ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

سرمایہ کاروں اور اقتصادی سرگرم کارکنوں کے سیکڑوں افراد سے ملاقات

غزہ میں مزاحمت کی کامیابی کسی افسانے سے کم نہیں!


رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح کارآفرینوں، سرمایہ کاروں اور اقتصادی سرگرم کارکنوں کے سیکڑوں افراد سے ملاقات کے دوران نجی شعبے کی پیشرفتوں اور اختراعات کو امید اور حرکت کا باعث قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ عوام بالخصوص نوجوانوں کو ان خوش آئند کامیابیوں سے آگاہ کرنے کے لیے سنجیدہ میڈیا کام ضروری ہے۔ انہوں نے تاکید کی کہ ملک کا فیصلہ سازی اور انتظامی نظام ایک مکمل سنجیدہ تقاضے کے طور پر نجی شعبے کی مدد کرے اور اس کی ترقی اور پیشرفت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔
رہبر انقلاب نے اس ملاقات کے دوران غزہ کی مزاحمت کی فتح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جو کچھ دنیا کی آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہا ہے وہ کسی افسانے کی مانند ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے آج کے اجلاس کو نہایت خوشگوار اور مفید قرار دیا اور اقتصادی سرگرم کارکنوں کی گفتگو اور رپورٹوں کو، بالخصوص دشمنوں کی جانب سے مایوسی اور ناامیدی کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں کے پیش نظر، زندگی اور ترقی کا باعث گردانا اور فرمایا: بدقسمتی سے میڈیا کی کمزوری کے سبب نوجوان، طلبہ اور دیگر طبقات ان خوشخبریوں اور حاصل شدہ ترقیوں سے آگاہ نہیں ہیں، اور اس معاملے کے ذمہ دار افراد کو چاہیے کہ سنجیدہ بحث و تحقیق کے ساتھ ایک مؤثر میڈیا حکمت عملی تیار کریں اور اسے نافذ کریں۔
آپ نے گزشتہ سالوں میں اقتصادی سرگرم کارکنوں کے ساتھ پانچ ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سال ۱۳۹۸ (2019) میں جب ہم شدید ترین پابندیوں اور اضافی خطرات کے دور میں تھے، ہم نے پیداوار کنندگان اور کارآفرینوں کو اقتصادی جنگ کے فرنٹ لائن کمانڈر قرار دیا اور پیداوار میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ بعد کے سالوں کے اجلاسوں نے ظاہر کیا کہ نجی شعبہ اپنی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافے کی راہ پر گامزن ہے اور اس سال بھی یہ واضح ہوا کہ اقتصادی سرگرم کارکن اپنی عملی تجربات کے ساتھ پیداوار میں توسیع اور سرمایہ کاری میں اضافے کے خواہاں ہیں۔
رہبر انقلاب نے گزشتہ روز "پیشگامان پیشرفت" نمائش کے دورے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: یہ نمائش ملک کی حقیقی صورتحال کا ایک چھوٹا سا حصہ پیش کرتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ ظاہر کرتی ہے کہ نجی شعبہ دباؤ، پابندیوں اور خطرات کے باوجود ایک قابل قبول ترقی کی سطح تک پہنچ چکا ہے اور ملک کی حرکت آگے کی جانب ہے، جس نعمتِ عظیم کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: اگرچہ اقتصادی میدان میں نجی شعبہ ملک کی ترقی کے مظاہر میں سے ایک ہے، لیکن علم، تحقیق اور دیگر شعبوں میں بھی ترقی کی نشانیاں واضح ہیں؛ تاہم مشکلات، خامیاں اور نقائص بھی کم نہیں ہیں جنہیں دور کرنا ہم حکام کی ذمہ داری ہے۔
آپ نے حکام کی توجہ داخلی صلاحیتوں اور قابلیتوں پر مرکوز رکھنے کو، بالخصوص پابندیوں اور دباؤ کے پیش نظر، انتہائی ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ ہمیں ان صلاحیتوں سے مکمل استفادہ کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب نے تینوں قوا کے سربراہان اور دیگر حکام کے پیشگامان پیشرفت نمائش کے دورے کو مفید اور ضروری قرار دیا اور فرمایا: گزشتہ سال بھی شہید رئیسی اس نمائش کے دورے کے بعد بہت خوش اور پُرامید ہوگئے تھے۔
آپ نے نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کی ملکی ترقی کے لیے فکرمندی کو کل کی نمائش اور آج کی ملاقات کا نمایاں نکتہ قرار دیا اور فرمایا: یقیناً آمدنی کا مسئلہ بھی سرمایہ کاروں کے لیے اہم ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ اکثر سرمایہ کار، آمدنی میں اضافے سے زیادہ، ملکی مسائل کے حل اور ترقی پر توجہ رکھتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حکام کی سنجیدہ ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ انہیں اقتصادی سرگرم کارکنوں کی شکایات دور کرنی چاہئیں اور تاکید کی کہ ملک کے فیصلہ سازی اور انتظامی نظام کو حقیقی معنوں میں "لازمی طور پر" نجی شعبے کی مدد کرنی چاہیے اور اس کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے۔
آپ نے بعض سرکاری اور نگران اداروں کے اقدامات کو نجی شعبے کی حرکت میں "رفتار شکن" (Speed Bump) قرار دیا اور فرمایا: "ایک ایسی چیز جو انسان کو شرمندہ کرتی ہے، وہ اندرونِ ملک تیار ہونے والی مصنوعات کی ہم جیسے غیرضروری درآمدات ہیں، جو درحقیقت مزدوروں اور مقامی پیداواری شعبے کے نقصان میں ہیں اور ملکی سرمایہ کاروں کو غیر ملکی حریفوں کے سامنے کمزور کرنے کی راہ ہموار کرتی ہیں۔"
رہبر انقلاب نے نائب صدر آقای عارف کی جانب سے وزراء سے ایسی رکاوٹوں کو دور کرنے کی سنجیدہ پیروی کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ ممکن ہے ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے قوانین اور ضوابط میں اصلاحات کی ضرورت ہو، جسے لازماً انجام دینا چاہیے۔
آپ نے نجی شعبے کی حمایت کو بدعنوان عناصر سے غفلت برتنے کے مترادف قرار نہیں دیا اور فرمایا: "ضروری ہے کہ نگرانی میں اضافہ کیا جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، جو لوگ ملک کی ترقی چاہتے ہیں، ان کی مدد میں بھی اضافہ کیا جائے۔"
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے آئین کے اصل ۴۴ کی پالیسیوں پر عملدرآمد کو ملکی معیشت کی ترقی میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک اہم اقدام قرار دیا اور فرمایا: "یہ پالیسیاں تمام حکام اور ماہرین کی تائید یافتہ تھیں، لیکن متعلقہ حکام نے بارہا کی جانے والی سفارشات کے باوجود ان پر عمل نہیں کیا، اور یہی مسئلہ دہہ ۹۰ (2010-2020) میں ملکی معیشت کے زوال کی وجوہات میں شامل تھا۔"
آپ نے نجی شعبے میں ۸ فیصد اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے بننے والے تخصصی ورکنگ گروپس کے قیام پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "یہ ماہرین، صلاحیتوں کا تجزیہ کرکے اور سرمایہ کاری کے منصوبے تیار کرکے، ملکی مسائل کے حل کا راستہ متعین کرچکے ہیں، اور حکومتی حکام کو چاہیے کہ ان ورکنگ گروپس کے نتائج کو سنجیدگی سے فالو اپ کریں اور ان پر عملدرآمد کریں۔"
رہبر انقلاب نے ان افراد پر تنقید کی جو ۸ فیصد اقتصادی ترقی کے حصول کو ناممکن سمجھتے ہیں اور اسے غیرحقیقی اور بہت زیادہ غیرملکی سرمایہ کاری سے مشروط کرتے ہیں۔ آپ نے مزید فرمایا: "تخصصی ورکنگ گروپس میں شامل ماہرین جو ۸ فیصد اقتصادی ترقی کے حصول کی پیروی کر رہے ہیں، وہ اسے اس قسم کی غیرملکی سرمایہ کاری پر منحصر نہیں سمجھتے اور مقامی وسائل کے تحت وہ اس کی پیروی کررہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ انکی دیکھ بھال اور حمایت کرے۔"
رہبر انقلاب نے مسلسل بلند اقتصادی ترقی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ۸ فیصد ترقی کوئی معجزہ نہیں کرتی، لیکن اگر یہ سلسلہ جاری رہے اور اس کے فوائد اور نتائج منصفانہ طور پر تقسیم ہوں تو ملک کی صورتحال میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔
آپ نے بریکس جیسے اقتصادی اجلاسوں میں شرکت کو بھی اہم قرار دیا اور سفارتی حکام کو اس بڑی اقتصادی فرصت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے متحرک رہنے کی تاکید کی۔ آپ نے فرمایا: "بریکس کا مالیاتی نظام، جو رکن ممالک کی کرنسی میں مالی لین دین کو ممکن بناتا ہے، ایک بہت اہم موقع ہے۔"
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تجارتی معاملات سے ممکنہ حد تک ڈالر کو ہٹانے کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا: "یہ اقدام، جس کی پیروی معزز صدر بھی کر رہے ہیں، ایک بڑا اور اہم کام ہے، اور اقتصادی میدان میں ایک نہایت مضبوط اور فیصلہ کن حرکت ہے۔ مرکزی بینک کو چاہیے کہ دیگر کرنسیوں کی تخصیص کے لیے میدان ہموار کرے۔ البتہ اس اقدام پر کچھ ردعمل ضرور ہوگا لیکن اس سے ملک کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔"
آپ نے گزشتہ روز نمائش میں ایک صنعتکار کی لائسنس کے اجرا میں غیرضروری تاخیر کی شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "مجھے واقعی اس مسئلے پر شرمندگی محسوس ہوئی۔" آپ نے یاد دلایا کہ گزشتہ سال کی تقریر میں بھی اس مسئلے پر توجہ دلائی گئی تھی، لیکن ابھی تک اس کا حل نہیں نکالا گیا۔ آپ نے تاکید کی کہ "ان مسائل کو حل کرنا لازم ہے، اور ان کا حل نجی شعبے کی مدد کی ضرورت پر حقیقی یقین اور عملی وابستگی میں پوشیدہ ہے، تاکہ نجی شعبہ یہ محسوس کرے کہ حکومت کی حمایت اس کے ساتھ ہے اور کام کسی رکاوٹ کے بغیر آسانی اور روانی سے انجام پاتے ہیں۔"
رہبر انقلاب نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں غزہ میں جنگ بندی اور مزاحمت کی فتح کو "مزاحمت کی بقا اور زندگی کی واضح علامت" قرار دیا اور فرمایا: "جو کچھ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، وہ کسی افسانے کی طرح ہے۔"
آپ نے فرمایا کہ "امریکہ جیسے طاقتور جنگی نظام نے، انسانی اقدار کی پروا کیے بغیر، صہیونی حکومت کو تباہ کن بم فراہم کیے، اور یہ سفاک اور بے رحم حکومت ۱۵ ہزار بچوں کو ان کے گھروں اور اسپتالوں میں بمباری کرکے شہید کرچکی ہے، لیکن پھر بھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکی۔"
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ "اگر امریکہ کی مدد نہ ہوتی، تو صہیونی حکومت جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں ہی گھٹنے ٹیک چکی ہوتی۔" آپ نے مزید فرمایا: "اس ایک سال اور چند مہینوں میں صہیونی حکومت نے جو کچھ ممکن تھا، وہ سب کچھ کرلیا، اس نے گھروں، اسپتالوں، مساجد اور گرجا گھروں کو ایک چھوٹے سے علاقے، یعنی غزہ میں، مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ لیکن بالآخر وہ نہ تو اس مقصد کو حاصل کر سکی جس کا وعدہ اس کے بدنصیب اور رسوا رہنما نے کیا تھا—یعنی حماس کی نابودی اور غزہ پر بغیر مزاحمت کے قبضہ—بلکہ اسے مجبور ہونا پڑا کہ اسی حماس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور اس کی شرائط پر جنگ بندی کو قبول کرے۔"
حضرت آیت‌الله خامنہ ای نے غزہ کی مزاحمت کی کامیابی اور اس کی سرزندگی کو الہی سنت، یعنی مزاحمت کی صورت میں یقینی فتح کا ایک مصداق قرار دیا اور فرمایا: "جہاں کہیں اللہ کے نیک بندے استقامت کا مظاہرہ کریں، وہاں کامیابی یقینی ہے۔"
آپ نے ایران کے کمزور ہونے سے متعلق خیالی اور وہمی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی: "مستقبل ثابت کرے گا کہ درحقیقت کون کمزور ہوا ہے، جیسا کہ صدام نے بھی ایران کو کمزور سمجھ کر حملہ کیا تھا، اور ریگن نے بھی اسی خیال کے تحت صدام کی بھرپور مدد کی تھی، لیکن ان دونوں اور ان جیسے درجنوں مغرور اور وہم زدہ افراد کا انجام کیا ہوا؟ وہ سب نابود ہو گئے، جبکہ اسلامی جمہوریہ روز بروز ترقی کرتا چلا گیا۔ یہ تجربہ، اللہ کے فضل سے، ایک بار پھر دہرایا جا سکتا ہے۔"
اس ملاقات کے آغاز میں ۱۳ نجی شعبے کے کاروباری افراد اور اقتصادی سرگرم شخصیات، جن میں مرد و خواتین شامل تھے، نے اپنی کامیابیوں، چیلنجز اور تجاویز پر روشنی ڈالی۔ ان شخصیات میں شامل تھے:
•    پیام خلیلی (تیل و گیس کے صنعتی آلات کے شعبے سے)
•    رضا حاجی کریم (پانی و سیوریج کی صنعت سے)
•    زہرہ منوچہری (زعفران، جڑی بوٹیوں اور کوآپریٹو سیکٹر کی سرگرم کارکن)
•    علی مخدومی (گیس ٹربائن کے گرم پرّوں کے پروڈیوسر)
•    شہریار صفاری (لائیو اسٹاک اور ڈیری انڈسٹری کے فعال کارکن)
•    رضا رضایی (آٹو پارٹس کے پروڈیوسر)
•    مجتبی دستمالچیان (ٹیکسٹائل انڈسٹری سے)
•    منصور نجمی نیا (معدنیات کی صنعت سے)
•    علیرضا فرہادی (انٹرنیٹ آف تھنگز اور مائیکرو الیکٹرانکس کے ماہر)
•    صدف تاجر (مدر اینڈ چائلڈ پراڈکٹس کے پروڈیوسر)
•    مسعود پورجولا (گیس اور LNG انڈسٹری سے)
•    مہام مؤمنی (انرجی کے شعبے میں سرگرم)
•    سید امیر مؤید علائی (صنعتی سینٹری فیوجز کے ماہر)
ان ماہرین نے مندرجہ ذیل اہم موضوعات پر روشنی ڈالی:
1.    صنعتی طلبہ کو راغب کرنے اور ان کی تربیت کے لیے جدید ماڈلز کی تیاری اور نفاذ
2.    حکومتی مالیاتی سرکلرز میں یکسانیت اور استحکام کی ضرورت
3.    بینکاری نظام میں نالج بیسڈ کمپنیوں کے لیے فنانسنگ قوانین کو ہم آہنگ کرنے کی اہمیت
4.    معاشی نظام میں کوآپریٹیو سیکٹر کے کمزور حصے پر توجہ دینے کی ضرورت
5.    بین الاقوامی مقابلے میں ملکی صنعت کو مزید مضبوط بنانے کی حکمت عملی
6.    کار انڈسٹری کے لیے ۲۰ سالہ روڈ میپ کی تیاری، تاکہ پالیسی میں طویل المدتی استحکام لایا جا سکے
7.    ٹیکسٹائل انڈسٹری کی صلاحیتوں پر توجہ دینے کے لیے، غیر ضروری درآمدات اور اسمگل شدہ کپڑوں کی روک تھام
8.    اسمارٹ ٹیکنالوجیز کے استعمال کو سرکاری شعبے اور بڑی صنعتوں کے لیے لازمی قرار دینا
9.    کمتر ترقی یافتہ علاقوں میں صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی مراعات دینا
10.    نجی شعبے سے جڑے معاملات میں کسی بھی قسم کی کرپشن کے خلاف مؤثر اور سخت کارروائی
یہ تمام نکات نجی شعبے کی ترقی اور ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اہم اقدامات کے طور پر پیش کیے گئے۔
 

700 /