ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

فضائیہ اور ایرانی فوج کی ایئر ڈیفنس کے کمانڈروں اور عملے کے ساتھ ملاقات

ماضی کا تجربہ کہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب نے آج صبح، ۱۹ بہمن ۱۳۵۷ کو امام خمینی سے تاریخی بیعت کے سالگرہ کے موقع پر، فضائیہ اور ایرانی فوج کی ایئر ڈیفنس کے کچھ کمانڈروں اور عملے کے ساتھ ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں تاریخی دن ۱۹ بہمن کو ایک سرافراز، خودمختار اور شناخت رکھنے والی فوج کی پیدائش کا دن قرار دیا اور ۹۰ کی دہائی میں امریکہ کے ساتھ تقریباً دو سال کی بے نتیجہ مذاکرات کے تجربے اور امریکہ کی طرف سے اپنی تمام ذمہ داریوں کو پامال کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی: امریکہ کے ساتھ مذاکرات کسی بھی مسئلے، بشمول اقتصادی اور معیشتی مشکلات کو حل نہیں کرتے، جیسے کہ ماضی میں بھی حل نہیں کیے؛ لہٰذا، مسائل کا حل "ذمہ دار اور متعہد حکام کی کوششوں اور متحد قوم کی یکجہتی" میں ہے، جو ان شاء اللہ ۲۲ بہمن کو ہم دیکھیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اخبارات، سوشل میڈیا اور بعض افراد کی باتوں میں مذاکرات کے حوالے سے ہونے والے مباحثوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان باتوں کا محور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا موضوع ہے اور مذاکرات کو ایک اچھی چیز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، گویا کہ کوئی بھی مذاکرات کے اچھا ہونے کا مخالف ہے۔
انہوں نے وزارت خارجہ کی مذاکرات، دوروں اور دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ معاہدے کرنے کی مصروفیت پر زور دیتے ہوئے کہا: اس حوالے سے واحد استثنا امریکہ ہے۔ البتہ، صیہونی حکومت کا نام استثنا کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، کیونکہ یہ حکومت درحقیقت ایک ریاست نہیں بلکہ ایک مجرمانہ اور غاصب ٹولہ ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو استثنا قرار دینے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: بعض لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو فلاں مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا ملک کے مسائل کے حل میں کوئی کردار نہیں ہے۔
رہبر انقلاب نے ۹۰ کی دہائی میں امریکہ اور دیگر چند ممالک کے ساتھ تقریباً دو سال تک ہونے والے منفی تجربے اور اس کے نتیجے میں جوہری معاہدے کے انعقاد کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بے فائدگی کی دلیل قرار دیا اور فرمایا: اس وقت کی حکومت نے ان کے ساتھ مذاکرات کیے، آمد و رفت کی، ملاقاتیں کیں، ہنسے، ہاتھ ملائے، دوستی کی اور ہر کام کیا، اور ایک ایسا معاہدہ طے پایا جس میں ایرانی فریق نے انتہائی فیاضی کے ساتھ بے شمار رعایتیں دیں، لیکن امریکیوں نے اس معاہدے پر عمل نہیں کیا۔
ایشان نے موجودہ امریکی صدر کے جوہری معاہدہ (برجام) کو پھاڑ دینے کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس سے پہلے بھی وہی امریکی حکومت جس نے اس معاہدے کو قبول کیا تھا، اس پر عمل نہیں کیا، اور امریکی پابندیاں، جنہیں ہٹایا جانا تھا، نہیں ہٹائی گئیں۔ اقوام متحدہ کا مسئلہ بھی ایک ایسے زخم کی مانند باقی رہا، جو ہمیشہ ایران کے سر پر ایک دھمکی کی طرح موجود رہا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے "دو سال تک مذاکرات، رعایتیں دینے، پیچھے ہٹنے، مگر کسی نتیجے تک نہ پہنچنے" کے تجربے سے سبق سیکھنے کو ضروری قرار دیا اور فرمایا: امریکہ نے اسی معاہدے کو، باوجود اس کی تمام کمزوریوں کے، خود ہی توڑا اور اس سے نکل گیا۔ لہٰذا، ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا غیر عقلمندانہ، غیر دانشمندانہ اور غیر شرافتمندانہ ہے، اور اس سے مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں۔
انہوں نے ملک کے اندرونی مسائل اور معیشتی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جو چیز ان مشکلات کو حل کرے گی، وہ داخلی عوامل ہیں، یعنی "ذمہ دار اور متعہد حکام کی محنت اور متحد قوم کا ساتھ"، جس کا مظہر یوم ۲۲ بہمن کی ریلی ہے، جہاں ان شاء اللہ اس سال بھی ہم اس وحدت کا مشاہدہ کریں گے۔
رہبر انقلاب نے "بصیر قوم اور انتھک محنت کرنے والے حکام" کو مسائل کے حل کی کلید قرار دیا اور فرمایا: الحمدللہ، حکام کام میں مصروف ہیں اور ہمیں قوی امید ہے کہ یہی محترم حکومت عوام کی معیشتی مشکلات کو کم کرے گی اور سختیوں کو دور کرے گی۔
انہوں نے امریکی کوششوں کو عالمی نقشہ بدلنے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا: ان کی یہ کوششیں محض کاغذی منصوبے ہیں، حقیقت میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ ہمارے بارے میں بھی رائے دیتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر وہ ہمیں دھمکی دیں گے تو ہم بھی انہیں دھمکی دیں گے، اگر وہ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنائیں گے تو ہم بھی اپنی دھمکی پر عمل کریں گے، اور اگر وہ ہماری قوم کی سلامتی پر حملہ کریں گے تو ہم بھی بغیر کسی تردد کے ان کی سلامتی کو نشانہ بنائیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس جوابی رویے کو قرآن اور اسلامی احکام سے ماخوذ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کامیاب کرے۔
اپنی تقریر کے ابتدائی حصے میں، انہوں نے ۱۹ بہمن ۵۷ کو ایک عظیم اور بابرکت یادگار قرار دیتے ہوئے فرمایا: ان جوانوں کے حماسی اقدام نے نئی فوج کی سمت کا تعین کیا اور فوج کے مختلف عناصر اور افسران نے اس بیعت سے متاثر ہو کر، عوام کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔
رہبر انقلاب نے شہداء صیاد شیرازی، ستاری، بابایی، کلاہدوز اور فلاحی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: ان بہادر شخصیات کے ظہور کا بنیادی عامل وہی جرات مندانہ قدم تھا جو انقلاب کی کامیابی سے تین دن قبل، خطرات کے عروج میں، فضائیہ کے کچھ افسران اور عملے نے اٹھایا۔
رہبر انقلاب نے ۱۹ بہمن ۵۷ کی تحریک کی نمایاں خصوصیات کو آج کے ملک اور قوم کی ضرورت قرار دیا اور فرمایا: "شجاعت" اور "بروقت اقدام" همافران کے عمل کی دو نمایاں خصوصیات تھیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے "مناسب وقت پر اور عین ضرورت کے لمحے میں فیصلہ کرنے" کو انتہائی اہم قرار دیا اور فرمایا: توابین، عاشورا کے وقت امام حسین (ع) کی مدد کے لیے نہیں آئے، بعد میں قیام کیا اور سب مارے گئے، لیکن ان کا اقدام بے نتیجہ تھا کیونکہ وہ بروقت نہیں تھا۔
انہوں نے ۱۹ بہمن ۵۷ کے اقدام کو عقلانیت پر مبنی اور حساب شدہ عمل قرار دیا اور فرمایا: بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ انقلابی تحریک عقلانیت کے خلاف ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انقلابی اقدام کسی بھی دوسرے عمل سے زیادہ محاسبات اور دانشمندی کا تقاضا کرتا ہے۔
رہبر انقلاب نے دشمن کی غفلت سے فائدہ اٹھانے کو فضائیہ کامنڈرز کے اقدام کی ایک اور ممتاز خصوصیت قرار دیا اور فرمایا: فوجی انٹیلیجنس اور شاہی فوج کے کمانڈر یہ پیش بینی یا انکشاف نہ کر سکے کہ فضائیہ میں ایسی بغاوت ہونے والی ہے، اور حقیقت میں وہ وہیں سے نقصان اٹھا بیٹھے جہاں سے انہیں امید نہیں تھی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے پہلوی حکومت کی فوج کو امریکی فوجی نظام کے تابع کرنے کے اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فوج کا ڈھانچہ، اسلحہ اور تربیت سب کچھ امریکی تھا، اور اہم تقرریاں حتیٰ کہ اسلحے کے استعمال کا طریقہ بھی امریکی اجازت سے طے ہوتا تھا۔ یہ وابستگی اتنی شدید تھی کہ ایرانیوں کو اپنے ہی اسلحے کے پرزے کھولنے اور مرمت کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
انہوں نے آبان ۱۳۴۳ میں امام خمینی کی تقریر کو امریکہ کی ذلت آمیز فوجی بالادستی پر ایک سخت اعتراض قرار دیا اور فرمایا: کاپیٹولیشن معاہدے کے تحت، جسے شاہی حکومت کے تمام حکام نے قبول کر رکھا تھا، کسی بھی جرم کا مرتکب ہونے والا امریکی ایران میں قانونی کارروائی سے مستثنیٰ تھا۔
رہبر انقلاب نے دفاع مقدس (ایران-عراق جنگ) کو ایک ایسا میدان قرار دیا جہاں انقلاب کے بعد کی فوج کی صلاحیتیں نمایاں ہوئیں اور فرمایا: ہزاروں شہید فوجی، ایران کی تاریخ میں روشن ستاروں کی مانند چمک رہے ہیں۔
حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے ایران کے دفاع کو تمام کاموں میں سرِفہرست اور فوج کی تقویت کو سب سے اہم ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا: فوج کو انسانی وسائل، اسلحہ، تربیت، جنگی اور دفاعی تیاری، کمزوریوں اور ممکنہ خطرات کے ازالے، جدت طرازی اور جدید پیداوار کے تسلسل کے لحاظ سے روز بروز مضبوط تر ہونا چاہیے اور ثابت کرنا چاہیے کہ وہ اس سے بھی بڑے کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں، ایران کی فضائیہ کے سربراہ امیر سرتیپ حمید واحدی نے فضائیہ کے ایک سالہ اقدامات پر مبنی رپورٹ پیش کی، جن میں ڈرون پاور میں اضافہ، سائبر ڈیفنس آپریشن سینٹرز کا قیام، اسمارٹ وار روم کی کمانڈ، فوجی مشقیں اور مقابلے، اور "با صلاحیت، پرجوش اور انقلابی" افرادی قوت کی تربیت پر خصوصی توجہ شامل تھیں۔
 

700 /