8 آبان 1401ء کو شہدائے قم کی یادگاری تقریب کے منتظمین سے ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیانات آج (جمعرات) صبح قم میں اس اجلاس کے دوران نشر ہوئے۔
اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے شہداء کی یاد کو زندہ رکھنے اور ان کے پیغام کو سننے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے قم کو "قیام و اقامہ" کا شہر قرار دیا اور فرمایا: قم نے خود قیام کیا اور پورے ایران کو بھی قیام کرنے کا عزم دیا، جو حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک، حوزہ علمیہ اور وہاں کے نیک لوگوں کی برکات میں سے ایک ہے جنھون نے جدوجہد آزادی میں بہت سے شہداء پیش کیے، یقیناً مطہری، بہشتی اور باہنر جیسے شہداء جو قم میں پرورش پائے تھے اور ایران کے تمام شہداء کو قم کے شہداء میں سے شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ قم ہی تھا جس نے عظیم امام خمینی رح کی پکار پر تحریک شروع کی۔
انہوں نے انقلاب کی فتح اور دفاع مقدس اور پے درپے امتحانات میں آج تک اہل قم کے شاندار کردار کا ذکر کرتے ہوئے فن کی زبان سے شہداء کی نمایاں خصوصیات کے اظہار پر تاکید کی اور کہا:
انقلاب سے پہلے اور اسکے بعد ہر ایک اہم واقعہ ایک ستارے اور درخشاں نقطے کی مانند ہے اور شاہ چراغ کا حالیہ واقعہ ان ستاروں میں سے ایک ہے جس نے اگرچہ کچھ لوگوں کو غمزدہ کیا اور سب کے دلوں کو غم سے بھر دیا لیکن یہ واقعہ ملکی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور قوم کی زندہ دلی کی نشانی ہے، اور باعث فخر اور سربلندی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شہید اور شہادت کو قومی، مذہبی، انسانی اور اخلاقی اقدار کے مجموعہ کا حامل قرار دیا اور مزید فرمایا: شہید "سچے ایمان"، "عمل صالح" اور "خدا کی راہ میں جہاد" کا مجسم نمونہ ہے اور قومی تشخص کے ارتقاء کا باعث ہے۔ جیسا کہ آج شہیدوں اور ان کے والدین اور ماؤں کی قربانیوں نے ایرانی قوم کو عظیم بنایا دیا ہے۔
انہوں نے شہادت کو قربانی اور جرأت کا مظہر بھی قرار دیا اور مزید کہا: دفاع مقدس کے شہید نے اپنی جان دی تاکہ خبیث اور ظالم دشمن تہران تک پہنچنے اور قوم کیا تحقیر کرنے کا اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے اور شہدائے امن و آمان بھی لوگوں کی حفاظت اور آسایش کے لیے اپنی جان قربان کرتے ہیں کہ یہ قربانیاں شہید اور شہادت میں پوشیدہ تمام اخلاقی تعلیمات کا پیکر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے شہادت کو خدا کے ساتھ لین دین اور قومی مفادات کا محافظ قرار دیا اور فرمایا: شہادت قومی یکجہتی کا ذریعہ ہے اور اس تسبیح کے دھاگے کی مانند ہے جو ملک میں مختلف نسلوں اور زبانوں کے گروہوں کو باہم جوڑتا ہے۔ اور ہر شہر میں برجستہ شہداء کے نام موجود ہیں جو اپنے ہموطنوں کے ساتھ ایک صف اور ایک ہدف کیلئے کھڑے ہوکر اسلام کی عزت، اسلامی جمہوریہ کی عظمت اور ایران کی مضبوطی کے لیے شہید ہوئے ہیں۔
انہوں نے دفاع مقدس کی تفصیلات، شہداء اور ان کے والدین اور ماؤں کے حالات زندگی بیان کرنے کو ضروری قرار دیا اور کہا: اس کام کے لیے ہنر کی زبان اور فن پاروں جیسے فلمیں اور سیریل، دستاویزی فلمیں اور شاعری کی ضرورت ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں اس امید کا اظہار کیا کہ اسلام، انقلاب اور ملت کے لیے نیک جزبات رکھنے والے تمام افراد اپنی تمام تر قوت اور صلاحیت کو بچوں اور نئی نسلوں اور وطن عزیز ایران کے لیے استعمال کریں گے تاکہ شہداء کی یاد اور پیغام کو زندہ رکھا جا سکے اور آگے منتقل کیا جاسکے۔