ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

سردار سلیمانی کی شہادت کی پانچویں برسی کے موقع پر ملاقات

امریکی اڈے شامی نوجوانوں کے قدموں تلے روندے جائیں گے!

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح، سردار سلیمانی کی شہادت کی پانچویں برسی کے موقع پر ان کے خاندان اور "مدافعین حرم اور مقاومت کے شہداء" کے خاندانوں کے ایک گروہ سے ملاقات میں، حاج قاسم سلیمانی کی شخصیت اور اخلاقی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں ان خصوصیات سے سبق حاصل کرتے ہوئے "مکتبِ سلیمانی" کے بنیادی ہدف یعنی "اسلام اور قرآن کی حقیقی تعبیر" کے راستے پر گامزن ہونا چاہیے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملتِ شام کی اشغالگروں پر جلد یا بدیر فتح اور یمن، فلسطین اور لبنان میں جاری مقاومت کی کامیابی پر زور دیتے ہوئے مدافعین حرم کے شہداء کی تعریف کی اور فرمایا: "سلیمانی، ایران کو بھی حرم سمجھتے تھے اور اگر وہ پاک خون نہ بہائے جاتے تو آج حریم، حرم اور مقدس مقامات کا کوئی نشان نہ ہوتا۔"

رہبر انقلاب نے ایران اور دیگر ممالک کے ہزاروں زائرین کی سردار سلیمانی کی مزار پر مشتاقانہ حاضری کو ان کی اخلاص اور خدا کی عطا کردہ عزت کا مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا: "قرآن کے مطابق، عزت صرف خدا کے ہاتھ میں ہے، اور ہمیں اس حقیقتِ معرفتی کو سمجھ کر اپنی زندگی کے طرز عمل اور سمت میں نافذ کرنا چاہیے۔"

انہوں نے سردار سلیمانی کو ایک عظیم مجاہد، عزیز اور مخلص دوست قرار دیا اور میدان عمل میں ان کی شجاعانہ، فوری اور بروقت موجودگی کو ان کی نمایاں خصوصیات میں شمار کیا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں افغانستان اور عراق میں امریکی شرارتوں کے خلاف میدانِ عمل میں حاج قاسم کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "امریکہ کا ان دونوں ممالک پر قبضے کا اصل ہدف ایران تھا، لیکن وہ شریف اور مخلص انسان امریکہ کے ظاہری رعب و دبدبے سے مرعوب ہوئے بغیر میدان میں اترے اور آخرکار یہ قبضے امریکی شکست اور اس بڑی سازش کی ناکامی پر منتج ہوئے۔"

انہوں نے سردار سلیمانی کی ان واقعات میں بے مثال کردار کے جزویات کو بیان کرنے یا لکھنے سے گریز کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "بے شک ان معاملات میں بہت ساری معلومات موجود ہیں جو سیاسی معارف کے طور پر دستاویزی شکل میں محفوظ کی جانی چاہئیں تاکہ آئندہ نسلوں کو منتقل کی جا سکیں۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حرمِ امیرالمومنین (ع) پر امریکی اشغال کے دوران چند نہتے اور بے سلاح عراقی جوانوں کی مدافعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "سردار سلیمانی نے فوراً ان جوانوں سے رابطہ کیا اور انہیں بچایا، جبکہ مرجعیت نے بھی اس مسئلے میں ایک انتہائی مؤثر اور عظیم حرکت انجام دی۔"

انہوں نے عراق پر امریکی قبضے کا ہدف صدام کی جگہ لینا قرار دیا اور فرمایا: "امریکی وہاں رہنے کے ارادے سے آئے تھے، لیکن سردار سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے ایک پیچیدہ اور طویل جدوجہد میں سیاسی، عسکری، تبلیغاتی اور ثقافتی میدانوں میں عراق کے عوام کو ان کی قسمت کا مالک بنانے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔"

رہبر انقلاب نے داعش کی امریکی سازش کی شکست کو حاج قاسم کی بروقت اور فیصلہ کن موجودگی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: "تکفیری دہشتگردی کے خلاف جدوجہد میں عراقی جوانوں نے حقیقی معنوں میں چمک دکھائی، لیکن اس سازش کی ناکامی میں، جو خطے کی بقا یا تباہی کا سبب بن سکتی تھی، سلیمانی نے اپنی ابتکاری سوچ، جرات، قربانی اور طاقت کے ذریعے بے مثال کردار ادا کیا۔"

انہوں نے سردار سلیمانی کی جہادی سرگرمیوں میں ہمیشہ کے لیے اپنائے گئے اصول کو "مقاومت کے محاذ کو زندہ کرنا" قرار دیا اور فرمایا: "سلیمانی کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ شام، لبنان اور عراق کے تیار اور میہنی قوتوں سے مقاومت کے احیاء کے لیے بہترین طریقے سے استفادہ کرتے تھے۔"

رہبر انقلاب نے داعش کے خلاف استقامت کے بارے میں مرجعیت کی فتویٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "اس اہم فتویٰ کے نتیجے میں ہزاروں جوان میدان میں اترے، لیکن ان کے پاس تنظیم اور اسلحہ موجود نہیں تھا۔ سردار سلیمانی نے بڑے عراقی مجاہدین، خاص طور پر شہید ابومہدی، جو ایک بہت ہی قیمتی اور عظیم شخصیت تھے، کی مدد سے ان جوانوں کو منظم کیا، انہیں اسلحہ فراہم کیا اور تربیت دی۔"

آپ نے مقدس حریموں کے دفاع کو حاج قاسم کے تمام ادوارِ جہاد اور جدوجہد کا بنیادی اصول قرار دیتے ہوئے فرمایا: "سردار ایران کو بھی حرم سمجھتے ہوئے اس کا دفاع کرتے تھے۔ یہ مقدس حریموں اور حرموں کے دفاع کی منطق بہت اہم اور ضروری ہے۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: "سردار کے لیے عتبات عالیہ، زینبیہ، صحابہ امیرالمومنین کے مزارات اور بالخصوص مسجد الاقصیٰ کا دفاع ایک اہم اصول تھا۔ اسی وجہ سے شہید ہنیہ نے سردار کے جنازے کی تقریب میں انہیں 'شہیدِ قدس' کا لقب دیا۔"

رہبر انقلاب نے شہید سلیمانی کی ایک اور اہم خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "وہ ملکی مسائل کو عالمی نقطۂ نظر سے تجزیہ کرتے تھے اور محدود یا تنگ نظری سے گریز کرتے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ خطے اور دنیا کے ہر اہم واقعے کا ہماری ملکی صورتحال پر اثر ہوتا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ وہ خطرے کو سرحدوں کے باہر سے پہچانتے اور اس کے سدباب کے لیے اقدام کرتے تھے۔"

آپ نے شہید سلیمانی کی خصوصیات کو "مکتبِ سلیمانی" کیہ شکل میں قابل مطالعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: "یہ مکتب، درحقیقت مکتب اسلام اور قرآن ہے۔ شہید سلیمانی نے اس مکتب پر عمل پیرا ہو کر خود کو 'مرکز، محور اور نمونہ' بنایا۔ اگر ہم بھی اسی ایمان اور عمل صالح کو اپنائیں تو سلیمانی بن سکتے ہیں اور خدا کی رحمت کے مستحق قرار پا سکتے ہیں۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں "دفاعِ حرم" کے اہم موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "کچھ لوگ جو 'فہم و بصیرت اور درست تجزیہ' سے محروم ہیں، یہ تصور کرتے ہیں کہ حالیہ خطے کے واقعات کے بعد دفاعِ حرم کی راہ میں بہایا گیا خون ضائع ہو گیا، لیکن یہ سوچ اور بیان ایک بڑی غلطی ہے۔ اگر حاج قاسم اور مدافعینِ حرم کی شجاعانہ جدوجہد نہ ہوتی تو آج زینبیہ، کربلا اور نجف سمیت کسی مقدس مقام کا نشان باقی نہ ہوتا۔"

آپ نے فرمایا: "ایک دور میں سامرا میں کچھ غفلت ہوئی اور تکفیریوں نے امریکہ کی مدد سے امام حسن عسکری اور امام علی نقی کے گنبد و ضریح کو تباہ کر دیا۔ اگر ان مومن جوانوں کی جانثاری نہ ہوتی تو دیگر مقدس مزارات اور مسلمانوں کے قلب کے قبلے بھی اسی افسوسناک انجام سے دوچار ہوتے۔ لیکن مدافعینِ حرم نے دشمن کو روک کر اسے بھرپور جواب دیا۔"

رہبر انقلاب نے دفاعِ حرم کی حقیقت کو ایک مقدس مقام کے دفاع کے ساتھ ساتھ اس مقام کے مالک اور آئمہ کرام کے مکتب کے دفاع سے تعبیر کیا اور فرمایا: "قرآنی ثقافت کے مطابق، جو خون بھی خدا کی راہ میں بہایا جائے، چاہے فتح حاصل ہو یا نہ ہو، وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے نزدیک بے حد قیمتی ہے۔ جس طرح جنگ احد میں حضرت حمزہ کا خون اور کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا خون ضائع نہیں ہوا۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے زور دیتے ہوئے فرمایا: "یقیناً فتح نصیب ہو گی۔ اس وقت باطل کی یہ گھن گرج وقتی ہے۔ جو لوگ آج برتری دکھا رہے ہیں، ایک دن مومنین کے قدموں تلے روندے جائیں گے۔"

رہبر انقلاب نے حالیہ برسوں کے واقعات اور شہید سلیمانی و ان کے ساتھیوں کی نمایاں خدمات، خصوصاً دفاع حرم کی تحریک کو انقلاب کے شجرۂ طیبہ کی زندگی، شادابی اور ثمربخشی کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا: "جس طرح 1980 کی دہائی میں نوجوان اپنی والدین کی رضا حاصل کرنے اور محاذ جنگ پر جانے کے لیے ان کے قدموں میں گر جاتے تھے، اسی طرح 2000 اور 2010 کی دہائیوں میں نوجوان، جیسے شہید حججی، اپنی ماؤں کے قدم چوم کر جہاد کی اجازت طلب کرتے تھے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی جمہوریہ 46 سال بعد بھی زندہ اور پائیدار ہے۔"

آپ نے اسلام کے دفاع کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کے لیے لاکھوں ایرانی نوجوانوں کی تیاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "مدافعان حرم نے یہ ثابت کر دیا کہ دشمنوں کی بھاری سرمایہ کاری اور سازشوں کے باوجود، مزاحمت کا پرچم اب بھی سربلند ہے اور دشمن نہ اب اور نہ آئندہ لبنان، فلسطین، شام، عراق اور ایران میں مزاحمت کے پرچم کو سرنگوں کر سکے گا۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے قومی استقامت اور طاقت کے دوام کے لیے اقتدار کے عوامل کی حفاظت کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا: "مومن اور قربانی کے لیے تیار نوجوان کسی بھی ملک کے استحکام اور طاقت کے اہم ترین عناصر ہیں، اور ان نوجوانوں کو میدان سے دور نہیں کیا جانا چاہیے۔"

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: "یقیناً، ہمارے ملک میں اس موضوع پر خاص توجہ دی گئی ہے، لیکن دیگر ممالک کو بھی اس پر توجہ دینی چاہیے، کیونکہ اگر مومن اور فداکار نوجوانوں کو میدان سے ہٹایا جائے تو صورتحال ایسی ہو سکتی ہے جیسی شام میں ہوئی، جہاں غیر ملکی مداخلت کے نتیجے میں بدامنی اور زمین کا قبضہ دیکھا گیا، جیسے امریکہ، صیہونی حکومت اور دیگر جارح ممالک کی طرف سے۔"

آپ نے شام میں قابض غیر ملکیوں کی موجودگی کو ناممکن قرار دیتے ہوئے فرمایا: "شام شامی عوام کا ہے، اور جو لوگ اس کی زمین پر ناجائز قابض ہیں، انہیں یقیناً ایک دن غیور شامی نوجوانوں کی طاقت کے سامنے پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔"

رہبر انقلاب نے شام میں امریکی فوجی اڈے بنانے کے سلسلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "جو جارح ایک قوم کی زمین پر قابض ہو، اسے نکلنا پڑے گا ورنہ اسے نکال دیا جائے گا۔ اسی طرح امریکی اڈے بھی یقیناً شامی نوجوانوں کے قدموں تلے روند دیے جائیں گے۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ فتح آخرکار مؤمنوں کی ہوگی، اور فرمایا: "لبنان مزاحمت کی علامت ہے، اور اگرچہ زخمی ہے، لیکن جھکا نہیں، اور بالآخر کامیاب ہوگا۔ یمن بھی مزاحمت کی علامت ہے اور وہ بھی فتح یاب ہوگا۔ ان شاء اللہ، دشمنوں، خاص طور پر امریکہ جیسی لالچی اور مجرمانہ طاقتوں کو، آخرکار خطے کی قوموں کا پیچھا چھوڑنا پڑے گا اور انہیں ذلت کے ساتھ خطے سے نکلنا ہوگا۔"

رہبر انقلاب نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ماہ رجب کو دعا، عبادت اور اللہ سے توسل کا مہینہ قرار دیا اور فرمایا: "اس مہینے کے بلند اور عمیق معنوی دعاؤں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دلوں، جانوں اور نیتوں کو اللہ کی بے پایاں رحمت سے جوڑنا چاہیے اور خداوند سے بندگی کے لیے ہمت، قوت اور توفیق مانگنی چاہیے۔"

اس ملاقات میں سردار سلیمانی کے اہل خانہ، مدافعان حرم کے شہدا کے خاندان، پچھلے سال کرمان کے قبرستانِ شہداء پر دہشت گردانہ حملے کے شہداء کے خاندان، 2019 میں حاج قاسم سلیمانی کے جنازے کی تقریب میں شہداء کے خاندان، اور لبنان کے حالیہ واقعات میں زخمیوں اور شہداء کے چند خاندان شریک تھے۔

 

 

700 /