رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح (بدھ) 13 آبان یعنی عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کے موقع پر، سینکڑوں طلباء کے ساتھ جوش و خروش سے بھرپور نشست میں، 13 آبان کے دن کو امریکہ کی شرارتوں اور اس کے قابل تسخیر ہونے کی علامت قرار دیا۔ انھوں نے امریکیوں کی جانب سے ایرانی قوم کے تئیں ہمدردی کے اظہار کے بے شرمانہ اور منافقانہ جھوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ چند ہفتوں کی مرکب جنگ میں امریکہ، صیہونی حکومت، یورپ کی بعض مکار طاقتوں اور بعض گروہوں نے ایرانی قوم پر حملہ کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کیے لیکن قوم نے بدخواہوں کے منہ پر طمانچہ مارا اور وہ ناکام رہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 13 آبان کو ایک تاریخی اور عبرت آموز دن قرار دیا اور فرمایا: امریکی اور امریکی رجحان اس اہم دن اور اس کے یکجان اور متحد کرنے والے اجتماعات سے غصیلے اور گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ یہ دن امریکہ کی خباثتوں کی علامت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسکے کمزور اور شکست پذیر ہونے کے امکان کا مجسم ثبوت ہے۔
13 آبان کے تاریخی واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے 13 آبان 1343 ایرانی سال کو امام خمینی رح کی انکشافات سے بھرپور تقریر اور اس کے بعد انکی جلاوطنی کی طرف اشارہ کیا اور مزید کہا: امام خمینی سے رح ایران میں مقیم کئی دسیوں ہزار امریکیوں کو قانون سے مستثنیٰ قرار پانے کے قانون، جس کو پارلیمنٹ نے اس روز محمد رضا پہلوی کے حکم پر منظور کر لیا تھا، برداشت نہ ہوا اور اس کی وجہ سے انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے 13 آبان 1357 کو تہران یونیورسٹی کے سامنے متعدد طلباء کے قتل عام اور 13 آبان 1358 کو امریکی سفارت خانے پر طلباء کے حملے کی طرف بھی اشارہ کیا اور فرمایا: اس حملے میں امریکی حکومت کی حکومت میں مداخلت اور ایرانی وسائل کی لوٹ مار، ظلم اور اسلامی انقلاب کے خلاف ان کی طرح طرح کی سازشوں کی بہت سی دستاویزات حاصل کی گئیں، جو بدقسمتی سے نصابی کتب میں ان سے متعلق موضوعات کو شامل کرنے پر تاکید کرنے کے باوجود اب تک شامل نہیں ہو سکے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکیوں کی جانب سے جاسوسی کے اڈے (امریکی سفارت) پر حملہ کر کے ایرانی قوم اور امریکہ کے درمیان باہمی چپقلش شروع کرنے کے دعوے کو ایک بڑا جھوٹ قرار دیا اور مزید فرمایا: یہ چپقلش 28 مرداد 1332 کو شروع ہوئی جب امریکہ نے برطانیہ کی مدد سے ایک شرمناک بغاوت کے ذریعے مصدق کی قومی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
انہوں نے ڈاکٹر مصدق کو امریکہ پر بھروسہ کرنے والا اور اس کے حوالے سے مثبت سوچ رکھنے والا شخص قرار دیا اور کہا: وہ نہ حجۃ الاسلام تھا اور نہ ہی اس نے اسلامیت کا دعویٰ کیا تھا، اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے کہا کہ ایران کا تیل ایرانی قوم کے ہاتھ میں ہونا چاہیے برطانیہ کے ہاتھ میں نہیں۔ امریکی اپنے مفادات کی وجہ سے اس شخص کو بھی برداشت نہ کرسکے، انہوں نے ایسا نہیں کیا اور مصدق کی امریکی مدد کی توقع کے برعکس اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور چند غداروں اور غنڈوں کی مدد سے اس کا تختہ الٹ دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی قوم کی حمایت کے بارے میں ان دنوں امریکی سیاستدانوں کے بیانات کو بے شرمی اور منافقت کی انتہا قرار دیا اور ان سے ایک سوال کے ذریعے خطاب کیا: کیا ان 4 دہائیوں میں ایرانی قوم کے خلاف کوئی ایسی سازش ہے جس کی تم میں صلاحیت تھی لیکن نہیں کی ہو؟ اگر آپ نے براہ راست فوجی جنگ نہیں شروع کی تو یا تو آپ نہیں کر سکے یا آپ ایرانی نوجوانوں سے ڈرتے ہیں۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکہ کے جرائم اور سازشوں کا جائزہ لیتے ہوئے رہبر انقلاب نے انقلاب کے ابتدائی ایام میں علیحدگی پسند گروہوں کی امریکی حمایت، نوژہ ہمدان بیس کی بغاوت، منافقین کی دہشت گردی کی اندھی حمایت جس کی وجہ سے ملک کے کونے کونے میں ہزاروں افراد شہید ہوئے، مسلط کردہ جنگ میں سفاک صدام کی ہمہ گیر حمایت، خلیج فارس میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو میزائیل سے گرانا اور تقریباً 300 افراد کی شہادت، بے شرمی دکھاتے ہوئے اس مسافر طیارے کو نشانہ بنانے والے بحریہ کے کمانڈر جنرل کو تمغہ دینا، انقلاب کی کامیابی کے پہلے سال سے ہی ایرانی قوم کے خلاف پابندیاں، حالیہ برسوں میں تاریخ کی سخت ترین پابندیوں کے اطلاق اور ایران میں افراتفری اور فتنہ پروری کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: 2009 میں جب کہ اوباما نے اس سے قبل ہمیں دوستی کا خط لکھا تھا، امریکیوں نے کھلم کھلا فتنہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا، تاکہ وہ اس طرح اسلامی جمہوریہ کو ناکام کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کے جنرل اور قومی و خطے کے ہیرو حاج قاسم سلیمانی کی شہادت اور اس جرم پر فخر کرنے کو امریکہ کی دیگر سازشوں اور شرارتوں میں شمار کیا اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم نے ہمارے ایٹمی سائنسدانوں کے قاتلوں یعنی صیہونیوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور ایرانی قوم کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کو امریکہ اور دوسرے ممالک میں قید کر کے آپ نے ایرانی قوم کو اپنے اثاثوں کو اپنی مشکلات کم کرنے کے لیے استعمال کرنے سے محروم کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: "ایران مخالف اکثر واقعات میں آپ کے ہاتھ معلوم ہوتے ہیں، اس وقت آپ پوری ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایرانی قوم کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں؟" یقیناً تمہاری آنکھے کھولنے کیکئے ایرانی قوم نے ان میں سے بہت سی دشمنیوں کو بے اثر کر دیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: بلاشبہ ہم بعض واقعات کو کبھی نہیں بھولے ہیں اور نہ بھولیں گے اور ہم نے سلیمانی کی شہادت کے بارے میں جو کہا اس پر قائم ہیں اور وقت آنے پر اس پر عمل کیا جائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج کے امریکہ کو کل کے امریکہ اور 28 مرداد والے امریکہ اور صدام کی حمایت کرنے والے امریکہ کے مترادف قرار دیا اور فرمایا: یقیناً ماضی کے مقابلے میں ان کی دشمنی کے طریقہ کار میں فرق آیا ہے اور یہ زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں لیکن ہمیں اپنے نوجوانوں اور کارفرما افراد پر بھروسہ ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ ان پیچیدہ حربوں پر قابو پانے کے لیے مکمل طور پر کامیاب ہونگے اور چوکنا رہینگے۔
انہوں نے کل کے امریکہ اور آج کے امریکہ کے درمیان ایک اور فرق کو امریکہ کی زوال پذیری کے بارے میں دنیا کے بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں کا اتفاق قرار دیا اور مزید کہا: اس واضح زوال کے آثار امریکہ کے اقتصادی میدان میں، بے شمار اخلاقی و معاشی مسائل میں اور اندرونی اختلافات و خونی تقسیم میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے زوال کی ایک اور نشانی کو بین الاقوامی امور میں امریکہ کے غلط حساب و کتاب قرار دیا اور فرمایا: اس غلط حساب کتاب کی ایک مثال طالبان کو نابود کرنے کے لیے 20 سال قبل افغانستان پر امریکی حملہ ہے، جس میں بہت سے جرائم اور قتل و غارت گری ہوئی، لیکن 20 کے بعد اسی غلط تجزیہ کی وجہ سے وہ افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور ملک کو طالبان کے حوالے کر دیا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عراق پر حملے اور مطلوبہ اہداف کے حصول میں ناکامی کو امریکیوں کی حساب کتاب کی غلطی کی ایک اور مثال قرار دیا اور فرمایا: امریکیوں نے شروع سے ہی امریکی افراد یا اپنے پٹھو افراد کی تقرری کی کوشش کی اور عراق کے موجودہ حالات اور عراقی سیاست دانوں کا انتخابات کے ذریعے آگے آنا، وہ کبھی بھی ایسا نہیں چاہتے تھے، لیکن وہ یہاں بھی ناکام رہے۔
انہوں نے شام اور لبنان میں امریکہ کی ناکامی بالخصوص گیس لائنوں کے تعین کے حالیہ معاملے میں ناکامی کو حسابی غلطیوں کی وجہ سے ناکامی کی دیگر مثالوں کے طور پر ذکر کیا اور کہا: امریکہ کے زوال کی ایک اور علامت لوگوں کا موجودہ صدر اور سابقہ صدر جیسے لوگوں کو ووٹ دینا ہے۔ پچھلے ادوار میں ٹرمپ جیسا صدر منتخب ہوا تھا جسے ہر کوئی پاگل سمجھتا تھا اور موجودہ دور میں ایسا صدر منتخب ہوا ہے جس کی حالت سب کو معلوم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان واقعات کو ایک تہذیب کے زوال کا سبب قرار دیا اور اس بات پر تاکید کی کہ بہت سی مغربی طاقتیں اس معاملے میں امریکہ سے ملتی جلتی ہیں اور فرمایا: اخلاقی زوال و گراوٹ اور جنایت اس سے بڑھ کر کہ مغرب والے اپنے میڈیا میں تباہکاری و جلاو گھیراو سکھائیں اور کاک ٹیل بم اور ہینڈ گرنیڈ بنانا سکھائیں؟
آیت اللہ خامنہ ای نے ملک میں گزشتہ چند ہفتوں کے فسادات میں امریکہ کے واضح کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرمایا: وزارت انٹیلی جنس اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے انٹیلی جنس ادارے کے مشترکہ بیانیہ میں اہم معلومات اور انکشافات شامل ہیں اور وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دشمنوں نے تہران اور بڑے اور چھوٹے شہروں کے لیے منصوبہ بندی کی تھی۔
اس نے سڑکوں پر بعض جوانوں اور نوجوانوں کی موجودگی کو معاملے کی ظاہری صورت سے تعبیر کیا اور کہا: یہ ہمارے اپنے بچے ہیں اور ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ وہ کچھ لاپرواہی یا جوش و جذبات میں سڑکوں پر آئے تھے، لیکن اس معاملے کے مرکزی کردار وہ ہیں ہیں، جو سازش اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس معاملے میں داخل ہوئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف شعبوں کے عہدیداروں بالخصوص سیاسی اور اقتصادی عہدیداروں اور عوام بالخصوص نوجوانوں کو مرکزی کراداروں اور ان کے منصوبوں اور سازشوں پر خصوصی توجہ دینے اور محتاط رہنے کی تاکید کی اور فرمایا: یقیناً انٹیلی جنس ایجنسیاں اس معاملے پر توجہ دے رہی ہیں اور چوکس ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ وہ ایرانی قوم کے افکار کو برطانوی اور امریکی رہنماؤں کی رائے کے مطابق بنانے کے لیے کچھ کر سکیں اور قوم کو اپنے ساتھ کر لیں لیکن ایرانی قوم نے واقعی ان کے منہ پر طمانچہ مارا اور اسکے بعد بھی مارے گی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اشارہ کیا: کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو سازش اور منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں آئے اور غیر ملکی تنظیموں سے جڑے ہوئے تھے اور انھوں جرائم کا ارتکاب کیا، یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے جس پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
انہوں نے شاہ چراغ حملے اور لوگوں اور بچوں کے قتل عام کو بہت بڑا جرم قرار دیا اور کہا: اس واقعہ میں شہید ہونے والے سکول کے بچوں نے کیا گناہ کیا تھا؟ اس بچے نے کیا گناہ کیا جس نے اس حادثے میں اپنے ماں باپ اور بھائی کو کھو دیا اور اتنا بڑا دکھ سہا؟ اس عزیز حزب اللہی نوجوان اور پرہیزگار طالب علم ارمان نے کیا گناہ کیا تھا جسے تہران میں تشدد کرکے شہید کیا گیا اور اس کی لاش سڑک پر چھوڑ دی گئی؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے کون لوگ ہیں اور انہیں کہاں سے حکم ملتا ہے؟ یقیناً یہ ہمارے بچے اور نوجوان نہیں ہیں، ان جرائم کے مرتکب افراد کی شناخت ہونی چاہیے اور جس کا بھی ان جرائم میں ملوث ہونا ثابت ہو گا اسے بلا شبہ سزا دی جائے گی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ان جرائم کے حوالے سے انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان دعویداروں نے شیراز کے واقعے کی مذمت کیوں نہیں کی اور کیوں انٹرنیٹ پر اپنے پلیٹ فارمز پر ایک جھوٹے اور بناوٹی واقعے کو ہزاروں بار دہراتے ہیں، لیکن "آرشام" کے نام پر پابندی لگا دیتے ہیں؟ کیا یہ دعویدار واقعی انسانی حقوق کے طرفدار ہیں؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نوجوانوں اور جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ماضی کے نوجوانوں اور جوانوں کے برعکس آج کے نوجوان اور نوجوان فہیم، عقلمند، ذہین اور فکر و تحلیل رکھنے والے ہیں اور یہ سب اسلامی انقلاب کی برکت سے ہوا ہے، کیونکہ انقلاب سے پہلے نوجوان بیہودہ اور فضول مسائل میں اس قدر مصروف تھا کہ اس کیلئے ملک کے اہم مسائل پر توجہ دینا ممکن نہیں تھا۔
انہوں نے تاکید کی: دشمن بھی اس حقیقت سے واقف ہے، یعنی آج کے نوجوانوں اور جوانوں کے فعال ذہن اور ان کی تجزیہ و تحلیل کرنے کی صلاحیت، اور وہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر جھوٹے مواد کی ایک بڑی مقدار کو تیار کرنے اور دہرانے سے اس کا مقابلہ کرتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کے فعال ذہنوں کے لیے تیار کیے جانے والے جھوٹے، بہتان پر مبنی اور منحرف مواد کی کثرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تشریحی جہاد پر بار بار تاکید کی وجہ یہی ہے اور اس سے پہلے کہ دشمن جھوٹا اور منحرف مواد مواد تخلیق کرے اندرون میں حقیقی اور صحیح مواد تیار کیا جانا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: میں میڈیا اور مواصلات کے حکام سے کہتا ہوں کہ وہ مواد کی تیاری اور تشریحی جہاد کے میدان میں ذمہ داری محسوس کریں اور اس کی منصوبہ بندی کریں اور یہ سمجھیں کہ دشمن بعض الفاظ اور ناموں کے بارے میں حساس کیوں ہے اور کیوں انہیں روکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو ایرانی نوجوانوں کے ذہنوں پر بڑے پیمانے پر اور تواتر کے ساتھ جھوٹ کے ساتھ بمباری کا ذمہ دار محسوس کرنے کو کہا اور فرمایا: دشمن کے اس پروگرام کے ذمہ دار محسوس کریں اور سچ کو جھوٹ سے الگ کرنے کی کوشش کریں۔
انہوں نے مزید کہا: احتیاط کریں اور ان لوگوں کی رہنمائی کریں جو دشمن نہیں ہیں، لیکن غفلت یا غلط فہمی اور میڈیا میں جھوٹی خبریں سننے کی وجہ سے، بغیر لڑائی کے، اور پیغامات اور دلائل لکھ کر اور بھیج کر دشمن سے اتفاق کرتے ہیں۔
انہوں نے گزشتہ چند ہفتوں کے واقعات کو صرف سڑکوں پر ہونے والے فسادات نہیں بلکہ ایک مشترکہ جنگ قرار دیا اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ دشمن امریکہ، صیہونی حکومت، کچھ غاصب اور شیطانی یورپی طاقتیں اور کچھ گروہ تمام تر سازشوں کے ساتھ میدان میں آگئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور انٹیلی جنس آلات کا استعمال کرتے ہوئے، اور ورچوئل اسپیس کی صلاحیت، اور ایران اور کچھ دوسرے ممالک میں ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: بلاشبہ قوم نے بدخواہوں کے منہ پر طمانچہ مارا اور انہیں ناکام بنا دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عالمی نظام میں تبدیلی کے آثار اور دنیا میں ایک نئے نظام کے غالب آنے کے عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نوجوانوں کو مستقبل کے نئے عالمی نظام میں ایران اور ایرانیوں کے کردار اور مقام کو پہچاننے کی نصیحت کی اور فرمایا: نئی ترتیب کی حدود و قیود اور اس کی شکل قطعی طور پر معلوم نہیں ہے، لیکن اس کی بنیادی لکیریں کھینچی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے نئے نئی عالمی صف بندی کی پہلی بنیادی لائن کو "امریکہ کی تنہائی" قرار دیا اور مزید کہا: ماضی کے برعکس، جب امریکی خود کو دنیا کی واحد غالب طاقت سمجھتے تھے، نئی ترتیب میں، امریکہ کے پاس کوئی اہم مقام نہیں ہوگا اور وہ اکیلا رہ جائے گا لہذا دنیا کی مختلف جگہوں سے خود کو سمیٹنے پر مجبور ہوگا۔
انہوں نے طلباء کے امریکہ مردہ باد کے نعرے کے جواب میں کہا: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نعرہ مت لگائیں کیونکہ اس سے امریکیوں کی دشمنی کو بڑھکاوا ملے گا جبکہ امریکیوں نے 28 مرداد 1332 کو ایرانی قوم کے ساتھ دشمنی شروع کی تھی اور اس وقت ایران میں کوئی بھی امریکہ مردہ باد نہیں کہتا تھا، یقیناً اس واقعے کے بعد اسی سال 16 آذر کو تہران یونیورسٹی میں طلباء نے امریکہ مردہ باد کہا اور یہ نعرہ 16 آذر کی یاد تازہ کرتا ہے۔
نئے عالمی نظام کی دوسری اور تیسری بنیادی سطریں جن کا قائد انقلاب نے ذکر کیا وہ "مغرب سے ایشیا میں سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سائنسی طاقت کی منتقلی" اور "مقاومت کی منطق اور اسکے محاذ کی توسیع" تھیں۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کو تسلط پسند طاقتوں کے ظلم کے خلاف مقاومت کی فکر کا موجد اور اس کے محاذ کے پھیلاو کا محور قرار دیا اور کہا: پہلا شخص جس نے "نہ مشرق اور نہ مغرب" کہا وہ ہمارے عظیم امام خمینی رح تھے اور یہ جذبہ اور اس کی روح آج اس قدر پروان چڑھ چکی ہے کہ ہمارے علاقے میں بہت سے لوگ مزاحمت کی منطق پر یقین رکھتے ہوئے اور اس پر عمل کرتے ہوئے اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں، جیسا کہ حالیہ نتیجہ اور فائدہ جو لبنانیوں کو گیس لائنوں کے معاملے میں حزب اللہ کی برکت سے حاصل ہوا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس سوال کو پیش کرتے ہوئے کہ نئی دنیا میں ایران کیا مقام رکھتا ہے اور کس جگہ پر ہے؟ نوجوانوں کو اس سوال کے بارے میں سوچنے اور نئی دنیا کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کی دعوت دی اور کہا: ہمارے ایران کو "ذہین اور باصلاحیت افرادی قوت"، "متنوع اور وافر قدرتی وسائل"، "حساس جغرافیائی محل وقوع" اور سب سے بڑھ کر "حکومت اور تہذیب کی اعلیٰ منطق" جیسی شاندار خصوصیات کے حامل ہونے کی وجہ سے نئی ترتیب میں نمایاں مقام حاصل ہو سکتا ہے۔
رہبر انقلاب نے ایران کی منفرد جغرافیائی حیثیت سے استفادہ کرنے اور اسے ایک بہت ہی ترقی یافتہ اور اچھی گزرگاہ میں تبدیل ہونے کو ریلوے لائنوں کی توسیع پر منحصر قرار دیا اور مزید فرمایا: اس میدان میں بارہا تاکید کے باوجود مختلف حکومتوں میں، سوائے عظیم امام خمینی رح کی رحلت کے بعد کچھ عرصے میں کہ جس میں کچھ کام کیا گیا، کوتاہی برتی گئی۔ یقیناً اس حکومت والے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ کا نمایاں پہلو اور اس کی حکومتی اور تہذیبی منطق کو علم الہی کے ساتھ عوام کی موجودگی اور ووٹوں کے ساتھ امتزاج قرار دیا اور کہا: یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن یقینا اسلامی جمہوریہ اس میں کامیاب رہی۔ کچھ خامیاں ہیں جن سے ہم واقف ہیں، لیکن یہ اور منطق دنیا میں نئی ہے۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ 60 اور 70 کی دہائی کے نوجوانوں کی ذہانت اور قابلیت کا ثمر سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہا: مستقبل میں ہر فرد 80 کی دہائی اور 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والے آپ نوجوانوں کی برکات کو دیکھے گا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سینکڑوں طلباء کے پرجوش اجتماع میں اپنے خطاب کے آخری حصے میں ایک اہم نکتہ بیان کیا: تمام حکام اور عوام الناس کو اپنے ہر اقدام، ہر عمل اور ہر بیان کے تئیں بیرون ملک جانے والے پیغام کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: قوم، جوانوں اور ملک کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ اپنی "فکرِ مزاحمت اور ظالموں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے عزم" کو پوری دنیا اور خاص طور پر دشمنوں تک پہنچا دیں۔
انہوں نے مزید کہا: "اس شعبے میں حکومتوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اور ماضی کی ناکامیوں کو نہیں دہرایا جانا چاہیے، اور تعلیم، سائنس، صحت، رہنمائی، اقتصادی کی وزارتوں اور وزارت سائنس سمیت مختلف اداروں کو اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی سے ادا کرنی چاہئیں۔ "
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: آئیے یقین رکھیں کہ اگر ہر شخص جہاں کہیں بھی کام یا ذمہ داری میں مصروف ہو اپنے فرائض کو جان لے اور ان کو پورا کرے تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور ملک و قوم اپنی آخری آرزو تک پہنچ جائیں گے۔