رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال کی پہلی ملاقات میں، جو اعلیٰ سطحی تینوں شعبوں کے سربراہان کے ساتھ منعقد ہوئی، "پیگیری" (پیروی و عمل درآمد) کو ملک کے اہداف کی تکمیل کی گمشدہ کڑی قرار دیا اور سال کے شعار کی عملی تکمیل کو تینوں شعبوں کا مشترکہ ایجنڈا قرار دیا۔
آپ نے اس بات پر بھی تاکید فرمائی کہ عمان میں جاری مذاکرات کے نتائج کے بارے میں حد سے زیادہ خوشبینی یا بدبینی سے پرہیز کیا جائے اور فرمایا: ملک کی سرگرمیوں کا عمل تمام شعبوں میں اہداف کے حصول کے لیے مزید تیز رفتاری سے جاری رہنا چاہیے اور کسی بھی چیز کو مذاکرات کے نتائج سے مشروط نہیں کیا جانا چاہیے۔
حضرت آیت اللہ خامنہای نے اس ملاقات میں " پیروی" کو فیصلے سے زیادہ اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا: ملک میں اچھے قوانین، ضوابط اور ضروری منصوبے موجود ہیں، لیکن پیروی کی کمی مطلوبہ اہداف کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہے۔
آپ نے ایندھن کے ضرورت سے زیادہ استعمال، تعلیمی انصاف کی عدم تکمیل اور کمزور طبقات کے مسائل جیسے امور کو پیگیری سے قابل حل قرار دیا اور فرمایا: تینوں شعبوں کے سربراہان اور اداروں کے ذمے داروں کا جذبہ اور لگن اچھی بات ہے لیکن ناکافی ہے، اور پیگیری کی کمی کے سبب، ان کی تاکیدات اور فیصلے انتظامی زنجیروں میں کمزور پڑ جاتے ہیں اور اکثر اوقات نافذ نہیں ہو پاتے۔
رہبر انقلاب نے توانائی کے وسائل کے استعمال میں کفایت شعاری کو ایک بنیادی ضرورت قرار دیا اور تاکید فرمائی: عوام سے پہلے، حکومتی اداروں کو ــ جو توانائی کے سب سے بڑے صارفین ہیں ــ اس کفایت شعاری کا عادی بننا چاہیے، اور یہ بھی ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے پیروی ضروری ہے۔
آپ نے سال کے شعار کی تکمیل کو تینوں شعبوں اور اداروں کا مشترکہ ایجنڈا قرار دیا اور فرمایا: اگر پیداوار میں سرمایہ کاری کی جائے، تو ملک بہت سے مسائل سے نجات پا سکتا ہے؛ چنانچہ وزارتِ اقتصاد، مرکزی بینک اور متعلقہ ادارے چاہیے کہ معاشرے میں موجود سرمایہ اور پیسے کو پیداوار میں سرمایہ کاری کی طرف منتقل کریں۔
حضرت آیتالله خامنہای نے پیداوار میں سرمایہ کاری کو باعث افتخار عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا: سرمایہگذاری کا تحفظ بھی فراہم کیا جانا چاہیے اور اقتصادی سرگرم افراد کے لیے پیداوار کے میدان میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے۔
آپ نے تینوں شعبوں، بالخصوص حکومت کی کوششوں کو سال کے نعرے کی تکمیل کے لیے زمینہساز قرار دیا اور فرمایا: اگر مقامی سرمایہ کاری کو فروغ ملے، تو بیرونی سرمایہگذار بھی ایران میں سرمایہ کاری کے لیے شوق و رغبت کا مظاہرہ کرے گا۔
رہبر انقلاب نے پیداوار میں سرمایہ کاری کو پابندیوں کا بہترین مقابلہ قرار دیا اور فرمایا: پابندیوں کا خاتمہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن ان کو بے اثر کرنا ہمارے اختیار میں ہے؛ اور اس کام کے لیے بے شمار راستے اور اندرونی صلاحیتیں موجود ہیں؛ اگر یہ ہدف حاصل ہو جائے تو ملک پابندیوں کے مقابلے میں ناقابلِ آسیب بن جائے گا۔
آپ نے ہمسایہ ممالک، ایشیائی اقتصادی قطبوں، افریقا اور دیگر ممالک سے تعلقات کے فروغ کو اہم قرار دیا اور فرمایا: یہ عمل بالخصوص درمیانی سطح پر کچھ روّیوں کی تبدیلی کے لیے پیگیری کا محتاج ہے۔
حضرت آیتالله خامنہای نے صدرِ جمہوریہ کے دیگر ممالک کے سربراہوں سے رابطوں اور وزارت امور خارجہ کی سرگرمیوں کو بہت مفید اور مؤثر قرار دیا۔
آپ نے عمان مذاکرات کو وزارت امور خارجہ کے درجنوں کاموں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے تاکید کی: ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے مشروط نہیں کیا جانا چاہیے اور جو غلطی ہم نے ماضی کے ایٹمی مزاکرات میں کی کہ تمام امور کو مذاکرات کی پیشرفت سے مشروط کر دیا، وہ دہرائی نہ جائے؛ کیونکہ اس طرح ملک "مشروط" ہوجاتا ہے اور سب کچھ ــ حتیٰ کہ سرمایہ کاری بھی ــ مذاکرات کے نتائج کے واضح ہونے تک تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔
رہبر انقلاب نے ملک میں صنعتی، اقتصادی، تعمیری، ثقافتی اور بڑے منصوبوں کے اجرا کے تمام شعبوں میں سرگرمیوں کے تسلسل پر زور دیا اور فرمایا: ان امور میں سے کوئی بھی ان جاری مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
آپ نے ان مذاکرات کے بارے میں "حد سے زیادہ خوشبینی اور بدبینی" سے پرہیز کی تلقین فرمائی اور مزید فرمایا: ابتداء میں مذاکرات کے لیے ملک کا فیصلہ ایک اچھا قدم تھا، اس کے بعد بھی کام کو دقّت سے آگے بڑھایا جائے، جبکہ سرخ لکیریں ہمارے لیے بھی اور فریقِ مقابل کے لیے بھی بالکل واضح ہیں۔
حضرت آیتالله خامنہای نے مزید فرمایا: یہ مذاکرات نتیجہ دے سکتے ہیں اور نہیں بھی دے سکتے؛ ہم ان مذاکرات کے بارے میں نہ بہت خوشبین ہیں، نہ بہت بدبین؛ البتہ فریقِ مقابل کے بارے میں بہت بدبین ہیں، ان کو جانتے ہیں، لیکن اپنی صلاحیتوں کے بارے میں خوشبین ہیں۔
رہبر انقلاب نے ساتویں ترقیاتی منصوبے کو بغیر کسی انحراف اور مکمل دقّت سے نافذ کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: یہ منصوبہ ایک اچھا منصوبہ ہے اور ملک کی کلّی پالیسیوں پر مبنی ہے، اور ابتدا سے ہی مضبوطی سے نافذ کیا جانا چاہیے۔
آپ نے نئے سال کی مبارک باد دیتے ہوئے حکومتی ذمہ داران اور ان کے خاندانوں کو مخاطب کیا اور فرمایا: بیگمات اور گھرانوں کا ہم آہنگی اور تعاون، ذمہ داریوں کی بہتر انجام دہی اور کاموں کے ثمر بخش ہونے میں مؤثر ہے۔ آپ نے اُمید ظاہر کی کہ نائبِ اول صدرِ جمہوریہ کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کی شقیں قابلِ قبول مدت میں عملی جامہ پہنیں گی۔
حضرت آیتالله خامنہای نے اپنی تقریر کے اختتام پر، غزہ پر صہیونی مجرم کی جانب سے بے مثال مظالم، خاص طور پر مریضوں، صحافیوں، ایمبولینسوں، ہسپتالوں، بچوں اور مظلوم خواتین پر دانستہ حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان جرائم کے ارتکاب کے لیے غیر معمولی سفاکی درکار ہے، جو اس قابض تبهکار گروہ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
آپ نے اسلامی دنیا کی ہم آہنگ تحریک کو اقتصادی، سیاسی، اور اگر ضرورت پڑے تو عملیاتی شعبوں میں بھی، ایک سنجیدہ ضرورت قرار دیا اور فرمایا: البتہ خداوندِ متعال ان ظالموں پر اپنا کوڑا برسائے گا، لیکن یہ بات حکومتوں اور قوموں کی سنگین ذمہ داریوں کو کم نہیں کرتی۔
ملاقات کی ابتداء میں نائب اول صدرِ جمہوریہ جناب عارف نے تینوں شعبوں کے درمیان ملک کی پیشرفتِ کے لیے اچھی ہم آہنگی اور تعاون کا ذکر کرتے ہوئے، حکومت کے منظم پروگرام کا حوالہ دیا جو اقتصادی ترقی و روزگار، اقتصادی استحکام و مہنگائی پر قابو، آمدنی کی بہتر تقسیم اور پسماندہ طبقات کی حمایت، توانائی کے شعبے میں عدم توازن کے مسئلے کے حل اور پیشران منصوبوں کے نفاذ کے لیے مرتب کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: گزشتہ سات مہینوں میں حکومت نے معیشتی حالات میں بہتری، تعلیمی انصاف کے فروغ، اور خارجی تعاون کی وسعت کے سلسلے میں اقدامات کیے ہیں اور مؤثر پروگرامز تیار کیے ہیں۔