امام خامنہ ای نے 16 جنوری 2024 کو امام خمینی حسینیہ میں ملک بھر سے آئے ہوئے آئمہ جمعہ کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات میں یمن کی طرف سے صیہونی حکومت کی زندگی کو نشانہ بنانے کو "قابل تعریف" اور "خدا کی راہ میں لڑنے" سے تعبیر کیا۔
اس ملاقات کے آغاز میں امام خامنہ ای نے اسلامی مہینے رجب کی اہمیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اسے سال کے افضل ترین دنوں میں سے ایک قرار دیا۔ انہوں نے لوگوں اور مومنین کو نصیحت کی کہ وہ بامعنی دعاؤں، اعمال اور استغفار میں مشغول ہو کر اس عظیم الہی نعمت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
رہبر معظم نے غزہ کے مسئلے اور فلسطینیوں کے صبر و استقامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ ان واقعات میں دستِ الہی کی موجودگی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ "مظلوم اور مضبوط غزہ کے لوگ اپنی مزاحمت سے دنیا کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے اور آج دنیا ان لوگوں، ان کے جنگجوؤں اور مزاحمتی گروپ کو ہیرو کے طور پر دیکھتی ہے۔"
امام خامنہ ای نے اس بات کی طرف توجہ مبذول کرائی کہ غزہ کے عوام نے ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے باوجود عالمی برادری کی نظروں میں فتح حاصل کی ہے اور اس کامیابی کو ان کے صبر اور خدا پر ان کے اعتماد کا نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا: "دوسری طرف، آج دنیا میں کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ غاصب صیہونی حکومت نے غزہ کی جنگ جیت لی ہے۔ عالمی رائے عامہ اور عالمی سیاست دانوں کی رائے میں، [صیہونی] حکومت ایک جابر، بے رحم، خونخوار بھیڑیا جو جنگ ہار چکا ہے اور بکھر رہا ہے‘‘۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ غزہ کے لوگوں نے اسلام کو پھیلایا اور قرآن کو دنیا بھر میں حق کے متلاشیوں کے لیے عزیز بنا دیا ہے، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خدا سے مزاحمتی محاذ کے جنگجوؤں بالخصوص غزہ کے عوام اور جنگجوؤں کی عزت میں اضافہ کیلئے دعا کی۔
امام خامنہ ای نے فلسطینیوں کی حمایت پر یمنی قوم اور انصار اللہ حکومت کے عظیم کام کی بھی تعریف اور ستائش کی۔انہوں نے مزید فرمایا: "یمنیوں نے صیہونی حکومت کے اہم چینلز کو نشانہ بنایا اور امریکہ کی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوئے، کیونکہ ایک خدا ترس شخص خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، انہوں نے جو کچھ کیا وہ خدا کی راہ میں لڑنے کی حقیقی اور واقعی مثال ہے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امید ظاہر کی کہ یہ جہاد، مزاحمتی کارروائیاں اور کوششیں فتح حاصل کرنے تک جاری رہیں گی اور خدا کی رضا کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے خدا سے مدد و نصرت کی درخواست کی۔
دوسری جگہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں اس بات کا اظہار کیا کہ نماز جمعہ کی امامت کو ایک انتہائی حساس ذمہ داری میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ، بنیادی طور پر اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ اس کردار میں فرد کو خدا کے ساتھ مضبوط تعلق قائم رکھ کر اسکی رضا کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے ساتھ ہی لوگوں کے مفادات اور اطمینان کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔
انہوں نے نماز جمعہ کے دوران لوگوں کی طرف توجہ کرنے کو اسلام میں عوام کے بنیادی کردار کی علامت قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ امام علی علیہ السلام کے نزدیک اسلامی نظام میں لوگوں کا کردار اور حقوق اسی طرح ہیں۔ اگر لوگ کسی چیز کی خواہش نہ کریں اور اس میں اپنے آپ کو شامل نہ کریں تو امام علی (ع) جیسا صالح شخص بھی اس فریضے کو ادا کرنے کا پابند نہیں ہے، البتہ اگر لوگوں نے کسی چیز کی خواہش ظاہر کی تو پھر اس ضرورت کو قبول کرنا اور اس کو پورا کرنا ان کی واجب ذمہ داری بن جائے گی۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں "ملکی اور عالمی مسائل، دشمن کی سازشوں اور دشمنیوں اور معاشرتی ضروریات اور حقائق" کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا بھی ضروری سمجھا۔
امام خامنہ ای نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ آج کے نوجوانوں کے ذہن متنوع معلومات اور نقطہ نظر سے روشناس ہوتے ہیں، اس بات پر زور دیا کہ نماز جمعہ کے امام کے لیے سامعین سے رابطہ قائم کرنا اور ان کی ضروریات اور افکار کو اچھی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا، "ضروریات کا اندازہ لگانے اور اپنے سامعین کے ذہنوں کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے، امام جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہے اور ایک عوامی شخص ہو۔"
امام خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ ایک اور فریضہ جو امام جمعہ کو اپنے اہم مشن میں پورا کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور مہربانی کا مظاہرہ کرنا۔
انہوں نے ایرانی عوام کی غیر معمولی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے ان کی مضبوط اخلاق اور ایمان کی خصوصیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے یہ بھی تاکید کی کہ وہ لوگ بھی جو بعض اسلامی احکام پر سختی سے عمل نہیں کرتے، خدا اور روحانی اقدار پر گہرا اعتقاد رکھتے ہیں۔
ایرانی عوام کی ایک اور خوبی جس پر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کی، ان کا عزم اور آمادگی ہے کہ وہ اپنے ملک اور اسلامی نظام کا دفاع کرنے والوں کے ہر قسم کے حملوں سے مقابلہ کریں۔
آپ نے فرمایا: "ہمارے لوگوں نے ہر اس وقت اپنی وفاداری کا مظاہرہ کیا جب ملک اور انقلاب کے دفاع کی ضرورت تھی، انہوں نے یہ کام سڑکوں پر آکر، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نعرے لگا کر، حمایت کا مظاہرہ کرکے اور میدان جنگ میں جا کر بھی کیا۔ "
انہوں نے آئندہ انتخابات میں لوگوں کی شرکت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ انتخابات میں حصہ لینا ان کا ایک بنیادی حق ہے تاکہ وہ قانون سازی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اپنے نمائندوں کا انتخاب کرسکیں۔