رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے گیارہویں پارلیمنٹ کے اسپیکر اور دیگر ارکان سے ملاقات میں گیارہویں پارلیمنٹ کو مجموعی طور پر ایک انقلابی، جوان، محنتی پارلیمنٹ قرار دیا جس نے ملکی مسائل کے حل کے سلسلے میں بڑی اچھی قانون سازی کی ہے۔
آپ نے قانون سازی کے عمل میں بیرونی فضا اور جماعتی رجحان سے متاثر نہ ہونے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پارلیمنٹ کے ٹرم کے آخری سال میں ساتویں ترقیاتی پروگرام کا جائزہ اور منظوری، رواں سال کے نعرے یعنی انفلیشن پر کنٹرول اور پروڈکشن میں نمو کو عملی جامہ پہنانے کے لئے لازمی قانون سازی اور ادھورے پڑے پروجیکٹوں کو محنت سے انجام تک پہچانے جیسے بہت سے کام ہیں جنہیں آپ انجام دیجئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں 24 مئی 1982 کو خرمشہر کی آزادی کی سالگرہ کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے اس معجزاتی کارنامے کی ملت ایران کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اس عظیم فتح سے زیادہ اہم وہ جنگی منصوبے تھے اور بالکل جدید پروگرام تھے جن پر عمل کیا گيا اور انہیں یونیورسٹیوں میں پڑھانا چاہئے، اسی طرح غیر معمولی شجاعت تھی جو عالی مقام شہیدوں اور دوسرے افراد کے درمیان نمایاں تھی، اسے فراموش نہیں ہونے دینا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق پارلیمنٹ کی عظمت اور مقام قانون سازی اور نظارت سے بالاتر ہے۔ آپ نے استحکام پیدا کرنے، انسان، سماج اور ملک کے مستقبل کو قابل پیش بینی بنانے اور عہدیداران کو منصوبہ بندی کے امکانات فراہم کرنے کے لئے قانون کی کلیدی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قانون بنانا ریلوے لائن بچھانے یا سڑک تعمیر کرنے جیسا عمل ہے جس کے بعد دیگر اداروں کے لئے آگے بڑھنے کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں گیارہویں پارلیمنٹ کی کارکردگی اور خصوصیات کے بارے میں کہا کہ تین سال مکمل ہونے کے بعد آج بھی پارلیمنٹ بدستور انقلابی، جوان اور محنت و لگن سے کام کرنے والی پارلیمنٹ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے موجودہ پارلیمنٹ کے بعض قوانین کو اسٹریٹیجک قرار دیا اور کہا کہ اسٹریٹیجک اقدام کا قانون جو پابندیوں کو ختم کرنے متعلق تھا بڑا اہم اور کلیدی قانون تھا جس نے ایٹمی مسئلے میں ملک کو سرگردانی کی کیفیت سے بچا لیا اور اس کے نتائج آج ہم عالمی سطح پر دیکھ رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اشرافیہ کلچر سے اجتناب اور سادہ زیستی کو موجودہ ارکان پارلیمنٹ کی خصوصیت قرار دیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس سلسلے میں کچھ استثنائات موجود ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں ارکان پارلیمنٹ کو چد سفارشات کیں۔
انہوں نے دیگر اداروں کے ساتھ پارلیمنٹ کے تعلقات کے تعمیری و تخریبی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تخریبی پہلو کا مطلب یہ ہے کہ ادارے ایک دوسرے کو حریف سمجھیں اور اس کی ناک زمین پر رگڑ دینے کے موقع کی تلاش میں رہیں، یہ سوچ خطرناک اور مشکلات پیدا کرنے والی ہے چاہے اس قسم کی سوچ پارلیمنٹ کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے۔
ارکان پارلیمنٹ کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کی اگلی نصیحت ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے آنے والے وزراء کے سلسلے میں بہت زیادہ سخت گیری نہ کرنے سے متعلق تھی۔ آپ نے اس سلسلے میں کہا کہ کینڈیڈیٹ کی صلاحیت کا جائزہ لینے میں ضروری اور منطقی حد تک سخت گیری ضرور کی جائے لیکن اس انداز سے نہیں کہ اس کے نتیجے میں وزارت خانہ کئی مہینوں سے وزیر کے بغیر رہ جائے، آج بھی کئی وزارت خانوں میں وزیر نہیں ہیں، ان کے نام پارلیمنٹ میں جانے والے ہیں۔
آپ کا کہنا تھا کہ آزادی اور صریحی انداز بیان کے ساتھ تقوا اور صداقت کا دامن بھی مضبوطی سے تھامے رہنا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اگر کوئی مسئلہ متعلقہ ادارے یا حکومتی ڈیپارٹمنٹ کو انتباہ دینے سے حل ہو جائے تو ضروری نہیں ہے کہ اس کی تشہیر کی جائے، بعض مواقع ہوتے ہیں جب اعلانیہ مسئلے کو بیان کرنا ضروری ہو جاتا ہے تو ایسے مواقع پر تقوا و صداقت کا سختی سے پاس و لحاظ رکھنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گیارہویں پارلیمنٹ کے ارکان کو یہ مشورہ دیا کہ ساکھ بنانے کی کوشش میں آپ کے اقدامات متاثر نہ ہوں، یہ چیز ذہن سے بالکل نکل جانی چاہئے کہ فلاں کام سے عوام میں پذیرائی بڑھے گی اور ووٹ میں اضافہ ہوگا۔
آیت اللہ خامنہ ای کی آخری سفارش یہ تھی کہ پارلیمنٹ کے آخری سال میں بڑے کاموں کو انجام تک پہنچا کر سربلندی کے ساتھ ان شاء اللہ پارلیمنٹ سے باہر آئيے۔
اس ملاقات کے آغاز میں اسپیکر محمد باقر قالیباف نے گیارہویں پارلیمنٹ کی کارکردگي سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی۔