رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح (بدھ) کو ثقافتی، سماجی اور سائنسی میدانوں میں سینکڑوں تعلیم یافتہ اور فعال خواتین کے ساتھ ملاقات میں "خاتون" کے بارے میں صنف اور انسانیت - قانونی اور فرائض -انفرادی اور خاندانی ذمہ داری- اور سماجی کردار اور فرائض" کے میدانوں میں اسلام کے ترقی پسند اور منصفانہ نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے خواتین پر جدید مغرب کے حملوں کو بنیادی اور خیانت سے بھرپور قرار دیا اور تاکید کی: زوجہ کے کردار میں عورت محبت اور سکون کا مظہر ہے۔ اور ماں کے کردار میں یہ زندگی کے حق کی طرح ہے۔یقیناً یہ بات ذہن نشین رہے کہ گھر کی دیکھ بھال کا مطلب گھر میں محصور رہنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب معاشرے کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے گھر کو اصل قرار دینا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے بعض مہمانوں کی تقریروں میں بہترین اور شاندار مطالب پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا: ملک میں تعلیم یافتہ، باشعور، عقلمند اور تجربہ کار خواتین سے فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کی مختلف سطحوں میں استفادہ ایک اہم مسئلہ ہے جو کافی عرصے سے میرے ذہن میں موجود ہے اور انشاء اللہ ہم اس کا حل تلاش کریں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں خاتون کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر کو بیان کرنے سے پہلے تاکید کی: خواتین کے حوالے سے مغرب کے منافق دعویداروں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کا موقف مطالبہ گر اور جارحانہ ہے، کیونکہ جدید مغرب اور زوال پذیر مغربی ثقافت حقیقتاً اس سلسلے میں قصور وار ہے، اور اس نے خواتین کی عزت و حیثیت کے تئیں جرم کا ارتکاب کیا ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ممتاز اور قابل خواتین کی زبان اور قلم کے توسط سے اسلام کے نظریات کی مناسب وضاحت اور تکرار مغرب کی رائے عامہ پر بھی اثر ڈالے گی۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے انسانی و جنسی لحاظ سے مرد و عورت کی مساوات کو اسلام کی مسلم خصوصیات میں سے قرار دیا اور فرمایا: اسلامی اور انسانی اقدار میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
انہوں نے مرد اور عورت کے حقوق اور فرائض کو اسلام میں مختلف لیکن متوازن قرار دیا اور مزید کہا: عورت اور مرد کی فطرت میں فرق ہے جو کہ گھر اور معاشرے میں انفرادی ذمہ داری میں موثر ہے اور فطری طور پر عورت یا مرد کو اس فطرت کے خلاف کام نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب نے معاشرے اور سماجی مسائل میں مرد اور عورت کی ذمہ داریوں کو "یکساں لیکن مختلف کرداروں اور شکلوں میں فرائض" قرار دیا اور مزید کہا: مثال کے طور پر دفاع مقدس میں مرد اور عورت دونوں پر دفاع کرنا فرض تھا، اگرچہ مختلف کرداروں میں کہ خواتین اگر مردوں سے بہتر نہیں تو کم از کم ان کی مانند اس مشکل ذمہ داری پر عمل کیا۔
رہبر معظم انقلاب نے مختصراً فرمایا: گہرے مرد محور مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے برعکس، اسلام میں، مرد اور عورت دونوں بعض مسائل میں ممتاز ہیں اور انہیں قانونی، فکری، نظریاتی اور عملی مراعات حاصل ہیں، لیکن مغرب والے اپنی مرد محوری کو جھوٹ سے کام لیتے ہوئے اسلام سے نسبت دیتے ہیں۔
انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی اصل بنیاد جو کہ انسان پر سرمائے کی بالادستی ہے، کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس نظریہ میں جو بھی زیادہ دولت جمع کر سکتا ہے اس کی قدر و قیمت زیادہ ہے اور قدرتی طور پر سرمایہ جمع کرنے میں مردوں کی برتری کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام مرد محور نظام بن جاتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے "کام کی شعبے" اور "خواتین کی جانبے شہوت آمیز نگاہ" کو مغرب میں خواتین کے ساتھ دو بنیادی زیادتیوں میں سے شمار کیا اور فرمایا: مغرب میں خواتین کی آزادی کے مسئلے کو اٹھانے کا اصل مقصد انہیں گھر سے کارخانے تک گھسیٹنا تھا تاکہ خواتین کو سستے مزدور کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔
انہوں نے 19ویں صدی میں امریکہ کی خونی خانہ جنگیوں میں سیاہ فام غلاموں کو آزاد کرنے کے تنازعہ کو سرمایہ دارانہ نظام کی دھوکہ دہی اور اہم موضوعات سے غلط استفادہ کی ایک اور مثال سمجھا اور مزید کہا: اس مسئلے میں بھی شمالی امریکہ کے سرمایہ دار سیاہ فاموں کو
آزادی کے نام پر جنوبی کھیتوں سے شمال کی طرف گھسیٹ کر لے گئے اور انہیں کم اجرت پر ملازم رکھا۔
رہبر معظم انقلاب نے شہوت آمیز نگاہ کو مغرب کا خواتین پر ایک اور بنیادی وار قرار دیا اور فرمایا: اس واقعی افسوسناک داستان میں سرمایہ دارانہ نظام ہر طرح کے طریقے استعمال کرتے ہوئے عورت کو یہ باور کراتا ہے کہ اس کا فائدہ اور قدر اس طرزعمل میں مضمر ہے کہ وہ گلی محلے کے مردوں کے لیے جنسی طور پر زیادہ نمایاں پرکشش بن سکے اور یہ خواتین کے وقار اور حیثیت پر سب سے بڑا دھچکا ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مردوں کی خواہشات کو اصل اور محور قرار دینے کیلئے مغربی خواتین کی کوششوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی مرد محوری کا نتیجہ قرار دیا اور تاکید کی: اس زوال پذیر نظریہ کے برخلاف خداوند متعال نے قرآن کریم میں خواتین کو مردوں کے لیے نمونہ عمل قرار دیا اور فرمایا کہ نوح کی زوجہ اور لوط کی زوجہ کافر مردوں اور عورتوں کے لیے نمونہ عمل ہیں اور فرعون کی زوجہ اور جناب مریم تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔
انھوں نے ان اعداد و شمار اور زمینی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کا اعلان مغربی ممالک کے سرکاری مراکز بھی کرتے ہیں، خواتین کے حقوق کے دفاع کے مغرب کے دعوے کو انتہائی بے شرمی قرار دیا اور کہا: سرمایہ دارانہ نظام کی مبینہ آزادی خواتین کی "غلامی اور توہین" کے مترادف ہے، اور انسان مغرب کے بعض حقائق کا ذکر کرتے ہوئے شرم کھاتا ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس نقطہ نظر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہ مغرب میں مردوں اور عورتوں کے درمیان رابطے کی آزادی مردوں کی آنکھوں اور دلوں کو سیر کرنے اور خواتین کی مشکلات کو کم کرنے کا سبب ہے، فرمایا: یہی آزادانہ ماحول مغربی مردوں کی حرص و ہوس میں سو گنا اضافہ کا سبب بنا ہے کہ وہ خود بھی یہ کہتے ہیں کہ خواتین اور لڑکیوں پر حملے، گلیوں، دفاتر اور تعلیمی مراکز کے علاوہ فوج کی باقاعدہ اور آہنی فارمیشن تک بھی پھیل چکے ہیں اور روز بروز بڑھ رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: جنسی تجارت اور بردہ فروشی، تمام اخلاقی اور رسمی حدود کو توڑنا اور ہم جنس پرستی جیسے مسائل کو قانونی قرار دینا جو تمام الہی مذاہب میں حرام ہے اور دیگر شرمناک مسائل مغربی ثقافت اور نظریہ کے نتائج ہیں۔ لہذا، عورتوں کے بارے میں مغربی نگاہ سے پرہیز عملی فرائض میں سے ایک ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک میں متعدد با ایمان اور ممتاز خواتین دانشمندوں کی موجودگی پر خوشحالی کا اظہار کرتے ہوئے جنسیت اور خواتین کے مسئلہ پر مغرب کے شرمناک نقطہ نظر کی وضاحت اور تشریح کو ایک ضروری کام قرار دیا اور فرمایا: سائبر اسپیس سے استفادہ کرتے ہوئے، مردوں اور عورتوں کے مسئلہ پر اسلام کے نظریہ کو مختصر، واضح اور خلاقانہ اقدامات جیسے ہیش ٹیگنگ کے ذریعے ترتیب دے کر ان لوگوں کو پیش کریں جو ان حقائق کے پیاسے ہیں، خاص طور پر اسلامی ممالک میں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں خاندان کے مسئلے اور اس میں خواتین کے کردار کی طرف توجہ مبذول کرائی اور فرمایا: خاندان کی تشکیل، تخلیق میں ایک عمومی قانون یعنی (ازدواجی) جوڑا بندی کے قانون پر مبنی ہے، یہ نقطہ نظر ھیگل اور مارکس کے نظریہ کے مقابل ہے جو حرکت کو تضاد کا نتیجہ گردانتا ہے، کیونکہ اسلام کی منطق میں حرکت بشمول افزائش نسل، جوڑا بندی اور باہمی تعاون کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تسلسل ہے اور اس نظریہ پر ٹھوس اور بنیادی کام کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسلام اور دیگر آسمانی مذاہب میں شادی اور خاندان کی تشکیل کے لیے قواعد و ضوابط کے تعین کی وجہ انتشار اور فساد کو روکنا ہے اور مزید کہا: ان اصولوں کی پابندی خاندان اور معاشرے کی صحت کو یقینی بنائے گی، کیونکہ خاندان ہی معاشرے کے تعمیر کی اکائی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گھرانے میں عورت کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے عورت کو ایک پھول، خوشبودار عطر اور گھر کی فضا میں سانس لینے کے لیے ہوا سے تشبیہ دی اور فرمایا: اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے کام کرنا چاہے۔ گھر میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن روایات کے مطابق گھر میں عورت وہ مزدور نہیں ہے کہ دوسرے اسے کام پر مجبور کر سکیں۔
انہوں نے گھر میں عورت کے دو اہم کردار ماں اور زوجہ کی حیثیت سے بیان کیے اور کہا: زوجہ کے کردار میں عورت مرد کے لیے محبت اور سکون کا مظہر ہے اور اس کردار کی شاندار مثالیں شہداء کی ازواج کی سوانح عمری میں نمایاں ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماں کے کردار کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
جہاں تک ماں کے حق کی بات ہے تو یہ زندگی کا سرچشمہ بننے والی ہستی کا حق ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو جنم دیتی ہے اور ان کی پرورش بے نظیر محبت سے کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مائیں بچوں میں سب سے زیادہ قومی تشخص کے عناصر کو منتقل کرنے اور ایمان و اخلاق کے بیج بونے میں اہم ترین عنصر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے ماں اور زوجہ کے دو کرداروں یعنی گھرداری کو عورت کا سب سے اہم اور بنیادی فریضہ قرار دیا لیکن تاکید کے ساتھ فرمایا: بے شک گھریلو عورت کا مطلب خانہ نشین ہونا اور تعلیم، جدوجہد، اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں سے گریز کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کوئی بھی کام جو خانہ داری کے ذیل میں آتا ہے اور اسے اس میں دلچسپی ہو تو وہ انجام دے سکتی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ عورت کی موجودگی اور فر شناسی کے احساس کے بغیر گھرانہ نہیں چل سکتا اور عورت کی نازک انگلیوں کے علاوہ کسی اور چیز سے کچھ گرہیں نہیں کھولی جاسکتیں، فرمایا: جس طرح کسی عورت کو کسی دفتری کام سے پہلے اپنے بچے کی جان بچانے کی اہمیت پر شک نہیں ہے اسی طرح بچے کی اخلاقی و با ایمان تربیت کی اہمیت پر بھی شک نہیں اور اگر عورت کو دو شعبوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو گھرانہ ترجیح رکھتا ہے۔
البتہ انھوں نے بعض سماجی کاموں کو دوسرے کاموں سے افضل سمجھا اور فرمایا: بعض اوقات ایک فریضے کی اہمیت بچوں، زوجہ اور والدین کی جان بچانے سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے مغرب میں گھرانے کی صورت حال کو تباہ کن قرار دیا اور فرمایا: اس خطرے نے خیر خواہ اور اصلاح پسند مغربی مفکرین کے احتجاج کی آواز بھی بلند کروادی ہے لیکن مغرب میں گھرانے کے بتدریج بکھرنے کا سلسلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اسے روکنا یا درست کرنا ناممکن ہے۔
رہبر انقلاب نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں حجاب کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا: بلاشبہ حجاب ایک ناقابل تردید شرعی ضرورت ہے، لیکن یہ ناقابل تردید ضرورت یعنی حجاب کی مکمل پابندی نہ کرنے والوں پر بے دینی یا ضد انقلاب کا الزام نہیں لگانا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: چند سال پہلے میں نے اپنے ایک صوبائی دورے کے دوران اس صوبے اور اس علاقے کے علماء کے درمیان کہا تھا کہ آپ ایسی خاتون پر کیوں الزام لگاتے ہیں جس کے بال باہر نکلے ہوئے ہیں اور وہ عام زبان میں بدحجاب جبکہ درحقیقت، کمزور حجاب ہے؟ اس استقبال میں خواتین کی ایک تعداد کا ایسا حجاب تھا۔ یہ ہماری اپنی خواتین اور بچیاں ہیں جو مذہبی اور انقلابی تقریبات میں بھی شریک ہوتی ہیں۔
شب قدر میں دعاؤں اور راز و نیاز کی تقریبات میں مختلف مواقع پر مختلف ظاہری حجاب میں خواتین کی موجودگی پر اپنے سابقہ خراج عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں ان آنسوؤں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور کاش میں بھی اس لڑکی اور جوان خاتون کی طرح آنسو بہاتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: کمزور حجاب صحیح چیز نہیں ہے لیکن اس سے اس فرد کو دین اور انقلاب کے دائرے سے باہر نہیں سمجھنا چاہیے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے خواتین کے لیے اسلامی جمہوریہ کی خدمات کو ایک اہم اور ناقابل فراموش زمرہ قرار دیا اور فرمایا: انقلاب سے پہلے صرف مٹھی بھر دانشور، سائنسی اور تحقیقی خواتین شخصیات موجود تھیں لیکن انقلاب تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد میں بےشمار اضافے کا باعث بنا، جس سے کچھ سالوں میں خواتین طلباء کی تعداد مرد طلباء سے بڑھ گئی اور خواتین کی ایک بڑی تعداد سائنس اور ٹیکنالوجی کی مختلف شاخوں میں کام کر رہی ہے۔
انہوں نے بین الاقوامی کھیلوں کے میدانوں میں ایرانی بچیوں کی شاندار کارکردگی کو خواتین کیلئے انقلاب کے بعد ترقی کا ایک اور شعبہ قرار دیا اور مزید کہا: حجاب کی بہترین تشہیر یہ ہے کہ ہماری خاتون کھلاڑی چیمپئن بن کر بین الاقوامی کیمروں کے سامنے اپنے ملک کا پرچم سربلند کرے اسوقت کہ وہ حجاب پہن کر چیمپئن شپ کے پلیٹ فارم پر کھڑی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے حجاب کے خلاف حالیہ واقعات میں بہت سی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ان سازشوں اور آفروں کے مقابل کون کھڑا ہوا؟ خود خواتین ہی کھڑی ہوئیں، جب کہ بدخواہ بقول معروف انھی بد حجاب خواتین سے حجاب اتارنے کی امید لگائے بیٹھے تھے، لیکن خواتین نے ایسا نہیں کیا اور ترغیب دینے والوں اور اس کام کیلئے دعوت دینے والوں کی دعوت کو انکے منہ پر دے مارا۔
انہوں نے اپنے آخری نکتے کو بیان کرتے ہوئے بعض گھرانوں میں خواتین پر ہونے والے ظلم پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: بعض اوقات مرد عورتوں پر ظلم کرنے کے لیے اپنی جسمانی طاقت پر انحصار کرتے ہیں اور ان حالات میں گھرانے کے تحفظ کے لیے خاندان سے متعلق قوانین کو اس قدر مضبوط، محکم اور مظلوم کا ساتھ دینے والا ہونا چاہیے کہ مرد عورت پر ظلم نہ کر سکے، یقیناً ایسے حالات بھی ہوتے ہیں جب عورت ظلم کرتی ہے جو کہ کم اور محدود ہیں۔