ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

سینکڑوں ممتاز اور اعلیٰ علمی صلاحیتوں کے حامل طلباء کے ساتھ ملاقات

40 سالہ ترقی مغرب پسندانہ تجزیہ کے بالمقابل انقلابی تجزیے کی درستگی ثابت کرتی ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح (بدھ) سینکڑوں ممتاز اور اعلیٰ علمی صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کے ساتھ ایک ملاقات میں ممتاز علمی طبقے کو گزشتہ چار دہائیوں میں ایران کی عزت و آبرو کا سبب قرار دیا اور فرمایا: ہر شخص بالخصوص حکام اور بااثر افراد کو ممتاز علمی طبقے کو ملک اہم ترین اثاثوں میں سے ایک سمجھنا چاہیے، ان کی پشت پناہی کرنی چاہیے اور ممتاز علمی افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی انفرادی صلاحیتوں اور استعداد کو ملک کی ترقی کے سرمائے میں تبدیل کریں۔

انہوں نے ملک کے روشن مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی: گزشتہ تینتالیس سالوں میں انہوں نے متعدد بار اسلامی جمہوریہ کے اختتام کی بات کی ہے لیکن انقلاب کی تحریک کی استقامت اور تسلسل سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تجزیہ غلط اور غیر حقیقی ہے۔ .

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کورونا کی مشکل کم ہونے کے بعد ممتاز طبقے کے ساتھ ہمیشہ خوش گوار اور پُر امید ملاقات کے دوبارہ انعقاد پر خدائے کریم کا شکر ادا کیا اور فرمایا: ممتاز علمی طبقے نے جو یہاں موضوعات پیش کیے وہ بہت اچھے تھے اور انکی تجاویز درست اور زیادہ تر عملی تھیں۔ اور بہت سی تجاویز، انتظامی مسائل کو ظاہر کر رہی ہیں کیونکہ حل موجود ہیں۔

انہوں نے اجلاس میں موجود وزراء کو کابینہ میں ممتاز افراد کی تجاویز کی منتقلی اور ان پر عمل کرنے کا کام سونپا اور مزید کہا: ہمیں اس فیصلہ کن سرمایہ کی دیکھ بھال اور ممتاز افراد کے ساتھ ایک عظیم قومی خزانے کے طور پر شفقت سے پیش آتے ہوئے اس میں اضافہ کرنے کے لیے سخت محنت کرنی چاہیے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے ممتاز علمی طبقے اور یونیورسٹی کو ملک کی ترقی کا اہم ستون قرار دیا اور فرمایا: یونیورسٹی جتنی زیادہ تعطل کا شکار ہو اور سائنسی سرگرمیوں کا عمل جتنا ناقص اور نامکمل رہے، یہ دشمن کے لیے مفید ہے، اسی لیے انہوں نے کل اور آج نہیں بلکہ مختلف اوقات میں یونیورسٹیوں کو تعطل کا شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی کو استکبار کے غلبہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک قرار دیا اور مزید فرمایا: دنیا کی طاقتور طاقتیں دوسروں پر غلبہ پانے اور قوموں کو پس پشت ڈالنے کے لیے ہتھیاروں، فریب حتیٰ کہ علم کا بھی استعمال کرتی ہیں، لہٰذا ایسی یونیورسٹی جو ملک میں علمی ترقی کا باعث ہو وہ دراص استکبار کے غلبہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فطری صلاحیتوں اور ذہانت کی فراوانی، محنت، کوشش و استقامت، ہدایت الہی اور توفیق کو ایک ذہین انسان کو ایک اعلیٰ، ممتاز اور منتخب شخص میں تبدیل کرنے کا بنیادی عنصر قرار دیا اور فرمایا: یقیناً مناسب ماحو فراہم کرنا بھی مطلوبہ نتائج کے حصول میں اہم عنصر ہے۔

انہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ساتھ ہی ممتاز استعداد کے حامل افراد کی تربیت کے آغاز کو ایک واقعی اور ناقابل تردید حقیقت قرار دیا اور مزید کہا: انقلاب کے بعد ملک کے تمام حصوں میں یونیورسٹیوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ طلباء کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ اور پروفیسرز اور متعدد تحقیقی اداروں اور تھنک ٹینکس کی تشکیل سے سائنس اور ممتاز علمی حلقے کے رشد و نمو کے لیے میدان فراہم کیا گیا ہے اور اسلامی جمہوریہ کا ہدف جو کہ یونیورسٹی کو وسعت دینا اور علمی و سائنسی صلاحیت کو بہتر بنانا ہے، خدا  کے فضل سے حاصل ہو ہوچکا ہے۔

 

آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: بعض لوگ ملک کی عظیم صلاحیتوں کا بھی انکار کرتے ہیں اور ایٹمی صنعت جیسے سرمایہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور غلط بیانی کرتے ہیں کہ آج دنیا توانائی اور ایٹمی صنعت سے منہ موڑ چکی ہے۔

انہوں نے تاکید کی: اگر ہم نے جوہری صنعت کا آغاز اس وقت نہ کیا ہوتا جس وقت ہم نے شروع کیا تھا تو ہم 10 سال بعد اس مسئلے میں داخل ہوتے اور 30 ​​سال بعد کسی نتیجے پر پہنچتے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ہمارے ماہرین تعلیم نے ملک کو مغربیوں کا محتاج نہیں رہنے دیا، فرمایا: بغیر کسی مبالغہ کے، ہمارے علمی حلقے نے ایران کی ساکھ بنانے میں بنیادی حصہ ڈالا ہے اور جس میدان میں ہمارے سائنسدانوں نے قدم رکھا اور توجہ مرکوز کی، دنیا کے سائنسی معاشرے نے ان کی تعریف کی، لہذا دوسروں کو بھی آپ کی قدر کرنی چاہیے اور آپ کو بھی۔ میں بھی آپ کی بہت قدردانی کرتا ہوں ۔

ملک کے علمی طبقے اور سائنسدانوں کے اعزازات کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے سٹیم سیلز اور زندہ جانوروں کی کلوننگ، بائیو کیمسٹری میں پیشرفت، مصنوعی سیاروں کو خلا میں بھیجنے اور منتقل کرنے، جوہری صنعت میں بنیادی پیشرفت، پیچیدہ ویکسین کی تیاری، کورونا ویکسین اور میزائل اور ڈرون کی صنعتوں میں حیرت انگیز پیش رفت کی نشاندہی کی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ذہین افراد جنہوں نے اپنی صلاحیتوں اور علم کو ایٹمی ہتھیاروں، کیمیائی ہتھیاروں یا جاسوسی آلات بنانے میں استعمال کیا ہے وہ ممتاز افراد نہیں ہیں، فرمایا: ممتاز فرد وہ باصلاحیت اور محنتی شخص ہے جس نے الہی ہدایت سے استفادہ کیا ہو۔

انہوں نے مزید "ممتاز افراد سے توقعات" کا مسئلہ اٹھایا اور کہا: ایک ممتاز فرد سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی صلاحیت کو قومی صلاحیت میں بدل دے اور اپنی صلاحیتوں کو ملکی مسائل کے حل کے لیے استعمال کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے "دشمن سے غفلت" کو ممتاز علمی طبقے کو درپیش خطرات میں سے ایک خطرہ قرار دیا اور فرمایا: قابل وثوق معلومات کی بنیاد پر جاسوسی ادارے علمی مراکز کی آڑ میں ممتاز افراد کو دھوکہ دینے اور اپنی طرف متوجہ کرنے یا  انکے ذہن خراب کرنے کیلئے اپنی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اور اس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بہت شائستہ اور ذہین ہیں تاکہ وہ اپنے منصوبے کو آگے بڑھا سکیں۔

انہوں نے ممتاز افراد کے ذمہ دار اداروں سے توقعات کے بارے میں مزید کہا: ایک جملے میں، اداروں سے اصل توقع یہ ہے کہ وہ ممتاز علمی طبقے کی معقول، دانشمندانہ انداز میں اور مختلف جوانب پر غور کرتے ہوئے پست پناہی کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: پشت پناہی کرنے والی چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ممتاز افراد جنہوں نے اندرون ملک تعلیم حاصل کی ہے یا بیرون ملک سے آئے ہیں، اپنے علم کے مطابق یہاں ملازمت حاصل کر سکیں، اسی طرح دنیا کے سائنسی مراکز کے ساتھ تحقیق اور رابطے کا امکان بھی برقرار رہے اور یہ توقع کچھ زیادہ نہیں ہے.

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض ممتاز افراد کے حوالے سے گلہ کرتے ہوئے جو ایران میں پروان چڑھتے ہیں لیکن اس ترقی کا ثمر بیرون ملک لے جاتے ہیں اور بعض اوقات مہرہ اور آلہ کار میں تبدیل ہو کر دشمن کو اپنی صلاحیتیں فراہم کرتے ہیں، فرمایا: ممتاز طبقے کو اپنے عوام کے ساتھ ہونا چاہیے۔ بلاشبہ بیرون ملک جانے اور اعلیٰ تعلیمی یونیورسٹیوں میں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے ملک واپس آنا چاہیے اور اپنی صلاحیتوں کو ملک کی ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی: ہمارے ممتاز علمی طبقے کو اپنے ضمیر کے سامنے اور خدا کی بارگاہ میں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔

انہوں نے ممتاز طبقے سے دوسری توقع کو "غفلت کا شکار نہ ہونا" قرار دیا اور کہا: ممتاز طبقے کو اپنی صلاحیتوں سے غفلت نہیں برتنی چاہیے تاکہ ان کی ترقی اور پیشرفت رک نہ جائے اور وہ نقصان دہ سرگرمیوں میں ​​میں گرفتار نہ ہو جائیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ممتاز افراد کی جانب سے ملک کی عظیم اور وسیع صلاحیتوں سے چشم پوشی نہ کرنے کو  ایک اور ضرورت قرار دیا اور فرمایا: بدقسمتی سے اکثر ممتاز افراد ملک کی وسیع صلاحیتوں سے ناواقف ہیں اور سائنسی شعبہ میں صدر مملکت کے وزیر کی اہم ذمے داری ممتاز نوجوانوں کو ملک کی صلاحیتوں اور ملک میں جاری عظیم کاموں سے آشنا کرنا ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بیرون ملک سے واپس آنے والے بعض ممتاز افراد کی دوبارہ واپسی کا ذکر کرتے ہوئے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں کسی موانع تراشنے یا نامناسب سلوک کے ذریعے سے ممتاز افراد کو یونیورسٹی اور ملک میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے۔ ہم اس سلسلے میں جو کچھ کر سکتے ہیں خرچ کریں گے یہ کوئی لاگت نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قابل پروفیسروں اور ممتاز افراد کے تشخیصی اشاریہ میں اصلاح کی ضرورت پر تاکید کی اور فرمایا: اب پروفیسروں اور ممتاز کے تشخیصی اشاریہ مضامین کی تعداد ہے جبکہ مسائل کے حل کو قابلیت کا اشاریہ سمجھنا چاہیے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں مسائل کے درست تجزیہ، بصیرت کے افق کو درست کرنے اور اس کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے حوالے سے ایک بنیادی مسئلہ پر خطاب کیا۔

انہوں نے انقلاب کی فتح کے آغاز سے لے کر آج تک مغرب والوں کے مسلسل پروپیگنڈے کا ذکر کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ زوال پذیر ہے کہا: انہوں نے اس دعوے کے لیے ایک وقت مقرر کیا اور ہر بار کہا کہ ایک مہینہ اور ایک سال اور یا پھر مزید پانچ سال، جمہوریہ کا کام تمام ہو جائے گا اور کچھ لوگ ان دعووں کو اندرونِ ملک غفلت یا بددیانتی سے بڑھاوا دے رہے تھے۔

امام خمینی رح کے زمانہ میں ایک اخبار کی سرخی "نظام بکھر رہا ہے" اور امام کے دوٹوک جواب کا حوالہ دیتے ہوئے کہ "تم خود بکھر رہے ہو جبکہ نظام مضبوطی سے کھڑا ہے" مزید فرمایا: امام خمینی رح کی وفات کے بعد ایرانی سال 69 میں کچھ لوگوں نے جن میں کچھ مناسب اور تجربہ کار لوگ بھی تھے، ایک اعلان میں کہا کہ "نظام تباہی کی دہلیز پر ہے"۔

آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی: ہم نے ہمت نہیں ہاری اور ہم کھڑے ہیں اور انشاء اللہ ہم ڈٹے رہیں گے۔

انہوں نے اس میدان میں دو تجزیاتی گروہوں کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ایک گروہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ عالمگیر عالمی اصولوں اور ان اصولوں سے پیدا ہونے والی طاقتوں کا سامنے کام کرنا اور کھڑے ہونا، جیسا کہ امریکہ، بیکار ہے اور تباہی کا سبب بنتا ہے، یہ گروہ ان افراد کے بارے می جو دوسرا تجزیہ کرتے ہیں تصور کرتے ہیں کہ وہ حقیقت سے دور اور دنیا کے بارے میں خیالاتی نگاہ رکھتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: لیکن دوسرا اور حقیقت پسندانہ تجزیہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ وہ حقائق کے مجموعہ کو نہ صرف اچھے حقائق بلکہ برے حقائق کو بھی دیکھتا ہے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: ہم نے کبھی بھی کمزور نکات کا انکار نہیں کیا اور اس سلسلے میں ہم نے رمضان المبارک کے اجلاسوں اور نجی ملاقاتوں میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم ان میں پیچھے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب نے مزید فرمایا: لیکن قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے اس تیز رفتار حرکت کو جاری رکھا ہے جو اس نے قافلے کی انتہا سے شروع کی تھی اور آج وہ قافلے کے آغاز تک پہنچ چکا ہے۔

انہوں نے علم اور مختلف انتظامات میں ملک کی شاندار پیشرفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کمزوریاں ہیں اور بعض حکام اور حکومتوں سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن عمومی تحریک ترقی کی طرف ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: دیکھیں کہ اسلامی جمہوریہ چالیس سال پہلے یا بیس سال پہلے کہاں تھا اور آج کہاں ہے، اس موازنہ سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کون سا تجزیہ حقیقت پسندانہ ہے، مغرب پسندانہ تجزیہ یا انقلابی تجزیہ؟

انہوں نے حوصلہ مند نوجوانوں اور ممتاز افراد کو انقلاب کی مضبوط اور آگے بڑھنے کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا اور مزید کہا: انقلاب کی 4 دہائیوں اور بہت سی دشمنیوں اور منفی پروپیگنڈے کے بعد بھی ممتاز افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ جو اس راستے پر یقین رکھتے ہیں اور سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں اور یہ کوششیں دنیا کے متعلق انقلابی تجزیے کی درستگی اور پیشرفت کے صحیح راستے کے تعین کی بہترین وجہ ہیں۔

اس نشست کے آغاز میں 7 ممتاز نوجوانوں نے اپنے خیالات اور آراء کا اظہار کیا۔ خواتین و حضرات:

- امیر محمد زادہ لاجوردی - شریف یونیورسٹی میں سافٹ ویئر کے شعبے میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کے طالب علم

- حمیدہ مجید - شہید احمدی روشن نیشنل ایلیٹ فاؤنڈیشن کی منتخب ایلیٹ اور کان کنی کے شعبے میں سرگرم کارکن

- جواد شمس الدینی - طب کے شعبے میں داخلے کے امتحان میں 65 واں رینک اور نیشنل ایلیٹ فاؤنڈیشن کے رکن

- محمد تمنائی - ٹرانسپورٹیشن انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی، تربیت مدرس یونیورسٹی

- زہرہ احتشام - شہید احمدی روشن پروجیکٹ کی منتخب ایلیٹ اور شاندار صلاحیتوں کی حامل طالبہ

- سید محمد نوید قریشی - ایرو اسپیس انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی، تہران یونیورسٹی

- وحید زرغامی - نینو ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی، شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی

انہوں نے ان نکات کا اظہار کیا:

- ماحولیاتی خدشات کا احترام کرتے ہوئے نجی شعبے کی شراکت سے کانوں کی تلاش اور اسکے استعمال کے بنیادی ڈھانچے میں ترقی کی ضرورت۔

- پیداواری شعبے کو درکار بھاری مشینری، جس کی ملک میں پیداوار نہیں ہوتی، کے درآمدی ٹیرف کو کم کرنا ۔

- تعلیمی برابری کو فروغ دینے اور محروم علاقوں میں تعلیمی معاونت کے لیے خصوصی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت

ضروری انفراسٹرکچر کی فراہمی کے بغیر  طلباء کو میڈیکل شعبہ کی طرف راغب کرنے میں اچانک شدت پر تنقید

 

- نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کو ارتقاء دینے اور ایران کو خطے کے نقل و حمل کا مرکز بنانے کے لیے ایک اسٹریٹجک نقل و حمل نیٹ ورک کی تشکیل کی تجویز۔

- اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور ملکی مسائل کے حل کے درمیان باہمی ربط قائم کرنے کی ضرورت

- خلائی پروگراموں میں ارتقاء کی ضرورت، خاص طور پر قومی سطح پر مالی معاونت اور بین الاقوامی رابطوں میں پھیلاؤ کی ضرورت۔

- مانگ رکھنے والے شعبوں اور بازار میں علم محور کمپنیوں کی تقویت اور منافع بخش عوامی سرمایہ کاری کے لیے کشش پیدا کرنے کے لیے پالیسیاں بنانے کی ضرورت۔

اس ملاقات میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے قائم مقام وزیر ڈاکٹر دھقانی فیروزآبادی نے ملک میں سائنسی تحریک کو ماحول سازی اور گذشتہ سالوں میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سنجیدہ کوششوں کا نتیجہ قرار دیا۔ اور ویلیو چین کو مضبوط بنانے کے لیے علم محور صنعتوں کی ترقی کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا: پیداواری سرعت کے قانون پر مبنی علم محور صنعتوں کا احیاء، علم محور نیٹ ورکس کے ساتھ تعاون، تکنیکی ملکی پیداوار کی حمایت۔ اور غیر ضروری درآمدات کی روک تھام حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

700 /