رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح دفاع مقدس میں شامل فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مسلط کردہ جنگ کو اسلامی جمہوریہ اور ایران کی عوام کے خلاف سامراجی نظام کی تزویراتی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا اور مزید کہا: عالمی طاقتوں کی طاقت کے دیوانے اور جاہ طلب صدام کی ہمہ گیر حمایت کے باوجود ، تین عناصر "انقلاب کی ابھرتی طاقت، امام کی انتہائی موثر قیادت اور ایرانی قوم کی قابل فخر اور نمایاں خصوصیات" کی روشنی میں جنگ ایک یقینی اور عظیم خطرے سے ایک عظیم موقع میں بدل گئی۔ نوجوان اور جوان نسل میں تاریخ کے اس پرجوش اور ولولہ انگیز باب کی صحیح اور درست ترجمانی انقلاب کی بقا اور کامیابی کی ضمانت دے گی۔
رہبر انقلاب نے دفاع مقدس کو آج اور ملک کے مستقبل کے لیے ایک دلچسپ، بامعنی اور فائدہ مند واقعہ قرار دیا اور مقدس دفاع میں شامل سربازوں سے یوں اظہار عقیدت فرمایا: اس وقت سربازون نے دوسروں سے پہلے اس زمانے کی اہم ضرورت کو درک کیا اور میدان جنگ ں میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وہ جنگ، جہاد اور قربانیاں دینے کے لیے دوڑ پڑے، اس لیے ان کی تحسین اور احترام ایک قطعی اور ہمہ گیر فرض ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دفاع مقدس جیسے واقعات کی جہتیں اور حقائق زیادہ سے زیادہ سمجھے جاتے ہیں، فرمایا: انسان کو اس طرح عمل کرنا چاہیے کہ دفاع مقدس کے حقائق سے علم اور آگاہی "ایک شاندار اور بااثر لمحے کے طور پر" مسلسل بڑھتی رہے اور موجودہ نسل کو اس وقت کے حقائق اور سچائیوں سے آگاہ کرنے کے لیے مقدس دفاع کے سربازوں اور ان مسائل کے عہدیداروں سے گہری توقعات وابستہ ہیں۔
انہوں نے مغرب کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کے بارے میں شائع ہونے والی دستاویزات اور مستندات کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا: یہ اعترافات ہمارے اس موقف کی سچائی کو ثابت کرتے ہیں جن کو کبھی صرف دعویٰ تصور کیا جاتا تھا۔
رہبر انقلاب نے ایران پر جنگ مسلط کرنے کو اسلامی انقلاب کی فتح پر عالمی استعمار کا فطری ردعمل قرار دیا اور فرمایا: ایرانی عوام کا انقلاب صرف ایک وابستہ اور کرپٹ نظام کی شکست یا امریکہ اور استکبار پر موقت ضرب نہیں تھی ، بلکہ استعماری نظام کیلئے خطرہ تھا اور مغرب اور مشرق کے مستکبروں نے اس خطرے کی گہرائی کو بھانپتے ہوئے صدام کی حوصلہ افزائی اور اکسانے کے ذریعے ایرانی قوم پر جنگ مسلط کر دی۔
انہوں نے مسلط کردہ جنگ کا مقصد دوسری قوموں تک ایرانی قوم کے پیغام اور نئی تعلیمات جس میں امریکہ سے خوفزدہ نہ ہونا، عالمی جبر و امتیازی سلوک کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا اور مزاحمت کرنا شامل ہے کی منتقلی کو روکنا تھا اور مزید کہا: ایک آزاد اور متاثر کن سیاسی نظام کا ظہور، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جو امریکہ کی امید، بھروسہ اور لالچ کا مرکز سمجھا جاتا تھا امریکہ اور حکمرانوں کے لیے ناقابل برداشت تھا، چنانچہ بغاوت، طبس پر حملے اور نسلی اشتعال انگیزی کی ناکامی کے بعد انہوں نے ایرانی قوم پر ایک بھرپور جنگ مسلط کر دی۔ .
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: یقیناً انقلابیوں کے ذہنوں میں اس ملک گیر حملے کا خدشہ موجود نہیں تھا، لیکن مسلح افواج کے ان عناصر کے لیے جو تجربہ کار تھے اور دنیا کی ممتاز اور آزاد انسانوں کے لیے یہ غیر متوقع نہیں تھا۔
اس تناظر میں رہبر انقلاب نے گنا کے مرحوم صدر احمد سکوتور کے ساتھ ایک نجی ملاقات میں ان کی باتوں کا حوالہ دیا اور فرمایا: جناب سکوتور کا خیال تھا کہ مسلط کردہ جنگ کا ہونا ناگزیر ہے، کیونکہ اگر سامراج انقلاب کو کمزور یا اس پر قابو نہیں پاسکا تو یہ یقیناً اس کیلئے ایک سنگین جنگ کا سبب بنے گا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ان لوگوں کے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے جو غیر ذمہ دارانہ طور پر ایران کو مسلط کردہ جنگ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مقدس دفاع خرمشہر کی آزادی کے بعد ختم ہوجانا چاہیے تھا، فرمایا: جنگ کا خاتمے کے واقعات یعنی ایران کی طرف سے 598 قرارداد کو قبول کرنے کے بعد صدام کا حملہ و پیش قدمی اور اس کے بعد مرصاد حملے نے ظاہر کیا کہ اگر خرمشہر کی آزادی کے دوران دفاع ختم کردیا جاتا جاتا تو صدام یقینی طور پر دوبارہ پیش قدمی کر چکا ہوتا، خاص طور پر چونکہ اس وقت بھی ایران کے بہت سے علاقے جارحوں کے قبضے میں تھے۔
انہوں نے ایران کی تقسیم اور خوزستان کو ملک کے اہم حصہے ہوتے ہوئے الگ کرنا، قوم کو گھٹنے ٹکانے، اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے اور ایرانی قوم کی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لینے کو ایران پر جنگ مسلط کرنے والے کینہ پرور استعمار کے اہم مقاصد قرار دیا اور فرمایا کہ ان واضح حقائق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے آٹھ سالہ جنگ کو ایک عظیم خطرے سے ایک عظیم موقع میں تبدیل کرنے کو دفاع مقدس کی دوسری حقیقت قرار دیا اور فرمایا: انقلاب کا جوش، امام خمینی کی فیصلہ کن قیادت اور ایرانی قوم کی شاندار اور تاریخی خصوصیات" تین اہم عناصر اور عوامل تھے کہ انہوں نے ایک ولولہ انگیز تاریخ رقم کی جس کی اچھی طرح تشریح کی جانی چاہئے، خاص طور پر چونکہ جنگ کے خوفناک خطرے سے پیدا ہونے والے مواقع اب بھی زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں ہیں۔
رہبر انقلاب نے دوسری قوموں کو سبق سکھانے کو عالمی دہشت گردوں کے مسلط کردہ جنگ کے
اہداف میں سے ایک قرار دیا اور مزید کہا: وہ ایرانی قوم کو دبا کر مزاحمت کے دروازے کو مکمل طور پر بند کرنا چاہتے تھے لیکن قوم نے ان سب کو ناکام بنا دیا اور استکباری محاذ کے اہداف اور دشمنوں کی سوچ کے برعکس اس نے خود کو بلند کیا اور اپنے لئے بہت سے مواقع پیدا کئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی کو عوام بالخصوص خوزستان کے عوام اور عرب زبانوں کا کھڑا ہونا اور ملک کو تقسیم کرنے کے دشمنوں کے فتنے سے ان کی لاتعلقی قرار دیا اور فرمایا: مقدس دفاع ایرانی قوم کے مذہبی عقائد اور اس کے اعلیٰ ترین اخلاقی معیار کے ظہور کی بنیاد بن گیا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دفاع مقدس کے دور میں عفو و درگزر، ایثار و قربانی اور دینی اعتقاد کے واقعات بالخصوص جنگجوؤں اور شہداء کے اہل خانہ کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا: دفاع مقدس کے دور میں پورا ملک دفاعی محاذ کی تذویراتی گہرائی میں تبدیل ہوگیا اور شہر اور گاؤں، مسجد اور انجمنیں، مدرسے اور یونیورسٹی، سب مقدس دفاع اور انقلاب کیلئے وقف ہوگئے۔
انہوں نے قوم کے اتحاد اور ہم آہنگی کو مقدس دفاع مقدس کے دور کی دوسری کامیابیوں میں سے ایک قرار دیا اور کہا: انقلاب کے ابتدائی سالوں میں ملک کی اعلیٰ سطحوں پر سیاسی اختلافات اور گروہوں کی تفرقہ انگیز کارروائیوں کی وجہ سے لوگ تقسیم تھے، لیکن مقدس دفاع نے تمام لوگوں کو متحد کر دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کی ایک اور کامیابی کو، جو خطرے کو ایک موقع میں بدلنے کی بنیاد بن گئی، کو ملک کی عسکری طاقت کا مسئلہ قرار دیا اور فرمایا: مسلط کردہ جنگ کے آغاز میں، ملک کے حالات عسکری نقطہ نظر سے اچھا نہیں تھے لیکن دفاع مقدس ایک طرف فوج کی نظام سے وفاداری کا امتحان کا مقام بن گیا اور دوسری طرف سپاہ پاسداران کے ایک روشن سچائی کے طور پر ابھرنے کے لیے زمینہ ساز ثابت ہوا۔
رہبر معظم نے اس بات پر تاکید کی کہ مسلح افواج کی طاقت نے انہیں عوام میں مقبول بنایا اور ملک کے لیے تحفظ کا احساس پیدا کیا، مزید کہا: یقیناً اس نکتے پر فوج اور سپاہ کے معزز کمانڈروں کو غور کرنا چاہیے۔ کہ یہ مقبولیت اور اختیار مسلح افواج کے آگے بڑھنے اور پیشرفت کرنے تک برقرار رہے گا، اسے پہلے کی طرح جاری رہنا چاہیے اور نہیں روکا جانا چاہیے اور نہ ہی پیچھے ہٹنا چاہیے، کیونکہ دشمن کی پیش قدمی کے مقابلے میں کسی بھی طرح کے رکنے کا مطلب ہے پیچھے ہٹنا، اور اس کے مطابق، عسکری اور ریاستی حکام کو مسلح افواج کی حمایت کو اپنے فرائض میں سے ایک سمجھنا چاہیے۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: خدا کے فضل سے آج ملک دفاعی لحاظ سے ڈیٹرنس کے مرحلے پر پہنچ چکا ہے اور بیرونی خطرات سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور دشمن اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض اوقات مقدس دفاع کے معاملے میں انسانی ڈھال سے استفادہ جیسے تاثرات پیش کیے جاتے ہیں جب کہ 8 سالہ جنگ میں تمام حرکات و سکنات اور کارروائیوں کا محور حکمت عملی اور عقلیت تھی، اور مختلف آپریشنز کے طریقے اور اختراعی تدابیر فوجی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جا سکتی ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے دفاع مقدس کی کامیابیوں میں سے ایرانی قوم کے لیے ایک اہم اصول کے ثابت ہوجانا قرار دیا اور تاکید کی: دفاع مقدس کے دور میں یہ ثابت ہوا کہ ملک کی حفاظت اور دشمنوں کے خطرات کے مقابلے کیلئے استقامت ہی واحد راستہ ہے نہ کہ ہتھیار ڈالنا۔
انہوں نے مزید کہا: جنگ کے شروع میں ہی ایسے لوگ موجود تھے جو تسلیم ہوجانے پر یقین رکھتے تھے اور اس مسئلے کو بالواسطہ طور پر اٹھایا کرتے لیکن امام ثابت قدم رہے اور آخر میں ایرانی قوم پر ثابت ہوا کہ فتح، ترقی اور ملک کی حفاظت کو مزاحمت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے.
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی مسائل میں مقاوت کے اصول کے استعمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اول یہ کہ یہ مقاومت سیاسی اور ثقافتی شعبوں میں فعال افراد کے اندر اندرونی حوصلے اور خود اعتمادی کا باعث بنی، دوم اس نے دشمن کو سبق سکھایا کہ اپنے حساب و کتاب میں، ہمیشہ ایران کی اندرونی طاقت کو مدنظر رکھیں، کیونکہ اس جذبے کے ساتھ، ہم دشمن کو بہت سے معاملات میں شکست دینے میں کامیاب ہوئے، جیسے زیادہ سے زیادہ دباؤ والی پالیسی یا نئے مشرق وسطیٰ کا منصوبہ، یا فضائی اور سمندری سرحدوں پر تجاوز کرنا جس میں دشمن کے ڈرون کو گرا کر یا ان کے ایرانی حدود میں داخل ہونے والے بحری جہازوں کو قبضے میں لینا شامل ہیں۔
انہوں نے مقدس دفاع کی صحیح تشریح کی ضرورت پر اپنی بار بار تاکید کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس میدان میں اب تک جو سرگرمیاں انجام دی گئی ہیں وہ اچھی ہیں لیکن یہ سب بنیادی ڈھانچہ ہیں اور کام کے نتائج کو نظر آنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: آپ دفاع مقدس کو بیان کرنے میں اپنے کام کے نتائج سے تب مطمئن ہو سکتے ہیں، جب ہائی اسکول اور یونیورسٹی کے طلباء اس کے مسائل کو اسی نظر سے دیکھ سکیں جس طرح آپ دفاع مقدس کو دیکھتے ہیں اور اسی طرح کی تاثیر حاصل کرسکے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اگر یہ اہم چیز انجام پا جائے تو مستقبل میں مختلف میدانوں میں کامیابی یقینی ہو گی، فرمایا: جوانوں کی موجودگی جو حرم کے دفاع کے لیے میدان میں نکلے اور ان میں سے کچھ شہید ہو گئے، اس صحیح تشریح کا حقیقی اثر تھا کیونکہ ان نوجوانوں نے مقدس دفاع کو نہیں دیکھا تھا۔
رہبر سپہ اسلام نے دفاع مقدس کی آسمانی بلندیوں اور چوٹیوں کو جھٹلانے اور بعض ممکنہ کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی دشمن کی کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ثقافتی و سیاسی کام اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے وہ نوجوانوں کو استکبار کی جھوٹی رونقیں اور رنگینیاں دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے نقائص اور تاریکیوں کو چھپا رہے ہیں۔ دوسری طرف دفاع مقدس کے مضبوط نکات اور کامیابیوں کو چھپا کر لوگوں میں استکبار کی ظاہری طاقت و ہیبت سے خوف کی بنیاد بنتے ہیں جس کا نتیجہ سیاسی میدان میں دشمن سے خوف اور ثقافتی میدان میں دشمن کے سامنے اپنے آپ کو پست تصور کرنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آخر میں دفاع مقدس اور اسلامی انقلاب کی جھوٹی اور تحریف شدہ تشریح کا جواب دینا ضروری قرار دیا اور فرمایا: امریکی اور صیہونی اس میدان میں کتابیں لکھنے اور فلمیں بنانے میں مصروف ہیں، جن کے مقابل میں دانشوروں اور فنکاروں سے استفادہ کرکے مناسب اقدامات اور کوششیں انجام دینی چاہیے۔
اس نشست میں مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے "مقدس دفاع اور مقاومت کے دس لاکھ سینئیر فوجیوں کے اعزاز میں تیسری ملک گیر تقریبات" کے انعقاد کا حوالہ دیتے ہوئے پروگراموں اور سرگرمیوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے دفاع مقدس کی ثقافت اور اقدار کے تحفظ اور فروغ کے میدان میں انجام دئیے گئے اقدامات کو بیان کیا۔
اس تقریب کے آغاز میں، جو 31 صوبوں کے مراکز کے ساتھ ویڈیو لنک سے مربوط تھی، جناب صادق اہنگران نے چند دقائق کے لیے نوحہ خوانی کے فرائض انجام دئیے۔