رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج(بروز پیر ) صبح 19 دی 1356 کو قم کے عوام کی تاریخی قیام کے دن کے موقع پر اس شہر کے عوام کے ساتھ ایک جلسہ عام میں تاریخ کے اہم اور حساس واقعات کو عبرت آموز تجربات یا الہی سنت پر مشتمل قرار دیا اور انقلاب اسلامی کی فتح کے ساتھ امریکہ کے خونخوار پنجوں سے ایران کی نجات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے اس بارے میں کہا: 43 سال قبل کارٹر کے اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے کے حکم کے بعد امریکیوں نے اس اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام ذرائع بالخصوص اشتہارات اور پروپیگنڈے سے کام لیا، لیکن جیسا کہ ان ہنگاموں میں واضح ہو گیا، وہ ناکام رہے ہیں اور ایران کی عظیم قوم اور ملک کے حکام خدا کے فضل سے عظیم اور موثر کاموں کے ذریعے کمزور نکات کو ختم کرکے اہداف اور مقاصد کے حصول کا تیزی سے سلسلہ جاری رکھا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قم میں 19 دی 1356 کے عظیم واقعے کو زندہ رکھنے اور اس سے سبق سیکھنے کو ضروری سمجھا اور فرمایا: آمرانہ حکومت کو گرانے کے لیے قم کے باایمان اور انقلابی عوام کی قیادت میں جس عظیم تحریک کا آغاز ہوا اس کا ہدف ایران کو مغرب کے پنجے سے نکال کر اس ملک کا تاریخی اور اسلامی تشخص بحال کرنا تھا کیونکہ پہلوی دور کا ایران امریکیوں کے غلط کلچر اور سیاسی و عسکری تسلط کے پاؤں تلے کچلا جاچکا تھا۔
انہوں نے ایام اللہ اور تاریخی واقعات کو نظرانداز کرنے یا اہمیت کم کرنے کو باطل تحریک کی حکمت عملی سمجھا اور مزید کہا: قرآن کے برخلاف جو ہر ایک کو ایام اللہ اور عظیم واقعات کو یاد رکھنے اور زندہ رکھنے کی دعوت دیتا ہے، باطل کی تحریک ایسے دنوں کی روشنی اور ہدایت کو کم کرنے یا چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 22 بہمن، 29 بہمن، 19 دی، 9 دی، شہید سلیمانی کا جنازہ اور شہید حججی کا جنازہ جیسے ایام اس کوشش کی مثالیں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 17 دی 1956 کو قم کے دیانتدار اور مخلص عوام کے فوری ردعمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، یعنی اسی دن جب پہلوی عدالت کے حکم سے امام خمینی کے خلاف ایک مضحکہ خیز اور توہین آمیز مضمون شائع کیا گیا تھا، فرمایا: یہ تحریک 18 دی کو جاری رہی اور 19 دی کے ایک وسیع قیام پر منتج ہوئی اور قابل فخر قم نے انقلاب کا پہلا پرچم بلند کیا اور ملک میں ایک روشن راہ ایجاد کی۔
انہوں نے احساس ذمہ داری میں سرعت عمل کو، سخت دل اور خونخوار طاغوت حکومت کے سامنے خطرات مول لینے اور بروقت اور محکم تحریک کو قم کے 19 دی کے قیام کی خصوصیات میں شمار کیا اور تاکید کی: کوئی بھی تحریک جس میں یہ خصوصیات ہوں وہ یقینی طور پر مطلوبہ اہداف تک پہنچے گی۔
رہبر معظم انقلاب نے دفاع مقدس کو قوم کے احساس ذمہ داری، بروقت اقدام اور خطرات مول لینے کی ایک روشن مثال قرار دیا اور فرمایا: پاگل صدام نے فراوان وسائل اور امریکہ، سوویت یونین، نیٹو اور رجعت پسند ممالک کی حمایت سے حملہ کیا جس کا مقصد ایران کو تقسیم کرنا تھا لیکن ایران کی اس جنگ احزاب میں جیت ہوئی اور وہ کچھ نہ کر سکے اور ملک کا ایک ذرہ بھی الگ نہ ہوا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کے لیے طاغوت حکومت کی حمایت کو امام خمینی کے خلاف ہتک آمیز مضمون شائع کرنے میں اس کی حماقت اور ڈھٹائی کی وجہ قرار دیا اور فرمایا: 19 دی سے چند روز قبل کارٹر نے تہران میں نشے میں دھت ہو کر ایران کو مستحکام جزیرہ قرار دیا تھا، لیکن اس حمایت کا نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ قرآن کے مطابق کفر کی طاقت پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلوی حکومت میں امریکہ کے بہت زیادہ اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طاغوت کے خلاف عوامی جدوجہد کو درحقیقت امریکہ کے خلاف جدوجہد قرار دیا اور فرمایا: 1343 میں امام خمینی رح کی جلاوطنی کی وجہ ان کا استثناء کے قانون کے خلاف احتجاج تھا، جس نے امریکیوں کو ایران میں کسی بھی جرم سے مستثنیٰ قرار دیا اور عوام اس اثر و رسوخ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ایران کو بچایا جو امریکہ کی قوم کے ساتھ دشمنی کی بنیاد بنا۔
انہوں نے قم کے 19 دی کے واقعہ کو اسلامی تحریک کی راہ میں بھرپور دعوے اور بے بنیاد باتیں کرنے والے لوگوں کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے ایک اور اہم موڑ قرار دیا اور کہا: مشروطہ کی تھریک میں بے ضمیر لوگوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے تحریک کا جھکاؤ برطانوی سفارت خانے کی طرف ہوگیا تھا۔ مگر انقلاب اسلامی کی تحریک میں مذہبی منصف شخصیات کی موجودگی اور مختلف شہروں میں علمائے کرام کی قیادت اور عوام کے دلوں کو تحریک کے ساتھ جوڑنے کی وجہ سے، ہر ایک، حتیٰ کہ مخالفین اور مختلف کمیونسٹ گروہ بھی اس عظیم عوامی تحریک اور امام خمینی رح کی ان باتوں سے مرعوب ہوگئے جو نجف سے اور اپنے دین کے علم کے ذریعے دنیا کو ہلا کر رکھ دیتے تھے اور ہم ابھی تک اس ہستی کو اور اس کیعظمت کو صحیح طرح سے نہیں جان سکے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کی فتح اور ایران کو امریکہ کے گہرے تسلط سے نجات دینے کو اسلامی نظام سے دشمنی کا اصل سبب قرار دیا اور اس وقت کے بارے میں ایک معروف امریکی مرکز سے خفیہ دستاویز کے اجراء کا ذکر کرتے ہوئے، جس میں صدر کارٹر کا اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے کا حکم موجود ہے وہ بھی انقلاب کی فتح کے صرف 10 مہینوں بعد، انہوں نے کہا: اس دستاویز کے مطابق کارٹر نے سی آئی اے کو اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے کا حکم دیا، اور اس نے پروپگنڈہ کو تختہ الٹنے کے لیے پہلی حکمت عملی قرار دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے دھمکیوں، پابندیوں، جاسوسی، اثر و رسوخ، زیادہ سے زیادہ دباؤ، ایران مخالف، اسلام مخالف اور شیعہ مخالف اتحاد بنانے سمیت متعدد اقدامات کے ذریعے اسلامی نظام کو نشانہ بنانے کی کوششوں کو امریکیوں کی گزشتہ 43 سالوں کے دوران مسلسل سازش قرار دیا اور مزید کہا: ان تمام چیزوں میں سرفہرست اسلامی جمہوریہ پر پروپیگنڈے کے ذریعے حملہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: یقیناً یہ بات واضح ہے کہ دشمن اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوا اور آج کی اسلامی جمہوریہ جس کی جڑیں اندرون ملک اور حتی کہ خطے میں بھی ہیں، روز اول سے قابل موازنہ نہیں ہے، لیکن ان چیزوں سے ملک کو نقصان پہنچا اور ہم موجودہ مقام سے کہیں آگے ہو سکتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب نے اس بات پر توجہ دلائی کہ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ سے نمٹنے اور دباؤ اور پابندیوں سے نمٹنے پر ملک کی طاقت کو مرکوز کرنے سے ملک کی ترقی کی رفتار سست پڑ گئی اور کہا: اس طاقت کو مکمل طور پر تعمیر، ترقی اور غربت کی نابودی پر صرف کیا جا سکتا تھا۔
انہوں نے دشمنیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی سست روی کی تلافی اور اسے ختم کرنے کو ممکن قرار دیا اور کہا: زیادہ محنت، ایمان و یقین اور انتھک اور چوبیس گھنٹے کوشش سے ہم تمام شعبوں کی کمزوریوں کو دور کر سکتے ہیں جیسا کہ سائنس کے میدانوں میں، دفاع، اور پیداوار کے حصوں میں اچھے اور تلافی کرنے والے کام انجام دئیے گئے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں حالیہ فسادات کے مرکزی کرداروں کے مقاصد کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا: ان واقعات میں بیرونی دشمن کا ہاتھ پوری طرح سے واضح تھا اور یہ بات درست نہیں ہے کہ جیسے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ غیر ملکی دشمن کا ہاتھ ملوث ہے، کچھ لوگ اس کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ واقعات آپ کی غلطی کی وجہ سے ہیں۔
انہوں نے حالیہ واقعات میں امریکیوں اور یورپیوں کے واضح اور غیر قابل انکار کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان خلفشار میں دشمن کا سب سے اہم ہتھیار سائبر اسپیس اور مغربی، عربی اور عبرانی میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ اور فتنہ انگیزی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: بعض لوگوں نے یہ بہانہ کیا کہ فسادات میں موجود افراد ملک کی انتظامی اور اقتصادی کمزوریوں کے خلاف تھے، جبکہ اس کے برعکس ان کا ہدف کمزوریوں کو ختم کرنا نہیں تھا بلکہ ملک کی طاقت کو نقصان پہنچانا تھا۔
اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ملکی سلامتی، تعلیمی اور سائنسی مراکز کو بند کر کے سائنسی ترقی کو روکنے، ملکی پیداوار کی ترقی کو روکنے اور سیاحت جیسے اوپر آتے ہوئے شعبے اور ان جیسے مضبوط نکات کو نشانہ بنانے کی طرف اشارہ کیا اور مزید کہا: یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی اور معاش کا مسئلہ ہے لیکن کیا یہ مسئلہ کچرے دان جلانے اور سڑکوں پر ہنگامہ آرائی سے حل ہو سکتا ہے؟ بلاشبہ یہ کارروائیاں خیانت ہیں اور ذمہ دار ادارے اس مسائل سے سنجیدگی اور انصاف سے نمٹیں۔
اپنی تقریر کے آخری حصے میں انہوں نے دو اور مسائل کا بھی ذکر کیا۔ پہلا مسئلہ "وضاحت کے جہاد" پر دوبارہ زور دینا تھا، جس کے بارے میں انہوں نے کہا: بدخواہوں کے منصوبوں میں سرفہرست پروپیگنڈا ہے، جس کا علاج مختلف طریقوں سے خلاقیت اور جدت کے ساتھ حقائق کی درست وضاحت ہے کیونکہ نوجوانوں کے ذہنوں پر اثر انداز پروپیگنڈے کو بے اثر کرنے کا طریقہ ڈنڈا نہیں، بلکہ وضاحت اور تشریح ہے۔
قائد انقلاب کا آخری نکتہ عظیم اور موثر کاموں کی تکمیل پر زور دینا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کو ایک عظیم تبدیلی اور ملک کے مشکل وقت سے نکالنے والا قرار دیا اور فرمایا: مستقبل میں ہمیں معیشت، ثقافت، سلامتی اور سائنس جیسے مختلف شعبوں میں عظیم اور تبدیلی لانے والے کاموں کی ضرورت ہے اور یہ اختراعی تبدیلی، یونیورسٹیوں اور دیگر شعبہ جات میں محنتی نوجوان اور حکام کے توسط سے ممکن اور قابل عمل ہیں۔