آپ نے پہلے نکتے میں امریکہ کے صدر کی طرف سے ایران کو مذاکرات اور معاہدے کی پیشکش اور خط بھیجنے کو، عالمی رائے عامہ کو فریب دینے کی کوشش قرار دیا اور فرمایا: یہ خط ابھی تک میرے ہاتھ نہیں پہنچا، لیکن امریکہ یہ جھوٹ پھیلانا چاہتا ہے کہ گویا ایران مذاکرات اور معاہدے کا خواہاں نہیں ہے، حالانکہ یہی شخص جس نے آج یہ باتیں کی ہیں، وہی ہے جس نے امریکہ سے ہونے والے ہمارے پچھلے مذاکرات کا نتیجہ خود ہی مسترد کر دیا۔ اب ہم کیسے دوبارہ اس سے مذاکرات کریں، جبکہ ہمیں علم ہے کہ وہ نتیجے پر عمل نہیں کرے گا؟
حضرت آیتاللہ خامنہای نے ایک اخبار میں شائع ہونے والے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اس میں لکھا تھا کہ "دو افراد کے درمیان جو حالتِ جنگ میں ہوں، اعتماد کا فقدان مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔" آپ نے فرمایا: یہ بات غلط ہے۔ کیونکہ مذاکرات کرنے والے بھی، اگر انہیں یقین نہ ہو کہ فریقِ مقابل گفت و شنید کے نتائج پر قائم رہے گا، تو وہ مذاکرات نہیں کریں گے، کیونکہ ایسی حالت میں مذاکرات بے معنی اور لاحاصل ہوتے ہیں۔
تیسرے نکتے میں آپ نے فرمایا: ابتدا سے ہی ہمارا مذاکرات کا مقصد پابندیاں ختم کرانا تھا، اور خوش قسمتی سے پابندیوں کے طویل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اثر بھی آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے۔
رہبر انقلاب نے مزید فرمایا: کچھ امریکیوں کا بھی ماننا ہے کہ پابندیاں جب طویل ہو جائیں تو ان کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ اور پابندیوں کا شکار ملک ان سے بچنے کا راستہ تلاش کر لیتا ہے — جیسا کہ ہم نے بھی مختلف طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔
آپ نے موجودہ مسائل کی جڑ زیادہ تر داخلی غفلتوں کو قرار دیا، اور فرمایا: اگر معیشت کی حالت خراب ہے، تو اس کی وجہ صرف پابندیاں نہیں ہیں، بلکہ کچھ ضروری اقدامات کا نہ ہونا بھی اس صورتحال میں مؤثر ہے۔
حضرت آیتالله خامنهای نے امریکیوں کے اُس بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ "ہم ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے نہیں دیں گے"، فرمایا: اگر ہم ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتے، تو امریکہ ہمیں روک نہیں سکتا تھا؛ یہ کہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں اور ہم اس کے پیچھے نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود اپنی ہی وجوہات کی بنیاد پر — جنہیں پہلے بیان کیا جا چکا ہے — اس قسم کے ہتھیار کو نہیں اپنایا۔
رہبر انقلاب نے ایک اور نکتہ میں امریکہ کی جنگی دھمکی کو غیر عاقلانہ قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا: حملے اور جنگ چھیڑنے کی دھمکی کوئی یکطرفہ معاملہ نہیں، ایران جوابی ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یقینا یہ عمل انجام دے گا۔
آپ نے مزید فرمایا: اگر امریکہ اور اس کے کارندے کوئی غلط اقدام کریں گے تو خود ہی کو زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔ البتہ ہم جنگ کے خواہاں نہیں ہیں، کیونکہ جنگ کوئی پسندیدہ چیز نہیں، لیکن اگر کسی نے اقدام کیا تو ہم قاطعانہ جواب دیں گے۔
رہبر انقلاب نے امریکہ کو زوال کی طرف گامزن ایک طاقت قرار دیتے ہوئے فرمایا: اقتصادی، خارجہ پالیسی، داخلی سیاست، سماجی مسائل اور دیگر شعبوں میں امریکہ کمزور ہوتا جا رہا ہے اور اب وہ ۲۰ سے ۳۰ سال پہلے والی طاقت نہیں رکھتا۔
حضرت آیتالله خامنهای نے اُن افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو اندرون ملک بار بار کہتے ہیں کہ "ہم مذاکرے کی میز پر کیوں نہیں بیٹھتے؟"، فرمایا: موجودہ امریکی حکومت سے مذاکرات، نہ صرف پابندیاں ختم نہیں کریں گے بلکہ پابندیوں کی گرہیں مزید سخت ہوں گی، دباؤ میں اضافہ ہوگا اور امریکہ کو نئی اور حد سے زیادہ مطالبات پیش کرنے کا موقع مل جائے گا۔
آپ نے اپنی گفتگو کے آخری نکتے میں فلسطین اور لبنان کی مزاحمت کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور پُرجوش قرار دیا اور فرمایا: ایرانی حکام، جن میں حکومت اور صدر بھی شامل ہیں، اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں تمام تر توانائی کے ساتھ فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کی حمایت کرنی چاہیے، اور انشاءالله ملت ایران مستقبل میں بھی، ماضی کی طرح، ظلم و استکبار کے خلاف مزاحمت کا علمبردار رہے گا۔
اس ملاقات کے آغاز میں ملک بھر کی طلبہ تنظیموں کے چھ نمائندوں نے، جن میں شامل تھے:
- مجتبی منگلی؛ دفتر تحکیم وحدت
- محمد اسدیان؛ مجمع اسلامی دانشجویان دانشگاه آزاد
- مهدی بزمه؛ بسیج دانشجویی
- محمدرضا مریمی؛ جنبش عدالتخواه
- ابوالفضل محمدی؛ جامعه اسلامی دانشجویان
- اور محترمہ ریحانه حسنقربان؛ ثقافتی طلبہ گروپ کی نمائندہ
نے اہم طلبہ اور ملکی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
طلبہ نمائندوں کی جانب سے آج سہ پہر رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات میں پیش کیے گئے نکات اور تجاویز میں مندرجہ زیل نکات شامل تھے:
- نظام کی کلی پالیسیوں اور "قوی ایران" کے نظریے پر ملکی سیاسی رجحانات اور سلیقوں کے درمیان اتفاق رائے کی ضرورت،
- گزشتہ دہائی کے تلخ تجربات کو دہرانے سے اجتناب اور ملکی مسائل کو امریکہ سے مذاکرات سے نہ جوڑنے کی تاکید،
- حکومت کی اقتصادی اور معیشتی پالیسیوں میں مستضعفین اور مزدوروں کو ترجیح دینے کی ضرورت،
- عوامی ذہن کو سماجی دوگانگیوں کے خاتمے میں اعتماد بخش جوابات کی ضرورت،
- یونیورسٹیوں میں ناامیدی اور کمزوری کے پرچار پر تنقید،
- آزاد اسلامی یونیورسٹی میں شعبہ طب کی فیسوں میں اضافے پر اعتراض،
- نجکاری کے حقیقی عمل اور حکومت کا نجی شعبے کے ساتھ مقابلے سے گریز کی ضرورت،
- عدلیہ کے لیے مقدمات کے سیاسی رنگ اختیار کرنے سے روکنے کی ضرورت،
- ثقافتی گروپوں کی سرگرمیوں کو، جو طلبہ کے درمیان ہمدلی کا محور ہیں، آسان بنانے کی ضرورت،
- عوام کی سیاسی و اقتصادی شمولیت کے قانونی بستر کو ہموار کرنے کی ضرورت،
- حکمرانی کے نئے تصورات کے نشو و نما کے لیے ملکی سیاسی جماعتوں میں تجدید اور نیا خون شامل کرنے کی ضرورت،
- ملکی وسائل کے استعمال میں کارکردگی (بہتر استفادہ) کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت۔
یہ وہ اہم نکات تھے جن پر طلبہ نمائندوں نے رہبر معظم کے ساتھ اپنی گفتگو میں روشنی ڈالی۔