ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

ہزاروں خواتین اور بچیوں سے ملاقات

خواتین کی آزادی اور فیمینزم نعروں کے پیچھے غیرانسانی اور سیاسی مقاصد پوشیدہ ہیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح ہزاروں خواتین اور بچیوں سے ملاقات کے دوران حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو تخلیق کا حیرت انگیز نمونہ قرار دیا اور اسلام کے منشور میں خواتین کے بارے میں اہم اصولوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام میں مرد اور عورت ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں۔ دونوں حیاتِ طیبہ تک پہنچنے کی کوششوں، علمی، ثقافتی، فنون لطیفہ، سماجی و سیاسی اثرات، معاشی سرگرمیوں اور بین الاقوامی معاملات میں فکری اور روحانی صلاحیتوں کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہیں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خطے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے مظالم کی جاری رہنے والی کارروائیوں اور بعض افراد کی ان کی مدد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"صیہونی حکومت اس وہم میں مبتلا ہے کہ شام کے ذریعے حزب اللہ کو گھیرے میں لے کر ختم کر دے گی، لیکن جو ختم ہوگا، وہ اسرائیل ہے۔"

آپ نے اپنے خطاب کے آغاز میں حضرت صدیقہ طاہرہ (س) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور خواتین اور بچیوں کے ساتھ ملاقات کو بہت عمدہ اور پرجوش قرار دیا۔ آپ نے اس ملاقات میں متعدد خواتین کے بیانات کے بعض نکات کا حوالہ دیا، جن میں "خاندان کی دیکھ بھال کے لیے سائبر اسپیس پر قابو پانے کی ضرورت"، "آبادی میں اضافہ"، "فن کے شعبے میں خواتین کے مسائل" اور "شادی کے معاملات میں سہولت کاری" شامل ہیں۔ آپ نے متعلقہ اداروں کو ان نکات پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی تاکید کی۔

رہبر معظم انقلاب نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شخصیت کے بعض پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایک غیر معمولی نمونہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: "یہ بہت عظیم اور حیرت انگیز ہے کہ ایک جوان خاتون، روحانی اور جبروتی مقام میں اس حد تک پہنچ جائے کہ اہلِ تشیع اور اہلِ تسنن کی روایات کے مطابق، ان کی خوشی اللہ کی خوشی اور ان کا غصہ اللہ کے غضب کا سبب ہو۔"

آپ نے حضرت فاطمہ (س) کی بعض منفرد خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ رسول اکرم (ص) کے دکھوں میں شریک تھیں، امیرالمومنین کے ساتھ جہاد میں شریک رہیں، فرشتوں کو اپنی عبادت سے حیرت میں ڈال دیا، فصیح و بلیغ خطبے ارشاد فرمائے، اور امام حسن، امام حسین (علیہم السلام) اور حضرت زینب (س) کی تربیت فرمائی۔ آپ نے مزید فرمایا کہ حضرت فاطمہ (س) کا بچپن، جوانی، ازدواج اور طرزِ زندگی ایک مسلمان خاتون کے لیے بہترین، خوبصورت ترین اور جامع ترین نمونہ ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دنیا میں خواتین کے معاملے پر مختلف نظریات کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ سرمایہ داروں اور ان کے زیر اثر سیاستدانوں نے میڈیا کے ذریعے جھوٹ اور مکر کا سہارا لے کر اپنے جرائم اور فساد انگیز مقاصد کو آزادی اور انسان دوستی کے فلسفے کے پردے میں چھپایا ہے۔

آپ نے مغربی استعمار اور سرمایہ داروں کی منافقت کو ہمیشہ کا طریقہ کار قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خواتین کو فیکٹریوں میں کم اجرت پر مزدور کے طور پر کام دلوانا اور اسے آزادی و خود مختاری کے پردے میں پیش کرنا ان کی منافقت کی ایک مثال ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ میں تقریباً دو صدی قبل غلامی کے خاتمے کے نعرے کے پوشیدہ مقصد کو جنوبی کھیتوں سے غلاموں کو شمالی فیکٹریوں میں لانا قرار دیا اور فرمایا:  "آج بھی خواتین کی آزادی، فیمینزم اور حقوقِ نسواں کے نعروں کے پیچھے غیرانسانی اور سیاسی مقاصد چھپے ہوئے ہیں، جن میں سے بعض تو واضح ہیں اور بعض بعد میں آشکار ہوں گے۔"

آپ نے خواتین کے حوالے سے اسلام کے منشور کی وضاحت کو عوام کی اسلام کے منطق کو سمجھنے کے لیے ضروری قرار دیا اور فرمایا:  
"ہمیں اس منطق کو معاشرے میں عام کرنا اور اسی کے مطابق عمل کرنا چاہیے، اور الحمدللہ انقلاب کے بعد اس حوالے سے بہت سے کام انجام دیے گئے ہیں۔"

رہبر انقلاب نے ازدواج کو اسلام کے منشور میں عورت کے حوالے سے پہلا اہم اصول قرار دیتے ہوئے فرمایا:  "قرآن کی متعدد آیات کے مطابق، عورت اور مرد ایک ہی جنس سے ہیں، زوج اور ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عورت اور مرد کے مکمل ہونے کی لازمی شرط کو ایک تیسری ایکائی یعنی خاندان کی تشکیل قرار دیا اور فرمایا:  
"خاندان کا قیام تخلیق کی ایک الہیٰ سنت ہے، اور خوش قسمتی سے ایرانی ثقافت میں بھی خاندان دوستی قوم کی گہری اور مضبوط ثقافت کی ایک اہم نشانی ہے۔"

آپ نے اسلام کے منشور میں عورت کے بارے میں ایک اور اصول یہ بتایا کہ معنوی ترقی، انسانی بلندی اور حیاتِ طیبہ کے حصول میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔  
آپ نے فرمایا:  "اسلام کی نظر میں عورت اور مرد جسمانی فرق کے باوجود، فکری و عملی صلاحیتوں اور لامتناہی استعدادات سے مالا مال ہیں، جس کی بنیاد پر عورت بھی مرد کی طرح مختلف علمی، سیاسی، سماجی، اقتصادی، بین الاقوامی، ثقافتی اور فنی میدانوں میں کردار ادا کر سکتی ہے، بلکہ بعض مواقع پر یہ اس پر واجب ہوتا ہے۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خاندان میں عورت اور مرد کے مختلف کرداروں کو ایک کی دوسرے پر برتری کی دلیل قرار نہیں دیا اور فرمایا:  "خاندان میں عورت اور مرد یکساں حقوق رکھتے ہیں۔ البتہ جذباتی پہلو سے، اسلام عورت کو ایک پھول کی مانند سمجھتا ہے جس کی تازگی اور خوشبو کی خاندان میں حفاظت اور مستفید ہونا چاہیے۔"

آپ نے اسلام کی نظر سے مرد و عورت کی معاشرت اور تعلقات پر عائد حدود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:  "اسلام حجاب، عفت اور نگاہ کے بارے میں خاص ہدایات اور ملاحظات رکھتا ہے۔"
آپ نے مزید فرمایا:  "آج مغرب میں جو بے راہ روی نظر آتی ہے، وہ بھی نسبتاً نئی ہے، کیونکہ دو تین صدی قبل کے یورپی ادبی آثار میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ مغرب میں بھی عورت کے حوالے سے کئی ملاحظات موجود تھے۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے "ماں ہونے کی معنوی قدر اور اس پر فخر" کو اسلام کے نقطہ نظر سے عورت کے بارے میں ایک اور اہم رکن قرار دیا اور فرمایا:  "آج سرمایہ داروں، استعمار اور آزاد معاشروں کے بدخواہوں کی پالیسیوں کے تحت بعض افراد ماں ہونے کی ایک غلط تصویر پیش کرتے ہیں، جبکہ ایک انسان کی پرورش اور تربیت کرنا ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔"
آپ نے مزید فرمایا:  "اسی بنیاد پر اسلام نے مختلف تعابیر کے ذریعے، مثلاً ماں کے قدموں تلے جنت کا ذکر، ماں کے ساتھ محبت، خدمت اور اطاعت پر زور دیا ہے۔"

رہبر معظم نے اسلام کے منشور میں عورت کے بارے میں چند اہم اصول بیان کرنے کے بعد فرمایا:  "انقلاب کے بعد خواتینِ مؤمن، دانشمند اور مختلف شعبوں میں سرگرم خواتین کی حیرت انگیز ترقی اسی بلند نظر کے نتیجے میں ہے۔"
آپ نے کہا کہ انقلاب کی جدوجہد اور کامیابی میں خواتین کا کردار فیصلہ کن تھا اور فرمایا:  "جب کچھ لوگ خواتین کے مظاہروں میں شرکت کے مخالف تھے، تو امام خمینی نے اس مخالفت کی سختی سے تردید کی۔"  

آپ نے مزید فرمایا:  "خواتین کی میدان میں شمولیت نے ان کے شوہروں اور بچوں کو بھی تحریک میں حصہ لینے پر مجبور کیا۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ خواتین نے انقلاب کو کامیاب بنایا۔"

رہبر انقلاب نے سیاسی اور بین الاقوامی میدانوں میں متین سرگرمیوں اور دفاع مقدس، دفاع از حرم اور دیگر سیاسی میدانوں میں خواتین کے کردار کو انقلاب کے بعد خواتین کی روشن ترین کامیابیوں میں شمار کرتے ہوئے فرمایا:  
ایرانی خواتین نے اپنی متانت، حیاء اور عفت کے ساتھ ملک کی شناخت، ثقافت اور تاریخی و اصلی روایات کی حفاظت کی ہے۔ یہ خواتین آج تک ان اثرات سے محفوظ ہیں جن سے اکثر مغربی ممالک متاثر ہوئے ہیں، اور ان شاء اللہ آئندہ بھی اسی طرح اپنے راستے پر گامزن رہیں گی۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خواتین کی علمی و تحقیقی سرگرمیوں اور یونیورسٹیوں و دینی مدارس میں ان کے نمایاں کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:  
آج مجتہد خواتین کی تعداد کم نہیں ہے، اور یہاں تک کہ ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ بہت سے خواتین سے متعلق مسائل میں جہاں مرد درست فیصلہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں، وہاں خواتین کو خواتین مجتہدین کی تقلید کرنی چاہیے۔

آپ نے دین داری کو برقرار رکھتے ہوئے خواتین کے دانشور، یونیورسٹی پروفیسر، مصنف، شاعر اور فنکار بننے کی ترقی کو انقلاب سے پہلے کے دور سے ناقابل موازنہ قرار دیا اور فرمایا:  
دشمن بھی بے کار نہیں بیٹھا ہوا، وہ منصوبہ بندی کر رہا ہے کیونکہ وہ جلد ہی سمجھ گئے کہ سخت جنگ جیسے ہتھکنڈوں، بمباری، نسلی تحریکوں اور فتنے کی قوتوں کے ذریعے انقلاب کو شکست دینا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ نرم جنگ کے ہتھکنڈوں کی طرف گئے، جیسے کہ جھوٹے نعروں، وسوسوں اور پروپیگنڈے کے ذریعے حملے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خواتین کے حقوق کے نام پر کسی ملک میں انتشار پھیلانے کو دشمن کے جھوٹے نعروں کی ایک مثال قرار دیا اور فرمایا:  
لڑکیاں، خواتین، اساتذہ، طالبات اور پورا خواتین کا طبقہ یہ ذمہ داری سمجھے کہ وہ دشمن کے وسوسوں، چالاک ہتھکنڈوں اور نرم جنگ کے ذریعے خواتین کے مسائل میں اقدار سے انحراف کے خلاف ہوشیار رہیں۔

رہبر انقلاب نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں علاقائی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:  
شام میں جو کچھ ہوا اور صیہونی حکومت و امریکہ کے جرائم اور ان کے مددگاروں کی کوششوں کے باوجود، دشمنوں کو یہ گمان ہوا کہ مزاحمت ختم ہو چکی ہے، لیکن وہ سخت غلطی پر ہیں۔

آپ نے فرمایا:  سید حسن نصراللہ اور یحییٰ سنوار کی روح زندہ ہے، ان کے جسم چلے گئے لیکن شہادت نے انہیں عالمِ وجود سے بے اثر نہیں کیا۔ ان کی روح اور فکر زندہ ہے اور ان کا راستہ جاری رہے گا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے غزہ کی روزانہ صیہونی حملوں کے خلاف مزاحمت اور لبنان کی مسلسل جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:  
صیہونی حکومت شام کے ذریعے حزب اللہ لبنان کو محاصرے اور نابودی کے لیے تیار کر رہی ہے، لیکن جسے نابود ہونا ہے وہ اسرائیل ہے۔

رہبر انقلاب نے فلسطینی مجاہدین اور حزب اللہ کے مجاہدوں کے ساتھ ایران کی حمایت جاری رکھنے پر زور دیا اور امید ظاہر کی کہ مجاہدین وہ دن دیکھیں گے جب دشمن ان کے قدموں تلے روند دیا جائے گا۔

رہبر انقلاب کے خطاب سے قبل خواتین اور بچیوں کے شعبے کی چھ فعال شرکاء نے مختلف موضوعات پر بات کی، جن میں "مسلمان انقلابی عورت کا نمونہ عمل"، "سوشل میڈیا، خواتین، خاندان اور بچے"، "خاندان کو مضبوط کرنا"، آبادی کے مسئلے کا حل"، "خواتین فنکاروں کی صلاحیت اور خواتین کے متعلقہ موضوعات پر نمایشی کاموں کو فروغ دینا"، "شادی کو آسان بنانے اور اس کے لیے ثالثی کے کردار" اور "طالبات کے نصاب میں ثقافتی شناخت کے فروغ کی نظر سے اصلاحات" شامل تھیں۔

لبنانی شہیدوں کی والدہ محترمہ عائدہ سرور نے بھی محورِ مقاومت کی خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے اس ملاقات میں اپنی گفتگو میں مزاحمت کی جاری جدوجہد اور اس کی کامیابی کے بارے میں بات کی۔

700 /