رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں اور عہدیداروں کی چوبیسویں سپریم اسمبلی کے شرکاء سے ملاقات میں سپاہ کی تخلیق، ترقی اور بحران کو ختم کرنے صلاحیت اور پاسداران انقلاب کی کارکردگی کو عسکری، عوامی، خدمت اور تعمیر کے میدان میں منفرد اور قابل فخر قرار دیا۔ بعدازاں بحران پیدا کرنے، ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور لوگوں کی زندگیوں میں خلل ڈالنے کی دشمن کی پالیسی کے تسلسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوں نے زور دیا: "قومی اتحاد"، "عوامی شراکت"، "عوام بالخصوص کمزور طبقوں کی مدد"، "حکام کا چوبیس گھنٹے اور جہادی کام" اور "انقلاب کے اہداف کے حصول کے لیے تحریک، امید اور جوش باقی رکھنے" کی روشنی میں دشمن کی شکست اور قوم کی فتح یقینی ہے.
آیت اللہ خامنہ ای نے "ایرانی قوم کے ذہنوں میں انقلاب کے حقائق اور واقعات کو فراموش ہوجانے" کو دنیا کے شیاطین کے مقاصد میں سے ایک قرار دیا اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی خصوصیات کے حامل ایک گروہ کی تشکیل کو دنیا کے انقلابات میں منفرد قرار دیا، انہوں نے کہا: "تمام انسانی مجموعات میں خامیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں لیکن ملک کی تاریخ میں، اس طرح کی روحانی، سیاسی، اخلاقی اور انسانی اقدار کا حامل کوئی بھی عسکری گروہ وجود میں نہیں آیا"۔
کمانڈر انچیف نے سپاہ کی ترقی اور اندرونی نمو کو بھی منفرد قرار دیا اور اس ادارے کی تشکیل کے فوراً بعد اس کی تنظیمی توسیع کو بیان کرتے ہوئے مزید کہا: سپاہ نے بے لوث افواج کے تعاون اور حمایت سے تقریباً اپنی تشکیل کے دو سال بعد، فتح المبین اور خرمشہر کی آزادی سمیت کئی بڑے آپریشن میں فیصلہ کن کردار ادا کیا اور انقلاب کے عسکری دفاع کی زبردست طاقت کو دشمن کے سامنے ظاہر کرنے میں کامیاب رہا۔
انہوں نے سپاہ کی مسلسل ترقی اور نمو اور داخلی استحکام کا ذکر کرتے ہوئے کہا: یہ مجموعہ اب ایک بہت بڑا اور پوری طرح سے لیس مرکز اور دنیا کا سب سے بڑا انسداد دہشت گردی کا ادارہ بن چکا ہے کہ دنیا کی بہت سی بڑی فوجیں اس کی سرگرمیوں سے ملتے جلتے آپریشن کرنے سے قاصر ہیں۔
رہبر انقلاب نے سپاہ پاسداران کی کارکردگی کو پرکشش اور کثیر جہتی قرار دیا، اور بحرانوں کے ساتھ کامیابی سے نمٹنے کو اس ادارے کی کارکردگی کے دائمی پہلوؤں میں سے ایک قرار دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرانس کے شہر گواڈیلوپ میں انقلاب اسلامی کی فتح کے موقع پر امریکہ، انگلستان، فرانس اور جرمنی کے سربراہان کی کانفرنس کے انعقاد کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: وہ کٹھ پتلی حکومت کا بچنا ناممکن سمجھتے تھے۔ لیکن "یکے بعد دیگرے بحرانوں" کی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ متعددبحران ایران کی نئے نظام میں کسی بھی حکومت کو گرا دیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے آغاز میں ملک کے مختلف علاقوں میں بحرانوں، انتشار، عدم تحفظ اور دہشت گرد گروہوں کی وسیع سرگرمیوں پر اشارہ کرتے ہوئے مزید فرمایا: ایران میں امریکی جاسوسی اڈے کی دستاویزات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے اندر یہ واقعات ایران میں بحران پیدا کرنے کی اسی مغربی حکمت عملی کے تحت رونما ہوئے۔
انہوں نے ان بحرانوں کی شکست اور متاثرہ صوبوں کے عوام کی نجات کا ضامن پاسداران انقلاب کو قرار دیا اور تاکید کی: دشمن مسلسل بحران پیدا کر کے انقلاب کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہے اور پھر انقلاب کے کام کو 28 مرداد کی بغاوت جیسے اقدام سے ختم کرنا چاہتے تھے، لیکن سپاہ نے 28 مرداد کی بغاوت کو تکرار ہونے سے روکا اور ایران کو آغاز ہونے والے صحیح راستے سے ہٹنے نہیں دیا، اور یہی وجہ ہے کہ دشمنوں کو سپاہ سے شدید نفرت ہے۔
قائد انقلاب نے دفاع مقدس میں سپاہ کی کارکردگی کو ایک شاندار اور بہت اہم مرحلہ قرار دیا اور مزید کہا: صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ سپاہ کی کارکردگی کی ایک اور جہت ہے جس نے ایران کے لیے سلامتی اور استحکام پیدا کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے "عسکری آپشن میز پر ہے" کے ہمیشہ کے جملہ کی تکرار میں کمی اور اب بالکل نہ دہرائے جانے کو سپاہ کی قوت مدافعت اور صلاحیتوں کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: سب جانتے ہیں کہ یہ جملہ بے فائدہ، بے معنی اور بے سود ہو گیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے تعمیرات اور بنیادی ڈھانچے کے سپاہ میں سپاہ کی کارکردگی کو مایہ ناز، شاندار اور منفرد جہتوں میں شمار کیا اور مزید کہا: پاسداران انقلاب نے عوامی خدمات، محرومیوں کے خاتمے، قدرتی آفات اور حادثات جیسے کرونا کے بحران میں پوری توانائی کے ساتھ عوام کی خدمت کی ہے۔
ملک کے عمومی ماحول میں سپاہ کا اثر اور نوجوانوں کو جذب کرنا، سپاہ کی کارکردگی کی ایک اور جہت تھی جس کے بارے میں رہبر انقلاب نے فرمایا: نوجوان عنصر جب علم اور عمل، آفاقی فکر اور حقیقت پسندی، اور سخت طاقت اور سازوسامان کے ساتھ نرم طاقت ، یعنی سپاہ کا لوگوں کے ساتھ مضبوط رابطے کو دیکھتا ہے، تو وہ متاثر ہوتا ہے اور جذب ہوجاتا ہے کہ ہمارے قابل فخر جوان، حرم کے دفاع اور سلامتی کے شہداء سپاہ کے ایسے کارناموں اور سپاہ کے قابل فخر عناصر جیسے حاج قاسم، حججی اور ابراہیم ہادی کی کشش کا نتیجہ ہیں۔
انہوں نے سپاہ کے سرحد پار اثر و رسوخ کو گہرا اور بہت اہم سمجھا اور کہا: سپاہ پاسداران کی مختلف جہتوں میں کارکردگیوں اور کارنامون نے دشمن کو پریشان اور مجبور کر دیا ہے کہ وہ سپاہ پاسداران کو جھوٹ، افواہوں اور بکواس سے تباہ کرے۔
اگلا موضوع جس کی طرف رہبر انقلاب نے اس ملاقات میں پاسداران انقلاب اسلامی کی طرف اشارہ کیا وہ اپنی حفاظت و پاسداری کی ضرورت سے متعلق تھا۔
ذکر الٰہی سے غافل ہونا، غرور، گمراہی، خدا کی نعمتوں اور مدد سے غافل ہونا، مایوسی اور شکوک جیسی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے تحفظِ نفس یعنی تقویٰ کو تمام گروہوں اور افراد کا فریضہ قرار دیا اور فرمایا: کردار کی کمزوری انسان کو حساس مواقع پر ہلاکت سے دوچار کرتی ہے۔ اس لیے انقلاب کی پاسداری سے پہلے ہمیں اپنے آپ کی مسلسل پاسدکرنی چاہیے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے حکام کو سپاہ پاسداران کی اہم اقدار اور مضبوط روایات کے تحفظ کی نسبت حساسیت برتنے کی نصیحت کی اور قرآن کی ایک ایسی آیت شریفہ کا حوالہ دیا جو پیغمبر اکرم ص کی بلند مرتبہ اور محترم ازواج کی سزا اور اجر کو دوگنا بیان کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا: ہم صاحب دستار ہیں اور آپ سپاہ والے، ہم بھی ایسے ہی ہیں۔ کیونکہ ہمارے اچھے یا برے کام کے متعدد بیرونی اثرات ہوتے ہیں اور خود کی دیکھ بھال کی اہمیت کو دوگنا کر دیتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سپاہ کی پچھلی نسلوں کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے آج سپاہ کے نوجوان اور قابل فخر نسل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اپنے علمی، عملی اور روحانی حسن کو ماضی کی ان گزشتہ نسلوں سے بھی زیادہ بلند کرنے کی کوشش کریں۔
اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای کی تقریر کا اگلا موضوع اس اہم سوال کا جواب تھا: انقلاب اسلامی کی وہ کیا خصوصیت ہے جو دشمنیوں کا باعث بنتی ہے اور ان کے مقابلے میں انقلاب کی پاسداری ضروری ہو جاتی ہے؟
انہوں نے ایران میں "اسلام کی سیاسی حاکمیت" کو اس سوال کا واضح جواب قرار دیا اور سیاسی اسلام کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: "ظالم اور ظلم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت کرنا" سیاسی اسلام کی ایک نمایاں اور حساس خصوصیت ہے جس نے صیہونی حکومت جیسی حکومت کو مجبور کیا کہ جس کی بنیاد قبضے، جبر، ظلم اور تشدد پر ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ جیسے نظام کے ساتھ مقابلہ اور دشمنی کیلئے کھڑی ہو۔
اسلامی نظام کی طرف سے قوموں کے مفادات اور وسائل پر قبضے کی مخالفت ایک اور خصوصیت تھی جسے رہبر انقلاب اسلامی نے استعمار کے اسلامی نظام سے ٹکراؤ کا سبب قرار دیا اور مزید فرمایا: استعماری نقطہ نظر کے مقابلے میں قرآن کریم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قوموں کے ساتھ، حتیٰ کہ ان قوموں کے ساتھ جو ہمارے ہم عقیدہ نہیں ہیں، عدل و انصاف کے ساتھ سلوک کریں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے پچھلی صدیوں کے دوران انگلینڈ اور فرانس جیسے ممالک کی دولت کی جمع آوری اور ترقی کو دوسرے ممالک پر قبضے، استعمار اور استحصال کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: ایک سیاسی تجزیہ کار نے سوال کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے کیا کیا ہے کہ ایک فلاں ملک اس کے خلاف ہے۔ جبکہ جواب یہ ہے کہ واضح ہے کہ اس پس منظر کے ساتھ استعمار کا شیطانی نظام اسلامی نظام کے ساتھ اچھا برتاو نہیں رکھ سکتا۔
"بغیر رنگ و نسل اور خطے ک تبعیض کے تمام انسانوں کی بنیادی عزت پر یقین" قرآن کا ایک اور حکم تھا جس کی طرف رہبر انقلاب نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قرآن کی منطق کے مطابق سیاہ فام لوگ دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں ہیں۔ لہٰذا، جو اہل مغرب نسلی امتیاز کی منطق کو غلیظ انداز میں پھیلاتے ہیں، کیا وہ اسلامی نظام پر مہربان ہو سکتے ہیں؟
سیاسی اسلام کے خلاف بدخواہوں کی کینہ پروری کے ایک اور عنصر کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے قرآن کے ہر اس ملک اور حکومت کے ساتھ پرامن برتاو کے حکم کی طرف اشارہ کیا جو تصادم نہیں چاہتی، اور مزید کہا: اسلامی نظام ہر اس ملک کی بات کو قبول کرتا ہے جو کہتا ہے کہ اس کا تصادم کا کوئی ارادہ نہیں ہے، خواہ وہ ہم خیال نہ ہو، لیکن اگر اسے دوسرے فریق کی چال، جھوٹ اور پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی تیاری نظر آتی ہے، تو وہ کبھی قبول نہیں کرے گا اور جوابی کارروائی کرے گا اور معاہدے کی خلاف ورزی کے خلاف بھی ویسا ہی جواب دیا جائے گا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی نظام کے ساتھ دشمنی کی ایک اور اہم وجہ مغربی ایشیا کے حساس خطے میں اسلامی جمہوریہ کی مزاحمتی تحریکوں کیلئے آگے بڑھنے کیلئے نمونہ عمل کی حیثیت قائم ہوجانے کو قرار دیا اور فرمایا: اگر اسلامی جمہوریہ ایک رول ماڈل نہ ہوتا تو یہ دشمنی کم ہوتی۔
انقلاب کی فتح سے پہلے کے سالوں میں، یعنی 1967 کی چھ روزہ جنگ اور 1973 کی جنگ میں، تین عرب ممالک کی مسلح افواج کی غاصب صیہونی حکومت کے خلاف میدان میں اترنے کا موازنہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا: اسلامی انقلاب کے بعد بات اس مقام پر پہنچ گئی کہ اسی حکومت نے 33 دن تک لبنان کی حزب اللہ کو شکست دینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی اور اسے ذلت کے ساتھ فرار کرنا پڑا۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ انقلاب اور انقلاب سے پہلے کا فرق 1967 کی 6 روزہ جنگ اور 33 روزہ جنگ میں فرق ہے، مزید کہا: آج حالات اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ فلسطین اور دریائے اردن کے مغرب میں واقع علاقے کے نوجوان مقبوضہ علاقوں میں اقدامات اور حملے کر رہے ہیں جس نے صیہونی حکومت کو عاجز کر دیا ہے۔
انہوں نے بددیانتی، کینہ پرور، وعدہ خلافی اور جھوٹ بولنے والے شیاطین سے نمٹنے کو سیاسی اسلام کی دشمن ایجاد کرنے والی خصوصیات قرار دیا اور کہا: دشمن کی شناخت سے پاسداری کا حوصلہ گہرا ہوجاتا ہے اور ہم اغیار کو جاننے میں غلطی نہیں کرتے کیونکہ ایک مسئلہ جس کا ہم پہلے سامنا کر چکے ہیں اور ہمیں اسے دہرانا نہیں چاہیے، وہ ہے دشمن کو پہچاننے میں غلطی۔ لہٰذا جیسا کہ امام خمینی رح نے اس گہری بصیرت کے ساتھ فرمایا ہے ہمیں امریکہ جو بھی شور مچانا ہے امریکہ کے خلاف مچائیں۔
اپنی تقریر کے آخری حصے میں آیت اللہ خامنہ ای نے چند اہم اور عمومی سفارشات پیش کیں۔
انہوں نے انقلاب کے بعد عظیم پیشرفت اور صلاحیتوں اور اچھے کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی: ہمیں ترقی کی قدر و اہمیت کو جاننا چاہیے لیکن غرور و تکبر نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے ایران میں بحران پیدا کرنے کی مغرب کی اسٹریٹجک پالیسی کو دائمی پالیسی قرار دیا اور مزید کہا: وہ اب بھی ملک کے اندر مستقل بحرانوں کی تلاش میں ہیں۔ ایک دن الیکشن کے بہانے، ایک دن پٹرول کے بہانے اور ایک دن خواتین کے بہانے۔ بلاشبہ، بحران کی پیداوار کے وسائل آج زیادہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملکی سلامتی پر کاری ضرب کو بحران پیدا کرنے سے دشمن کے اصل ہدف کو قرار دیا اور فرمایا: سلامتی کے بغیر معیشت، روزگار، بنیادی ڈھانچے کے کام، کارخانوں، سائنس، یونیورسٹیاں اور تحقیقی مراکز کا قیام ممکن نہیں۔" اس لیے ان کا اصل ہدف ملک کی سلامتی کو درہم برہم کرنا اور لوگوں کی زندگیوں کو درہم برہم کرنا ہے۔
انہوں نے CIA، موساد، اور برطانوی MI6 جاسوسی ایجنسیوں کو بحران کے منصوبوں اور تخلیق کے پیچھے اہم عنصر قرار دیا اور مزید کہا: یقیناً وہ اندرونی اور بیرونی ایجنٹوں اور مغرب پرست اور آوارہ عناصر کو بھی استعمال کرتے ہیں، لیکن معاملے کی جڑ جاسوسی ایجنسیاں ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کی کہ دشمن کے عزائم کے مقابلے میں ہمیں اپنے فرائض کو سمجھنا چاہیے اور فرمایا: آج ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم انقلاب کی مسلسل پاسداری کریں۔ آج ہمارا اہم کام قومی اتحاد، عوام کی شراکت اور لوگوں بالخصوص کمزور طبقات کی مدد کرنا ہے۔ آج کی ذمہ داری، حکام کا چوبیس گھنٹے اور انتھک جہادی کام ہے۔
انہوں نے چوٹیوں تک پہنچنے میں آنے والے دشوار گزار اور پیچیدہ راستوں سے ملک کے گزر جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم نے سخت ڈھلوان کے باوجود راستے کا ایک بڑا حصہ عبور کیا ہے اور چوٹیوں کے قریب پہنچ چکے ہیں، لہذا آج کا دور تھکاوٹ اور مایوسی کا دور نہیں بلکہ خوشی، امید اور تحرک کا دور ہے اور ملک کے حکام کو اس جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب نے حکام پر تنقید کے بارے میں بھی فرمایا: ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ تنقید نہ کی جائے، لیکن تنقید کے اظہار کے ساتھ ساتھ عہدیداروں پر اعتماد بھی ہونا چاہیے، کیونکہ حکام جوش و جذبے، صلاحیت، خدا پر توکل، اعتماد اور اپنی تمام طاقت کے ساتھ کام کررہے ہیں۔
آخر میں انہوں نے تاکید کی: اگر ہم آج تک جس راستے پر چل رہے ہیں اس پر چلیں تو دشمن پر فتح یقینی ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں ولی فقیہ کے نمائندے حجت الاسلام والمسلمین حاج صادقی نے کہا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی انقلاب اسلامی کے تمام شعبوں پر محیط ہے اور واضح کیا کہ یہ انقلابی تنظیم ایرانی قوم کے خلاف دشمنوں کی تمام سازشوں اور ہر قسم کے حملوں کے خلاف کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی۔
پاسداران انقلاب کے سربراہ نے قائد انقلاب کے ساتھ کمانڈروں کی آخری ملاقات کو بھی یاد کیا جو 2018 میں ہوئی تھی اور اس میں شہید جنرل حج قاسم سلیمانی کی موجود تھے اور عالم اسلام کے جغرافیہ میں دشمن کی تمام حکمت عملیوں کی ناکامی کا سبب اس عظیم الشان شہید اور اس کے ساتھیوں کی کوششوں کو قرار دیا اور دشمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی: سپاہ اپنے شہداء کے خون کا بدلہ لے گی اور امریکہ کو خطے سے ضرور نکال باہر کرے گی۔
میجر جنرل سلامی نے فوجی، سیکورٹی، انٹیلی جنس، سائنسی، اقتصادی، تعمیراتی، صحت، خدمات کی فراہمی، تشہیر اور امید پیدا کرنے کے شعبوں میں سپاہ پاسداران کی صلاحیتوں اور کارکردگی کی بھی وضاحت کی۔