ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

قم کے ہزاروں افراد سے ملاقات:

تقریباً 100 دنوں کے بعد صیہونیوں کی شکست کی پیشن گوئیاں سچ ثابت ہورہی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای نے قم کے ہزاروں افراد سے ملاقات کی۔ یہ جلسہ 9 جنوری 2024 کو ظالم پہلوی حکومت کے خلاف قم کے عوام کی تاریخی قیام کی 46 ویں سالگرہ کے موقع پر امام خمینی حسینیہ میں منعقد ہوا۔
ملاقات کے دوران امام خامنہ ای نے کرمان میں ہونے والے اندوہناک دھماکے کے بارے میں فرمایا کہ "کرمان میں پیش آنے والے اس افسوسناک، المناک واقعے کی وجہ سے، [ایرانی] قوم حقیقی معنوں میں غم سے نڈھال ہو گئی ہے۔ ہم دوسروں پر الزامات لگانے پر اصرار نہیں کرتے، لیکن ہم اس سانحے کے اصل مجرموں اور پس پردہ عوامل کو تلاش کرنے اور انہیں کچلنے پر اصرار کرتے ہیں، ہمارے معزز حکام اس کام میں مصروف ہیں، میں بخوبی واقف ہوں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور انہوں نے کیا کیا ہے۔م۔ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ، وہ انہیں [مجرموں] کو ان کے اعمال کی سزا دے سکیں گے۔"

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غزہ کے مسئلے کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی اور غزہ میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں باشعور افراد کی پیشین گوئیوں کی تدریجی کامیابی کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ "یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ فلسطینی مزاحمت اس میدان میں فاتح ہوگی اور جس فریق کو شکست ہوگی وہ بدکار اور ملعون صیہونی حکومت ہوگی، آج یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہورہی ہے"۔

انہوں نے غزہ میں صیہونی جرائم اور بچوں کے قتل عام کے تین ماہ کے دورانیے کو ایک ناقابل فراموش واقعہ قرار دیا جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہے گا، انہوں نے مزید کہا کہ اس حکومت کے خاتمے اور روئے زمین سے مٹ جانے کے بعد بھی یہ جرائم محو نہیں ہوں گے اور نہ ہی بھلائے جائیں گے اور تاریخ میں لکھے جائیں گے، انہوں نے چند ہفتوں میں ہزاروں بچوں کا قتل عام کیا، تاہم فلسطینی عوام کے صبر اور مزاحمت نے انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا۔

امام خامنہ ای نے جرائم کے ارتکاب کے تقریباً 100 دنوں کے دوران صیہونی حکومت کی شکست اور ناکامی کی واضح علامات پر روشنی ڈالی۔

آپ نے فرمایا: "انہوں( صیہونیوں) نے کہا کہ ہم حماس اور مزاحمت کو تباہ کر دیں گے اور غزہ کے لوگوں کو بے گھر کر دیں گے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے اور آج مزاحمت مضبوط، توانا اور پوری طرح تیار ہے جب کہ صیہونی حکومت تھک چکی ہے، ذلیل و خوار اور بھکری ہوئی ہے۔ صیہونی حکومت کی اصلیت بے نقاب ہو گئی ہے۔" 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ظلم، جبر، استکبار اور غاصبانہ قبضے کے خلاف کھڑے ہونے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس دشمنی کو ایک قابل قدر سبق قرار دیا۔ انہوں نے مزاحمت کو اس ضرورت پر زور دیا کہ وہ اپ ڈیٹ اور تیار رہیں، دشمن کے فریب کارانہ ہتھکنڈوں کا شکار نہ ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "خدا کی مدد سے، مزاحمت کو جب بھی اور جہاں بھی ممکن ہو دشمن کو نشانہ بنانا چاہیے اور حملہ کرنا چاہیے۔"

انہوں نے غزہ کے عوام کے صبر و استقامت کو سراہتے ہوئے کہا: "اپنے صبر اور استقامت کے ساتھ، ایک چھوٹی سی سرزمین میں لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے امریکہ اور صیہونی حکومت کو بھی اپنی تمام تر دعوں کے ساتھ معذور کر دیا ہے۔"

امام خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ "انشاء اللہ ایک دن آئے گا جب ایرانی قوم اور مسلمان قومیں صبر و استقامت اور خدا پر ایمان کی اس فتح کا مشاہدہ کریں گی جو دنیا میں پھیلے ہوئے دشمنوں اور شیاطین کے خلاف ہوگی۔"

اس ملاقات کے دوران رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قم کے بارے میں بھی بات کی، جہاں انہوں نے اسے "قیام، علم اور جہاد کا شہر" قرار دیا۔ 9 جنوری 1978 کو اس شہر کے مذہبی شہریوں کی یکدم مزاحمت کے پائیدار اسباق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، "یہ عظیم واقعہ، جو انحصاری [پہلوی] حکومت کی طرف سے امام خمینی کے خلاف توہین آمیز مضمون کی اشاعت کے اقدامات کے خلاف احتجاج میں پیش آیا، بڑے واقعات پر اثر انداز ہونے کی عوام کی طاقت کا ثبوت ہے۔"

امام خامنہ ای نے مقتدر اور جابر طاغوت حکومت کا تختہ الٹنے کے عمل کو جو قم کے عوام کی بغاوت کے ایک سال کے اندر پیش آیا، قم کے عوام کی میدان میں موجودگی کا نتیجہ قرار دیا۔

انہوں نے ایران کیلئے استکباری محاذ کی طرف سے اختیار کی گئی حکمت عملی کی بھی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور صیہونی حکومت امام خمینی رح کی حکمت عملی کے مخالف ہیں جو عوام کو میدان میں لانا اور انہیں اپنی کوششوں اور جدوجہد میں بااختیار بنانا تھا۔ اس کے بجائے، انہوں نے کہا، "انہوں نے 'ایرانی عوام کو میدان سے باہر نکالنے' کی گہری سازش اپنائی اور وہ آج بھی اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔"

رہبر معظم انقلاب نے اہم مواقع پر عوام کی شراکت کو کم کرنے کی کوشش کو دشمن کی چالوں میں سے ایک سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ اس دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایران کی ترقی، وقار اور خطے میں ایک اہم طاقت کے طور پر ابھرنے کے عوامل کو سمجھتے ہیں۔ اس میں پورے خطے میں مزاحمتی قوتوں کے ذریعے نظام کے لیے ایک منفرد اسٹریٹجک گہرائی کا قیام، نیز مختلف سازشوں جیسے بغاوت، مسلط کردہ جنگیں، اور سیکیورٹی سازشوں کی ناکامی شامل ہے۔ رہبر معظم نے اس بات پر زور دیا کہ مختلف مواقع پر ایرانی عوام کی فعال شراکت ان کامیابیوں کی کلید رہی ہے۔

امام خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ "عوام کو عالمی طاقتوں، امریکہ اور صیہونی حکومت سے ڈرانے کے لیے خوف کے ہتھکنڈے استعمال کرنا" عوام کو کنارہ کش کرنے کی ایک اور حکمت عملی ہے کیونکہ کسی خاص دشمن سے خوف کھانے سے ایران کا وجود ختم ہو جائے گا۔ مزید برآں، بہت سی طاقتیں جو خطے پر تسلط اور حکمرانی کا دعویٰ کرتی تھیں، اب ایرانی قوم سے خوفزدہ ہیں۔"

قائد انقلاب نے تاکید کی کہ لوگوں کو میدان سے ہٹانے کے لیے مختلف حکمت عملیوں کا استعمال کیا گیا ہے، اور ان میں سے ایک غیر ملکی میڈیا کی طرف سے لوگوں کو، خاص طور پر نوجوان نسل کو ایک پُر امید مستقبل کی امید لگانے سے باز رکھنے کی کوششیں شامل ہیں۔

امام خامنہ ای نے نوٹ کیا کہ ایک اور حربہ جو لوگوں کی شمولیت سے منظر کو صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ ہے "لوگوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ پیدا کرنا"۔ اس حکمت عملی کو واضح کرنے کے بعد، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کی کلید یہ ہے کہ عوام سیاسی، اقتصادی، انتخابی اور حتیٰ کہ سیکورٹی کے معاملات میں بھی سرگرم عمل رہیں۔

700 /