آج صبح، عید بعثتِ نبی مکرم حضرت محمد مصطفی(ص) کے موقع پر، تینوں قوا کے سربراہان، نظام کے متعدد عہدیداران، اسلامی ممالک کے سفراء، اور عوام کے مختلف طبقات نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیتالله خامنهای سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں رہبر انقلاب نے بعثت کو ایک مسلسل اور دائمی عمل قرار دیتے ہوئے، اس کا سب سے اہم درس عقل اور ایمان کا استعمال بتایا، تاکہ فکری اور ادراکی انقلاب برپا کیا جا سکے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: "موجودہ دور میں، وہی مزاحمتی تحریک جو اسلامی انقلاب کی کامیابی سے شروع ہوئی تھی، بعثت کی ایک جھلک ہے۔ اسی عقل و ایمان کی طاقت کے ذریعے اس تحریک نے مسلم اقوام اور حتیٰ کہ غیر مسلموں کو بھی بیدار کیا، اور آج غزہ اور لبنان کے مقابلے میں صہیونی ریاست کا بےبس ہو جانا اسی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔"
حضرت آیتالله خامنهای نے ملتِ ایران، امتِ اسلامی، اور دنیا کے تمام آزادیخواہوں کو عیدِ بعثت کی مبارکباد پیش کی اور اس دن کے ماہ بہمن (یعنی انقلاب اسلامی کی فتح کے مہینے) سے تقارن کو ایک بابرکت اتفاق قرار دیا۔ انہوں نے کہا: "بعثت تاریخ بشریت کے سب سے بڑے اور شاندار واقعات میں سے ایک ہے، کیونکہ اس نے ایک عظیم فکری اور ادراکی انقلاب کے ذریعے اس دور کے انسانوں کو اور بعد کے ادوار میں آنے والی نسلوں کو یکسر بدل دیا۔"
انہوں نے انبیاء کے ذریعہ سماجی تبدیلی کے بنیادی دو عناصر: عقل اور ایمان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: "انبیاء انسانی عقل اور ایمان کو بیدار کرکے، بشریت کو رشد و ہدایت کا راستہ دکھاتے ہیں، اور قرآن میں بار بار تفکر، تعقل اور تدبر کی تاکید اسی لیے کی گئی ہے۔"
رہبر انقلاب نے ایمان اور اس کے بنیادی جزو توحید کو اسلامی طرزِ فکر اور اسلامی معاشرے کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا: "بعثت صرف ایک روز کا واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک دائمی اور جاری رہنے والا عمل ہے۔ اگر عقل و ایمان کو صحیح طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو ہر دور میں اس کی برکات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اور فکری و عملی انقلاب لا کر مختلف مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔"
انہوں نے تمام اسلامی حکومتوں اور اقوام کے لیے بعثت کے اہم ترین پیغامات میں سے ایک "عزت کو اللہ کی طرف منسوب کرنا" بتایا اور فرمایا: "جب عزت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہو، تو کوئی بھی دشمن یا بیگانہ قوت کسی بھی پہلو سے ملت کے جسم و روح پر منفی اثر نہیں ڈال سکتی۔"
حضرت آیتالله خامنهای نے دنیا کے موجودہ حالات کو عقلانی نظر سے دیکھنے کو بالخصوص ایران کے حکام کے لیے ایک اہم ضرورت قرار دیا اور استعماری طاقتوں کی لوٹ مار کی پالیسی کو بیان کرتے ہوئے کہا:
_"استعمار کی تاریخ تین مراحل کو ظاہر کرتی ہے: قدرتی وسائل کی لوٹ مار، ثقافتی غارت گری اور اصیل ثقافتوں کی تباہی،
اقوام کی قومی اور دینی شناخت کو ختم کرکے ان پر تسلط جمانا۔ آج بھی دنیا کی طاقتور اور شیطانی قوتیں ان تینوں استعماری مراحل کو اقوام پر مسلط کرنے میں مصروف ہیں۔"
انہوں نے امریکہ کو استکباری طاقتوں اور استعماری حکومتوں کی صف اول میں شمار کیا اور اسے عالمی مالیاتی طاقتوں کے زیرِ اثر ایک حکومت قرار دیا۔ انہوں نے فرمایا: "دنیا کے بڑے مالیاتی کارٹل ہر روز نئی سازشیں تیار کر رہے ہیں، تاکہ اقوام کی شناخت اور ان کے حقیقی مفادات کو بدل کر اپنی استعماری گرفت کو مضبوط کر سکیں۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق، جو چیز بھی تمہیں نقصان پہنچائے، وہ اسے پسند کرتے ہیں۔"
رہبر انقلاب نے قرآن کریم کی ان آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جو اسلام کے دشمنوں کے بغض اور کینہ کو ان کے ظاہری الفاظ اور اعمال سے کہیں زیادہ شدید قرار دیتی ہیں، فرمایا: "یہ کہ امریکی کانگریس کے نمائندے ایک قاتل کو، جس نے ہزاروں بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا، تالیاں بجا کر شاباش دیتے ہیں، یا ایک امریکی بحری جہاز کے کپتان کو، جس نے ایرانی مسافر بردار طیارے کو ۳۰۰ مسافروں سمیت مار گرایا، انعامی میڈل دیتے ہیں—یہ سب ان کے خبیث باطن اور گہری دشمنی کی مثالیں ہیں جو ان کی سفارتی مسکراہٹوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں۔ ہمیں ان حقائق کے مقابلے میں آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں اور قرآن کی تعبیر کے مطابق، ان سے پوشیدہ دوستی کی تلاش نہیں کرنی چاہیے۔"
انہوں نے عالمی تعلقات میں ہوشیاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
"ہمیں محتاط رہنا ہوگا کہ ہم کس سے معاملہ کر رہے ہیں، کس کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں، اور کس کے ساتھ لین دین کر رہے ہیں۔"
حضرت آیتالله خامنهای نے موجودہ دور میں مزاحمت کے راستے کو بعثت نبوی کی روشنی اور انقلاب اسلامی ایران کی پیداوار قرار دیا اور غزہ کی شاندار فتح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"یہ چھوٹا اور محدود علاقہ، جسے ایک طرف سے مکمل طور پر مسلح صہیونی حکومت اور دوسری طرف سے امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی، اس نے اپنی استقامت سے اس طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ یہ کامیابی عقل اور ایمان کو بروئے کار لانے، اللہ پر بھروسہ کرنے اور اس کی عطا کردہ عزت پر یقین رکھنے کا نتیجہ ہے۔"
انہوں نے حزبالله لبنان کی بہادری کا ذکر کرتے ہوئے، شہید نصرالله کے نقصان کے باوجود اس تنظیم کے استحکام کو ایک اور روشن مثال قرار دیا اور فرمایا:
"دنیا میں کتنے افراد سید حسن نصرالله کے درجے کے ہیں؟ لیکن جب حزبالله نے ایک ایسی عظیم شخصیت کو کھو دیا، تو دوست اور دشمن دونوں نے یہ تصور کیا کہ یہ جماعت ختم ہو چکی ہے۔ مگر حزبالله نے نہ صرف یہ کہ اپنا وجود باقی رکھا، بلکہ بعض مواقع پر مزید جوش و جذبے کے ساتھ صہیونی حکومت کے خلاف ڈٹا رہا۔"
اس ملاقات کے آغاز میں، صدرِ مملکت جناب مسعود پزشکیان نے انبیا کی بعثت کے ہدف کو حق اور عدالت کا قیام قرار دیا تاکہ معاشرتی اختلافات اور جھگڑوں کا خاتمہ ہو۔
انہوں نے نبی اکرم (ص) کی ہجرت کے بعد مدینہ میں مختلف قبائل کے درمیان برادرانہ معاہدے کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
"آج ایران، اسلامی معاشروں اور تمام اقوام کو پہلے سے کہیں زیادہ اس طرزِ فکر کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔"
صدر پزشکیان نے اپنی تقریر کے آخر میں، عالمی طاقتوں کے مظالم اور مسلمانوں اور بچوں کے قتلِ عام کی مذمت کرتے ہوئے کہا:
"اگر مسلمان اتحاد اور یکجہتی کے اصول پر عمل کریں، تو عدل و انصاف کے قیام کی راہ ہموار ہوگی اور ظالموں کا جنگ اور خونریزی کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔"