حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح اصفہان کے سینکڑوں لوگوں سے ملاقات میں اصفہان کو سائنس، ایمان، فن اور جہاد کا مرکز و محور شہر قرار دیا اور اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہمارے دور کا سب سے بڑا چیلنج "جمود، توقف اور پسماندگی" کے مقابل پیش رفت کا چیلنج ہے، مزید کہا: ایرانی قوم کے خلاف اساسی صف آرائی میں استکبار، ایران دشمنی کی شدت میں اضافے کے ساتھ، عوام بالخصوص نوجوانوں کے ذہنوں میں مایوسی اور تعطل پیدا کرنے کے لیے اپنے تمام امکانات کو بروئے کار لایا ہے اور آج ہر شخص کی ایران دوستی کے ثبوت کا سب سے اہم معیار "مایوسی پیدا کرنے اور حوصلہ شکنی سے گریز" اور "کام، کوشش اور امید کے جذبے کو فروغ دینا" ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے حکام کی شب و روز کی کوششوں پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ فسادات کے مرکزی کردار، جو عوام کو سڑکوں پر لانے میں ناکام رہے، شرارتوں کو جاری رکھ کر حکام کو تھکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن فسادات کی بساط جلد لپٹ جائے گی اور قوم ان سے مزید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اور مزید طاقت، نئے جذبے کے ساتھ کام، کوشش اور ترقی کو جاری رکھے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی ایران کے ساتھ استکبار کے بنیادی چیلنج کا تجزیہ کیا اور فرمایا: اسلامی جمہوریہ کے ساتھ استکبار کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ نظام ترقی کرتا ہے اور دنیا میں ظاہر آتا ہے تو مغربی دنیا کی لبرل جمہوریت کا نظریہ باطل ہو جائے گا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے لبرل ڈیموکریسی کے تفکر کے ساتھ مختلف ممالک پر مغربی دنیا کے تسلط کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: پچھلی تین صدیوں میں آزادی کی عدم موجودگی یا جمہوریت کے فقدان کے بہانے، انہوں نے ملکوں کے وسائل کو لوٹا، اور فقیر یورپ بہت سے امیر ممالک کی قیمت پر امیر ہو گیا۔
انہوں نے آزادی اور جمہوریت کے نام پر ممالک میں آزادی اور جمہوریت کے خلاف کام کرنے والے مغربیوں کے روش کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: ملک افغانستان اس کی ایک قریبی اور واضح مثال ہے جہاں امریکیوں نے حکومت کے عوامی نہ ہونے کے بہانے وہاں پر فوجی حملہ کیا۔ لیکن 20 سال کے بعد جرائم اور لوٹ مار کرنے کے بعد، وہی حکومت آئی جس کے خلاف انہوں نے کارروائی کی تھی اور وہ ذلیل و خوار ہو کر وہاں سے چلے گئے۔
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: اب ایران میں دین اور حقیقی جمہوریت پر مبنی نظام نے اپنے لوگوں کو شناخت دی ہے اور انہیں زندہ کیا ہے اور حقیقت میں مغربی لبرل جمہوریت کے تفکر کو رد کر دیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: اندرون ملک بعض لوگ مغربی پروپیگنڈے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اسلامی نظام میں آزادی اور جمہوریت نہیں ہے، جبکہ ان باتوں کا اظہار خود آزادی کی علامت ہے، اور ایسی حکومتوں کا برسراقتدار آنا جو آپس میں فکری لحاظ سے یکساں نہیں ہیں( سیاسی سوچ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں) عوام کے انتخاب کے حق اور اسلامی نظام کے عوامی ہونے کا ثبوت ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اگر اسلامی جمہوریہ امریکہ اور اس کے استکبار اور ان کی دھونس و جبر کے بوجھ سے مقابلہ نہ کرتا اور تسلیم ہوجاتا تو دباؤ کم ہوتا لیکن ان کا ملک پر غلبہ قائم ہوتا، فرمایا: ان سالوں میں جب بھی اسلامی جمہوریہ کی طاقتور آواز بلند ہوئی ہے، دشمن کی اسلامی نظام پر حملہ کرنے کی کوششیں بڑھ گئی ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی: آج ہمارے ملک کا بنیادی چیلنج " جمود، توقف اور پسماندگی کے خلاف پیشرفت" کا چیلنج ہے، کیونکہ ہم ترقی کر رہے ہیں، لیکن استکباری طاقتیں اسلامی ایران کی ترقی سے پریشان اور بے چین ہیں اور غصے میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسی بے چینی اور غصے کی وجہ سے امریکی اور یورپی تمام امکانات کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتے جیسا کہ نہ پہلے کر سکے تھے اور نہ آئندہ کر سکیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران اور استکبار کی چپقلش کے اصل معرکے میں امریکہ سب سے آگے ہے اور یورپ امریکہ کے پیچھے کھڑا ہے اور فرمایا: انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد ان تمام سالوں کے دوران سارے امریکی صدور بشمول کارٹر، کلنٹن اور ڈیموکریٹ اوباما، اور ریگن، بش اور وہ سابقہ ریپبلکن ذہنی مریض صدر سے لیکر موجودہ حواس باختہ صدر جو ایران کے عوام کو نجات دینا چاہتا ہے، وہ سب اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کھڑے ہوئے اور صیہونی حکومت سے اپنے پالتو اور پاھل کتے کے عنوان سے اور خطے کے بعض ممالک سمیت جس سے مدد لے سکتے تھے لی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: ان تمام کوششوں کے باوجود قوم کے دشمن مجموعی طور پر ناکام ہوئے، یقیناً انہوں نے پابندیاں لگانے، ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کرنے، مختلف سیاسی اور حفاظتی حربے استعمال کرنے اور کچھ لوگوں کو اندرون ملک رشوت دینے جیسے مسائل پیدا کیے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف بات کریں۔ لیکن وہ ایرانی قوم کی پیشرفت کو نہ روک سکے۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: موجودہ حالات میں جہاں ہمیں اس طرح کی مہم اور چیلنج کا سامنا ہے، عوام اور حکام کے ساتھ ساتھ دانشوروں، ایلیٹس، نوجوانوں اور یونیورسٹی و حوزہ علمیہ کے علمی طبقوں کا فرض ہے کہ وہ تمام سائنسی، فنی، اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اور روحانی
شعبوں میں ترقی کے لیے کوشش کریں۔
رہبر معظم انقلاب نے پیشرفت کو نظام کی مضبوطی اور اقتدار کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا: دشمن کا ہدف نظام کی حاکمیت کے ستونوں کو ہلانا ہے، لہذا ہر شخص کو پیشرفت کے مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے یہ سوال سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ہم ترقی کیسے کر سکتے ہیں؟ فرمایا: پیشرفت کے لیے بہت سے اوزاروں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ترقی کا سب سے اہم ذریعہ امید ہے، اس لیے دشمن اپنی پوری طاقت کے ساتھ مایوسی اور تعطل کا احساس پیدا کرنے پر مرکوز ہے۔
انہوں نے امید کو ختم کرنے کے لیے دشمن کی وسیع میڈیا سہولیات جیسے سیٹلائٹ نیٹ ورکس، سائبر اسپیس اور کرائے کے ٹی وی چینلز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: ان تمام کوششوں کے باوجود خوش قسمتی سے ملک میں ترقی کی امید اور تحریک زندہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمن کوشش کر رہا ہے کہ نہ صرف عوام اور جوانوں کو بلکہ حکام کو بھی ناامید کر دیا جائے اور بدقسمتی سے دشمن سے ملحقہ اندرونی دھارا بھی موجود ہے جس کو استعمال کر کے وہ اخبارات اور سائبر اسپیس میں ناامیدی اور مایوسی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: ہمارا ایک اقتصادی مسئلہ ہے جو ان شاء اللہ حل ہو جائے گا، لیکن ہم دوسرے شعبوں میں پیشرفت کر رہے ہیں، یقیناً تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ نوجوان نسل ان پیش رفتوں سے آگاہ نہ ہو، اسی وجہ سے دشمن اور اس کا اندرونی دھارا، ان ترقیوں کو چھپاتے ہیں یا چھوٹا دکھاتے ہیں۔
انہوں نے حالیہ ہفتوں میں پیشرفت اور ترقی کی چند مثالوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ایرانی سائنسدانوں نے لیوکیمیا کے علاج کے لیے ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے، تیل اور گیس نکالنے کے آلات میں سے ایک کو مقامی طور پر تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کی ہے، صوبہ سیستان و پلوچستان کے ایک حصے میں ریلوے لائن کا افتتاح جو شمال-جنوب کی ریلوے لائن کا ایک اہم حصہ ہے، کئی فیکٹریوں کا کھلنا، پہلی آف شور ریفائنری کا افتتاح، 6 برقی پاور پلانٹس کا فعال ہوجانا، دنیا کی سب سے بڑی دوربینوں میں سے ایک کا افتتاح، سیٹلائٹ لے جانے والے راکٹ کا کامیاب تجربہ اور ایک جدید میزائل کی رونمائی ملک کی ترقی کی مثالیں ہیں وہ بھی ایسے وقت میں کہ جب دشمن اس تحریک کو کسی نہ کسی رکاوٹ کے ساتھ روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دشمن کی سازشوں کے ان ایام میں ایرانی جوان زندہ اور متحرک ہیں مزید کہا: ایران دوستی کا ایک بنیادی معیار امید بڑھانا ہے لہذا مایوسی اور تعطل کا احساس پیدا کرنے والے ایران مخالف ہیں اور وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ ایران کے حامی ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی: ایران کے دشمنوں کو قومی مفادات کے دفاع کی آڑ میں مایوسی پیدا کرنے نہ دیں۔ ادیبوں، شاعروں، سائنسدانوں، علماء اور تمام بااثر لوگوں کو امید پیدا افزائی کرنی چاہیے اور معاشرے میں امید اور ترقی کے موارد اور علامات کو ظاہر کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں حالیہ فسادات کے مرکزی کرداروں کا اصل ہدف قوم کو سڑکوں پر لانا قرار دیا اور فرمایا: اب جب کہ وہ عوام کو سڑکوں میں نہیں لا سکے، اب وہ اپنی سازشیں جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ وہ حکام کو تھکا سکیں، یقیناً وہ غلط ہیں کیونکہ یہ سازشیں لوگوں کو خود ان سے تھکا دینے کا باعث بنتی ہیں، اور وہ ان سے مزید نفرت کرتے ہیں۔
اس تناظر میں انہوں نے مزید کہا: یہ واقعات، جرائم اور تباہکاری عوام اور کاروبار کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں لیکن ان سازشوں کے منظر عام پر اور پس پردہ لوگ اس سے کہیں زیادہ پست ہیں کہ وہ نظام کو نقصان پہنچانے کے قابل ہوسکیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: بلاشبہ فسادات کی بساط لپٹ جائے گی اور ایرانی قوم مزید طاقت اور نئے جذبے کے ساتھ ملک کی ترقی کے میدان میں آگے بڑھے گی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے خطرات سے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت کو با ایمان قوم کی فطرت کا حصہ سمجھا اور احزاب کی جنگ اور دفاع مقدس جیسی تاریخی مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: احزاب کی جنگ میں جب تمام مشرکین کے قبائل میدان میں آگئے، نہ صرف مومنین کے دل نہیں کانپے بلکہ خدا کے وعدے کو یاد کرکے ان کے ایمان میں اضافہ ہوا اور انہوں نے اس خطرے کو موقع میں بدل دیا، جس طرح ہماری قوم نے بھی دفاع مقدس اور احزاب کی جنگ کا سامنا کرتے ہوئے، جس میں پوری دنیا نے جارح کی ہمہ گیر حمایت کی، خطرے کو موقع میں بدل دیا اور پوری دنیا کو دکھا دیا کہ وہ ناکام نہیں ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: ایرانی عوام کی مقدس دفاع میں مواقع پیدا کرنے کی تاریخ نے انہیں باور کرایا ہے کہ جب بھی دشمن فوجی طاقت استعمال کرنے کا سوچتے ہیں وہ متوجہ ہوجاتے ہیں کہ ایرانی قوم ناقابل تسخیر ہے جیسا کہ اس قوم نے بارہا امریکیوں اور اپنے مخالفین سے کہا ہے ، "تمہارا آنا اپنی ذمہ داری پر ہے، لیکن لیکن جانا ایسا نہیں ہے" اور خلاف ورزی کی صورت میں تمہیں تباہ و برباد کردیا جائے گا۔
انہوں نے 25 آبان 1361ء کی داستان اور بہادر اصفہانی جوانوں کا محاذوں پر جانے کو خطرات سے مواقع پیدا کرنے کی ایک اور مثال قرار دیا اور کہا: حالیہ ہنگاموں میں قوم نے اس سے ایک موقع پیدا کیا۔ 13 نومبر کے عظیم مارچ میں، جو کہ امریکہ کے خلاف نعروں کے ساتھ پچھلے تمام سالوں سے مختلف تھے، اپنی حقیقت اور سمت کو ظاہر کیا ۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حالیہ فسادات کے شہداء کی تدفین کو جس میں سیکورٹی فورسز، بسیج اور پولیس کے شہداء شامل تھے، قوم کے مواقع پیدا کرنے کی ایک اور مثال قرار دیا اور فرمایا: ایک غیر معروف نوجوان روح اللہ عجمیان شہید ہو جاتا ہے لیکن دشمن کی چاہت کے برخلاف لوگوں کا ایک بہت بڑا مجمع جنازے پر آ جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ تم نے ہمارے جوان کو شہید کر دیا لیکن ہم سب اس نوجوان کے پیچھے کھڑے ہیں۔
انہوں نے فسادات سے پیدا ہونے والے ایک اور موقع ان فسادات کے مرکزی کردار کا حقیقی چہرے کا عیاں ہونا ذکر کیا جو بظاہر ایرانی قوم کے حق میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور مزید کہا: ایرانی قوم کی تمام خواہشات اور مقدسات سے دشمنی یعنی اسلام سے دشمنی، قرآن کو جلانا، مساجد کو جلانا، ایران کے ساتھ دشمنی اور پرچم جلانے اور قومی ترانے کی بے حرمتی نے پس پردہ عوامل کے چہرے عیاں کر دیئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: وہ ایرانی قوم کے حق میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جب کہ ایرانی قوم ایک "مسلم قوم" اور "قرآن اور امام حسینؑ کی قوم" ہے۔ کیا امام حسین ع، اربعین اور اس کے ملین مارچ کی توہین کرنے والے ایرانی قوم کے حامی ہیں؟
فسادات سے متعلق عناصر سے نمٹنے کی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مرکزی کرداروں، دھوکہ کھانے والوں، مجرموں اور پیسے لینے والے آلہ کاروں میں تفریق کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا: یہ سب لوگ یکساں نہیں ہیں۔ وہ شخص جس نے دشمن کی چاہت سے بے خبر ہوکر اسکا ساتھ دیا ہو، یعنی اسے دھوکہ دیا گیا ہو، لیکن اس نے کوئی جرم نہیں کیا، خواہ وہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹ ہو یا کوئی اور، اسے تنبیہ، نصیحت اور رہنمائی سے بیدار کیا جانا چاہیے، اور اس سے پوچھ کر کہ اس کا یہ اقدام ملک کی ترقی کا باعث بنے گا یا برعکس؟ اس کو اس طرح سوچنے اور ہوشیار ہونے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ دشمن کی آواز کے ساتھ آواز نہ ملائے اور امام خمینی رح کے الفاظ میں، سب افراد جو بھی آواز اٹھانا چاہتے ہیں، امریکہ کے خلاف آواز اٹھائیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے حالیہ جرائم کے مرتکب افراد کی سزا کو بھی مختلف قرار دیا اور تاکید کی: جرائم، قتل، تباہکاری کے عناصر یا تاجروں اور لوگوں کی دکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگانے کی دھمکی دینے والے اور پروپیگنڈے کے ذریعے ان کاموں پر مجبور کرنے والے ہر ایک کو ایک کو اس کے گناہ کے مناسب سزا ملنی چاہیے۔
اس تناظر میں انہوں نے مزید کہا: یقیناً سزا عدلیہ کے ذریعے دی جانی چاہیے جو مضبوط، شفاف اور جذبے سے بھر پور ہو اور کسی کو بھی اپنی من مانی کرنے اور اپنی مرضی سے سزا دینے کا حق نہیں ہے۔
انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام کے رسول اکرم ص کیلئے اس فرمان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ وہ ایک ایسے طبیب تھے جو درد اور دوا دونوں رکھتے تھے، سزا اور نصیحت کے درست استعمال پر تاکید کی اور مزید کہا: اس گھڑی تک خدا کا شکر ہے کہ دشمن شکست کھا چکا ہے، لیکن دشمن کے پاس ہر روز نئی چالیں اور سازشیں ہیں، آج کی ناکامی کے بعد یہ مختلف طبقوں جیسے مزدوروں اور خواتین کے پیچھے بھی جاسکتا ہے، اگرچہ ہماری معزز خواتین اور مزدور بدخواہوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور ان کے دھوکے میں آنے سے کہیں زیادہ باشرف ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران مخالف میڈیا میں "جعلی لشکر سازی" اور "جھوٹ کی بڑے پیمانے پر پیداوار" کے استعمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جس کا مقصد بے خبر اور سادہ عوام کو متاثر کرنا ہے، فرمایا: اصل حقیقت، انقلاب کے دفاع کیلئے مختلف شعبوں میں عوام کی موجودگی اور بدخواہوں کے منہ پر انکا طمانچہ ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں اقتصادی مسائل کو حقیقت قرار دیا اور مزید کہا: متعدد سالوں کو اقتصادی نعروں کے ساتھ نام دینا اور ان مسائل کے حل کے لیے حکام پر زور دینا اقتصادی مسئلہ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کیا گیا لیکن نوے کی دہائی اچھی دہائی نہیں تھی اور اگر حکام ان تاکیدات پر عمل کرتے اور ضروری اقدامات کرتے تو ملک اور عوام کے حالات مختلف ہوتے۔ البتہ موجودہ مشکلات میں پابندیاں بھی موثر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے حکام کی سنجیدہ اور بعض صورتوں میں موثر کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اداروں کی اضافی کوششیں اور عوام و حکام کا باہمی تعاون، یکجہتی اور ہم آہنگی موجودہ مسائل کے حل کی بنیاد ہوگی اور انشاء اللہ اس میدان میں بھی دشمن پر کاری ضرب لگے گی۔
رہبر معظم انقلاب نے اپنی تقریر کے آغاز میں اصفہان کے عوام کو حقیقی معنوں میں لائق تحسین قرار دیا اور مزید فرمایا: اصفہان مکمل ایرانی اور اسلامی تشخص اور علم، ایمان، فن اور جہاد کا زندہ شہر ہے۔
انہوں نے صوبہ اصفہان کو ایک عالم پرور قرار دیا اور اس علاقے کے بہت سے علماء کی تعریف کی اور کہا: اصفہان اہل بیت ع پر ایمان اور محبت کا شہر اور ایرانی ہنر و فنون کے قیمتی اور منفرد ورثے کا حامل شہر ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اصفہان کے عوام کی گہری انقلابی شناخت کے مظاہر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اصفہان پہلا شہر تھا جس میں ظالم حکومت کے دور میں فوجی حکومت قائم ہوئی۔
انہوں نے امام حسین علیہ السلام لشکر اور نجف لشکر کی عظیم شجاعتوں کو صوبہ اصفہان کے دو جنگی لشکروں کے طور پر بیان کرتے ہوئے مزید کہا: تقریباً 24 ہزار شہداء، دسیوں ہزار جنگ کے زخمی فوجی، ہزاروں آزاد ہونے والوں اور ان قابل فخر خاندانوں کے وجود جنھوں 2 سے لیکر 7 شہداء اسلام، انقلاب اور ایران کیلئے پیش کیے ہیں اس صوبے کے انقلابی اور جہادی تشخص کی عظمت کی دستاویز اور علامت ہیں، اور ان عظیم الشان کارناموں کی حفاظت ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 25 آبان 1361 کو اصفہان میں تقریباً 360 شہداء کے جنازوں کی تدفین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اتنی بڑی تعداد میں جوان ہوں آلود جنازے ایک شہر کو درد و غم سے مفلوج کر سکتے تھے لیکن اصفہان کے عوام نے دوہرے جذبے اور حوصلہ کے ساتھ اسی دن مزید نوجوان محاذ پر بھیجے اور امدادی سامان کو جنگی علاقوں میں بھیجا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فتنہ کے خلاف مزاحمت کو اصفہان کے عوام کی نمایاں خصوصیات میں شمار کیا اور فرمایا: ان چار دہائیوں میں جب بھی ضرورت پڑی اصفہان کے عوام اپنے سینوں کو ڈھال بنا کر اسلام اور انقلاب کے دفاع میں میدان میں اترے ہیں۔
انہوں نے اصفہان کے عوام کی انقلابی اور دینی خصوصیات کے پابند رہتے ہوئے، شکایت کا ذکر کیا اور کہا: اصفہان کے پانی کا مسئلہ اہم ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے اچھے منصوبے کے حامل سرکاری حکام کو دن رات کام کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے دیگر شہروں کے عوام کی قربانیوں اور جہاد کے ساتھ ساتھ اصفہان کے عوام کی کوششوں کو دفاع مقدس میں ایران کی مکمل اور شاندار فتح کا سبب قرار دیا اور فرمایا: جوان، اس انوکھے امتحان کے حقائق نہیں جانتے کہ کیسے ایرانی قوم پوری دنیا کے سامنے بغیر کسی حمایت کے اور نیٹو، وارسا، امریکہ، سابق سوویت یونین اور یورپ کی صدام کو امداد کے باوجود اس کے سامنے کھڑی ہوئی اور فتحیاب ہوئی۔
اس ملاقات کے آغاز میں ولی فقیہ کے نمائندے اور اصفہان کے امام جمعہ نے اصفہان کے عوام کو انقلاب اور سماجی خدمات کے لیے قربانیوں کے میدانوں کا علمبردار قرار دیا اور کہا: اسلامی جمہوریہ نے جواباً انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بھی وسیع خدمات فراہم کی ہیں جیسے کہ سڑکوں کی تعمیر اور صوبے کے شہروں اور دیہاتوں کو پانی، بجلی اور گیس کے نیٹ ورک سے جوڑنا، یقیناً اصفہان میں پانی کا مسئلہ، خاص طور پر زرعی شعبے میں، ابھی تک حل نہیں ہوا ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس نئی حکومت کی کوششیں کے ذریعے حل ہو جائے گا۔