رهبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال کے پہلے دن مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد سے ملاقات میں ایرانیوں کی اس روایت کو کہ وہ نئے سال کا آغاز دعا، توسل اور متبرک مقامات پر اجتماع کے ساتھ کرتے ہیں، ملت کی عیدِ نوروز کے حوالے سے روحانی نگاہ کا مظہر قرار دیا۔ آپ نے تاریخ میں محاذِ حق کی بڑی کامیابیوں میں دعا اور استقامت کے اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے، گزشتہ سال کو صبر، استقامت اور ملت ایران کی روحانی طاقت کے ظہور کا سال قرار دیا اور پوری قوم کے لیے بابرکت سال کی آرزو کے ساتھ، سال کے شعار یعنی "پیداوار کے لیے سرمایہکاری" کی تحقق اور اقتصادی و معیشتی حالات کی بہتری کے لیے عوام اور حکومت کی ذمہداریوں کو بیان کیا۔
حضرت آیتالله خامنهای نے اس کے علاوہ صیہونی ظالم و بےرحم رژیم کے جرائم سے اقوامِ عالم کی عمومی نفرت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، عظیم ملت ایران کے مقابل دھمکی کی زبان کو ناکام اور بےثمر قرار دیا اور فرمایا: اقوام اور محاذِ مقاومت کے مراکز، منجملہ ملت فلسطین، لبنان اور یمن، داخلی و ایمانی محرکات کے ساتھ صیہونی فاسد و فاسق رژیم کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
رہبر انقلاب نے اپنی گفتگو کے آغاز میں دشمنوں کی جانب سے ملت کو معنویات سے دور کرنے کی کوشش میں ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ان ایام کو امیرالمؤمنینؑ سے منسوب قرار دیا جو عدالت، تقویٰ اور ایثار کی بلند چوٹی ہیں۔ آپ نے مزید فرمایا: ملت ایران اور دیگر مسلم اقوام، حضرت علیؑ کی زندگی کے اسباق سے استفادہ کے لیے نہجالبلاغہ کی طرف رجوع کریں، اور ثقافتی میدان کے فعال افراد اس عظیم کتاب کے مطالعہ اور اس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں۔
آپ نے شب ہائے قدر کو دعا اور درِ حق پر تضرع کے لیے قیمتی موقع قرار دیا اور فرمایا: ان راتوں کا ہر لمحہ ایک عمر کے برابر قدر رکھتا ہے، اور اہلبیتؑ سے توسل اور عوام، خاص طور پر نوجوانوں کی دعا، ان کی زندگی اور پوری قوم کی تقدیر کو بدل سکتی ہے۔
رہبر انقلاب نے قرآنی آیات کی بنیاد پر دعا کی اجابت اور اس کے دنیاوی و اخروی اثرات کو یقینی قرار دیتے ہوئے فرمایا: البتہ اس شرط کے ساتھ کہ ہم خود اپنے عمل سے اس دعا کی اجابت میں کوئی رکاوٹ نہ بنیں۔
رہبر انقلاب نے انبیاء کے طرزِ عمل کو مشکلات کے مقابلے میں "توسل، دعا اور استقامت" قرار دیا اور فرمایا: خداوندِ متعال نے حضرت موسیؑ کی دعا کی اجابت کو استقامت، صبر اور امید سے مشروط کیا، اور آخرکار بنیاسرائیل جنہوں نے فرعونیوں کے مسلسل ظلم سے تنگ آ کر سختیاں برداشت کیں، اپنی آنکھوں سے ان کے زوال کو دیکھا۔
حضرت آیتالله خامنهای نے جبهۂ حق کی جانب سے جبهۂ باطل کے ساتھ جدوجہد میں ہمیشہ کے لیے موجود اخراجات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں سال ۱۴۰۳ کے واقعات کو اس نگاہ سے دیکھنا چاہیے کہ حق اور باطل کی جنگ میں فتح ہمیشہ جبهۂ حق کا مقدر ہے، مگر اس راستے میں قربانی دینا پڑتی ہے، جیسا کہ دفاعِ مقدس کے دوران بھی یہ سنت الٰہی جاری رہی۔
آپ نے گزشتہ سال کے دوران ایرانی اور لبنانی عظیم شخصیات کے فقدان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، ان تلخ حادثات پر صبر اور "پروردگار سے مدد طلب کرنے" کا یقینی نتیجہ دشمنوں، خصوصاً فاسق، فاسد اور خبیث صیہونی رژیم کی شکست قرار دیا اور تاکید فرمائی: سالِ دشوار ۱۴۰۳ میں ملت کی روحانی طاقت، صبر، شجاعت اور دلیری درخشاں طریقے سے آشکار ہوئی۔
حضرت آیتالله خامنهای نے شہید رئیسی کے جنازے کی حماسی وداعی تقریب، دشمن کی دھمکیوں کے باوجود نماز جمعہ نصر میں بےمثال شرکت، صدارتی انتخابات میں پُرجوش شرکت، اور شہید ہنیہ و دیگر شہداء کے جنازوں کی پرمعنی تشییع کو ملت کی روحانیت اور طاقت کے مظاہر شمار کیا اور فرمایا: تاریخی ۲۲ بہمن کی ریلی اس تسلسل کی انتہاء تھی، جس نے ملت ایران کی اسلامی انقلاب سے وفاداری اور اسلامی جمہوریہ سے محبت کو دنیا کے تمام سرکشوں اور منافقوں پر آشکار کیا، اور ملت ایران کو دنیا کے سامنے نمایاں کر دیا۔
آپ نے ملک کے اندر بھی ملت کی شناخت اور اس کی خصوصیات کو سمجھنے کو ضروری قرار دیا اور فرمایا: اقتصادی اور معیشتی مشکلات کی گرفت میں آ کر کوئی بھی قوم افسردہ اور ناامید ہو سکتی ہے، مگر باوقار اور بہادر ملت ایران نے، تمام تر مشکلات کے باوجود، گزشتہ سال میدان میں قدم رکھا اور نظامِ اسلامی کا دفاع کیا۔
رہبر انقلاب نے طبس کے کان کنی حادثے میں ۵۰ سے زائد کان کنوں کی جان جانے کو سال ۱۴۰۳ کے تلخ واقعات میں شمار کرتے ہوئے، عوام کی عمرانی، آبادانی اور ترقی کے میدان میں جدوجہد کے بارے میں فرمایا: عوام اور اقتصادی سرگرم کارکنوں نے اس میدان میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، اور حالیہ چند مہینوں میں چھوٹے بڑے کئی منصوبے افتتاح ہوئے ہیں، جن کا تسلسل اور وسعت ضروری ہے۔
حضرت آیتالله خامنهای نے گزشتہ سالوں کے نعروں میں پیداوار کے موضوع کو بار بار مرکزِ توجہ بنانے کی علت، اقتصادی حالات کی بہتری اور عوام کی معیشت پر اس کے بنیادی اثر کو قرار دیا، اور نئے سال کے شعار یعنی "پیداوار کے لیے سرمایہکاری" کے تحقق میں عوام اور تینوں قوا، خاص طور پر حکومت، کی ذمہداریوں کو بیان کیا۔
آپ نے ان افراد پر تنقید کرتے ہوئے جو پیداوار میں سرمایہگذاری کے سننے پر فوراً غیرملکی سرمایہکاری کی جانب ذہن لے جاتے ہیں، فرمایا: ہماری مراد داخلی سرمایہکاری اور عوام کے ہاتھوں میں موجود نقدینگی کو پیداوار کی سمت موڑنا ہے، جو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج زیادہ تر سونے، کرنسی اور زمین کی خریداری میں صرف ہو رہی ہے اور مسائل کا باعث بن رہی ہے۔
رہبرِ انقلاب نے پیداوار کے میدان میں ہر قسم کی چھوٹی اور بڑی سرمایہکاری کو مفید اور ضروری قرار دیا اور فرمایا: تمام لوگ، خواہ وہ محدود سرمائے اور وسائل کے حامل ہوں اور چھوٹے پیمانے پر پیداوار کا آغاز کرنا چاہتے ہوں، یا بڑے اقتصادی فعال افراد ہوں، اپنی املاک کو پیداوار میں لگائیں۔
حضرت آیتالله خامنهای نے عوامی سرمایہکاری کے لیے زمینہسازی اور سہولت فراہم کرنے کو، سال کے شعار کی تحقق کے راستے میں، حکومت کی سب سے اہم ذمہداری قرار دیا اور فرمایا: سرمایہکاری کو تحفظ اور سیکیورٹی کی ضمانت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میدان میں تینوں قوایں پوری طرح سرگرم اور سنجیدہ ہوں۔
آپ نے نظارت کے مسئلے میں افراط و تفریط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض اوقات "اداروں، حکومت اور عدلیہ" کی نظارتی فورسز کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا، اور بعض اوقات اتنی سختی کی جاتی ہے کہ عملی طور پر کوئی کام انجام نہیں پاتا۔
حضرت آیتالله خامنهای نے "قوانین و ضوابط کا استحکام" اور "کاروباری اجازت ناموں کے اجرا کا عمل مختصر ہونا" کو شعار سال کی تحقق کے لیے دو ضروری اقدامات قرار دیا اور فرمایا: حکومت ان ذمہداریوں کی انجام دہی میں تیزی دکھائے۔
رہبر انقلاب نے "ملکی پیداوار سے مشابہ مصنوعات کی درآمدات کی روک تھام" اور "سرمایہکاری کے راستوں کو عوام کے سامنے حکام اور اقتصادی فعال افراد کی زبانی واضح کرنا" کو دو مزید ضروری اقدامات شمار کیا اور فرمایا: ملک کے حکام عوام کی معیشتی حالت بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہیں، مگر یہ مسئلہ صرف حمایتی اقدامات سے حل نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے بنیادی کاموں کی ضرورت ہے جن میں سے ایک سرمایہکاری ہے۔
آپ نے اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں امریکی حکام کے متعدد بیانات کے بارے میں چند نکات بیان کیے۔
حضرت آیتالله خامنهای نے زور دے کر فرمایا کہ امریکیوں کو جان لینا چاہیے کہ ایران کے ساتھ معاملے میں وہ کبھی دھمکی کے ذریعے کسی مقام تک نہیں پہنچ سکیں گے، اور فرمایا: وہ اور ان کے علاوہ دوسرے بھی جان لیں کہ اگر ملت ایران کے ساتھ کسی قسم کی خباثت کریں گے تو انہیں سخت طمانچے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آپ نے ایک اور نکتہ بیان کرتے ہوئے، امریکی اور یورپی سیاستدانوں کی طرف سے مراکزِ مقاومت کو ایران کے نیابتی گروہ کہنا ایک بڑی غلطی اور ان گروہوں کی توہین قرار دیا اور فرمایا: نیابتی کا کیا مطلب؟ ملتِ یمن اور خطے کے مقاومت کے مراکز صیہونیوں کے مقابلے میں ایستادگی کے لیے اندرونی محرکات رکھتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کو کسی نائب کی ضرورت نہیں، ہمارا موقف اور ان کا موقف سب پر واضح ہے۔
رہبر انقلاب نے صیہونی رژیم کی خباثتوں اور ظلم کے مقابلے میں استقامت اور مزاحمت کو اس خطے میں ایک راسخ امر قرار دیا اور فرمایا: فلسطین کے مسئلے کے آغاز میں بھی ان ملکوں میں سے ایک جو ظلم کے خلاف صفِ اول میں تھا، یمن تھا، کہ اُس وقت کے یمن کے حاکم نے ایک بین الاقوامی اجتماع میں شرکت کرتے ہوئے فلسطین کے قبضے کی مخالفت کی تھی۔
حضرت آیتالله خامنهای نے صیہونی ظالم رژیم کے جرائم کے خلاف غیر مسلم اقوام کے درمیان بڑھتے ہوئے احتجاجات، اور امریکہ و یورپی ممالک میں عوامی اور طلبہ مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغربی حکمران ان حقائق کو دیکھنا نہیں چاہتے اور اپنے عوام کے مؤقف کو سمجھنے سے انکاری ہیں؛ لہٰذا وہ ان یونیورسٹیوں کی مالی امداد منقطع کرنے جیسے اقدامات کی طرف جاتے ہیں جہاں کے طلبہ نے فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے، حالانکہ یہ ان کے "آزادی اطلاعات، لبرل ازم اور انسانی حقوق" کے دعووں کا ایک اور حقیقی چہرہ ہے۔
آپ نے اقوام کی طرف سے صیہونی رژیم کی خباثتوں کے خلاف مخالفت اور ہر ممکن شکل میں مقاومت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران بھی ان خباثتوں کے مقابلے میں مضبوطی سے کھڑا ہے اور اپنے ہمیشہ کے موقف و طرزعمل کو صراحت سے بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے وطن کے دفاع میں فلسطینی اور لبنانی مجاہدین کی حمایت کرتا ہے۔
رہبرِ انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر ایران کے بدخواہوں کی دھمکیوں کے جواب میں تاکید فرمائی: ہم نے کبھی کسی سے جھگڑے یا تصادم کی ابتداء نہیں کی، لیکن اگر کسی نے خباثت کے ساتھ تصادم شروع کیا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ سخت منہ توڑ جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔