رہبر انقلاب اسلامی نے ہفتے کی صبح امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی چونتیسویں برسی کے موقع پر ایران کے قدر شناس اور وفادار عوام کے ایک پرشکوہ، عظیم اور زبردست اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی کو ایران کی تاريخ کی سب سے سربرآوردہ شخصیات میں سے ایک قرار دیا۔ انھوں نے امام خمینی کے ذریعے ملک، امت مسلمہ اور دنیا کی سطح پر پیدا کی جانے والی تین بڑی عظیم تبدیلیوں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ایمان اور امید، یہ عظیم تاريخی تبدیلیاں پیدا کرنے والا سافٹ پاور تھا اور جو بھی ایران، قومی مفادات، معاشی حالات کی بہتری، ملک کی ترقی اور قومی اقتدار کا خواہاں ہے، اسے عوام اور معاشرے کے ایمان اور امید کی تقویت کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مذہبی علوم، ایمان، تقوی، قوت، عزم، اللہ کے لیے قیام، انقلابی سیاست اور انسانی نظام میں تبدیلی جیسی باتوں میں امام خمینی کی شخصیت کے حیرت انگیز پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی تاریخ کی کسی بھی سربرآوردہ شخصیت میں یہ سارے پہلو یکجا دکھائی نہیں دیتے اور اسی لیے ہمارے منفرد امام خمینی جاوداں رہیں گے۔
انھوں نے امام خمینی کے ذریعے ایران، امت مسلمہ اور دنیا میں پیدا کی گئي بے مثال تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسلامی انقلاب کو معرض وجود میں لا کر اور عوام کے ہاتھوں اسے کامیاب بنا کر، سلطنتی سیاسی ڈھانچے کو جمہوریت میں، ایک پٹھو اور حقیر و ذلیل حکومت کو ایک خود مختار اور قومی اقتدار پر مبنی نظام میں اور ایک دین مخالف حکومت کو اسلامی نظام میں، آمریت کو آزادی میں اور عدم تشخص کو قومی تشخص میں تبدیل کر دیا اور اغیار کی دست نگر قوم کو، سب کچھ کرنے پر قادر معجز نما طاقت سے لیس کر دیا جو موجودہ اور آئندہ تمام مشکلات کو حل کرنے والی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ کی سطح پر امام خمینی کی جانب سے لائي گئي تبدیلی کے پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے، اسلامی بیداری کی شروعات، امت مسلمہ میں تحرک اور آمادگی اور مسئلۂ فلسطین کے عالم اسلام کے سب سے اہم مسئلے کی حیثیت اختیار کر لینے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ امام خمینی نے فلسطینی قوم کے رنجیدہ اور اداس جسم میں ایک نئي روح پھونک دی اور اب عالمی یوم قدس، صرف ایران میں ہی نہیں بلکہ غیر مسلم ممالک کے دار الحکومتوں میں بھی فلسطینی مظلوموں کی حمایت کے پلیٹ فارم میں بدل چکا ہے۔
انھوں نے مادہ پرستی کے مقابلے میں عدم تحرک سے باہر نکلنے اور روحانیت کی جانب اقوام کی توجہ مبذول کرانے کو امام خمینی کے ذریعے عالمی سطح پر لائي جانے والی تبدیلیوں کا اصل محور بتایا اور کہا کہ اس عظیم شخصیت نے دنیا میں روحانیت کے رنگ کو پھر سے نکھارا اور روحانی مسائل و موضوعات پر سامراجیوں کے سیاسی حلقوں اور میڈیا کے مراکز کی جانب سے شدید حملے اور مادہ پرستی کی ترویج کے لیے ان کی گھناؤنی کوششوں کو اس گہری تبدیلی کے مقابلے میں ان کا ردعمل بتایا۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کاغذ کے صفحوں اور ٹیپ ریکارڈر کی کیسیٹوں کو، اپنی باتیں اور پیغام عوام تک پہنچانے کے لیے امام خمینی کے واحد ہارڈ پاورز سے تعبیر کیا اور کہا کہ جس چیز نے انھیں، ان معجزاتی سرگرمیوں پر قادر بنایا تھا، وہ ان کے دو اہم سافٹ پاورز، یعنی ایمان اور امید تھے۔
انھوں نے امام خمینی کے راستے یعنی خدا کے دشمنوں سے مقابلے میں خداوند عالم پر ایمان کو، الہی وعدوں پر یقین اور اعتماد کے مترادف بتایا اور قرآن مجید کی کئي آيتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پرودرگار عالم نے وعدہ کیا ہے کہ جو بھی اس کی مدد کرے گا، اسے اس کی مدد حاصل ہوگی، اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مومنوں کو ثابت قدم رکھے گا اور ان کے قدموں کو مضبوطی سے جمائے رکھے گا، مومنوں کا دفاع کرے گا، حق اور ہر اس چیز کو دوام عطا کرے گا جو عوام کے حق میں ہے اور باطل کو جھاگ کی طرح ختم کر دے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی کے ایمان کے ایک دوسرے پہلو یعنی عوام پر بھروسے کے بارے میں کہا کہ وہ قرآنی آيات کے عمیق ادراک کے سبب عوام کے ووٹ جیسے ان کے محرکات اور عمل پر گہرا اور دلی بھروسہ رکھتے تھے اور بعض تشویشوں کے جواب میں کہا کرتے تھےکہ میں عوام کو آپ سے بہتر اور آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔
انھوں نے جمہوریت پر امام خمینی کے گہرے فکری اعتماد کی ایک اور مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی نے اپنی عمر کے آخری زمانے میں کہا تھا کہ انھوں نے ملک کے پہلے صدر کو ووٹ نہیں دیا تھا لیکن چونکہ وہ عوام پر اعتماد کرتے تھے اس لیے انھوں نے اس صدر کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کر دی تھی۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امام خمینی کی کئي عشروں پر محیط تغیر آفریں سرگرمیوں کے دوسرے اہم سافٹ پاور یعنی امید کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ امید، امام خمینی کی تحریک کا دائمی عنصر اور انجن تھی چنانچہ وہ انیس سو چالیس کے عشرے میں اللہ کے لیے قیام کی بات کرتے تھے، ساٹھ کے عشرے میں عملی طور پر قیام کے میدان میں اتر گئے اور اسّی کے عشرے میں خطرناک فوجی، سیکورٹی اور سیاسی طوفانوں کی زد میں آنے کے باوجود ذرہ برابر بھی نہیں گھبرائے۔
انھوں نے امام خمینی کی راہ چلنے اور ان کے اہداف کے حصول کے لیے ضروری باتوں اور وسائل کو، چالیس سال پہلے کے طریقوں سے الگ بتایا لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی کہا کہ محاذ آرائي میں کوئي تبدیلی نہیں آئي ہے اور آج بھی، کل کی طرح سامراجی محاذ، صیہونیوں کا محاذ اور منہ زور طاقتوں کا محاذ، ایرانی قوم کے خلاف صف بستہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ آج کی اور کل کی صف بندی میں فرق صرف اتنا ہے کہ آج ایرانی قوم زیادہ مضبوط ہو گئي ہے جبکہ دشمن زیادہ کمزور ہو گئے ہیں۔
انھوں نے دشمنوں کی سازشوں کا اصل ہدف، عوام کے ایمان کو کمزور بنانا اور دلوں میں امید کے شعلوں کو بجھا دینا بتایا اور کہا کہ خود مختاری اور قومی اقتدار و مفادات کی حفاظت، ایمان اور امید کی حفاظت پر منحصر ہے اور پچھلے کچھ عشروں میں سامراج کی کینہ پرور اور ہٹ دھرم ایجنسیوں اور اسی طرح ان کے سیکورٹی، سیاسی اور مالی اداروں نے لوگوں کے ایمان اور امید کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور معدودے کچھ معاملوں میں انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئي لیکن خداوند عالم کی مدد سے زیادہ تر معاملوں میں وہ ایرانی قوم سے مغلوب ہوئے اور انھیں ہزیمت اٹھانی پڑی۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ دشمن کی آج تک سازشوں کی تازہ ترین کڑی، پچھلے موسم خزاں میں ہوئے ہنگامے تھے۔ انھوں نے ان ہنگاموں کو وجود میں لانے والے اجزاء کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ان ہنگاموں کی پوری پلاننگ مغربی ملکوں کے تھنک ٹینکس نے انجام دی اور انھیں مغربی سیکورٹی ایجنسیوں کی وسیع مالی، اسلحہ جاتی اور تشہیراتی مدد سے اور غدار پٹھوؤں اور ایران کے خلاف دشمنانہ پالیسیوں کے عناصر کی مدد سے انجام دیا گيا۔ البتہ تھوڑے بہت دشمن، زیادہ تر غافل، جذباتی اور بصیرت نہ رکھنے والے افراد اور کچھ غنڈے اور بدمعاش ملک کے اندر ان ہنگاموں میں پیادے کے رول میں تھے۔
انھوں نے ان ہنگاموں کے دوران غیر ملکی میڈیا میں دستی بموں بنانے کی کھلی ٹریننگ، علیحدگي پسندانہ نعروں اور مسلحانہ اقدامات کی ترویج، بعض ظاھری طور پر ایرانی ضمیر فروشوں کے ساتھ مغربی حکومتوں کے بعض سینیر لیڈروں کے تصویر کھنچوانے اور پیادوں کے ہاتھوں اسٹوڈنٹس، دینی طلبہ، پولیس اہلکاروں اور رضاکاروں کے قتل جیسے مغرب والوں کے بعض بھرپور دشمنانہ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سوچ رہے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کا کام تمام ہو گيا اور وہ ایرانی قوم کو اپنے اہداف کے لئے استعمال کر سکتے ہیں لیکن بے وقوفوں نے پھر غلطی کر دی اور اس بار بھی وہ ایرانی قوم کو سمجھ نہیں پائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے دشمنوں کی کال کے سلسلے میں عوام کی ہوشیاری اور ان کے ورغلانے میں نہ آنے اور 'بسیجی' اسٹوڈنٹس اور دیگر شعبوں کے بسیجیوں کی فرض شناسی سمیت سڑکوں پر اور یونیورسٹیوں میں جوانوں کے ذمہ دارانہ کردار کو دشمن کی ناکامی کا سبب بتایا اور کہا کہ دشمن کی سازش ناکام ہو گئی لیکن سبھی کو یہ انتباہ دے گئي کہ دشمن کی چال کی طرف سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔
انھوں نے عوام کو انتخابات کی طرف سے بدگمان کرنے کو دشمن کا مایوسی پھیلانے والا ایک اور ہتھکنڈا بتایا اور کہا کہ میں انتخابات کے بارے میں بعد میں بات کروں گا لیکن اس سال کے انتخابات بہت اہم ہیں اور ابھی سے دشمن نے اس کے بارے میں بدگمانی پھیلانے کے لیے اپنے توپخانے کو سرگرم کر دیا ہے جبکہ ابھی انتخابات میں نو مہینے کا وقت ہے۔
اس پروگرام کے آغاز میں امام خمینی کے مزار کے متولی حجت الاسلام سید حسن خمینی نے اسلامی انقلاب کو دنیا کا سب سے زیادہ عوامی انقلاب بتاتے ہوئے، اسلامی جمہوری نظام کو، امام خمینی کا سب سے بڑا ورثہ قرار دیا۔ انھوں نے انتخابات کے ذریعے عوام پر بھروسے، باتحرک فقہ کے راستے سے سیاسی اہداف کی پیشرفت اور سیاسی خودمختاری کے ڈھانچے میں قومی اقتدار کے حصول کو نظام کی اہم ترین خصوصیات بتایا۔