رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ کی صبح صوبۂ فارس کے 15 ہزار شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے منعقدہ کانفرنس کی انتظامی کمیٹی سے ملاقات میں خطے کے واقعات اور مزاحمتی محاذ کی استقامت و مجاہدت کو علاقے کے مستقبل اور تاریخ میں بڑی تبدیلی بتایا اور 50 ہزار سے زیادہ بے قصور انسانوں کے قتل عام کے باوجود مزاحمت کو ختم کرنے میں صیہونی حکومت کی شکست پر زور دیتے ہوئے مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی حکام کی رسوائي کو زیادہ بڑی شکست قرار دیا اور کہا کہ شیطانی محاذ کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ کی صف آرائی میں، فتح مزاحمتی محاذ کی ہے۔
انہوں نے صیہونی حکومت کے ہاتھوں 50,000 سے زائد بے گناہ افراد کے قتل عام کے باوجود مزاحمت کو تباہ کرنے میں اس ناجائز حکومت کی رسواکن شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مغربی ثقافت، تہذیب اور سیاست دانوں کی رسوائی کو اس سے بھی بڑی شکست قرار دیا اور کہا کہ محور مزاحمت کی محور شرارت کے مقابلے میں محاذ آرائی میں فتح مزاحمت کی ہی ہے۔
انھوں نے خطے کے موجودہ مسائل اور غزہ، لبنان اور غرب اردن کے واقعات کو تاریخ رقم کرنے والےواقعات سے تعبیر کیا اور کہا کہ اگر شہید سنوار جیسے لوگ نہ ہوتے جو زندگی کے آخری لمحے تک لڑے یا شہید سید حسن نصر اللہ جیسے باعظمت لوگ نہ ہوتے جو جہاد، عقل، شجاعت اور ایثار کو ایک ساتھ میدان جنگ میں لے آئے تو علاقے کا مستقبل کچھ دوسرا ہی ہوتا۔
رہبر معظم انقلاب نے خطے میں رونما ہونے والے واقعات کے موجودہ نتائج کو نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ مغرب کی تہذیب و ثقافت کی بھی بڑی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کا خیال تھا کہ وہ مزاحمتی گروہوں کو آسانی سے تباہ کر سکتے ہیں، لیکن آج 50 ہزار سے زائد نہتے شہریوں اور مزاحمت کے کئی سرکردہ رہنمائوں کی شہادت اور امریکہ کی بھاری حمایت کے باوجود انہیں دنیا میں نفرت کے سوا کچھ نہیں ملا یہاں تک کہ امریکی یونیورسٹیوں میں بھی ان مجرموں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے، جب کہ مزاحمتی محاذ، حماس، اسلامی جہاد، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے نوجوان مجاہدین اسی عزم اور طاقت کے ساتھ لڑ رہے ہیں، جو کہ صیہونی حکومت کی بہت بڑی شکست ہے۔
انہوں نے اسے مغربی ثقافت اور تہذیب کی بھی سب سے بڑی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو ٹن وزنی بموں اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے 10 ہزار معصوم بچوں کا قتل عام مغربی جھوٹے سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی رسوائی کا باعث بنا اور مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن اور نفاق دنیا پر آشکا ہوا جو کہ ان کی سب سے بڑی شکست ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے صیہونی رجیم کے حامی محاذ کو محور شرارت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس محور شرارت کے مقابلے محور مقاومت کھڑا ہے اور خدا کے فضل سے فتح مزاحمت کے محاذ کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں صوبہ فارس کو دین، حماسہ اور فن کے امتزاج کا بہترین مظہر قرار دیا اور اس سرزمین کے ماضی سے لے کر آج تک کے ممتاز شہداء بشمول شہیدہ معصومہ کرباسی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: صوبہ فارس کے شہداء کی کانگریس کو حماسہ، فن اور دین کے خوبصورت امتزاج کو برقرار رکھنا چاہیے۔
انہوں نے پہلوی دور میں شیراز اور فارس کو غیر دینی بنانے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو اس دور میں خیال کرتے تھے کہ وہ ہنر شیراز جیسے گھناونے اقدامات کے ذریعے اسے اہل بیت کے حرم اور مرکز دین و ایمان سے مرکز فساد میں بدل سکتے ہیں، وہ سخت غلطی پر تھے،
بلاشبہ آج بھی ہمارے وطن عزیز میں ان کے کچھ گماشتے اور باقیات ہیں جو فن کو روحانیت اور حماسہ سے الگ کرنا چاہتے ہیں لیکن جو چیز ملک و قوم کو ترقی عطا کرتی ہے وہ دین، حماسہ اور فن کا امتزاج ہے۔
انھوں نے صوبۂ فارس کے 15 ہزار شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کانفرنس کی منتظمہ کمیٹی کو آرٹ اور کلچر سے متعلق پروڈکٹس کے اثرات کا جائزہ لینے کی تاکید کی اور کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو ملک کے پرافتخار ماضی خاص طور پر انقلاب کے بعد کے واقعات وحقائق جیسے تہران میں امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے یا بعثی دشمن کے مقابلے میں آٹھ سالہ جنگ کی وجہ کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے جس کے لیے انقلاب کے واقعات کو صحیح اور اچھے طریقے سے پیش کرنا ضروری ہے۔