امام خامنہ ای نے منگل (3 اکتوبر 2023) کو بین الاقوامی اسلامی وحدت کانفرنس کے شرکاء، اسلامی ممالک کے سفیروں، حکومتی عہدیداروں اور عوام کے نمائندہ گروہ سے پیغمبر اسلام (ص) اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران امام خامنہ ای نے کہا کہ جارح قوتوں کی طرف سے قرآن کریم کی توہین کی سازشوں کی وجہ یہ ہے کہ وہ آسمانی کتاب کی تعلیمات سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اتحاد اور بنیادی مسائل پر متفقہ پالیسی اپنانے کے ذریعے اسلامی ممالک امریکہ اور دیگر غنڈہ گرد، جارح طاقتوں کی مداخلتوں سے نمٹ سکیں گے۔
انہوں نے صیہونی حکومت سے "نارملائزیشن ڈیل" کو "ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانے" سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی حرکتیں صرف شکست پر ہی ختم ہوں گی کیونکہ فلسطینی تحریک پہلے سے کہیں زیادہ پرجوش اور زیادہ تیار ہے اور صیہونی حکومت فنا کے دہانے پر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیغمبر اسلام (ص) اور امام جعفر صادق (ع) کے یوم ولادت کے موقع پر اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ بنی نوع انسان پیغمبر اسلام (ص) کی عظمت کو سمجھنے یا ان کے فضائل کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام انسانیت "عظیم پیغمبر ص کے چمکتے سورج" کے مرہون منت ہیں کیونکہ انہوں نے ایک ماہر اور حکیم طبیب کی طرح انسانوں کو غربت، جہالت، جبر، امتیازی سلوک، ہوس، کفر، بے مقصدیت، اخلاقی بدعنوانی، اور سماجی نابرابری جیسی بڑی مشکلات سے نجات دلائی۔
امام خامنہ ای نے یہ بھی فرمایا کہ "خدا کی راہ میں جہاد" پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا قرض ادا کرنے کا ایک طریقہ ہے، مزید فرمایا: "جہاد کا مطلب صرف ہتھیاروں سے جہاد تک محدود نہیں ہے، بلکہ روحانیت اور اخلاقیات، سائنس، سیاست سمیت تمام شعبوں میں جہاد ہے اور ان میدانوں میں جہاد کے ذریعے اس مقدس ہستی کا بھی ادائے حق ہو سکتا ہے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کی کہ آج اسلام کے خلاف دشمنی پہلے سے زیادہ واضح ہے۔ انہوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کو ان دشمنیوں کی ایک کڑی سمجھا۔ "آپ دیکھتے ہیں کہ ایک جاہل احمق [قرآن] کی توہین کرتا ہے اور ایک حکومت اس کی حمایت کرتی ہے۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ صرف وہی نہیں جو ہم ظاہر میں دیکھ رہے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "ہمیں اس جاہل شخص کی فکر نہیں ہے جو پس پردہ کام کرنے والے عناصر کے مقاصد کی تکمیل کے لیے خود کو سخت ترین سزاؤں اور پھانسی کی بھینٹ چڑھاتا ہے، مسئلہ ان جرائم اور نفرت انگیز کارروائیوں پر اکسانے والوں کا ہے۔ "
امام خامنہ ای نے ان اقدامات سے قرآن کو کمزور کرنے کے بیہودہ منصوبے کو خیالی تصور کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اس نے کتاب مقدس کے دشمنوں کے ذہنوں میں جو کچھ ہے اسے ظاہر کر دیا ہے۔ "قرآن حکمت، علم، بیداری کی کتاب ہے، اور قرآن سے دشمنی دراصل ان بلند و بالا تعلیمات سے دشمنی ہے، یقیناً قرآن بدعنوان طاقتوں کے لیے خطرہ ہے کیونکہ یہ ظلم کی مذمت کرتا ہے اور مظلوموں پر جبر کرنے والوں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ قرآن کی توہین کو جواز بنا کر بار بار جھوٹ اور آزادی اظہار جیسے جھوٹے دعووں سے دعویداروں کی مزید قلعی کھلتی ہے: "جو ممالک آزادی اظہار کے بہانے قرآن کی بے حرمتی کی اجازت دیتے ہیں، کیا وہاں لوگوں کو صہیونیت کی نمائندگی کرنے والی علامتوں پر حملہ کرنے کی بھی اجازت ہے؟ یہ ثابت کرنے کے لیے اور کون سی زبان استعمال کی جائے کہ یہ [ممالک] ظالم، مجرم اور لوٹ مار کرنے والے صیہونیوں کے تسلط میں ہیں۔ "
ایک اور جگہ امام خامنہ ای نے اپنے تبصرے میں فرمایا کہ مسئلہ فلسطین اور ایک قوم کو ان کے گھروں سے باہر نکالنا اور بے دخل کرنا اور فلسطینیوں پر تشدد اور قتل کرنا ایک اہم مسئلہ ہے جس کا عالم اسلام کو گزشتہ چند دہائیوں میں سامنا ہے۔ "اسلامی جمہوریہ کی قطعی رائے یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا جوا کھیلنے والی حکومتیں ناکامی دیکھیں گی کیونکہ یہ حکومت فنا کے دہانے پر ہے اور جیسا کہ یورپی کہتے ہیں، وہ ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگا رہے ہیں۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی نوجوانوں اور فلسطینیوں کی غاصبانہ قبضے اور ظلم و جبر کے خلاف تحریک کو آج پہلے سے زیادہ جاندار اور تیار قرار دیا۔ "انشاء اللہ، یہ تحریک اپنے انجام کو پہنچے گی اور جیسا کہ امام خمینی رح نے غاصب حکومت کو ایک کینسر قرار دیا، اس حکومت کو فلسطینی عوام اور پورے خطے میں مزاحمتی قوتوں کے ہاتھوں نابود کر دیا جائے گا۔"
رہبر معظم نے اسلامی اتحاد کے موضوع پر بھی بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مغربی ایشیائی اور شمالی افریقی علاقوں میں اسلامی ممالک کا اتحاد امریکہ کی چوری، جبر اور مداخلت کو روکے گا۔ "آج امریکہ خطے کے ممالک کو سیاسی اور معاشی طور پر نقصان پہنچا رہا ہے، وہ شام کا تیل چوری کر رہا ہے اور اپنے کیمپوں میں ظالم، وحشی اور خونخوار داعش کی حفاظت اور پشت پناہی کر رہا ہے تاکہ وہ اسے ضرورت کے وقت دوبارہ میدان میں اتار سکے۔"
امام خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اگر ہم سب متحد ہو جائیں اور ایران، عراق، شام، لبنان، سعودی عرب، مصر، اردن اور خلیج فارس کے ممالک بنیادی اور عمومی مسائل میں ایک ہی پالیسی اختیار کریں تو ظالم طاقتیں ہمارے اندرونی معاملات اور ہماری خارجہ پالیسیوں میں مداخلت کرنے کی ہمت نہیں کر سکیں گی۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جیسا کہ ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہم جنگ یا عسکری کارروائی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں، ہم اس سے اجتناب کرتے ہیں، لہٰذا متحد اور یکجا ہونے کیلئے ہماری دعوت جنگ کو روکنے کے لیے ہے، کیونکہ وہ جنگیں شروع کر رہے ہیں اور خطے کی تمام جنگوں کی وجوہات بیرونی قوتیں ہیں۔"
انہوں نے عالم اسلام بالخصوص صیہونی حکومت کے مسلسل مظالم کے سامنے اتحاد کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ آج یہ حکومت نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران بلکہ ارد گرد کے تمام ممالک جیسے مصر، شام اور عراق کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی نفرت اور غصے کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک نے مختلف ادوار میں دریائے نیل سے فرات تک تمام زمینوں پر قبضہ کرنے کے صہیونیوں کے حتمی ہدف کو پورا کرنے سے روک دیا۔
"وہ نفرت اور غصے سے بھرے ہوئے ہیں، یقیناً قرآن کے مطابق کہ 'موتوا بغیضکم'، وہ مر رہے ہیں، اور خدا کے فضل سے یہ آیت قابض حکومت کے حوالے سے پوری ہو رہی ہے."
دریں اثنا، یہ بات قابل غور ہے کہ صدر ابراہیم رئیسی نے اجلاس کے آغاز میں اپنی تقریر کے دوران "توحید" اور "عدل و انصاف" پر مبنی معاشرے کی تعمیر کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کی جدوجہد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اہداف کے حصول کی راہ میں دشمنی اور مزاحمت کا مقابلہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے اہم تعلیمات ہیں۔