فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اپنے ساتھ آئے ہوئے وفد کے ہمراہ بدھ 21 جون کی شام رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
اس ملاقت میں رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلۂ فلسطین کے آگے کی سمت بڑھتے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کی نوجوان اور مومن نسل میں ذمہ داری کا احساس اور جدوجہد کی میدان میں اس کا انفرادی اور اجتماعی طور پر شامل ہونا انتہائي اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنین کے حالیہ واقعات اور فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے صیہونی فوجیوں کا محاصرہ اس نئی صورتحال کا واضح نمونہ اور مکمل فتح کے ساتھ روشن مستقبل کی نوید ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ فلسطین کا موضوع، عالم اسلام اور امت مسلمہ کے مسائل کا مرکز ہے، کہا کہ مسئلہ فلسطین میں جس قدر پیشرفت ہوگي، امت مسلمہ کے مسائل بھی اسی قدر آگے بڑھیں گے۔
انھوں نے پچھلے دو تین سال کی نسبت فلسطین کے موجودہ حالات میں واضح تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی قریب میں مسئلۂ فلسطین کے متوقف ہو جانے کی اصل وجہ، میدان میں نوجوانوں کا نہ ہونا تھا لیکن اس وقت فلسطینی نوجوان خود ہی میدان میں اتر آئے ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انھیں اسلام پر بھروسہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر مزاحمتی گروہوں کے درمیان پہلے سے زیادہ اتحاد و ہماہنگی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کی حالیہ لڑائي میں ہم نے دیکھا کہ دشمن کی پوری کوشش، مزاحمتی گروہوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور اس طرح کا ماحول دنیا کے سامنے پیش کرنے کی تھی لیکن خداوند عالم کے لطف و کرم سے یہ سازش ناکام رہی لہذا اتحاد و ہماہنگی کے مسئلے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے اور اس صحیح راستے پر پوری طاقت سے آگے بڑھنا چاہیے۔
انھوں نے غزہ کو استقامت کا مرکز و محور بتایا اور کہا کہ جو علاقہ، دشمن کو دھول چٹائے گا، وہ مغربی ساحل کا علاقہ ہے اور اب تک اس علاقے میں بڑی کامیابی ملی ہے۔
انھوں نے کہا کہ کون سوچ سکتا تھا کہ ایک دن جنین میں فلسطینی نوجوان، صیہونی فوجیوں پر اتنا عرصۂ حیات تنگ کر دیں گے کہ وہ مجاہد نوجوانوں کے محاصرے سے رہائي کے لیے جنگي طیاروں کا استعمال کرنے پر مجبور ہو جائيں گے لیکن یہ واقعہ کچھ دن پہلے جنین میں رونما ہوا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تمام تر دباؤ کے باوجود بین الاقوامی پروپیگنڈے کو فلسطینی عوام کے حق میں بتایا اور کہا کہ اس سال یوم قدس کے موقع پر اسلامی ملکوں کے علاوہ، یورپی ملکوں تک میں ریلیاں نکالی گئيں اور یورپ کے لوگوں نے صیہونی حکومت کی مخالفت کی جو بہت اہم بات ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ ہائیلائٹ ہونا چاہیئے۔
انھوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مسئلۂ فلسطین کی حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اسلامی تحریک کے آغاز سے ہی دین و ایمان اور دلی عقیدے کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت کی اور اسلامی جمہوریہ کی جانب سے فلسطین کی حمایت کی بنیاد ٹیکٹیکل یا سفارتی حربے نہیں بلکہ اسلامی فقہ و شریعت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ فلسطین کی سرزمین تمام مسلمانوں کی سرزمین ہے بنابریں تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس کی آزادی کے لیے میدان میں آ جائیں اور یہ ایک شرعی ذمہ داری ہے۔
اس ملاقات میں فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مسئلۂ فلسطین کی مستقل حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں خاص طور پر غرب اردن کے حالات کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی اور کہا کہ غزہ، مزاحمت کا محور ہے لیکن آج اصل اور فیصلہ کن لڑائي غرب اردن میں ہو رہی ہے اور صیہونی دشمن کی جانب سے کیے جا رہے تمام خطرناک فیصلوں کے باوجود غرب اردن کے مجاہد نوجوانوں کی برتری کے سبب، اس حکومت کے سامنے برے اور زیادہ برے آپشن کے علاوہ کوئي اور متبادل نہیں ہے۔
انھوں نے غرب اردن میں نوجوانوں کی جانب سے جہاد و مجاہدت کے خیر مقدم اور مسلحانہ مزاحمت کی خود سے وجود میں آنے والی یونٹس کو مقبوضہ فلسطین کی سب سے اہم تبدیلی بتایا اور کہا کہ موجودہ حالات اور مزاحمتی محاذ کی پیشرفت کی، مقبوضہ فلسطین کی تاریخ میں کوئي مثال نہیں ہے۔
جناب اسماعیل ہنیہ نے رہبر انقلاب اسلام سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم آپ کی موجودگي میں اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ مزاحمتی گروہ، فلسطین کی سرزمین سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور قدس کی آزادی تک جدوجہد اور جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ خداوند عالم کے لطف و کرم سے اور فلسطین کی نوجوان اور مومن نسل کی مدد سے مستقبل قریب میں مسجد الاقصی، غاصبوں کے چنگل سے آزاد ہو جائے گي اور آپ کے ساتھ ہم سبھی وہاں نماز ادا کریں گے۔