ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

تینوں ارکان مملکت کے سربراہان اور مسئولین نظام سے ملاقات

معیشتی مسائل کا حل، ملک کا بنیادی ترین مسئلہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج شام تینوں ارکان مملکت کے سربراہان اور ملک کے مختلف سطحوں کے بڑی تعداد میں مسئولین اور منتظمین سے ملاقات میں رمضان المبارک کے حوالے سے انفرادی و اجتماعی خودفراموشی اور اس کے نتائج پر مبنی چند اہم نکات بیان کیے، اور ساتھ ہی اقتصادی حالات کی اصلاح اور عوام کی معیشت کی بہتری کو نہایت اہم قرار دیتے ہوئے، ان مواقع اور امور کی وضاحت کی جو پابندیوں سے متعلق نہیں، فرمایا: ارکان مملکت اور تمام ذمہ دار سطوح کا باہمی اتحاد و تعاون، زرِ مبادلہ کے نظام کی اصلاح، قومی کرنسی کی قدر کا تحفظ، پیداوار اور سرمایہ کاری کی ہمہ جہت حمایت، فیصلوں اور ان کے نفاذ میں سرعت عمل، منصوبوں کی تکمیل، فیصلہ نہ کرنے اور کاموں کے چھوڑ دیے جانے سے اجتناب، اور اسمگلنگ کے خلاف سنجیدہ جدوجہد، یہ سب امور تمام عہدیداران اور اداروں کی ترجیحات میں شامل ہونے چاہییں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات کے آغاز میں گزشتہ سال کی مسئولین نظام کے ساتھ ہونے والی نشست میں شہید رئیسی کی شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: وہ عزیز اب اپنی زحمتوں اور خدمات کے صلے میں، اللہ تعالیٰ کی رحمت اور لطف سے بہرہ مند ہو چکے ہیں، اور تمام ذمہ داران اگر اپنی ذمہ داری کو خدمت کا ایک عارضی موقع سمجھ کر دیکھیں، تو وہ بھی ایسے ہی لطف و کرم کے مستحق بن سکتے ہیں۔

رہبر انقلاب نے صدر محترم کی مفید اور اچھی گفتگو پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے جذبے اور احساسِ ذمہ داری کو نہایت قیمتی قرار دیا اور فرمایا: جنابِ پزشکیان کا اللہ پر اعتماد اور بڑے کاموں کو انجام دینے کی قابلیت پر زور دینا مکمل طور پر رہنما اصول ہے، اور ان‌شاءاللہ صدر محترم جلد ہی ان بڑے منصوبوں کی تکمیل کی نوید عوام کو دیں گے، اور قوم کو خوشحال کریں گے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ماہ رمضان کو ذکر کا مہینہ اور قرآن کو کتابِ ذکر قرار دیتے ہوئے فرمایا: ذکر، غفلت اور فراموشی کے مقابل ہے، اور ان غفلتوں میں "خود کو فراموش کرنا" اور "اللہ کو بھلا دینا" بہت زیادہ نقصان دہ اور ناقابل تلافی ہیں۔

انہوں نے قرآن کی ان آیات کی طرف اشارہ کیا جن میں اللہ کو فراموش کرنے کے نتائج بیان کیے گئے ہیں اور فرمایا: اگر انسان اللہ کو بھلا دے، تو اللہ بھی اسے بھلا دیتا ہے؛ یعنی وہ اسے اپنی رحمت اور ہدایت کے دائرے سے نکال کر بے اعتنائی کے ساتھ، ذلیل و خوار اور خود پر چھوڑا ہوا بنا دیتا ہے۔

رہبر انقلاب نے "خود کو بھلا دینے" کو انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں سے نہایت نقصان دہ قرار دیا اور مزید فرمایا: انسان کی تخلیق کا مقصد جو کہ خلافتِ الٰہی تک پہنچنا ہے، اسے فراموش کر دینا، اور موت کو بھلا کر اس کے لیے تیار نہ ہونا، "خودفراموشی کے انفرادی پہلوؤں" میں شامل ہے، جس سے ذکر، دعا، عاجزی، تقویٰ اور عبادت کے ذریعے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے "خود کو یاد رکھنا" کو اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کا باعث قرار دیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے عظمت والے حضور میں بہانے نہیں چلتے، اور ہر قول و فعل کے لیے معقول جواب نہ ہونا، انسان کو ذلت کی طرف لے جاتا ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوال و جواب، حکام کے لیے عام لوگوں کی نسبت زیادہ سخت ہے اور فرمایا: ہمیں، حکام کو، اپنی باتوں، رویوں اور کارکردگی پر شدت سے نگاہ رکھنی چاہیے اور ذکر، دعا، توسل اور عاجزی کا سہارا لینا چاہیے۔

انہوں نے اجتماعی خودفراموشی کے خطرناک پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے، سورۂ توبہ کی ایک ہلا دینے والی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر اسلامی جمہوری نظام میں ہم بھی سابقہ طاغوتی حکام کی طرح عمل کریں، تو یہ بہت بڑا اور سنگین جرم ہو گا، جس کا بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔

رہبر انقلاب نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے لطف سے اب تک ہم اس صورت حال میں مبتلا نہیں ہوئے ہیں، لیکن ہمیں خوف زدہ ہونا چاہیے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اجتماعی خودفراموشی کی بیماری میں مبتلا نہ ہو جائیں، تاکہ اپنی شناخت، انقلاب کے فلسفے اور نظام کی ساخت کو نہ بھولیں، اور داخلی و خارجی سیاست، ملک کے انتظامات اور بیگانوں پر تکیہ کرنے میں طاغوتی حکام جیسا رویہ اختیار نہ کریں۔

انہوں نے نظام کی ساخت کو قرآنی اصولوں، کتاب و سنت کے اہداف اور اسلامی معیاروں پر مبنی قرار دیتے ہوئے فرمایا: اسی بنیاد پر ہم مغربی تمدن کے پیروکار نہیں بن سکتے؛ البتہ دنیا کے کسی بھی حصے میں، حتیٰ کہ مغربی تمدن میں کوئی خوبی ہو تو ہم اس سے استفادہ کریں گے، لیکن ہم مغربی بنیادوں اور معیاروں پر انحصار نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ غلط اور اسلامی اقدار کے مخالف ہیں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مغربی تمدن کی رسوائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: استعمار، قوموں کے وسائل کی لوٹ مار، وسیع پیمانے پر قتل و غارت، انسانی حقوق اور خواتین کے بارے میں جھوٹے دعوے، اور مختلف مسائل پر دوغلے معیار، مغربی دنیا کی اصل حقیقت کو آشکار کرتے ہیں۔

انہوں نے فرمایا: مغرب میں "آزادانہ اطلاعات کا تبادلہ" محض ایک جھوٹ ہے، جیسا کہ مغرب کے زیر کنٹرول ورچوئل اسپیس میں سردار سلیمانی، سید حسن نصراللہ، شہید ہنیہ اور بعض دیگر عظیم شخصیات کا نام لینا ممکن نہیں، اور فلسطین و لبنان میں صہیونی جرائم کی مذمت بھی نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے ایران کی صورت حال کے بارے میں مغربی میڈیا کے جھوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان میڈیا اداروں میں کون سا ایسا ہے جو علمی پیشرفتوں، عظیم عوامی اجتماعات اور ملت و اسلامی نظام کی کامیابیوں کا ذکر کرتا ہو؟ جب کہ معمولی کمزوریوں کو دس گنا بڑا کر کے پیش کرتے ہیں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بعض مغربی ماہرینِ سماجیات کے اقوال کی روشنی میں فرمایا: مغربی تمدن روز بروز زوال کی طرف بڑھ رہا ہے، اور ہمیں اس کی پیروی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے دشمنوں کے تمام منفی پروپگنڈے کے باوجود ملت کی بڑھتی ہوئی عزت و سربلندی کو ایک حقیقت قرار دیا اور فرمایا: اگر نظام کے حکام، نظام کی شناخت اور ساخت کو محفوظ رکھتے ہوئے درست راستہ اختیار کریں، اور وہی منصوبے جن کا صدر محترم نے ذکر کیا، عملی جامہ پہنیں، تو ملک اور عظیم ایرانی قوم اور بھی زیادہ معزز ہو جائے گی، اور ہم دیگر اقوام بلکہ بعض ممالک کے حکمرانوں کے لیے بھی ایک نمونہ بن سکتے ہیں۔

حضرت آیت‌الله خامنہ‌ای نے اپنے خطاب کے اس حصے میں جو ملکی امور سے متعلق تھا، دہہ ۹۰ (2009) کے آغاز سے لے کر اب تک موجود اقتصادی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن کی اکثر دھمکیوں، بشمول سلامتی اور انٹیلیجنس کے میدان میں دی جانے والی دھمکیوں، کا ہدف عوام کی معیشت پر اثر انداز ہونا ہے، اور فرمایا: ان کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عوام کی معیشت کو سنبھالنے میں ناکام ہو جائے؛ لہٰذا معیشت کا مسئلہ نہایت اہم ہے اور اس کی اصلاح کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔

انہوں نے پابندیوں کو اقتصادی مسائل کے اسباب میں سے ایک قرار دیتے ہوئے فرمایا: پابندیاں یقیناً بعض مسائل کا سبب ہیں، لیکن ساری بات صرف پابندیوں پر ختم نہیں ہوتی، بعض مشکلات ایسی ہیں جن کا پابندیوں سے کوئی تعلق نہیں۔

حضرت آیت‌الله خامنہ‌ای نے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے بعض ضروری اقدامات اور رویّوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: حکومتی اداروں کے اندرونی اتحاد، چاہے وہ خود حکومت کے اندر ہو یا تینوں ارکان مملکت کے درمیان تعاون کی صورت میں ہو، ان امور میں سرفہرست ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے فرمایا: امور میں پیش رفت کی پہلی شرط "اتحاد" ہے، اور خوش قسمتی سے آج اعلیٰ سطح پر اچھا اتحاد موجود ہے، جسے نچلی سطحوں اور سرکاری ڈھانچے میں بھی فروغ دینا چاہیے۔

انہوں نے "تیزی سے عمل درآمد" کو اقتصادی امور میں نہایت مؤثر عنصر قرار دیتے ہوئے، خیالات اور منصوبوں سے لے کر فیصلے، عمل درآمد، اور نتیجہ خیزی کے درمیان موجود سستی اور طوالت پر تنقید کی، اور فرمایا: یہ مسئلہ زیادہ تر اس وجہ سے ہوتا ہے کہ امور کی صحیح طریقے سے پیروی نہیں کی جاتی۔ اسی لیے ہمارا صدر مملکت اور دیگر ذمہ داران کو ہمیشہ سے یہ مشورہ رہا ہے کہ کاموں کی مسلسل پیروی کریں، ان کی نگرانی کریں، اور انہیں مختلف مراحل میں ادھورا نہ چھوڑیں۔

رہبر انقلاب نے بعض حکام میں پائے جانے والے اس تصور کو کہ "بے خطر ترین کام یہ ہے کہ کوئی فیصلہ ہی نہ کیا جائے"، نہایت خطرناک قرار دیا اور فرمایا: اگر کوئی منتظم اپنے فیصلوں پر گرفت سے ڈرتے ہوئے کوئی فیصلہ نہ کرے تو یہ ایک غلط رویہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی بازخواست کا مستحق ہے؛ کیونکہ پروردگار صرف کیے گئے افعال ہی نہیں بلکہ ترک کئے گئے کاموں (ترکِ فعل) کا بھی حساب لیتا ہے۔

حضرت آیت‌الله خامنہ‌ای نے اقتصادی مسائل کے حل میں ایک اور مؤثر عامل کو "ملک کی صلاحیتوں کی شناخت" قرار دیتے ہوئے فرمایا: بارہا یہ کہا گیا ہے کہ ملک بے شمار صلاحیتوں اور استعدادوں کا حامل ہے، لیکن اس کی گہرائی پر غور نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے نوجوانوں، ان کی حیرت انگیز تخلیقی صلاحیتوں اور مختلف اقتصادی، سائنسی و تحقیقی شعبوں میں ان کی جدت طرازی، اور ساتھ ہی علم و ٹیکنالوجی میں ترقی کو ملک کے بڑے وسائل میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: ایک اور اہم صلاحیت ہمارے قدرتی ذخائر ہیں، جن میں تیل اور معدنی وسائل شامل ہیں، جو دنیا کے سب سے برتر اور مالا مال قدرتی وسائل میں سے ہیں، اور ان میں سے بہت سے ذخائر اب تک دریافت یا استعمال میں نہیں لائے گئے۔

رہبر انقلاب نے "دو طرفہ اسمگلنگ" کے مسئلے کو اقتصادی کمزوریوں میں سے ایک اور نقصان دہ عامل شمار کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم اسمگلنگ کے خلاف سنجیدگی سے فیصلے، ان پر عمل، پیروی اور موجودہ صلاحیتوں کے استعمال میں سنجیدگی نہ دکھائیں تو اس کا تعلق پابندیوں سے نہیں ہے۔

ایک اور ترجیح جس کی طرف رہبر انقلاب نے اقتصادی مسائل کے تناظر میں اشارہ کیا، وہ تھا: "ملکی زرِ مبادلہ کے نظام کی اصلاح"، خاص طور پر "قومی کرنسی کو مضبوط بنانا"۔

انہوں نے قومی کرنسی کی قدر کو "واجب اور نہایت ضروری" قرار دیتے ہوئے فرمایا: اس کا تعلق نہ صرف عوام کی زندگی کو بہتر بنانے، ان کی خریداری کی طاقت بڑھانے، بلکہ ملک کی عزت اور ساکھ بڑھانے سے بھی ہے۔ انہوں نے فرمایا: اس حوالے سے "برآمدات سے حاصل شدہ زرِ مبادلہ کی وصولی" نہایت اہم ہے۔

حضرت آیت‌الله خامنہ‌ای نے شہید رئیسی کے اُس منصوبے کی طرف اشارہ کیا، جس میں انہوں نے بڑی بڑی سرکاری کمپنیوں کو، جن کے پاس زرِ مبادلہ کی آمدنی موجود ہے، ملک کے بعض علاقوں میں بڑے آبی، ریفائنری اور توانائی کے منصوبوں پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کا ارادہ کیا تھا، اور فرمایا: البتہ ان کمپنیوں کی طرف سے ان کو جو رپورٹ پیش کی گئی تھی، وہ بے بنیاد اور بے کار تھی، اور یہ ہرگز قابلِ قبول نہیں کہ سرکاری کمپنیوں کی زرِ مبادلہ آمدنی حکومت اور مرکزی بینک کے اختیار میں نہ ہو۔ اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی مناسب تدبیر اپنائی جانی چاہیے۔

انہوں نے "پیداوار پر توجہ" کو ملکی معیشت کی ایک اور ترجیح قرار دیا اور فرمایا: قانونی پشت پناہی، پیداواری وسائل کی فراہمی، رکاوٹوں اور بے فائدہ ضوابط کا خاتمہ، اور پیداواری ٹیکنالوجی کی بہتری ضروری اقدامات میں شامل ہیں۔ اسی طرح عوام اور خاص طور پر سرکاری اداروں کو اس بات کا پابند بنایا جانا چاہیے کہ اپنی ضروریات کو اندرونِ ملک کی پیداوار سے پورا کریں، اور جس چیز کی ملکی سطح پر پیداوار موجود ہو، وہ بیرونِ ملک سے نہ منگوائی جائے اور نہ استعمال کی جائے۔
 

سرمایہ کاری کا مسئلہ اقتصادی امور کے ضمن میں آخری نکتہ تھا جس کی طرف رہبر معظم انقلاب نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پابندیوں کا ایک مقصد بیرونی سرمایہ کاری کو روکنا ہے، تاہم اس کے لیے بھی راہیں موجود ہیں۔

انہوں نے مزید فرمایا: داخلی سرمایہ کاری میں اضافے کا سب سے اہم عامل یہ ہے کہ سرمایہ کار کے لیے امور کو آسان بنایا جائے، تاکہ وہ محسوس کرے کہ سرمایہ کاری اس کے لیے مفید اور نفع بخش ہے۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں وزارت خارجہ کی فعالیت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اور ہمسایہ و دیگر ممالک کے ساتھ روابط کے فروغ پر زور دیتے ہوئے فرمایا: بعض بیرونی حکومتیں اور متکبر شخصیات مذاکرات پر اصرار کرتی ہیں، حالانکہ ان کا مقصد مسائل کا حل نہیں ہوتا، بلکہ وہ مذاکرات کو اپنی مرضی کی شرائط مسلط کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں، تاکہ اگر فریق مقابل ان کی بات مان لے تو بہتر، ورنہ وہ ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں اور اسے مذاکرات سے انکار کا الزام دیتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: ان کا مسئلہ صرف جوہری مسئلہ نہیں ہے، بلکہ مذاکرات ان کے لیے ایک ذریعہ ہے تاکہ وہ اپنی نئی توقعات پیش کر سکیں، جیسے دفاعی صلاحیتوں، بین الاقوامی طاقتوں اور اس جیسے دیگر امور پر مطالبات کریں؛ جیسے یہ نہ کرو، فلاں سے ملاقات نہ کرو، میزائل کی رینج اتنی نہ ہو — اور ظاہر ہے کہ ایران ان مطالبات کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا۔

انہوں نے فریق مقابل کے بار بار مذاکرات کی دعوت کا مقصد عوامی رائے پر دباؤ ڈالنا قرار دیا اور فرمایا: وہ چاہتے ہیں عوام کے ذہنوں میں شک پیدا کریں کہ جب وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں تو ہم کیوں نہیں مانتے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا مقصد مذاکرات نہیں بلکہ تکبر اور زبردستی ہے۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے تین یورپی ممالک کے اس بیان کی طرف اشارہ کیا جس میں ایران پر جوہری معاہدے (برجام) کے وعدوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا، اور فرمایا: ان سے پوچھنا چاہیے کہ کیا خود انہوں نے برجام میں کیے گئے وعدوں پر عمل کیا؟ انہوں نے شروع دن سے اپنے وعدے پورے نہیں کیے، اور جب امریکہ برجام سے نکل گیا، تو انہوں نے اسے پورا کرنے کے جو وعدے دیے تھے، وہ بھی دو بار توڑ دیے۔

رہبر انقلاب نے یورپیوں کی بدعہدی اور ساتھ ہی ایران پر الزام تراشی کو ان کی انتہائی بے شرمی کی علامت قرار دیا اور فرمایا: اُس وقت کی حکومت نے ایک سال تک اس صورتحال کو برداشت کیا، پھر مجلس شورای اسلامی (پارلیمنٹ) میدان میں آئی اور ایک قرارداد منظور کی، جس کے سوا کوئی اور راستہ موجود نہ تھا، اور آج بھی زور و زبردستی کے مقابلے میں کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

اس دیدار کے آغاز میں صدرِ محترم نے داخلی وحدت اور نظام کی ترقی کے وژن تک پہنچنے کے لیے حکومت کے تازہ اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ پانچ اہم اقتصادی پروگراموں پر عملدرآمد شروع کیا جا چکا ہے، اور فرمایا: ’’پیداوار میں اضافہ‘‘، ’’مہنگائی پر قابو‘‘، ’’معاشی مسائل کا حل‘‘، ’’مالیاتی توازن کی بحالی‘‘، اور ’’قومی اور اسٹریٹجک منصوبوں کا نفاذ‘‘ حکومت کے عمل منصوبوں میں موجود ہیں۔

جناب پزشکیان نے ملک کے بعض علاقوں میں بجلی اور گیس کی بندش کو سنگین بحرانوں سے بچاؤ کی ایک تدبیر قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ آئندہ سال توانائی کے شعبے میں موجود توازن کی کمی کو پروگرام کے مطابق ختم کر دیا جائے گا۔

صدرِ مملکت نے ہمسایہ ممالک اور بیرون ملک مقیم ایرانیوں کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے چودہویں حکومت کو اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی پشت پناہ قرار دیا، اور ملک میں چند بڑے سرمایہ کاری منصوبوں کی تیاری کی بھی اطلاع دی۔

جناب پزشکیان نے خارجہ پالیسی میں ’’عزت، حکمت اور مصلحت‘‘ کے اصولوں پر تاکید کرتے ہوئے قومی یکجہتی کو دشمنوں کی ہر قسم کی دھمکی کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا اور فرمایا: کوئی طاقت ایسی قوم کو شکست نہیں دے سکتی جو خدا پر بھروسا رکھتی ہو اور اپنے رہبر کے پیچھے متحد ہو کر آگے بڑھتی ہو۔

صدرِ مملکت نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ماہِ مبارک رمضان کے حوالے سے چند نکات بیان کرتے ہوئے اس مہینے کو ’’عدل کے نفاذ کی اہمیت، ظلم سے پرہیز، صداقت، مصیبت زدہ افراد کی خبرگیری، لوگوں کے درمیان اصلاح، اور ظلم و فساد کے خاتمے‘‘ کی یاد دہانی کا موقع قرار دیا، اور فرمایا: دینی متون صرف پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ عمل کرنے کے لیے ہیں، اور اس کے لیے اتحاد، ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور عوام و حکام کی باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔

 

700 /