ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

اسٹوڈنٹس اور طلبا یونین کے اراکین سے ملاقات

طلباء اپنی فکری اور معرفتی بنیادوں کو مضبوط بنائیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج (منگل کو) مختلف طلبہ تنظیموں کے ایک ہزار سے زائد ارکان اور کارکنوں کے ساتھ اڑھائی گھنٹے کی ملاقات میں طلبہ اور ان کی سرگرمیوں کو ملک کے لیے ایک موقع اور غنیمت قرار دیا اور دشمن کی ایران کے عوام کو اپنے آپ اور اپنی صلاحیتوں سے مایوس کرنے کی حکمت عملی کے بارے میں کہا: دشمن کی خواہشات کے برعکس، طلباء کو ایرانی معاشرے کے ذہن اور حقیقت میں تبدیلی لانی چاہیے اور پھر طویل مدتی افق میں اپنے وژن اور کوششوں کے ذریعے دنیا کے ذہن اور حقیقت میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔
  حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہ رمضان کو روحانیت اور عبادت کا موسم بہار قرار دیا اور فرمایا: جوانی بھی زندگی کی بہار ہے؛ لہٰذا رمضان نوجوانوں کے لیے موسم بہار ہے اور یہ حسین امتزاج دفاع مقدس میں بھی موجود تھا۔ یعنی  معراج اور سربلندی کے حصول کا موقع تمام مجاہدین کے لیے دستیاب تھا لیکن جوان مجاہدین نے اپنی جوانی کے موقع کی وجہ سے عروج و معراج کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس بلندی پر پہنچ گئے کہ امام خمینی رح ان کے طرز عمل اور طرز زندگی پر رشک کیا کرتے تھے۔


انہوں نے ایک بار پھر طلباء اور طلباء تنظیموں کی مضبوط نظریاتی بنیاد کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے مزید کہا: اس صورت میں نوجوان کا دل مضبوط ہوگا، اس کا قدم ثابت یونگے اور اس کی تحریک مسلسل اور انتھک ہوگی۔ اس لیے نوجوان طلبہ کو چاہیے کہ وہ قرآن، نہج البلاغہ اور "مطہری"، "بہشتی" اور "مصباح" جیسے مفکرین کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے علمی مسائل پر کام، مطالعہ، غور و فکر کریں۔
رہبر انقلاب نے عدل کو معرفت کی بنیادوں میں سے ایک قرار دیا اور فرمایا: عدل کی اہم مثال عدم مساوات کا خاتمہ ہے لیکن عدل کا وسیع دائرہ ذہن و دل، رائے اور ذاتی فیصلوں سے شروع ہوتا ہے اور بین الاقوامی عدل و انصاف کی برقراری کے لیے استکبار کے ساتھ مقابلے پر ختم ہوتا ہے، بدقسمتی سے کچھ لوگ انصاف کے حصول کا نعرہ لگاتے ہیں، لیکن وہ عالمی ظالموں کے خلاف مقابلے کو انصاف کے حصول کی کڑی نہیں سمجھتے۔
انہوں نے آزادی کو معرفت کی ایک اور بنیاد قرار دیا اور اس کے بارے میں کہا: اسلام کی نظر میں "مادی قیود اور تقاضوں سے آزادی" آزادی کے زمرے کا سب سے اہم حصہ ہے، جو ترقی اور سربلندی کے حصول کیلئے جمود، پستی، خوف، عقب نشینی، سپر پاور، آمروں اور دیگر پابندیوں سے آزادی کے ذریعے راہ ہموار کرتی ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایک اور اہم فکری اور دینی بنیاد "انتظارِ فرج" کے بارے میں بھی فرمایا: انتظارِ فرج کا مطلب یہ یقین ہے کہ محنت، کوشش اور توکل سے تمام خرابیوں اور مشکلات کو دور کیا جا سکتا ہے۔
اسی تناظر میں انہوں نے مزید کہا: قرآن میں خدا حق کی بالادستی اور مظلوم کی فتح کو اپنا قطعی قانون قرار دیتا ہے اور ہم نے اس سچے وعدے کو انقلاب کی فتح اور عالمی استکبار کے ساتھ اور ایران کے دشمن کی مسلط کردہ جنگ میں دیکھا فتح کے حصول میں دیکھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے طلبہ تنظیموں سے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے طلبہ کی سرگرمیوں کو خطرہ سمجھنے والوں سے عدم اتفاق کرتے ہوئے تاکید کی: میری قطعی اور حتمی رائے یہ ہے کہ طالب علم، اس کی سرگرمیاں اور مطالبات، مسائل کے بارے میں اس کی ذمہ داری کا احساس، ملک کے مسائل کے حل کے لیے ان کا حوصلہ اور جذبہ اور سماجی تقریبات اور سیاسی فعالیت میں پرجوش موجودگی ایک موقع اور غنیمت ہے۔
طلبہ کی سرگرمیوں کے مسائل کا اظہار اس اجلاس میں رہبر انقلاب کی تقریر کا ایک اور حصہ طلباء کی سرگرمیوں کے خطرات سے متعلق تھا۔
انہوں نے طلباء کی سرگرمیوں کے خطرات میں سے معاشرے اور ملک میں تقسیم،  منطقی اور عملی حل فراہم کیے بغیر اعتراضات اور مطالبات کو بیان کرنا، اور ایک طالب علم کی باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: اس کے برعکس جو یہاں کہا گیا کہ "پہلے دن سے ہی مختلف ایشوز پر ریفرنڈم  ہونا چاہیے تھا تاکہ کوئی حساسیت پیدا نہ ہو" ملک کے مختلف مسائل کو ریفرنڈم سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ہر ریفرنڈم میں 6 ماہ تک پورا ملک درگیر رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں کہاں تمام مسائل کے لیے ریفرنڈم کراتے ہیں؟
قائد انقلاب نے جلد بازی، منفی نکات پر توجہ مرکوز کرنے اور روشن نکات کو نظر انداز کرنے، بے صبری، مقامی مسائل کو قومی مسائل میں تبدیل کرنے، شہرت طلبی کی نیت سے فعالیت، اور سائبر اسپیس میں غرق ہونے کو طلبہ کی سرگرمیوں کے دیگر نقائص کے طور پر شمار کیا اور مزید کہا: سائبر اسپیس، ایک حقیقت ہے، لیکن کچھ لوگ اس سے بے حساب و کتاب خبریں اور تجزیے قبول کرتے ہیں، جبکہ انہیں اس اسپیس اور سوشل نیٹ ورکس میں درست خبریں اور تجزیے شائع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
قائد انقلاب کی ایک اور نصیحت طلباء کو یہ تھی کہ وہ طویل مدتی افق کے تحت اپنی فعالیت کو منظم کریں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس قابلیت کے حصول کو عجیب اور پہنچ سے دور نہیں سمجھا اور مزید فرمایا: آج کا طالب علم کل کا سیاسی، اقتصادی اور سفارتی افسر، کل کا فلسفی اور عالم، کل کا سیاسی اور میڈیا کارکن اور کل کا لیڈر اور ماسٹر مائنڈ اور اثر و رسوخ رکھنے والا عنصر ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے، یہ تبدیلی سوچنے سمجھنے والے اور فعال لوگ لائیں گے جن میں آپ نوجوان اور با ایمان طلبہ بھی شامل ہیں۔
منحرف لوگوں کے ہاتھوں منفی تبدیلی پیدا ہونے کے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے نوجوانوں کو صحیح سمت میں گامزن ہونے اور اپنی دینی، علمی، فکری اور عملی بنیادوں کو مضبوط کرنے پر تاکید کی اور فرمایا: جو شخص ان معاملات میں اپنے آپ کو بہتر بنائے گا، کل اسکے اثر و رسوخ کا امکان زیادہ ہوگا۔"


رہبر معظم انقلاب نے "طالب علم" کے لقب کو علم کی طلب، جوانی، متحرک، جدت اور تجدید اور بدعنوانی اور ناانصافی کے خلاف دشمنی جیسے انسان دوست جذبات سے منسلک قرار دیا، لیکن فرمایا: ایک طالب علم کے لیے سب سے اہم چیز  ایک محکم فکری بنیاد ہے جسے تقویت دینی چاہیے! اس مضبوط ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری سرگرمیوں کو ختم کر دیا جائے اور صرف سوچنے اور مطالعہ کرنے میں مشغول ہو جائے، بلکہ آپ کو طالب علمانہ سرگرمیوں کے ساتھ ہی مذہبی ماخذ سے انسیت، اور قابل اعتماد اور مضبوط مفکرین سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ 
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ "ہر ایک کو دشمن کے منصوبے اور حکمت عملی کو جاننے کے لیے اپڈیٹ رہنا چاہیے" فرمایا: جب بھی ہم دشمن کا نام لیتے ہیں، بعض لوگ غصے سے یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی کمزوریوں اور نقائص کو جھٹلانا چاہتے ہیں۔ جبکہ کمزوریاں بھی ہیں لیکن ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، دشمن مال اور وسائل خرچ کر کے حق کے محاذ کے خلاف مسلسل کام کر رہا ہے اور امیر المومنین ع کے مطابق اگر ہم مورچوں میں غفلت کی نیند سوگئے ہیں تو دشمن نہیں سویا ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے ان بایمان جوانوں کا تذکرہ کیا جنہوں نے انتظامی، عسکری اور علمی میدانوں میں کارنامے انجام دیے اور شہادت پائی اور فرمایا: یہ نورانی سلسلہ جاری ہے اور آپ کے عصری دور میں بھی حججی، صدرزادہ، علی وردی، عجمی جیسے شہداء اور آج بھی ذمہ دار ایرانی نوجوانوں کی کثیر تعداد ملک کی پیشرفت اور ترقی کے محرک ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: سنجیدگی اور آرزو مندی، امید اور عقلیت کے ساتھ انقلاب اور اسلام کے روشن راستے پر گامزن رہیں۔
انہوں نے بلند اہداف کے تعقب اور دور افق پر توجہ کو تحریک کے ڈرائیونگ انجن، امید کو اس انجن کے ایندھن اور عقلیت کو اسٹیئرنگ وہیل کے طور پر تشبیہ دی اور اپنی تقریر کے آخری حصے میں کہا: یونیورسٹی کے سلسلے میں ایک جامع علمی منصوبہ موجودہ کمی ہے۔

700 /