امام خامنہ ای نے 25 اکتوبر 2023 کو صوبہ لرستان کے شہداء کی یادگاری تقریب کے منتظمین سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران انہوں نے کہا: "مغرب کی طاغوتی حکومتوں کے صدور صیہونی حکومت کو بکھرتا دیکھ کر مقبوضہ علاقوں کا مسلسل سفر کر رہے ہیں۔"
امام خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ "لنگڑی اور کمزور قابض حکومت فلسطینی جنگجوؤں کی طرف سے لگنے والی کاری ضربوں کا بدلہ غزہ کے عوام سے لے رہی ہے، لیکن بلا شبہ اور دنیا کی شیطانی طاقتوں کی تمام تر حمایت کے باوجود اور صیہونیوں کے جرائم میں امریکہ کی یقینی شمولیتت کے باوجود، یہ ظلم اور یہ درندگی بالآخر کچھ نہیں نتیجہ دے سکے گی، فتح اس معاملے میں اور مستقبل میں بھی فلسطینی قوم کی ہے۔"
رہبر معظم نے صیہونی حکومت کے مسلسل جرائم کے مقابلے میں غزہ کے عوام کے صبر و استقامت کی طرف اشارہ کیا۔
امام خامنہ ای نے کہا کہ غزہ کے موجودہ واقعات ایسے واقعات ہیں جو مستقبل کو تشکیل دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے غیرمتزلزل لوگ طاقتور ہیں اور ساتھ ہی مظلوم بھی ہیں۔ "سفاک اور خونخوار دشمن کے جرائم اور بچوں، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کے قتل کی کوئی حد نہیں ہے۔ غزہ کے لوگ حقیقی معنوں میں مظلوم ہیں۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غزہ کے مظلوموں کے صبر اور خدا پر بھروسے کی قدر کرتے ہوئے ان کے صبر و استقامت کی چند مثالوں کی طرف اشارہ کیا۔ "ایک باپ جو خدا کی حمد کرتا ہے جبکہ اس کا بیٹا شہید ہو چکا ہے، والدین جنہوں اپنے شہید بچے کو فلسطین کے لیے پیش کیا، ایک زخمی نوجوان جو قرآن کی آیات پڑھتا ہے اور اس طرح کے مناظر غزہ کے لوگوں کے گہری صبر و استقامت کی ایک جھلک ہے۔"
ملاقات کے دوران امام خامنہ ای نے غزہ کے عوام کے صبر و استقامت کی اہمیت کو بھی بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فلسطینیوں کو گھٹنے ٹیکنے کی کوشش میں دشمن کی شکست کا اشارہ ہے۔ "وہ جس صبر و استقامت سے کام لے رہے ہیں اور خدا پر ان کا بھروسہ وہ چیزیں ہیں جو بالآخر غزہ کے لوگوں کو نجات دیں گی اور انہیں فتح کی طرف لے جائیں گی۔"
امام خامنہ ای نے ایک بار پھر 7 اکتوبر کو فلسطینی جنگجوؤں کی طرف سے غاصب حکومت پر لگنے والے کاری ضرب کو فیصلہ کن اور بے مثال قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس دھچکے کی ناقابل تلافی نوعیت واضح ہوتی جا رہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی صدر اور دیگر ظالم، جابر ممالک جیسے انگلستان، فرانس اور جرمنی کے سربراہ غاصب حکومت کی تباہی کو روکنے کی کوشش میں مقبوضہ فلسطین کے پے در پے دورے کر رہے ہیں۔
"دنیا میں شیطانی قوتیں دیکھ سکتی ہیں کہ فلسطینی جنگجوؤں کے انتہائی مضبوط اور فیصلہ کن ضربوں کی وجہ سے صیہونی حکومت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے اور تباہی کا شکار ہو رہی ہے، اس لیے یہ دورے کر کے، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے، صیہونی حکومت کو انہیں مجرمانہ آلات جیسے بم اور دیگر ہتھیار فراہم کرتے ہوئے، اس زخمی، بکھرتی حکومت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
امام خامنہ ای نے فلسطینی جنگجوؤں پر غلبہ پانے کیلئے صیہونی حکومت کی کوششوں کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "جنگجوؤں نے ردعمل کیلئے اپنے جذبے، حوصلہ، طاقت اور آمادگی کو برقرار رکھا ہوا ہے، انشاء اللہ وہ ایسا ہی کرتے رہیں گے۔ غاصب حکومت [فلسطینی جنگجوؤں] کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کا بدلہ
غزہ کے بے دفاع لوگوں سے لے رہی ہے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ جو بھی غزہ کی بات کرے اسے اس کے عوام کے صبر و استقامت کی بھی بات کرنی چاہیے، ورنہ وہ ان کے ساتھ ظلم کریں گے۔
ایک اور مقام پر، امام خامنہ ای نے امریکہ کو "صیہونی مجرموں کا یقینی ساتھی" قرار دیا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ "امریکہ کا ہاتھ غزہ میں بچوں، عورتوں اور دیگر شہداء کے خون سے رنگین ہوچکا ہے اور اس کی کہنی تک داغدار ہے، امریکہ درحقیقت ان جرائم کی تدبیر کر رہا ہے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ، یورپ، اسلامی ممالک اور دنیا کے دیگر خطوں میں عالمی عوامی ضمیر کے بیدار ہونے کو صیہونی حکومت کے مکروہ جرائم کی وسعت اور زیادتی کا ردعمل قرار دیا۔
"یورپ میں آزادی اور انسانی حقوق کے دعویدار ممالک نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے۔ لیکن لوگوں نے ان پابندیوں کو نظر انداز کر دیا ہے اور اپنے غم، غصہ اور پریشانی کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ان ردعمل کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ قومیں صہیونیوں کی بربریت کے سامنے اپنے ردعمل کا اظہار کررہی ہیں۔"
امام خامنہ ای نے مسلم حکومتوں پر زور دیا کہ وہ فلسطین کے معاملے میں احتیاط اور چوکسی سے کام لیں۔ ’’مسلم ممالک اور سیاسی ترجمانوں کو اپنے الفاظ کو دہراتے ہوئے اور فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے کر مغرب کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہیے۔‘‘
اسی مقام پر رہبر معظم نے فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دینے پر امریکہ کی مذمت کی۔ "امریکی ان فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں جو اپنے گھروں اور ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔ لیکن کیا غاصب حکومت جس نے ان کے گھروں اور ملک پر قبضہ کر رکھا ہے، دہشت گرد ہے یا وہ جو اپنے گھر واپس لینا چاہتے ہیں؟"
امام خامنہ ای نے اپنے خطاب کے اختتام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ "ہر کسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس واقعے اور مستقبل کے واقعات میں فلسطینی قوم کی ہی فتح ہوگی۔ دنیا کا مستقبل فلسطین سے متعلق ہے، صیہونی حکومت سے نہیں۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں صوبہ لرستان کے شہداء کی یادگاری تقریب کے منتظمین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ شہداء کی یادگاری تقریب کا اصل ہدف ایک فکری اور عملی دھارے کی تشکیل ہے تاکہ اس کے قیمتی ورثے کو پچھلی نسلوں سے آج کی نوجوان نسل تک منتقل کیا جاسکے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کور قوم کے "حوصلہ و ہمت" اور "دوستی، دیانت اور وفاداری" کو لرستان اور لور علاقوں کے لوگوں کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے قرار دیا اور فرمایا: لور قوم کی حالیہ سو سالہ تاریخ کا ایک حصہ، پہلوی دور میں ہونے والے جبر اور گھٹن پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ، اسلامی جمہوریہ کے دور میں حماسے کی تخلیق اور رشد و ترقی ہے، اور نوجوانوں کیلئے اپنی اس تاریخ کو جاننے کے لیے، ان دونوں تاریخ کے صفحات کو محفوظ کرکے انکا موازنہ کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے ماضی کے بے لوث نوجوانوں کی گرانقدر میراث کو آج ملک کے نوجوانوں تک منتقل کرنے میں فکری اور عملی تحریک پر زور دیتے ہوئے مزید کہا: ملک عروج کی طرف گامزن ہے اور اس راستے پر بہت زیادہ محنت اور کوشش کی ضرورت ہے، اور خطرہ بھی بہت ہے. اگر ہم طاقت کے ساتھ اس راستے پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ماضی کو بروئے کار لانا ہوگا اور ماضی کی میراث کو موجودہ نسلوں تک پہنچانا ہوگا۔