ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

سیکورٹی شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات

صیہونی حکومت کی خام خیالی کو ختم کرنا ہوگا/ایرانی جوانوں کی طاقت سمجھانا ہوگی

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح حسینیہ امام خمینی (رہ) میں منعقدہ سیکورٹی شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ دو رات قبل صیہونی حکومت کی شیطانی حرکت کو نہ تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور نہ ہی معمولی سمجھا جانا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت کی دو رات قبل کی شیطانی حرکت کو نہ تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور نہ ہی معمولی سمجھا جائے۔ انہوں نے تاکید کی کہ صیہونی حکومت کو اسکی غلط فہمی سمجھانی ہوگی۔

انہوں نے تاکید کی کہ صیہونی حکومت کی خام خیالی کو ختم کرنا ہوگا، انھیں ایرانی قوم اور جوانوں کے عزم، حوصلے اور جدت عمل کو صحیح طریقے سے سمجھانا ہوگا۔

رہبر حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ صیہونی حکومت کو ایرانی قوم کی طاقت، ارادے اور عزم  کو کیسے سمجھانا ہے، اس بات کا تعین اعلی حکام کریں گے اور جو اس قوم اور ملک کے لیے بہتر ہے وہ کرنا چاہیے۔

انھوں نے ایران کے بارے میں صیہونی حکومت کی اندازوں کی غلطی کو مٹا دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ ایران کے سلسلے میں اندازے کی غلطی میں مبتلا ہیں کیونکہ وہ ایران، ایرانی جوانوں اور ایرانی قوم کو نہیں جانتے اور ابھی وہ ایرانی قوم کی طاقت، توانائي، جدت عمل اور عزم کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکے ہیں اور یہ بات ہمیں انھیں سمجھانی ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ کام کیسے ہونا ہے یہ ہمارے ذمہ داران کو صحیح طریقے سے طے کرنا چاہیے اور جو کچھ اس ملک اور قوم کے مفاد میں ہے، اسے انجام دینا چاہیے تاکہ وہ سمجھ جائيں کہ ایرانی قوم کون ہے اور اس کے جوان کیسے ہیں؟

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ یہ سوچ، یہ جذبہ، یہ شجاعت اور یہ آمادگي جو ایرانی قوم میں ہے اسے محفوظ رہنا چاہیے کیونکہ یہ چیزیں خود ہی سیکورٹی پیدا کرنے والی ہیں۔ انھوں نے سیکورٹی کی فراہمی اور حفاظت کے اصل اور لازمی عناصر کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ اپنے عجیب تجزیوں کے تحت یہ سوچتے ہیں کہ میزائل جیسے سامراجیوں کو حسّاس کرنے والے وسائل کے پروڈکشن سے گریز، ایران کے لیے سیکورٹی کا سبب بن سکتا ہے لیکن یہ غلط سوچ دراصل ایرانی قوم اور ذمہ داران سے کہتی ہے کہ ملک کو کمزور رکھیے تاکہ آپ سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔

حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ جو چیز کسی ملک کی سلامتی کو برقرار رکھتی ہے وہ اس کی عوامی طاقت ہے۔ کسی ملک کا ہر طرح مضبوط ہونا اسکی طاقت ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مضبوط ہونا، معیشت کا مضبوط ہونا، دفاع کے امکانات کا مضبوط ہونا، ہتھیاروں کا مضبوط ہونا، یہ وہ چیزیں ہیں جو ملک کی سلامتی کو برقرار رکھتی ہیں اور یقینی بناتی ہیں۔

آپ نے اس مرحلے پر تاکید کی: جب بھی ہم نے اپنے ملک کے حکمرانوں کی غلط پالیسی کی وجہ سے طاقت کے حصول سے منہ موڑا، دشمن ہم پر حاوی ہوا۔ قاجار کا دورہو یا پہلوی دور میں اس قوم پر یہ آفت آئی۔ انہوں نے قوم کو مضبوط نہیں بنایا، اس لیے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم  میں، جن کا ایران سے کوئی تعلق نہیں تھا، اور ایران  نے غیر جانبداری کا اعلان بھی کیا، مگر ہمارے ملک پر قبضہ کرلیا گیا۔

آپ نے کسی ملک میں دفاعی کمزوری موجود ہونے کے نتائج پر روشنی ڈالی اور فرمایا: یہ تب ہوتا ہے جب کسی ملک میں اپنے دفاع کی صلاحیت نہ ہو۔ یہ نااہل حکمرانوں کی کمزوری ہے، نااہلوں کا، غداروں کا اور دوسروں  پر تکیہ کرنے والوں کا یہ ناقابل معافی جرم ہے کہ قوم کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ اپنا دفاع نہ کر سکے، قدرتی طور پر اس کی سلامتی ختم ہو جائے۔

بین الاقوامی تنظیموں کی صیہونی حکومت کو لگام  دینے میں ناکامی پر رہبر انقلاب نے فرمایا: خبیث اور وحشی صیہونی حکومت کو لے کر دنیا ایک بڑی غلطی کر رہی ہے۔ حکومتیں، قومیں، خاص طور پر اقوام متحدہ اور اس جیسی بین الاقوامی تنظیمیں صیہونی حکومت کو لگام  دینے میں واقعی ناکام ہو رہی ہیں۔ 
 جو کچھ اس غاصب حکومت نے غزہ میں کیا اور کر رہی ہے، لبنان میں کر رہی ہے، یہ بہت زیادہ وحشیانہ جنگی جرائم ہیں۔ بلاشبہ جنگ ایک سخت چیز ہے لیکن جنگ کے بھی اصول، قوائد اور حدود ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جب کوئی کسی سے لڑتا ہے تو وہ ان تمام حدوں کو روند ڈالے یا کچل دے، جیسا کہ مقبوضہ فلسطین میں یہ بدمعاش مجرم ٹولہ کررہا ہے۔

تماما ممالک بالخصوص اسلامی ممالک اور حکمرانوں کے اس مسئلے کے تئیں فرائض پر تاکید کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: دنیا کو ان کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، حکومتوں کو کھڑا ہونا چاہیے، خاص طور پر اسلامی حکومتوں کو کھڑا ہونا چاہیے۔ بحث یہ نہیں کہ ان کی مدد کرنی چاہیے یا نہیں، جو چیز سب سے زیادہ بری ہے وہ اس حکومت کی تھوڑی سی بھی مدد ہے، یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کو جرائم سے روکنا چاہیے۔ ایک عالمی اتحاد تشکیل دیا جانا چاہیے، سیاسی اتحاد، اقتصادی اتحاد، اگر ضرورت ہو تو فوجی اتحاد، اس غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جو آج انتہائی وحشیانہ جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔

700 /