رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج (جمعرات) ماہرین اسمبلی کے ارکان سے ملاقات میں اس بلند و بالا مقام کی حامل اہم اسمبلی کو "جمہوریت" اور "اسلامیت" کے امتزاج قرار دیا اور مختلف مواقع پر عوام کی اہم اور مسلسل موجودگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: نظام کی مضبوط عوامی بنیاد ایک قومی دولت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے علمائے کرام اور نظام کے تمام ذمہ داروں پر ہجت تمام کردی ہے اور ہم سب کو اس بڑے سرمائے کو بچانے اور ترقی دینے کے لیے انتھک محنت کرنی چاہیے۔
شعبان کے مقدس مہینے کی آمد اور اس کی عظیم اور پرمسرت ایام ولادت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں نے ماہرین کونسل کو دینی جمہوریت کی حقیقی علامت قرار دیا اور مزید کہا: یہ عوامی منتخب کونسل جس کا انتخاب عوام کی طرف سے مکمل طور پر صحیح و سالم جمہوری عمل کے تحت کیا جاتا ہے علمائے دین پر مشتمل ہے اور نظام کی مذہبی بنیاد کا استعارہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے ماہرین کونسل کے مقام، اہمیت اور حساسیت کو نظام میں کسی بھی مرکز اور گروہ سے بالاتر قرار دیا اور فرمایا: یہ کونسل رہبر کا تعین کرتی ہے اور اپنی نگرانی کے ذریعے رہبریت کے تسلسل کی ضمانت دیتی ہے۔ اتنا بڑا کام اور بھاری ذمہ داریاں اس کونسل کے ارکان کے کاندھوں پر ہے اور ان فرائض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی رب کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کے مختلف مسائل سے نمٹنے میں ماہرین کونسل کی کوششوں کو رہبریت کا مطالبہ اور درست طرزعمل قرار دیا اور ساتھ ہی فرمایا: ماہرین اسمبلی کے ارکان کیلئے تمام مسائل میں سب سے اہم یہ ہے کہ داخلی اور خارجی ذمہ داریوں پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔
انہوں نے "رہبریت کی شرائط کو پورا کرنے اور آئین میں درج ذمہ داریوں اور رہبر کے دیگر حتمی فرائض کی انجام دہی" کی جانچ پڑتال اور نگرانی کرنے میں ماہرین اسمبلی کے تحقیقاتی بورڈ کی سرگرمیوں کے تسلسل کو بہت اہم قرار دیا اور مزید کہا: رہبریت کا سب سے اہم فریضہ نظام کے اہم حصوں کا انقلاب کے اہداف کے تحت مجموعی ترقی اور رشد و نمو کی نگرانی کرنا ہے تاکہ کوئی گوشہ اصل راستے سے نہ ہٹنے پائے اور اسلامی انقلاب دوسرے انقلابات کی طرح منحرف نہ ہو۔
قائد انقلاب نے ماہرین کونسل کے موقف کی رائے عامہ بالخصوص نوجوان نسل کے لیے منطقی، مدلل اور مسلسل وضاحت کو اس اسمبلی کے اراکین کا فرض قرار دیا اور مزید کہا: ماہرین اسمبلی کی فیصلہ کن مقام کی صحیح تشریح، اس اسمبلی کے انتخابات میں عوام کو جوش و خروش سے شرکت کا ضامن ہے۔ بلاشبہ اس کونسل کے ممبران علماء بھی ہیں جس کی وجہ سے ان پر دیگر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے ماہرین کونسل سے دشمنی کو اسلامی جمہوریہ کے ساتھ دشمنی قرار دیا اور فرمایا: اسلامی جمہوریہ کے ساتھ بعض دشمنی کا تعلق سیاسی مسائل اور فلسطین جیسے مسائل پر اس کے موقف سے ہے لیکن بعض دشمنیاں اسلامی جمہوریہ کی اصل کے ساتھ ہیں۔ کیونکہ یہ نظام ان لوگوں کے خلاف کھڑا ہے جو مغربی طرز پر یقین رکھتے ہیں، جو سماجی مسائل میں مذہب کی مداخلت کے خلاف ہیں، یا لبرل جمہوریت کے آزادی اور جمہوریت کے دوغلے چہرے کے پیچھے
چھپ کر دنیا کے وسائل پر غلبہ پانے اور اسے لوٹنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ انقلاب نے "جمہوریت اور آزادی" کو "دین" کے ساتھ جوڑ رکھ کر ان کے منصوبے کو تباہ و بباد کردیا ہے۔
انہوں نے عوام کیلئے اس دشمنی کے اصل سبب کو بیان کرنا ضروری سمجھا اور کہا: اس بنیادی وجہ کے بیان ہونے کے بعد کوئی شخص سائبر اسپیس یا کہیں اور یہ نہ کہے کہ اسلامی جمہوریہ اپنے لئے دشمن بناتا ہے کیونکہ یہی دینی جمہوریت ہے جو بدخواہوں اور ایجنٹوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیتی ہے اور یہی ان کی دشمنی کا سبب ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ماہرین کونسل کے ارکان کی دوسری حیثیت کو ان کا عالم دین ہونا قرار دیا اور فرمایا: اسلامی جمہوریہ کی مضبوط عوامی بنیاد اور عوام اور نظام کا ایک دوسرے سے تعلق اور انحصار ایک قومی سرمایہ ہے، ایک ایسیہ حقیقت ہے جو چھپائی نہیں جا سکتی اور دنیا میں منفرد یا کم از کم نایاب ہے، جس کے تحت کورونا کے دور میں لوگوں کے از خود میدان میں آنا، انسانی بنیادوں پر امداد اور قدرتی آفات کے متاثرین کی مدد کے لیے لوگوں کی موجودگی اور کوششیں واقعی حیرت انگیز امر ہے۔
انہوں نے اس سال 22 بہمن کے مارچ کو نظام کی مضبوط عوامی بنیاد کا ایک اور مظہر قرار دیا اور کہا: سیاسی مقصد کے لیے اتنا بڑا اجتماع دنیا میں اور کہاں ہے، جہاں اتنی بڑی تعداد اور سلیقے کے تنوع کے حامل لوگ شرکت کریں۔ قد خمیدہ بوڑھے لوگوں سے لے کر نوجوان اور نوعمروں تک، چالیس سال سے زیادہ لگاتار اور اکثر مشکل موسمی حالات میں، وہ بھی ہر سال منظر پر نظر آتے ہیں؟ یہ نظام کی مضبوط عوامی حمایت اور بنیاد ہے، جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں اور شاید ہم اس کی عظمت کو صحیح طرح سے نہیں سمجھ سکتے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: "عوام کی موجودگی نے ہمارے حکام اور علماء پر الٰہی حجت تمام کردی ہے اور اس قومی سرمایے پر صرف فخر کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں اس دولت کی مسلسل حفاظت اور اس میں استحکام لانا چاہیے اور اس میدان میں اپنے فرائض کو پورا کرنا چاہیے۔"
انہوں نے ایسی قومی اور انقلابی تحریکوں کی تشکیل میں علمائے دین اور علمائے کرام کے کردار کو اہم اور ناگزیر قرار دیا اور کہا: اسلامی انقلاب میں امام خمینی نے بھی ایک عالم دین اور مرجع تقلید کے کی حیثیت سے کردار ادا کیا۔ علمائے کرام کے ہزار سالہ ورثے سے عوام میں جو اعتماد قائم ہوا اس پر انحصار کرتے ہوئے انہوں نے قوم کو تہران سے دور دراز کے دیہاتوں اور شہروں تک ایک نعرے تلے متحرک کیا جو کسی دوسری سیاسی جماعت یا شخصیت کی بس کی بات نہیں تھی۔
انھوں نے عوامی موجودگی اور مضبوط عوامی بنیاد کی بے پناہ اور خطروں کو دور کرنے والی دولت کو نظام کے لیے حیاتی بتایا اور کہا کہ علماء پر، چاہے ان کے پاس سرکاری عہدہ ہو یا نہ ہو، اس عظیم سرمائے کی حفاظت کے لیے بھاری ذمہ داریاں ہیں جن میں سب سے اہم 'تشریح کا جہاد' ہے۔
انہوں نے علمائے کرام کو نوجوانوں اور طلباء کے ساتھ رابطہ کرنے اور طلباء کے مراکز میں حاضر ہونے کی تاکید کی اور کہا: جدید طرز بیان، جدید فکر اور نئی منطق کے ساتھ نوجوانوں کے ساتھ مکالمہ کریں اور ان کی ذہنی گرہو کو کھولیں، اور یقیناً ان شکوک و شبہات کے بارے میں جن کا جواب ہمیں نہیں معلوم ہمیں کہنا چاہیے کہ نہیں جانتا اور اس متعلق جانچ پڑتال کروں گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بزرگ علماء اور ماہرین کونسل کے ارکان کے ساتھ مختلف شہروں میں بے شمار نوجوانوں اور دانشوروں پر مشتمل فکری حلقوں کی تشکیل کو نوجوانوں کے ساتھ موثر رابطے کے لیے ایک اور قدم قرار دیا اور فرمایا: کسی کو شک و شبہ سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح خود مرحوم شہید مطہری خود شبہ ایجاد کرکے اسکا جواب تلاش کرتے تھے ہمیں شک کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں عوام میں امید پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی دائمی پالیسی، مایوسی پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے 1990 میں ایک سیاسی گروہ کی جانب سے ملک کے ایک اعلی رتبہ عہدیدار کو لکھے گئے خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وفات کے ایک سال بعد اس گروہ نے پوری طرح مایوسی پھیلانے والے کھلے خط میں لکھا تھا کہ ملک اور قوم تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو لوگ خود اور ان کی شخصیت تباہی اور بربادی کے دہانے پر ہے، وہ ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں، جن کے دل اور ذہن امید سے لبریز ہوتے ہیں وہ مسائل اور حالات کو امید کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
اس ملاقات کی ابتدا میں، ماہرین اسمبلی کے نائب سربراہ حجت الاسلام سید ابراہیم رئيسی نے کونسل کے گيارہویں اجلاس کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔