رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح مختلف طبقات کے ہزاروں بسیجیوں سے ملاقات میں اس بے نظیر تحریک کو ایران کی ثقافت، قومی شناخت اور تاریخ سے ماخوذ قرار دیا اور بسیج کی سرگرمیوں کو تقویت اور معیاری بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: بسیجی فکر اور نظریہ دو بنیادی ستونوں ’’خدا پر ایمان‘‘ اور ’’خود اعتمادی‘‘ پر قائم ہے اور یہ دو نمایاں خصوصیات عالمی استکبار کی پالیسیوں اور منصوبوں پر قطعی فتح حاصل کرنے کا سبب بنیں گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزاحمتی محاذ کے مستقبل کو آج سے کئی گنا مضبوط اور وسیع تر قرار دیا اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ غزہ اور لبنان میں جنگی جرائم کے باوجود صیہونی حکومت میدان میں کامیاب نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید فرمایا: نتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری کافی نہیں ہیں بلکہ اس کے اور دیگر مجرم رہنماؤں کے لیے سزائے موت کا حکم جاری ہونا چاہیے۔
آپ نے بسیج کو فطری طور پر ایک ثقافتی، سماجی اور عسکری نیٹ ورک قرار دیا اور اس کی پائیداری کو اس کی تاریخی اور ایرانی شناخت کی جڑوں میں ہونے کی وجہ بتایا۔ انہوں نے فرمایا: امام خمینیؒ نے امریکی دھمکیوں کے دوران لالچ جاسوسی کے قبضے کے تقریباً تین ہفتے بعد، ۵ آذر ۱۳۵۸ کو بسیج تشکیل دے کر اس بڑے خطرے کو ایک عظیم موقع میں بدل دیا اور اس شجرہ طیبہ کو ملک کی سماجی، ثقافتی اور عسکری زمین میں لگا دیا۔
رہبر انقلاب نے بسیج کے عسکری پہلو کو اس کے صرف ایک پہلو کے طور پر ذکر کیا اور مزید فرمایا: بسیج سب سے پہلے ایک نظریہ اور فکر ہے، جو دو بنیادی منطقوں یعنی "ایمان اور خدا پر یقین" اور "خود اعتمادی اور خود پر یقین" پر تکیہ کرتے ہوئے مختلف میدانوں میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔
آپ نے بسیج کی خصوصیات جیسے بہادری، جدت، فوری عمل، وسیع نظریہ، دشمن شناسی اور مختلف تحرکات کے خلاف حساسیت کو ان کے مضبوط ستونوں کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: خدا پر یقین کا مطلب خدا کے سامنے تسلیم ہونا، اس پر بھروسہ اور امید رکھنا اور اس کے وعدوں پر یقین رکھنا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرد بسیجی اور بسیج تنظیم میں خدا پر یقین کو اس حقیقت پر ایمان کا سبب قرار دیا کہ کائنات کے تمام اجزا خدا کے لشکر ہیں اور اگر ہم خدا کے بندے بنیں تو یہ لشکر خدا کی مرضی کے مطابق ہماری مدد کو آتا ہے، جیسا کہ مختلف ادوار میں مختلف میدانوں میں ہم نے مشاہدہ کیا ہے۔
رہبر انقلاب نے خود اعتمادی اور خود پر یقین کے اثرات اور نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے انسان کے اندر فیصلہ سازی، ارادہ اور عمل جیسے قابلیتوں کو دریافت کرنے اور ان کے استعمال کو اجاگر کیا اور فرمایا: ان صلاحیتوں کو دریافت کرنا اور استعمال کرنا استکبار کی منصوبہ بندی کے بالکل برعکس ہے۔
رہبر انقلاب نے قوموں کی صلاحیتوں کو جھٹلانے اور انہیں ذلیل کرنے کو ہمیشہ سے تسلط پسندوں کی پالیسی قرار دیا اور فرمایا: قرآن کی آیات کے مطابق فرعون اپنی قوم کو ذلیل کرتا تھا تاکہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ تاہم، فرعون آج کے امریکہ اور یورپ کے حکمرانوں سے زیادہ نجیب تھا، کیونکہ یہ لوگ دوسری قوموں کو بھی ذلیل کرتے ہیں تاکہ ان کے وسائل اور دولت کو لوٹ سکیں۔
آپ نے استکبار کے داخلی عوامل کو بیرونی دباؤ اور تسلط پسندوں کے نفسیاتی اور روحانی دباؤ کا مکمل قرار دیا اور مزید فرمایا: یہ عوامل، جیسا کہ تیل کی صنعت کو قومیانے کے واقعے میں ہوا، اپنے آقاؤں کے ساتھ مل کر قوم کی تاریخ، شناخت اور صلاحیتوں کا انکار کرتے ہیں تاکہ تسلط پسندوں کا راستہ آسان ہو سکے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بسیج کو قومی تحقیر کے بالکل برعکس قرار دیا اور ایران کی خاص طور پر قاجار اور پہلوی دور میں ہونے والی تحقیر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: پہلی جنگ عظیم کے بعد، ایران کے وفد کو پیرس کانفرنس میں داخلے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ تاہم، انقلاب نے حالات کا رخ موڑ دیا اور قومی عزت کو بحال کیا۔
آپ نے بسیجی فکر کو رکاوٹوں کو توڑنے والا قرار دیا اور فرمایا: خود اعتمادی جو بسیجی روح سے پیدا ہوتی ہے، تسلط پسند نظام کے نرم ہتھیار کو جو قوم کو تحقیر، انفعال اور ناامیدی کا شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ناکام بناتی ہے۔ یہ جزبہ اور اس سے حاصل ہونے والی صلاحیتیں بلا شبہ امریکہ، مغرب اور صیہونی حکومت کی تمام پالیسیوں پر غالب آئیں گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ۱۳۴۱ میں امام خمینیؒ کی جانب سے بسیجی فکر کو پروان چڑھانے، خود اعتمادی، خدا پر یقین اور عوام میں کامیابی کی امید پیدا کرنے کے لیے کی گئی کاوشوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے فرمایا: انقلاب کی کامیابی کے بعد، امام نے بسیج کو مختلف چیلنجز کے خلاف ایک ڈھال بنایا، اور بسیج نے فوجی، سماجی، علمی، تعمیراتی، ملک کی سلامتی، اور سیاسی و بین الاقوامی میدانوں میں کردار ادا کیا۔
آپ نے سماجی اور علمی قوت کو ملک کے لیے سیاسی طاقت پیدا کرنے کا ذریعہ قرار دیا اور فرمایا: اگر کوئی قوم اتحاد، عزم، ثابت قدمی اور فعال قوتوں کو میدان میں لاکر اپنی علمی اور سماجی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے تو وہ سیاسی طاقت بھی حاصل کرتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر اپنے موقف کو مضبوطی سے پیش کرسکتی ہے۔
رہبر انقلاب نے ۲۰ فیصد یورینیم کی تیاری کے معاملے میں ۸۰ کی دہائی کے آخر میں امریکہ کی مکاری کی سازش کو ناکام بنانے کو بسیجی جزبے کے کردار کی ایک مثال کے طور پر یاد کیا۔ آپ نے فرمایا: جب ملک کو دوائیوں کی تیاری کے لیے ۲۰ فیصد یورینیم کی اشد ضرورت تھی، تو امریکیوں نے اس کی فروخت کے حوالے سے دو معروف عالمی رہنماؤں کی وساطت سے ہونے والے معاہدے کے باوجود مذاکرات کے دوران عیاری شروع کر دی۔ لیکن ہمارے بسیجی سائنسدانوں، جن میں شہید شهریاری بھی شامل تھے، نے ۲۰ فیصد یورینیم تیار کرکے امریکیوں کو حیرت میں ڈال دیا اور ایران کو تسلیم کرانے کے لیے تیار کی گئی سازش کو ناکام بنایا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انکشاف کیا کہ بسیجی روح اور ثقافت پر مبنی بہت سی کامیابیاں اور تعطل کو ختم کرنے والے کارنامے بسیج تنظیم کے دائرہ کار سے باہر انجام دیے گئے۔ انہوں نے فرمایا: اس مکتب اور بسیجی ثقافت کو محفوظ رکھنا انتہائی اہم ہے، اور بسیجیوں کو، چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہوں، اس روح، کام کے لیے آمادگی، اور مسائل کے حوالے سے حساسیت کو برقرار رکھنا چاہیے۔
آپ نے دنیا کے مختلف ممالک کے نوجوانوں کے مسائل، جیسے بے مقصدی کا احساس، رکاوٹوں کے سامنے بے بسی، ذہنی تعطل، اور نتیجتاً خودکشی کی طرف رجحان کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: بسیجی فکر، اپنی شناخت اور صلاحیتوں پر اعتماد کے ساتھ، رکاوٹوں کو ختم کرنے والی ہے اور اپنی ہمت اور عزم کے ذریعے تسلط پسندوں کے پروپیگنڈے کے سامنے مرعوب نہیں ہوتی۔ یہ فکر امریکہ اور صیہونی حکومت کے جھوٹے پروپگنڈے کے مقابلے میں تمسخر اڑاتی ہے۔
رہبر انقلاب نے ہدف اور مقصد کے حامل ہونے کو بسیجی فکر کی ایک اور نمایاں خصوصیت قرار دیا اور فرمایا: بسیجی، اپنے مقصد یعنی اسلامی معاشرے اور اسلامی تہذیب کے قیام اور انصاف کے نفاذ پر ایمان رکھتے ہوئے، موت کے خوف کے بغیر اور شہادت کی آرزو کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، جیسا کہ دفاع مقدس اور دفاع حرم میں نوجوانوں کے جہاد اور شہادت کے شوق کی درخشاں مثالیں موجود ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ انہی خصوصیات کی بدولت ایرانی بسیجی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ وہ ایک دن صیہونی حکومت کو ختم کر دے گا۔
آپ نے بسیج کو مسلسل مضبوط کرنے اور اس کی سرگرمیوں کو معیاری اور گہرائی دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: بسیج کا پرچم، جو حق اور عوام کے حقوق کے دفاع کا پرچم ہے، ہمیشہ لہراتا رہنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بسیجی معارف کو گہرا کیا جائے، معیار میں اضافہ کیا جائے، اور مسائل کو سطحی نظر سے دیکھنے سے گریز کیا جائے۔ یہ ہدف مطالعہ، مباحثے اور درسی و تحقیقی حلقوں کے قیام کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
آپ نے بسیج کی ہمیشہ کی تیاری کو حکومتی اداروں کے ایک فعال بازو کے طور پر کردار ادا کرنے کے لیے لازمی قرار دیا اور فرمایا: بسیج کی مضبوطی کا ایک پہلو ان سرگرمیوں کو جاری رکھنا ہے۔ بسیج نے ہمیشہ حکومتوں کی مدد کی ہے اور ان کا فعال بازو رہی ہے، اگرچہ کچھ حکومتوں نے اس کی قدر نہیں کی۔
رہبر انقلاب نے علاقے کے ممالک کے لیے امریکہ کے منصوبے سے آگاہی اور اس کے خلاف ڈٹنے کو بسیج کی سیاسی مضبوطی کا ایک اور عنصر قرار دیا اور فرمایا: امریکہ کا سامراجی منصوبہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے خطے کے ممالک میں ’’آمریت اور استبداد‘‘ یا ’’انتشار اور انارکی‘‘ کو فروغ دینا ہے۔
آپ نے اس دو رخی سازش کے خلاف بسیج کے ڈٹ جانے کو ضروری قرار دیا اور فرمایا: اگر ملک میں ان دو میں سے کوئی بھی حالت پیدا ہو، تو یہ دشمن کی سازش کا نتیجہ ہے، اور بسیج کو اس کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں فلسطین اور لبنان کے جاری مسائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ احمق یہ نہ سمجھیں کہ گھروں، اسپتالوں اور عوامی اجتماعات پر بمباری ان کی کامیابی کی علامت ہے؛ دنیا میں کوئی بھی اسے کامیابی نہیں مانتا۔
رہبر انقلاب نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن غزہ اور لبنان میں تمام جنگی جرائم کے باوجود کامیاب نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔ آپ نے مزید فرمایا: نتن یاہو کے لیے جاری کیا گیا گرفتاری کا حکم کافی نہیں ہے؛ اس کے اور دیگر مجرم رہنماؤں کے لیے سزائے موت کا حکم جاری ہونا چاہیے۔
آپ نے غزہ اور لبنان میں صیہونی حکومت کے جرائم کو جنایتکاروں کی خواہش کے برخلاف، مزاحمت کو مضبوط کرنے کا سبب قرار دیا اور فرمایا: جب ایک فلسطینی یا لبنانی نوجوان، چاہے وہ میدان جنگ میں ہو یا نہ ہو، یہ دیکھتا ہے کہ وہ بمباری اور موت کے خطرے کی زد میں ہے تو وہ اپنے لیے مزاحمت اور جنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں پاتا۔ لہٰذا، یہ جنایتکار احمق دراصل اپنے ہاتھوں سے مزاحمت کے محاذ کو وسعت دے رہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزاحمت کے محاذ کو ایک ناگزیر اور ناقابل تردید ضرورت قرار دیا اور تاکید کی: جتنا آج مزاحمت کا محاذ وسیع ہوا ہے، کل یہ اس سے کئی گنا زیادہ وسعت اختیار کرے گا۔
اس ملاقات کے آغاز میں سردار غلام رضا سلیمانی، سربراہ سازمان بسیج مستضعفین نے بسیجیوں کی صلاحیتوں اور استعداد کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی اور ملک کی خدمت کے لیے مختلف طبقات کے بسیجیوں کی آمادگی پر زور دیا۔