ایرانی صوبوں سیستان و بلوچستان اور جنوبی خراسان کے ہزاروں افراد سے ملاقات میں امام خامنہ ای نے فرمایا کہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر امریکہ کے دیگر ممالک میں بحران پیدا کرنے کے منصوبے ہیں۔
یہ ملاقات 11 ستمبر 2023 کو امام خمینی حسینیہ میں ہوئی، اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلی کا سب سے اہم جز امریکہ اور دوسری استکباری قوتوں کا کمزور ہونا اور نئی علاقائی اور عالمی طاقتوں کا ظہور ہے۔
اس ملاقات میں اہم بحث کے ایک حصے کے طور پر امام خامنہ ای نے فرمایا کہ اس دور میں جہاں دنیا بھر میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ممالک کی عوام اور حکومتی عہدیداروں کا مکمل چوکنا رہنا ضروری ہے۔
رہبر معظم نے 18ویں صدی میں برصغیر پاک و ہند سمیت ایشیا کے اہم علاقوں پر انگلستان کے استعماری تسلط اور پہلی جنگ عظیم کے بعد مغربی ایشیا کے بڑے علاقوں پر مغربیوں کے تسلط کو ان علاقوں کی اقوام اور حکومتوں کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ان خطوں کی قوموں نے بعد میں اپنے آپ کو استعمار کے شکاری تسلط سے آزاد کرنے کے لیے بہت زیادہ نقصان اٹھایا۔"
امام خامنہ ای نے آج کی دنیا کو ایک تبدیلی کے دہانے پر گامزن ہوتے ہوئے قرار دیا اور فرمایا کہ یہ مختلف جہتوں سے تبدیلی سے گزر رہی ہے۔ انہوں نے نوآبادیاتی طاقتوں کے کمزور ہونے اور نئی علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ظہور کو ان عظیم تبدیلیوں کی دو خصوصیات کے طور پر شمار کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے متعدد مغربی ذرائع کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکی اقتدار کے اشاریے جن میں امریکی معیشت بھی شامل ہے، زوال پذیر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "حکومتوں کو تبدیل کرنے کی امریکی طاقت میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔"
رہبر معظم نے اس بات پر زور دیا کہ "ایک وقت تھا جب امریکہ نے ایک ایجنٹ کو پیسوں سے بھرے سوٹ کیس کے ساتھ ایران بھیجا اور 28 ویں مرداد بغاوت کو منظم کیا، تاہم، اب امریکہ کسی بھی ملک میں اپنی گہری مداخلت کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ جبھی اس نے ایک مہنگی ہائبرڈ جنگ کا سہارا لیا ہے جس کا بالآخر ان کے لیے کوئی نتیجہ نہیں نکلنا۔"
امام خامنہ ای نے شام میں امریکہ کی ناکامی اور افغانستان سے ذلت آمیز فرار کو امریکی طاقت کے زوال کی دو واضح مثالیں قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "باقی استکباری طاقتوں کو بھی اسی چیز کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اس وقت مختلف افریقی ممالک میں فرانس کے خلاف اس براعظم کے قدیمی استعمار کے طور پر بغاوتیں دیکھی جا رہی ہیں اور عوام ان بغاوتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ دشمن کمزور ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ فریب، سازش اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے عاجز ہے، لہذا ہمیں، یعنی عوام اور حکام کو بیدار اور محتاط رہنا چاہیے۔"
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ کی سازشیں صرف ایران کے لیے نہیں ہیں: "آج امریکہ خطے میں عراق، شام، لبنان، یمن، افغانستان اور یہاں تک کہ خلیج فارس کے ممالک کے لیے بھی منصوبے بنا رہا ہے، جو اس کے پرانے اور روایتی دوست ہیں"۔
امام خامنہ ای نے امریکی سازشوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت نے ایران سمیت دیگر ممالک میں بحران پیدا کرنے کے لیے ایک تنظیم بنائی ہے اور ان کا مشن ایسے مسائل کو تلاش کرنا اور بھڑکانا ہے جو ان کے خیال میں بحران کا باعث بن سکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: ان کے نقطہ نظر سے نسلی اور مذہبی اختلافات اور صنفی اور خواتین کے مسائل ایران میں بحران پیدا کرنے والے نکات میں سے ہیں، وہ ان کو بھڑکا کر ہمارے پیارے ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کے بارے میں صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں!"
امام خامنہ ای نے فرمایا کہ ایرانی قوم کی جانب سے امام خمینی رح کے رہنما اصولوں پر کاربند رہنے کی وجہ سے گزشتہ 40 سالوں میں دشمن کی سازشیں ناکام ہوئی ہیں۔ انہوں نے ایرانی قوم کی کامیاب تحریک کے تسلسل کے لیے امام خمینی رح کے افکار کو کلیدی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دشمن نے دو بنیادی عناصر کو نشانہ بنایا ہے، یعنی 'قومی اتحاد' اور ایرانیوں کی 'قومی سلامتی'۔
ایک اور جگہ امام خامنہ ای نے اپنے تبصروں میں سیستان و بلوچستان اور خراسان کے جنوبی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ اپنی 60 سالہ دوستی کا ذکر کیا۔ "[پہلوی] حکومت کے ساتھ میری پہلی کھلی جنگ 1963 میں محرم کے مہینے میں برجند میں ہوئی، اس کا جواب وہاں کے علماء اور عوام کی محبت بھرے ردعمل سے سامنے آیا، اسی سال رمضان کے مہینے میں بھی یہ تحریک زاہدان کے بیدار شیعہ اور سنی علماء اور اس علاقے کے مذہبی لوگوں کے تعاون سے جاری رہی۔"
ملاقات کے دوران رہبر معظم نے ایران شہر میں اپنی جلاوطنی کے دور کو بھی یاد کیا، اور سنی علماء اور سیستان و بلوچستان کے گرم دل لوگوں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی میٹھی، معنی خیز یادوں کا ذکر کیا۔
رہبر انقلاب نے زور دیا: "مختلف مواقع پر، ان خطوں نے اسلام کے لیے قیمتی شیعہ اور سنی شہداء پیش کیے ہیں۔ انھوں نے یہ کام مجاہدین خلق کے دہشت گردوں اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ کے ذریعے، دفاع مقدس کے دور میں، اور سلامتی اور اتحاد کے قیام کے عمل میں انجام دیا۔ یہ نکات اس خطے کی روشن شناخت ہیں۔"
امام خامنہ ای نے اشارہ کیا کہ سیستان و بلوچستان کی موجودہ صورتحال انقلاب سے پہلے کے حالات سے قابل مقایسہ نہیں ہے۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "اس سب کچھ کے باوجود، ہمارے حکام کو سنجیدگی سے علاقے میں خدمات کی فراہمی کو بڑھانا اور پہنچانا چاہیے۔ صوبے میں شمال جنوب ریلوے لائن مکمل کرنے اور لوگوں کے صاف پانی تک حصول کے حق کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ "
اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اربعین مشی میں قوم کی شاندار شرکت کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے 22 ملین اربعین زائرین کے زبردست استقبال اور مہمان نوازی کے لیے عراقی قوم کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس عظیم تقریب کے دوران سیکورٹی فراہم کرنے پر عراقی حکومت، حکام، پولیس فورسز اور خاص طور پر حشد الشعبی کا شکریہ ادا کیا۔