پیغمبر اسلام (ص) اور حضرت امام صادق (ع) کے یوم ولادت کی مناسبت سے آج 17 ربیع الاول کو حکومتی عہدیداروں اور وحدت کانفرنس میں مدعو غیر ملکی مہمانوں کے مجموعے سے ملاقات میں رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دنیا میں طاقت کی نئی صف بندی میں اپنا کردار ادا کرنے اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے کیلئے اتحاد اور ہم آہنگی کو امت اسلامیہ کی سب سے اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے انہوں نے خواص، ممتاز طبقے اور روشن خیال نوجوانوں کے انتہائی اہم کردار پر روشنی ڈالی اور فرمایا: "اسلامی اتحاد" اور نئی دنیا میں بااثر موجودگی ممکن ہے بشرطیکہ عملی کوششیں انجام پائیں اور مشکلات اور دباؤ کے سامنے ڈٹ جائیں، جس کی واضح مثال اسلامی جمہوری نظام جس نے ہمت نہیں ہاری اور طاقتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا اور اب وہ ایسا تناور درخت بن چکا ہے جس کے "اکھاڑے" جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیغمبر اسلام (ص) اور امام صادق (ع) کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کی اور پیغمبر اسلام (ص) کی منفرد شخصیت پر تاکید کرتے ہوئے کہ جس کی اوج آپ ص کا رسالت پر مبعوث ہونا ہے، فرمایا : پیغمبر اسلام کے یوم ولادت کے موقع پر عید کا منایا جانا، امت اسلامیہ کے لیے آنحضرت کو ایک "اسوہ حسنہ" کے طور پر نمونہ عمل اور ان کو اعلی مثال قائم کرنے کا موقع قرار پانا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے جو کہ امت اسلامیہ کے مصائب و مشکلات کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رنج و الم کا باعث اور مسلمانوں کے دشمنوں کے لیے خوشی کا باعث قرار دیتی ہیں، اس بات کی وضاحت اور تجزیہ کیا کہ آج کی دنیا میں امت اسلامیہ کیوں مصائب کا شکار ہے اور مزید فرمایا: عالم اسلام کے مسائل اور مصائب کے بہت سے اسباب ہیں لیکن سب سے اہم وجہ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونا ہے۔
انہوں نے تفرقہ اور جدائی کا فطری نتیجہ "ذلت" اور "عزت سے دوری" قرار دیا اور تاکید کی: عالم اسلام کے خواص اور بااثر افراد کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی عملی راہیں اور بنیادیں پیدا کرنے پر توجہ دیں کیونکہ دشمن، دوسری طرف خطہ اور سرزمین فلسطین میں جعلی صیہونی حکومت کے نام پر ایک سرطانی غدہ بنا کر اور اس میں بدعنوان، خبیث، قاتل اور بے رحم صہیونیوں کو بٹھا کر مسلمان اور اسلامی ممالک میں سب سے بڑا تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کے ساتھ بعض اسلامی ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کو سب سے بڑی خیانت قرار دیا اور فرمایا: بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض اسلامی ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں موجودہ حالات میں اتحاد کا حصول ممکن نہیں ہے مگر عالم اسلام کے دانشور، علماء، مشائخ اور جواص مل کر ماحول کو دشمن کی مرضی کے خلاف تبدیل کرسکتے ہیں کہ اس صورت میں اتحاد کا حصول آسان ہو جائے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے یہ سوال پیش کرتے ہوئے کہ اتحاد سے کیا مراد ہے؟ اشارہ کیا: عالم اسلام میں اتحاد سے مراد امت اسلامیہ کے مفادات کے تحفظ کی غرض سے اتحاد ہے نہ کہ نسلی یا جغرافیائی اتحاد۔
انہوں نے مزید کہا: امت اسلامیہ کے مفادات کا صحیح ادراک اور یہ کہ مسلمانوں کو کس کا دوست یا دشمن ہونا چاہیے اور استکبار کے منصوبوں کے خلاف مشترکہ اقدامات اتحاد کے حصول کے لیے بہت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مشترکہ اقدامات کا اہم اور بنیادی عنصر دنیا میں سیاسی صف بندی کو تبدیل کرنے کے بارے میں مشترکہ فہم تک پہنچنا ہے، فرمایا: دنیا کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے اور یک قطبی نظام اپنے تعطل کی طرف بڑھ رہا ہے اور استکبار کا راج، دنیا میں پہلے سے زیادہ روز بروز اپنا جواز کھو رہا ہے، اس لیے ایک نئی دنیا وجود میں آرہی ہے اور بہت اہم سوال یہ ہے کہ اس نئی دنیا میں عالم اسلام اور امت اسلامیہ کا مقام کہاں ہے؟
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایسی حالت میں امت اسلامیہ ایک اعلیٰ مقام حاصل کر سکتی ہے اور نئی دنیا میں ایک نمونہ عمل اور رہبر بن سکتی ہے بشرطیکہ وہ اتحاد و وحدت تک پہنچ سکے اور خود کو امریکہ، صیہونیوں اور بڑی کمپنیوں کی تفرقہ انگیزی اور فتنہ سے آزاد کر سکے۔
ایک اور سوال "کیا مسلمانوں کو یکجا کرنا اور بدلتی ہوئی دنیا میں بلند مقام حاصل کرنا ممکن ہے؟" پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ہاں اسلامی اقوام کے درمیان اتحاد ممکن ہے لیکن اس کے لیے کوشش اور عمل کی ضرورت ہے اور دباؤ اور یہ مشکلات کے سامنے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اس تناظر میں سب سے بڑی امید عالم اسلام کے خواص اور روشن خیال نوجوانوں سے اور رائے عامہ کی رہنمائی میں ان کے کردار میں پنہاں ہے، فرمایا: اثر انداز ہونے کے امکانات کی ایک مثال اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو کہ امام خمینی (رح) کی رہنمائی سے ایک چھوٹا سا پودا تھا جو اس وقت کی دو سپر پاورز کے سامنے کھڑا تھا اور وہ پودا اب تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے جسے اکھاڑنے کا سوچنا بھی اب ناممکن ہے۔
انہوں نے اشارہ کیا: ہم کھڑے ہوئے اور آگے بڑھے، یقیناً کھڑے ہونے میں بھی دیگر کاموں کی طرح مشکلات ہوتی ہیں، لیکن جو لوگ ہتھیار ڈال دیتے ہیں انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ کھڑے رہنے سے ترقی حاصل ہوتی ہے اور ہتھیار ڈالنا تنزلی کا باعث بنتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مذہبی اختلافات کو تصادم میں بدلنے سے روکنا اسلامی اتحاد کے حصول کا ضروری تقاضہ ہے، کہا: امریکی اور برطانوی سیاست دان جو اسلام کی اصل کے ہی خلاف ہیں، اپنے حلقوں میں شیعہ سنی بحث میں داخل ہو چکے ہیں، جو کہ بہت خطرناک ہے۔
"انگریزی شیعہ" اور "امریکی سنی" کے بارے میں اپنی ماضی کی تشریح اور کچھ لوگوں کی طرف سے اس میں تحریف کرنے کی کوششوں کو ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا: "انگریزی شیعہ اور ایک امریکی سنی کا مطلب ہے وہ شخص جو کسی بھی عہدے، مقام اور ملک میں داعش کی طرح تنازعات، تقسیم اور تکفیر ایجاد کرتے ہوئے دشمن کی خدمت کررہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عراق، شام میں داعش کے جرائم اور بالخصوص افغانستان میں طالب علموں کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا: شیعہ اور سنی دونوں اطراف میں انتہاپسند موجود ہیں جن کا شیعہ اور سنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ انتہا پسندی کسی مذہب کے اصولوں پر الزام لگانے کی بنیاد کے طور پر استعمال نہیں کیے جانے چاہئے اور جو لوگ ایک مذہب کی حمایت کے نام پر دوسرے فریق کے جذبات کو ہوا دیتے ہیں ان کے ساتھ سنجیدگی سے نمٹا جانا چاہئے۔
انہوں نے فلسطین اور عالم اسلام کے دیگر حصوں میں بڑھتی ہوئی مشکلات، دباؤ اور قتل و غارت گری کو "امت اسلامیہ کے انتشار" کا نتیجہ قرار دیا اور مسلمانوں کے بہت سے مشترکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران نے ایسا ہی کیا ہے۔ اسلامی اتحاد کے عملی حصول کے لیے اپنی طاقت کا ہر ممکن استعمال کیا۔اس کی واضح مثال فلسطین کے سنی بھائیوں کی ہمہ جہت حمایت ہے جو اس کے بعد بھی پوری قوت کے ساتھ جاری رہے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی دنیا میں قائم ہونے والے مزاحمتی محاذ کو اسلامی جمہوریہ کی حمایت حاصل ہے اور فرمایا: ہم خدا کے فضل و کرم پر یقین رکھتے ہیں اور اسلامی اتحاد کے عظیم خواب کی عملی تعبیر کی امید رکھتے ہیں۔
اس اجلاس کے آغاز میں صدر مملکت نے اپنے خطاب میں عظیم پیغمبر اسلام ص کو انسانیت کے لیے عدل، عقلیت، روحانیت اور اخلاقیات کا سب سے اعلٰی ترین دعوت کنندہ قرار دیا اور تحریک نبوت کے دشمنوں کی جانب سے آپ ص کی شخصیت اور دعوت کو مسخ کرنے کی کوششوں کو ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: پیغمبر اسلام کے پیروکاروں کے خلاف بھی ثقافتی اور اقتصادی دہشت گردی کی صورت میں یہی کوششیں جاری ہیں، لیکن جس طرح وہ اس دن تحریک نبوی کی عالمگیریت کو نہیں روک سکے، اسی طرح آج وہ پیغمبر اسلام کے راستے اور اقدار پر چلنے والی قوم کو نہیں روک سکیں گے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین رئیسی نے ایرانی قوم سے دشمن کی نفرت کی وجہ اس کی حیرت انگیز اور ہمہ گیر پیش رفت کو قرار دیا اور کہا: نیویارک کے حالیہ دورے میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے نجی ملاقات میں معافی مانگی اور کہا کہ بہت کوششوں کے باوجود بھی ایران کے خلاف کورونا وائرس سے متعلق پابندیاں نہیں اٹھا سکا جس پر میں نے جواب دیا کہ ایرانی قوم نے ہمیشہ خطرات اور پابندیوں سے مواقع پیدا کیے ہیں اور کورونا کے معاملے میں ہم نے چھ ویکسین کی تیاری کے مراکز کو فعال کرکے ہم اس کے برآمد کنندگان میں شامل ہوگئے ہیں اور آج ہم اس بیماری سے نمٹنے میں دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہیں۔
صدر مملکت نے سائنسی پیشرفت، اقتصادی ترقی، افراط زر میں کمی اور ایران کے تجارتی اور بین الاقوامی تعاون میں اضافے کے اعدادوشمار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مخلصانہ تعاون بالخصوص اقتصادی اصلاحات کے نفاذ میں عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا: ایران کے حالیہ ہنگامہ آرائی میں بھی دشمن ملک کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے درپے ہیں لیکن عوام نے ماضی کی طرح صبر و استقامت سے انہیں ناکام بنایا۔
حجۃ الاسلام والمسلمین رئیسی نے حقائق کی پردہ پوشی اور جدید جاہلیت کے پھیلاؤ کو عالم اسلام کے بدخواہوں کی موجودہ چالوں میں شمار کیا اور کہا: اس چال کا مقابلہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسلامی اتحاد کے محور پر بیداری پھیلائی جائے اور تفرقہ سے بچیں۔