رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح، سیدہ نساء العالمین حضرت صدیقہ کبریٰ (س) کے مبارک یوم ولادت کے موقع پر مداحان و شاعران اہل بیت (ع) اور مختلف عوامی طبقات کے ہزاروں افراد سے ملاقات کے دوران فرمایا کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) حق کے راستے پر قیام، استقامت، شجاعت، صراحت اور مضبوط منطق و استدلال میں پوری انسانیت کے لیے کامل نمونہ ہیں۔ آپ نے دشمنوں کی جانب سے معاشرے میں خوف، تفرقہ اور مایوسی پھیلانے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "شیطان کے پیروکاروں کی خاصیت جھوٹ اور فضول گوئی ہے، اور اس کا علاج 'جہادِ تبیین' یعنی حقائق کا بیان اور قابل قبول منطق کی پیشکش ہے۔"
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حماس اور حزب اللہ کو ختم کرنے کے صیہونی منصوبوں کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "خطے کی معزز قومیں، اللہ کے فضل سے، اس منحوس حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گی اور خطے کے لیے بہتر کل کا آغاز کریں گی۔"
رہبر انقلاب نے خطے کے مسائل، خصوصاً شام کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: "ایک شرپسند گروہ نے غیر ملکی حکومتوں کی مدد، سازش اور منصوبہ بندی کے ذریعے شام کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اسے انتشار اور بدامنی کی حالت میں دھکیل دیا۔"
آپ نے اپنی سابقہ گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "امریکہ کا خطے کے ممالک کے لیے دو طرفہ منصوبہ ہے: یا تو ایک آمر اور تابع حکومت کو مسلط کریں یا اس ملک میں بدامنی اور انتشار پیدا کریں۔ شام میں ان کا منصوبہ بدامنی اور انتشار کے قیام تک محدود رہا۔ اب امریکہ، صیہونی حکومت اور ان کے ساتھی شیطان کے پیروکاروں کی طرح خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور فضول باتیں کر رہے ہیں۔"
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی حکام کے بیانات، جن میں ایران میں انتشار پیدا کرنے والوں کی حمایت کا اظہار کیا گیا، کو دشمن کی گزاف گوئی قرار دیا اور فرمایا: "یہ احمق لوگ سمجھتے ہیں کہ کباب کی خوشبو آ رہی ہے، لیکن ایرانی قوم ان تمام لوگوں کو جو اس قسم کی مزدوری قبول کریں گے، اپنے قدموں تلے روند دے گی۔"
رہبر انقلاب نے صیہونی حکام کے فتح کے دعووں اور گزاف گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "بدقسمت لوگو، تم کہاں فتح یاب ہوئے ہو؟ کیا یہ کامیابی ہے کہ تم نے چالیس ہزار سے زیادہ خواتین اور بچوں کو بموں سے مار ڈالا لیکن اپنے ابتدائی جنگی اہداف میں سے ایک بھی حاصل نہیں کر سکے؟ کیا تم نے حماس کو ختم کر دیا اور اپنے قیدیوں کو غزہ سے رہا کر لیا؟ کیا تم نے عظیم شخصیتوں جیسے سید حسن نصراللہ کو شہید کرنے کے باوجود حزب اللہ لبنان کو ختم کر دیا؟"
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خطے میں مزاحمتی تحریکوں، بشمول حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی، کو زندہ اور توانا قرار دیا اور صیہونی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "لہذا تم فتح یاب نہیں بلکہ شکست خوردہ ہو۔"
آپ نے شام میں صیہونیوں کی پیش قدمی اور بعض علاقوں پر قبضے کو مزاحمت نہ ہونے اور کسی سپاہی کی عدم موجودگی کی وجہ قرار دیا اور فرمایا: "یہ بغیر رکاوٹ پیش قدمی فتح نہیں ہے، البتہ شامی غیور اور بہادر نوجوان تمہیں یقیناً وہاں سے نکال باہر کریں گے۔"
رہبر انقلاب نے خطے میں ایران کے مبینہ طور پر اپنے نیابتی قوتوں کے خاتمے کے دعووں پر مبنی جنگی اور نفسیاتی پروپیگنڈے کا ذکر کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کی کہ "جمہوری اسلامی کے پاس کوئی نیابتی قوت نہیں ہے۔" آپ نے فرمایا: "یمن، حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی اپنی جنگ خود لڑتے ہیں کیونکہ وہ ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ اور ایمان کی طاقت انہیں میدانِ مقاومت میں لے کر آئی ہے، نہ کہ وہ ہماری طرف سے نیابت کے تحت کام کر رہے ہیں۔"
آپ نے مزید فرمایا: "اگر جمہوری اسلامی کبھی کوئی اقدام کرنا چاہے تو اسے نیابتی قوتوں کی ضرورت نہیں۔"
آپ نے کہا: "یمن، عراق، لبنان، فلسطین، اور انشاءاللہ مستقبل قریب میں شام کے مردانِ مؤمن اور شریف افراد ظلم، جرم اور صیہونی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ جمہوری اسلامی بھی اس جدوجہد میں شامل ہے اور اللہ کے حکم سے ہم اس رژیم کو خطے سے ختم کر دیں گے۔"
آپ نے ان باتوں کو صرف ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ حقیقی اور تجربہ شدہ حقائق قرار دیا۔ آپ نے لبنان کے 1980 کی دہائی کے فسادات اور داخلی جنگوں کے دوران ایک مضبوط اور معزز حزب اللہ کے ابھرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "ان خطرات اور عدم استحکام کے بیچ سے، حزب اللہ جیسیہ بڑی تحریک پیدا ہوئی۔ اس کے عظیم رہنماؤں جیسے سید عباس موسوی کی شہادت بھی اسے کمزور کرنے کے بجائے مزید طاقتور بنا گئی۔ آج اور کل کی مزاحمت بھی اسی طرح ہوگی۔"
رہبر انقلاب نے خطرات سے مواقع پیدا کرنے کو ہوشیاری، ذمہ داری کے احساس اور فرائض کی ادائیگی سے مشروط قرار دیا۔ آپ نے کہا: "خطے کا کل آج سے بہتر ہوگا۔ ہماری پیشگوئی ہے کہ شام میں بھی ایک مضبوط اور باشرف گروہ ابھرے گا کیونکہ آج شام کے نوجوانوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ ان کے اسکول، یونیورسٹیاں، گھروں اور سڑکوں پر امن نہیں ہے۔ انہیں قوتِ ارادی کے ساتھ بدامنی کے منصوبہ سازوں اور ان کے عاملوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا اور ان پر قابو پانا ہوگا۔"
آپ نے اپنی گفتگو کے پہلے حصے میں خاتونِ دو عالم کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا: "حضرت فاطمہ زہرا (س) کی پوری زندگی، خصوصاً رسول اکرم (ص) کی وفات کے بعد کے مختصر عرصہ، مسلسل حقائق کی وضاحت اور دین کے مضبوط اصولوں کی تبیین پر مشتمل تھی۔ یہ ایک ایسا نمونہ اور معراج ہے جس تک پہنچنا ممکن نہیں، لیکن اس کی جانب مسلسل بڑھنا ضروری ہے۔"
آپ نے رسول اکرم (ص) کی حدیث کا ذکر کیا: "حضرت فاطمہ (س) کی محبت انسان کے لیے سو جگہوں پر فائدہ مند ہوگی، جن میں سب سے آسان وقت موت اور قبر میں ہوگا۔"
آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: "اس حدیث کے آسان معنی یہ ہیں کہ حضرت کی محبت بے شمار فوائد کے ساتھ آتی ہے۔ لیکن مشکل معنی یہ ہیں کہ انسان ایسے اعمال کرے جن سے حضرت کی محبت حاصل ہو، تو ان سو مواقع پر بے نظیر فائدے اور ثمرات حاصل ہوں گے۔"
آپ نے حضرت فاطمہ (س) کی خصوصیات کو ان کی محبت حاصل کرنے کا راستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: "ان کی ایک اہم خصوصیت مسلسل حقائق کی وضاحت تھی، اور مدح سرائی اس جهاد تبیین کا تسلسل ہے۔"
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے رسول اکرم (ص) کی حدیث کا ذکر کیا: "مؤمن کبھی جان سے اور کبھی زبان سے جهاد کرتا ہے۔"
آپ نے فرمایا: "زبان سے جهاد کی اہمیت اور اثر بعض اوقات جان سے جهاد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔"
آپ نے مدح خوانوں کو "زبان کے مجاہدین" قرار دیتے ہوئے کہا: "مداحی ایک مکمل میڈیا اور مرکب فن ہے جو شکل و مواد، لفظ و معنی، شعر و نغمہ، آواز، اجتماع کی قیادت اور لوگوں سے روبرو ہونے کے مختلف پہلوؤں میں ظاہر ہوتا ہے۔"
آپ نے روزمرہ مسائل کی وضاحت کو حقیقی ضرورت قرار دیا اور دشمن کی جانب سے شبہات پیدا کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے کے لیے کی گئی خفیہ و ظاہری سازشوں اور اخراجات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "مدح خواں ان افراد میں شامل ہیں جو جهادِ تبیین، آگاہی، امید اور تحریک پیدا کرنے کے ذریعے دشمن کو مناسب اور مؤثر جواب دے سکتے ہیں۔"
آپ نے "ہراس، اختلاف اور مایوسی پیدا کرنے" کو دشمن کے اسلام مخالف اور ایران مخالف منصوبے کا سہ رخی ہدف قرار دیا اور فرمایا: "شیطان کا اصل حربہ خوف پیدا کرنا ہے۔ شعر و ادب اور فکر کے حامل افراد کو دلنشین منطق کے ذریعے 'شجاعت، آگاہی اور استقامت' لوگوں تک پہنچانی چاہیے۔"
اس ملاقات کے آغاز میں ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے آٹھ مداحوں اور شاعروں نے اہل بیت عصمت و طہارت (ع) کی فضیلت کا ذکر کیا۔ حاضرین نے اجتماعی طور پر سرود پڑھ کر حضرت صدیقہ طاہرہ (س) کے مقام کو خراج تحسین پیش کیا۔