ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

عوام کے مختلف طبقات سے ملاقات میں خطاب

شام کے واقعات ایک امریکی-صیہونی منصوبے کا نتیجہ ہیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح عوام کے مختلف طبقات سے ملاقات میں شام کے واقعات کی تہہ در تہہ وضاحت، ایران کی شام میں موجودگی کی منطق، خطے میں آئندہ کے حالات کی تصویر کشی، اور شام کے واقعات سے حاصل ہونے والے اسباق و عبرتوں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ واقعات ایک امریکی-صیہونی منصوبے کا نتیجہ ہیں، اور مزاحمتی تحریک اپنی استحکام اور مزید عزم کے ساتھ، خدا کی مدد سے پورے خطے میں پھیل جائے گی۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شام کے واقعات میں ایک پڑوسی ملک کے واضح کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ شواہد بتاتے ہیں کہ اصل سازشی منصوبہ اور کمانڈ سنٹر امریکہ اور صیہونی ریاست کے ہاتھ میں ہے۔  
آپ نے سوال اٹھایا کہ اگر امریکہ اور صیہونی ریاست شام کے واقعات کے منصوبہ ساز نہ ہوتے، تو وہ دیگر ممالک کی طرح خاموش کیوں نہیں رہے؟ کیوں انہوں نے شام کے سینکڑوں بنیادی ڈھانچوں، ہوائی اڈوں، تحقیقی مراکز، اور سائنسدانوں کی تربیتی مراکز پر بمباری کرکے براہ راست مداخلت کی؟

رہبر معظم نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ امریکہ نے ابتدا میں شام پر حملے کا باقاعدہ اعلان کیا اور 75 مقامات پر بمباری کی۔ صیہونی ریاست نے بھی شام کی سینکڑوں جگہوں کو نشانہ بنایا اور دمشق کے قریب اپنے ٹینک پہنچائے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکہ، جو دیگر ممالک کی سرحدی جھڑپوں پر بہت حساس ہوتا ہے، شام کے ان واقعات پر نہ صرف خاموش رہا بلکہ مدد بھی فراہم کی۔ یہ سب واضح اشارے ہیں کہ ان واقعات کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔

آپ نے ان شواہد میں سے ایک اور اہم مثال دی کہ ایک موقع پر جب شام کے علاقے، خاص طور پر زینبیہ کے عوام کے لیے امداد بھیجی جا رہی تھی، صیہونی ریاست نے تمام زمینی راستے بند کر دیے اور امریکی و صیہونی طیاروں نے ہوائی امداد کو بھی روکا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ عناصر اس سازش کا حصہ نہیں تھے تو انہوں نے شامی عوام کو امداد پہنچنے سے کیوں روکا؟

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ شمال اور جنوب سے شام پر حملہ کرنے والوں کے اہداف مختلف ہیں، لیکن امریکہ کا مقصد خطے میں اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔ تاہم، وقت ثابت کرے گا کہ ان کے مقاصد ناکام ہوں گے اور شام کے غیور نوجوان اپنے علاقے آزاد کریں گے۔  
آپ نے زور دے کر کہا کہ جبر و ظلم کے باوجود، مزاحمتی تحریک مضبوط ہو رہی ہے اور اس کی جڑیں ایمان، فکر، عقیدے، اور دل کے فیصلے میں پیوست ہیں۔

آپ نے کہا کہ مزاحمتی تحریک دباؤ کے تحت نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ مزید مضبوط ہوتی ہے۔ آپ نے مثال دی کہ حزب اللہ، حماس، اور فلسطینی جہاد اسلامی پچھلے چودہ ماہ کے دباؤ کے باوجود مزید مضبوط ہوئے ہیں۔  
آپ نے یاد دلایا کہ دشمن یہ سمجھتا تھا کہ **غزہ کے عوام بمباری کے بعد حماس کے خلاف ہو جائیں گے**، لیکن نتیجہ الٹ نکلا، اور عوام حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے زیادہ حامی بن گئے۔

رہبر معظم نے فرمایا کہ امریکہ جبر و استبداد کے ذریعے خطے پر قابو پانے کا خواب دیکھ رہا ہے، لیکن خدا کے فضل سے مزاحمتی تحریک خطے سے ان کا صفایا کر دے گی۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ دشمن کے دباؤ اور مظالم کے نتیجے میں مزاحمتی تحریک پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ آپ نے فرمایا: وہ بےخبر تجزیہ کار جو ان واقعات کو ایران کی کمزوری قرار دے رہا ہے، سمجھ لے کہ ایران ایک طاقتور اور مقتدر ملک ہے اور مزید مضبوط ہوگا۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ مزاحمت ایک ایسی حقیقت ہے جو ملتوں کے ایمان اور عقیدے میں جڑیں رکھتی ہے۔ آپ نے فرمایا:  
"مزاحمت کا مطلب امریکہ اور ہر غاصب طاقت کے خلاف کھڑے ہونا اور امریکہ کی غلامی اور انحصار سے انکار کرنا ہے۔ یہی عقیدہ آج خطے کی قوموں اور دنیا بھر کی عوام کو فلسطین کی حمایت اور صیہونی حکومت سے نفرت کا باعث بنا رہا ہے۔"

آپ نے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے 75 سال بعد بھی مسئلہ فلسطین کی مضبوطی کا ذکر کرتے ہوئے کہا:  
"آج فلسطینی عوام اور خطے کی قوموں کا عزم مسئلہ فلسطین پر پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ ملتوں کے مشترکہ عقیدہ مزاحمت نے اس شعلے کو مزید روشن کیا ہے۔"  
آپ نے مزید کہا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی عوام کے نزدیک "سرخ لکیر" ہے، اور خدا کے قانون کے مطابق "ظلم کامیابی نہیں لاتا"۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شام میں ایران کی موجودگی کے بارے میں وضاحت دیتے ہوئے فرمایا:  
"شام نے ایران کی مدد اس وقت کی جب ایران دفاع مقدس کے دوران تنہا تھا۔" 
آپ نے ذکر کیا کہ شام نے اس وقت عراق سے تیل کی ترسیل روک کر صدام حسین کی آمدنی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔  

آپ نے مزید کہا کہ شام اور عراق میں ایران کی موجودگی کی ایک بڑی وجہ داعش کے فتنے کو ختم کرنا تھا۔  
آپ نے فرمایا:  "داعش خطے کو ناامن کرنے کے بعد ایران کو بھی اپنا ہدف بنانا چاہتا تھا۔ ہمارے حکام نے بروقت سمجھ لیا کہ اگر داعش کو نہ روکا گیا تو اس کی دہشتگردی ایران کے کونے کونے میں پھیل جائے گی۔"

آپ نے کہا کہ شام اور عراق میں ایران کی فوجی موجودگی "مستشاری نوعیت کی تھی یعنی مرکزی قیادت کی تشکیل، حکمت عملی اور منصوبے بنانا، ضروری مواقع پر میدان جنگ میں موجودگی اور سب سے اہم بات، مقامی جوانوں کو منظم اور متحرک کرنا۔  

آپ نے فرمایا کہ ایران نے وہاں فوجی لشکر نہیں بھیجے کیونکہ یہ عمل نہ منطقی تھا اور نہ ہی عوامی رائے عامہ اس کو قبول کرتی۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ داعش کا ہدف کربلا، نجف، کاظمین اور دمشق میں مقدس مقامات کو نقصان پہنچانا تھا، لیکن مؤمن، غیور اور اہل بیت کے چاہنے والے جوانوں نے ان کی سازشوں کو ناکام بنایا۔ آپ نے زور دے کر کہا:  "یہ جوان کبھی بےتاثر نہیں رہ سکتے تھے اور انہوں نے داعش کو شکست دے کر اپنے مقدسات کا دفاع کیا۔"

رہبر معظم نے ذکر کیا کہ ایران کے بسیجیوں اور نوجوانوں نے شام جانے کی شدید خواہش ظاہر کی، لیکن ایران کی موجودگی زیادہ تر مستشاری نوعیت کی تھی اور جنگی حالات میں شرکت صرف مخصوص مواقع پر اور رضاکارانہ بنیادوں پر تھی۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے داعش کے خلاف جنگ میں شہید سلیمانی کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہزاروں شامی نوجوانوں کو تربیت، منظم اور مسلح کیا تاکہ وہ داعش کا مقابلہ کر سکیں۔  
آپ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ سالوں بعد شامی فوجی حکام کے فیصلے کے تحت اس گروہ کو ختم کر دیا گیا۔  
آپ نے فرمایا:  "داعش کے فتنے کو ختم کرنے کے بعد، ہمارے زیادہ تر اہلکار شام سے واپس آ گئے۔"

رہبر انقلاب نے زور دیا کہ "اصل جنگ شامی فوج کو لڑنی چاہیے تھی"۔ آپ نے فرمایا:  "دوسرے ممالک کے بسیجی دستے فوج کے ساتھ مل کر لڑ سکتے ہیں، لیکن اگر فوج کمزوری اور بےحوصلگی کا مظاہرہ کرے تو بسیجی کچھ نہیں کر سکتے۔ افسوس کہ یہی مسئلہ شام میں پیش آیا۔"

آپ نے وضاحت کی کہ کسی بھی ملک میں موجودگی کے لیے وہاں کی حکومت کی اجازت ضروری ہے۔  
آپ نے فرمایا:  "جیسے ہم عراق اور شام کی حکومتوں کی درخواست پر وہاں موجود ہوئے، اگر وہ درخواست نہ کریں تو مدد ممکن نہیں ہوگی۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ شام کی موجودہ مشکلات اور مصیبتیں "شامی فوج کی مزاحمت اور استقامت میں کمی" کا نتیجہ ہیں۔  
آپ نے اس کا موازنہ ایران کے مسلح افواج کے بلند حوصلے سے کرتے ہوئے فرمایا:  "آج ایرانی قوم اپنی فوج اور سپاہ پر فخر کرتی ہے۔ لیکن دورِ طاغوت میں، فوج اتنی کمزور تھی کہ بیرونی حملے کے مقابلے میں مزاحمت نہ کر سکی اور دوسری جنگ عظیم میں دشمن نے تہران تک پیشقدمی کرکے اسے فتح کر لیا۔"

رہبر انقلاب نے شامی عوام کے لیے امید کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:  "یہ صورتحال برقرار نہیں رہے گی کہ کچھ لوگ دمشق میں آکر گھروں پر حملہ کریں اور صیہونی حکومت بمباری، توپ اور ٹینک سے پیشقدمی کرے۔"
آپ نے مزید فرمایا:  "یقیناً شامی نوجوان اٹھ کھڑے ہوں گے اور مزاحمت کے ذریعے، چاہے انہیں جانیں دینا پڑیں، اس صورتحال پر قابو پالیں گے۔

آپ نے عراق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب عراق امریکہ کے قبضے میں چلا گیا، تو وہاں کے جوانوں نے شہید سلیمانی کی مدد اور قیادت سے دشمن کو اپنے گھروں اور گلیوں سے نکال باہر کیا۔  
آپ نے فرمایا:  "یہ عمل شام میں بھی ممکن ہے، چاہے وقت لگے، لیکن نتیجہ یقینی ہے۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حادثہ شام سے سبق اور عبرت حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:  آپ نے فرمایا کہ شام میں دشمن نے بہت تیزی سے کارروائی کی، لیکن شامی حکومت کو پہلے سے ہی اس کا اندازہ لگا کر اقدامات کرنے چاہیے تھے، جیسا کہ ہماری انٹیلیجنس ایجنسی نے کئی ماہ پہلے شامی حکام کو خبردار کیا تھا۔  

آپ نے فرمایا:  "دشمن کو کبھی بھی کمزور یا حقیر نہ سمجھا جائے اور اس کی مسکراہٹ پر اعتماد نہ کیا جائے، کیونکہ کبھی وہ خوش اخلاقی سے بات کرتا ہے لیکن پیٹھ کے پیچھے خنجر لیے موقع کا انتظار کرتا ہے۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے زندگی میں کامیابی اور ناکامی کو ایک حقیقت قرار دیتے ہوئے فرمایا:  "اہم یہ ہے کہ کامیابیوں میں غرور نہ ہو، کیونکہ غرور انسان کو جاہل بناتا ہے، اور ناکامیوں میں مایوس یا منفعل نہ ہوا جائے۔ جیساکہ جمہوری اسلامی اور جمہورِ مقاومت نے نہ کامیابی پر غرور کیا اور نہ ہی ناکامی پر مایوس ہوئے۔"

آپ نے مزید فرمایا:  "انقلاب کے 46 سالوں میں ہم نے بڑی مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کیا ہے۔ ایک وقت تھا جب صدام کے طیاروں نے تہران کے ہوائی اڈے پر بمباری کرکے لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کیا، لیکن ان سب تلخ حالات میں بھی جمہوری اسلامی ایک لمحے کے لیے بھی انفعال کا شکار نہیں ہوئی۔"

آپ نے انفعال کو بعض اوقات خود حادثے سے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہوئے فرمایا:  "مؤمن کو کبھی بھی انفعال کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور یہ محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا یا اسے حالات کے سامنے جھکنا پڑے گا۔"
آپ نے قرآن کی روشنی میں کہا کہ کامیابیوں پر شکر اور استغفار اور ناکامیوں پر صبر ضروری ہے، کیونکہ "کامیابی میں غرور زہر ہے اور ناکامی میں انفعال۔"

آپ نے ان افراد کی مذمت کی جو لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرتے ہیں اور فرمایا:  "کچھ لوگ بیرون ملک اور فارسی زبان کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ کام کرتے ہیں، جن سے مختلف طریقے سے نمٹنا چاہیے، لیکن ملک کے اندر کسی کو بھی یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کوئی اپنی تحلیل یا بیان میں ایسے بولے کہ لوگوں کے حوصلے پست ہوں، تو یہ جرم ہے اور اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے اختتام پر ایرانی قوم کو ایک فعال قوم قرار دیتے ہوئے فرمایا:  "خدا کے فضل سے، اس خطے سے صیہونیت اور مغرب کے خبیث عناصر کی جڑیں ختم ہو جائیں گی۔"

700 /