رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای نے ہفتہ بسیج کے موقع پر بسیج کے ہزاروں ارکان سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات 29 نومبر 2023 کو امام خمینی حسینیہ میں ہوئی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای نے بسیج کو امام خمینی کی انمول میراث قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ حقیقت کہ مرحوم امام خمینی رح کو اپنے بسیجی ہونے پر فخر تھا بسیج رضاکار فورس کے اعلیٰ مقام کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بسیج کے بین الاقوامی اور سرحد پار پہلو اس مضبوط فورس کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں۔
7 اکتوبر کو صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امام خمینی رح نے جس 'مزاحمت کے بین الاقوامی محور کی تشکیل' کا تصور دیا تھا آج خطے میں پورا ہو گیا ہے اور مزاحمتی محور خطے کی تقدیر بدل رہے ہیں جس کی ایک مثال آپریشن طوفان الاقصیٰ ہے۔
مغربی ایشیا کے جغرافیائی سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے کے امریکیوں کے ناکام منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے امام خامنہ ای نے فرمایا: "کچھ سال پہلے، لبنان کے معاملے میں، انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک 'نئے مشرق وسطیٰ' کے قیام کے خواہاں ہیں، اپنی ناجائز ضرورتوں اور مفادات کی بنیاد پر، لیکن وہ یقیناً ناکام رہے۔"
قائد انقلاب نے فرمایا کہ امریکہ نے آگے بڑھ کر حزب اللہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن 33 روزہ جنگ کے بعد لبنان کی مزاحمتی تحریک پہلے سے 10 گنا زیادہ مضبوط ہو گئی۔
انہوں نے امریکہ نواز حکومت کے قیام کے ذریعے عراق کو نگلنے میں امریکہ کی ناکامی کو "نئے مشرق وسطیٰ" کے قیام کی ناکامی کا ایک اور مظہر بھی قرار دیا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ عراق میں، جسے وہ نگلنے کی کوشش کر رہے تھے، آج مزاحمت کے مراکز فلسطینی کاز میں شامل ہو چکے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مغربی ایشیا کا جغرافیائی و سیاسی نقشہ مزاحمت کے حق میں بدل رہا ہے، اس منصوبے کی پہلی خصوصیت کو "ڈی امریکنائزیشن، یعنی خطے پر امریکی تسلط کی نفی" قرار دیا جو ریاستہائے متحدہ کی سیاسی طاقت اور غلبہ کے کے زوال کی علامت ہے۔
امام خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ صیہونی حکومت کو مضبوط کرکے اور دوسرے ممالک کو اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ترغیب دے کر خطے پر تسلط قائم کرنے کے اقدامات کر رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "علاقے کی ڈی امریکنائزیشن کی ایک واضح اور واضح علامت سیلاب اقصیٰ کا اہم تاریخی واقعہ ہے۔ اگرچہ یہ آپریشن صیہونی حکومت کے خلاف تھا، لیکن ساتھ ساتھ یہ ڈی امریکنائزیشن کا عمل بھی تھا"۔
اسی نوٹ پر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ "آپریشن طوفان الاقصیٰ نے خطے میں امریکی پالیسی کی کسوٹی کو بدل کر رکھ دیا، کہ اگر یہ طفان جاری رہا تو سرے سے یہ کسوٹی ہی ختم ہو جائے گی۔"
امام خامنہ ای نے مزید کہا کہ "خطے میں غلط اور مسلط کردہ دوغلے پن کا خاتمہ" نئے مغربی ایشیا کی ایک اور خصوصیت ہے۔ ''عرب اور غیر عرب"، ''شیعہ اور سنی'' اور شیعہ کریسنٹ کے افسانے پس پشت چلے گئے ہیں۔ اس کی واضح مثال فلسطین کے معاملے میں دیکھی جا سکتی ہے جب کہ طوفان الاقصیٰ کے دوران اور اس سے پہلے عرب اور غیر عرب شیعوں نے فلسطینیوں کی سب سے زیادہ مدد کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: "ان مسلط کردہ دوئیتوں کے مقابلے میں، ایک نئی دوئیت جس کا نام 'مزاحمت اور سر تسلیم خم نہ کرنا' ہے، خطے پر غلبہ حاصل کر چکی ہے۔"
امام خامنہ ای نے اس بات پر بھی زور دیا کہ "مسئلہ فلسطین کا حل" اس بنیاد پر کہ تمام فلسطینی سرزمینوں پر فلسطینی خودمختاری قائم کی جانی چاہیے، نئے مغربی ایشیا کی ایک اور خصوصیت ہے۔
رہبر معظم نے اپنی تقریر میں ایک اور جگہ فلسطین کے مستقبل کے لیے اسلامی جمہوریہ کے تجویز کردہ راہ حل کا حوالہ دیا جو فلسطین کے اندر اور باہر تمام فلسطینیوں کے ریفرنڈم پر مشتمل ہے۔
"بعض کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت اس نظریے سے اتفاق نہیں کرے گی، تاہم، یہ حل اس پر مسلط کیا جانا چاہیے۔ اگر اس منصوبے پر عمل کیا جائے، اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا، اور اگر مزاحمتی قوتیں سنجیدگی سے اس تجویز پر عمل پیرا ہوں، تو یہ مقصد حاصل کرلیا جائے گا."
امام خامنہ ای نے فلسطینیوں کو اپنے اہداف کے قریب پہنچنے میں مدد کرنے میں طوفان الاقصیٰ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس کارروائی نے صہیونیوں کو غصہ میں ڈال دیا ہے اور انہوں نے اپنے غصے کے شعلوں کو بجھانے کی امید میں ہسپتالوں، اسکولوں اور عوامی اجتماعات پر بم برسائے ہیں۔
امام خامنہ ای نے اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی وحشیانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی کہ اس وحشیانہ کارروائیوں نے نہ صرف خود قابض حکومت کو رسوا کیا ہے بلکہ اس نے امریکہ اور مغربی تہذیب کو بھی رسوا کیا ہے، آپ نے فرمایا: "مغربی ثقافت اور تہذیب ایک ایسی تہذیب ہے جو اپنے دفاع کے نام پر 5000 فلسطینی بچوں کو فاسفورس بموں سے شہید کرتی ہے۔"
رہبر معظم نے فرمایا کہ گذشتہ 50 دنوں کے دوران غزہ میں رونما ہونے والے سانحات ان جرائم کا خلاصہ ہیں جو صیہونی حکومت تقریباً 75 سال سے فلسطین میں کر رہی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ "طوفان الاقصیٰ ختم ہونے والا نہیں ہے اور انشاء اللہ یہ صورت حال اس طرح جاری نہیں رہے گی۔"
اپنی تقریر میں ایک اور جگہ انہوں نے ملک کے لئے ایک عظیم بسیج رضاکار فورس کی فوری ضرورت کا احساس کرنے میں امام خمینی کی دور اندیشی کو بسیج کی تشکیل کی منطق قرار دیا۔
امام خامنہ ای نے اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی کہ امام خمینی کا بسیج کے لیے "مکتبِ عشق" کی اصطلاح اس بات کا اشارہ ہے کہ بسیج "خدا، روحانیت سے لگاؤ اور عوام سے محبت کے ہمراہ" صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔
امام خامنہ ای کی تقریر کا آخری حصہ بسیج کے اراکین کو عملی نصیحتوں سے عبارت تھا۔