آیت اللہ خامنہ ای نے آج صبح (بدھ) مصلحت کونسل کی نئی مدت کیلئے متعین چیئرمین اور اراکین سے ملاقات کے دوران کونسل کو ممتاز اور تجربہ کار افراد کی موجودگی اور ملکی مسائل کے بارے میں ایک جامع نظریہ اور اس کے بنیادی فرائض کے لحاظ سے اسلامی جمہوریہ کے لیے ایک بہت ہی اہم عنصر قرار دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے پراگندہ فسادات کو ملت ایران کی عظیم اور اختراعی پیشرفت اور تحریکوں کے مقابلے میں دشمن کا ایک بے ڈھنگا ردعمل اور منصوبہ قرار دیا اور تاکید کی: جب تک ملت ایران اسلامی نظام اور دینی اقدار کے راستے پر گامزن رہے گی اس کے ساتھ یہ دشمنی جاری رہے گی اور اس کے تدارک کا واحد راستہ ڈٹے رہنا ہے اور ملکی حکام کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے مسائل انہیں ملکی اور غیر ملکی اہم ذمہ داریوں اور فرائض سے باز نہ رکھیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کونسل کے سابقہ دور کے اراکین کی کوششوں بالخصوص ساتویں ترقیاتی منصوبے کی کلی پالیسیوں کے بارے میں مفید اجلاسوں کا شکریہ ادا کیا اور مرحوم اعضاء خاص طور پر مرحوم آیت اللہ ہاشمی شاہرودی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: کونسل ممتاز اور تجربہ کار لوگوں کی موجودگی کے لحاظ سے بھی، اور اپنے اہم فرائض کی وجہ سے، بلند اور برتر مقام کی حامل ہے۔
انہوں نے کونسل کی سب سے اہم ذمہ داری کو "مصلحت کی تشخیص" قرار دیا اور کہا: مصلحت کی تشخیص کا مسئلہ نظام کے اولین درجے کے مسائل میں سے ایک ہے اور امام خمینی رح کے نزدیک یہ اس قدر اہم ہے کہ بعض اوقات اس سے غفلت برتا جانا اسلام کی ناکامی کا سبب بنتا ہے۔
رہبر انقلاب نے "مصالحت" کو "شریعت کے حقائق اور حکم" کے برخلاف متعارف کروانا اور تشریح کرنا غلط قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ اور مصلحت کے حصول کے لیے درست تشخیص ضروری ہے، اور مزید کہا: مصلحت کے تعین کرنے میں اس طرح کا طرزعمل اپنانا چاہیے جو مکمل طور پر تسلی بخش ہو۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کونسل میں زیر بحث قوانین کی درستگی کو اس وقت تک مفید قرار دیا جب تک کہ مصلحت کا اقتضا ہو اور کہا: ملک کی کلی پالیسیوں کے معاملے میں بھی کسی کو افراطی اور تفریطی نظریہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ آرمانی مقاصد اور ہر مفید چیز کو ملک کے لیے ایک عمومی پالیسی کے طور پر شامل کرنا غلط ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ تفصیل اور مقداروں کا تعین اور انتظامی اور قانون سازی کی تفصیلات میں داخل ہونا بھی۔
رہبر انقلاب نے کلی پالیسیوں کی صحیح تعریف کو "اہداف کے حصول کے لیے قوانین اور انتظامی امور کے لیے ایک جدت پسند اور راہنمائی کرنے کا فریم ورک" قرار دیا اور مزید فرمایا: کچھ پالیسیاں دائمی ہوتی ہیں، لیکن کچھ مخصوص مدت کے لیے مخصوص ہوتی ہیں اور انھیں اصلاح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.
انہوں نے کلی پالیسیوں کے اچھے نفاذ کی نگرانی کے کام کو ایک حساس مسئلہ قرار دیا اور کہا: بعض اوقات شکایت کی جاتی ہے کہ اس نگرانی کی وجہ سے کام میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، جب کہ قانونی تحفظات اور قواعد و ضوابط کو اس طرح مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ نگرانی کے دوران قانون سازی اور انتظامی ہدایات کے انحراف کو روکنا، معاملات میں رکاوٹ یا تاخیر کا سبب نہ بنیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے حالیہ واقعات اور کچھ پراکندہ فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے مصلحت کونسل کے اراکین کو اصلاحی امور اور دشمن کے منصوبے کو ناکام بنانے میں بااثر افراد کی حیثیت سے ان مسائل پر مناسب توجہ دینے اور ان مسائل کو نظر انداز نہ کرنے کی تلقین کی۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ حالیہ واقعات میں دشمن کا کردار اور ملوث ہونا ہر کسی پر واضح اور عیاں ہے حتیٰ کہ غیر جانبدار غیر ملکی ماہرین کے لیے بھی، انہوں نے مزید کہا: یہ معاملات کوئی اندرونی خود ساختہ مسئلہ نہیں ہیں، یقیناً انہوں نے بعض مسائل کو استعمال کیا ہو گا، لیکن دشمن کی کارروائیاں، جیسا کہ پروپیگنڈہ، فکری طور پر منحرف کرنے کی کوشش، بھڑکانا، حوصلہ افزائی کرنا اور یہاں تک کہ آگ بھڑکانے والے مواد بنانے کے طریقے سکھانے سے اب بالکل واضح اور عیاں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے ان معاملات میں اہم نکتے کو "دشمن کے اقدامات کو جوابی اور رد عمل" قرار دیا اور فرمایا: ایرانی قوم نے بہت کم وقت میں عظیم پیش رفت حاصل کی جو دنیا کی استکباری پالیسیوں کے 180 درجے مخالف تھیں اور وہ ردعمل دکھانے پر مجبور ہوئے۔ لہذا، اس فریم ورک میں منصوبہ بندی کرکے اور پیسہ خرچ کرکے وہ امریکہ، یورپ اور کچھ دیگر مقامات کے سیاستدانوں سمیت لوگوں کو میدان میں لائے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: ان عظیم پیشرفتوں نے یہ ظاہر کیا کہ ایرانی قوم پر عظم، مذہبی اور دینی اقدار اور مسائل کی پابند ہے اور ملک تیزی کے ساتھ اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اربعین کے جلوسوں اور دینی تحریکوں میں لاکھوں جوانوں کی موجودگی کو ایرانی قوم کی تقویٰ، دینی اعتقاد اور عظیم پیشرفت کی مثال قرار دیا اور فرمایا: درحقیقت یہ پیشقدمی ایرانی قوم کی جانب سے تھی۔ دشمن بے ڈھنگے اور احمقانہ ردعمل دکھانے اور فسادات کی منصوبہ بندی کرنے پر مجبور ہوا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سڑکوں پر آنے والوں کی مختلف احکامات پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ان میں سے بعض لوگ یا تو دشمن کے ایجنٹ ہیں، یا اگر ایجنٹ نہیں ہیں تو دشمن کے ہمسو ہیں اور بعض جذباتی لوگ ہیں. دوسری قسم کے افراد کے معاملے میں تربیتی کام کیا جانا چاہیے لیکن پہلی قسم کے حوالے سے عدالتی اور سکیورٹی حکام کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماحول کو حفاظتی نہیں بنانا چاہیے، بالکل ہم بھی متفق ہیں، اور ماحول کو جتنا ممکن ہو سکے حفاظتی نہیں ہونا چاہیے، لیکن تربیتی کام اپنی جگہ، اور عدالتی اور حفاظتی کام بھی اپنی جگہ۔
انہوں نے تاکید کی: جب تک ایرانی قوم اسلام کا جھنڈا تھامے ہوئے ہے اور اسلامی نظام کے ساتھ ہے یہ دشمنیاں مختلف شکلوں میں جاری رہیں گی اور اس کے علاج کا واحد راستہ ڈٹے رہنا ہے، البتہ ایسا نہیں کہ اسلام کی راہ پر چلنے سے ہمارے لئے مسائل ہیں بلکہ وہ لوگ جو اسلام کے راستے پر نہیں ہیں وہ دوسرے طریقوں سے شیاطین سے پریشان ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: شیطانوں کے عزائم اور رکاوٹوں کے سامنے ہمارا کھڑا ہونا ہمیں متوقف نہیں کرے گا اور الٹا یہ ہمارے آگے بڑھنے کی بنیاد بنائے گا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کے حکام کو ایک نصیحت بھی کی اور فرمایا: ہوشیار رہیں کہ ان مسائل سے آپ کی توجہ نہ بٹے اور اہم اور ضروری کاموں سے غافل نہ ہوجائیں۔
انہوں نے مزید کہا: تعمیری اقدام، بڑے انتظامی اقدامات، موثر قانون سازی اور عظیم عدالتی کاموں اور خارجہ پالیسی کے اہم امور کو ان معمولی واقعات سے مشروط نہیں کرنا چاہئے اور خدا کے فضل سے ایسا نہیں ہوگا۔
انہوں نے اپنی تقریر کے آخر میں تاکید کی: ہمیں خدا کے یقینی فتح کے وعدے پر یقین ہے اور خدا کی مدد ضرور ہمارے ساتھ شامل رہے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل تشخیص مصلحت کونسل کے سربراہ آیت اللہ آملی لاریجانی نے کونسل کے اراکین کی سنجیدگی و تسلط اور مصلحت کی تشخیص کے میدان میں اس کے اقدامات، کلی پالیسیاں اور مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ گزشتہ مدت میں سپریم سپروائزری بورڈ کے اقدامات اور نئی مدت میں آئندہ کے منصوبوں کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔