مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای نے آج صبح (پیر) مسلح افواج کی دفاعی یونیورسٹیوں کے طلباء کی مشترکہ گریجویشن تقریب میں حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اہم نکات بیان کیے اور تاکید کے ساتھ فرمایا: میں صاف کہتا ہوں کہ یہ واقعات امریکہ، صیہونی حکومت اور ان کے پیروکاروں کی سازش ہے۔ ان کا اصل مسئلہ ایک مضبوط اور خود مختار ایران اور ملک کی ترقی کا ہے۔ ایرانی قوم ان واقعات میں کافی مضبوط طور سے سامنے آئی اور مستقبل میں جہاں بھی ضرورت پڑی مکمل بہادری کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے احاطے میں داخل ہوتے ہی گمنام شہداء کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کرتے ہوئے اسلام اور ایران کے دفاع کے بہادروں اور ہیروز کو سلام پیش کیا۔ اس کے بعد کمانڈر انچیف نے احاطے میں موجود منتخب دستوں کا مشاہدہ کیا۔
اس تقریب میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے حالیہ واقعات کے بارے میں بیان کئے گئے اہم نکات میں فرمایا: ان واقعات میں ملک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے، بسیج اور ایرانی قوم پر سب سے زیادہ ظلم ہوا۔ بلاشبہ ایرانی قوم دیگر واقعات کی طرح اس واقعہ میں بھی پوری طرح مضبوط دکھائی دی اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مستقبل میں بھی جہاں بھی دشمن فساد برپا کرنا چاہیں گے، ایران کی بہادر اور وفادار عوام دوسروں سے زیادہ سینہ سپر کرتی نظر آئے گی۔
انہوں نے ملت ایران کو اپنے مولا حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی طرح ایک مظلوم اور ساتھ ہی ساتھ ایک مضبوط قوم قرار دیا اور مزید کہا: اس واقعہ میں ایک نوجوان لڑکی کی موت واقع ہوئی جس سے ہمارے دل رنجیدہ ہوئے لیکن اس واقعے پر ردعمل بغیر تحقیق اور بغیر کسی بررسی کے، بغیر کسی مسلم وجہ کے معلوم ہوئے کچھ لوگوں کا سڑکوں کو غیر محفوظ بنانا، قرآن پاک جلانا، باحجاب خواتین کے سروں سے چادریں کھینچنا، مساجد و حسینیہ اور لوگوں کی گاڑیوں کو آگ لگانا ایک معمولی اور فطری ردعمل نہیں تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ان فسادات کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، فرمایا: اگر یہ نوجوان لڑکی کا مسئلہ نہ بھی ہوتا تو وہ اس سال مہر(چھٹے مہینے) کی پہلی تاریخ کو ملک میں بدامنی پھیلانے اور فسادات برپا کرنے کا کوئی اور بہانہ بناتے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا: میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ فسادات اور بدامنی امریکہ اور غاصب اور جعلی صیہونی حکومت کا منصوبہ تھے اور ان سے تنخواہ لینے والے اور بیرون ملک بعض غدار ایرانیوں نے ان کی مدد کی۔
انہوں نے مزید کہا: بعض لوگ اس حقیقت کے بارے میں حساس ہوجاتے ہیں کہ فلاں فلاں واقعہ دشمن کا منصوبہ اور کام تھا اور وہ امریکی جاسوسی تنظیم اور صیہونیوں کے دفاع کے لیے اپنے سینوں کو ڈھال بناتے ہیں اور ہر قسم کے من گھڑت تجزیے بھی کرتے ہیں تاکہ یہ کہا جاسکے کہ یہ غیر ملکیوں کا کام نہیں تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دنیا میں بہت سے فسادات ہوتے ہیں اور یورپ بالخصوص فرانس اور پیرس میں ہر کچھ عرصے بعد فسادات ہوتے ہیں لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ امریکہ کے صدر یا ایوان امریکہ کے نمائندوں نے فسادیوں کی حمایت کی اور بیان دیا؟ کیا اس طرح کے پیغامات بھیجنے اور کہنے کی کوئی مثال ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں؟ کیا امریکی سرمایہ داری اور اسکے پٹھو یعنی خطے کی کچھ حکومتوں جیسے سعودیوں کے کرائے کے ذرائع ابلاغ کی اس سے پہلے کوئی مثال ہے کہ انھوں نے ان ممالک میں فسادات برپا کرنے والوں کی حمایت کی ہو ؟ اور کیا امریکیوں کی یہ اعلان کرنے کی کوئی مثال موجود ہے کہ ہم فسادیوں کو کچھ انٹرنیٹ ہارڈویئر یا سافٹ ویئر فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ آسانی سے رابطے بحال رکھ سکیں؟
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: لیکن اس طرح کی حمایت ایران میں کئی بار کی جاچکی ہے۔ تو یہ کیسا ہے کہ کچھ لوگوں کو غیر ملکی ہاتھ نظر نہیں آتا اور ایک عاقل انسان کو یہ کیسے محسوس نہیں ہو سکتا کہ ان واقعات کے پیچھے کوئی اور ہاتھ ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دشمن ملک کے شمال مغرب اور جنوب مشرق کے بارے میں اپنے حساب کتاب میں غلطی کررہا ہے کہا: میں بلوچ عوام کے درمیان رہا ہوں اور وہ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ گہری وفاداری رکھتے ہیں۔ کرد عوام بھی سب سے ترقی یافتہ ایرانی اقوام میں سے ہیں اور اپنے وطن، اسلام اور نظام سے دلچسپی رکھتے ہیں، اس لیے ان کا منصوبہ کام نہیں کرے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمنوں کے عزائم اور اقدامات ان کے باطن کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہی دشمن جو سفارتی بیانات میں کہتا ہے کہ ہم ایران پر حملہ کرنے اور نظام کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے، اس کا باطن یہ ہے اور وہ انتشار پیدا کرنے، ملک کی سلامتی کو تباہ کرنے اور ان لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کی سازش کرنا چاہتا ہے جو بھڑکانے سے بھڑک سکیں.
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہے بلکہ ایک مضبوط اور خودمختار ایران کے خلاف بھی ہے، فرمایا: وہ پہلوی دور کے ایران کی تلاش میں ہے جس نے دودھ دینے والی گائے کی طرح ان کے حکم کی تعمیل کی۔
ان کا کہنا تھا: حالیہ واقعات کے پس پردہ عوامل یہ اوباش ہیں، اور مسئلہ ایک نوجوان لڑکی کی موت یا حجاب کرنے یا حجاب نہ کرنے کا نہیں ہے۔ مکمل حجاب نہ کرنے والوں میں سے بہت سے اسلامی جمہوریہ کے پختہ حامیوں میں سے ہیں اور مختلف تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ مسئلہ اور بحث اسلامی ایران کی آزادی اور اس کی مضبوطی اور اقتدار کے مسئلے پر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چند نکات بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا: یہ لوگ جو سڑکوں پر فساد اور پھیلاتے ہیں سب کی سزا ایک جیسی نہیں ہے، بعض نوجوان انٹرنیٹ پر کسی سرگرمی میں بھڑکاوے کی وجہ سے سڑکوں پر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایک انتباہ سے آگاہ اور رہنمائی کی جاسکتی ہے کہ وہ غلطی پر ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ سڑکوں پر آنے والے تمام افراد ایران کے عوام اور وفادار اور غیرت مند جوانوں کے مقابلے میں بہت معدود ہیں اور فرمایا: یقیناً سڑکوں پر آنے والے ان میں سے بعض ایسے شکست خوردہ عناصر کے باقیماندہ ہیں جیسے منافقین، علیحدگی پسند، بادشاہت پسند اور نفرت آمیز ساواکی خاندان۔ عدلیہ کو انکی سزا کا تعین کرنا چاہیے اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور تباہی پھیلانے میں ان کی شراکت کے تناسب سے ان کی سزا متعین کرنی چاہیے۔
ایک اور نکتہ جس کا رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ذکر کیا وہ اس مسئلے کے آغاز میں بعض خواص کے موقف کا تھا۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: شروع میں بعض خواص نے بغیر تحقیق کے اور شاید ہمدردی کے تئیں موقف لیا اور بیانات دئے۔ ان میں سے کچھ نے قانون نافذ کرنے والے ادارے کو مورد الزام ٹھہرایا اور کچھ نے نظام کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اب جب کہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ دشمن کی منصوبہ بندی کے ساتھ ان کی باتوں کے نتیجے میں سڑکوں پر کیا ہوا، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے کام کی تلافی کریں اور واضح طور پر اعلان کریں کہ وہ اس سے کہ جو کچھ ہوا اور غیر ملکی منصوبہ بندی کے خلاف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: جب امریکی سیاسی عنصر ان مسائل کا موازنہ دیوار برلن سے کرتا ہے تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ مسئلہ کیا ہے، اور اگر آپ نہیں سمجھے تھے تو ابھی سمجھ لیں اور واضح موقف اختیار کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض کھلاڑیوں اور شعبہ فن سے متعلق شخصیات کے بیانات کی طرف بھی اشارہ کیا اور فرمایا: میری نظر میں یہ بیانات کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ان کے بارے میں حساس نہیں ہونا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی: ہمارے فنکاروں اور کھلاڑیوں کا طبقہ درست و سالم ہے اور اس میں وفادار اور معزز عناصر کم نہیں ہیں اور چند معدود افراد کے موقف کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
انہوں نے البتہ مزید کہا: یہ فیصلہ کرنا عدلیہ پر منحصر ہے کہ آیا ان کا موقف مجرمانہ ہے یا نہیں، لیکن عمومی طور پر ان لوگوں کے موقف کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، اور فنکار اور کھیلوں کا طبقہ ان باتوں سے آلودہ نہیں ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس گفتگو کے آخر میں راہ حق کے تمام شہداء، پولیس اور مسلح افواج کے شہداء اور ملکی سلامتی کا دفاع کرنے والے شہداء بالخصوص حالیہ شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں ہر سال یونیورسٹی کے کئی ہزار نوجوانوں کی جوش و جذبے کے ساتھ مسلح افواج میں شمولیت کو ملک کیلئے ایک بڑی طاقت، خوشخبری، جدت اور استحکام کے پیغام کا حامل قرار دیا اور فرمایا: ملک کے مختلف سائنسی، اقتصادی، سیاسی اور عسکری میدانوں میں ایرانی نوجوانوں کی موجودگی واقعی امید افزا ہے۔
اس تناظر میں، انہوں نے دفاع وطن اور ملکی سلامتی میں نوجوانوں کے کردار، مزاحمتی محاذ اور مزارات کے دفاع کی تحریک میں مدد، سماجی خدمات، سائنسی ترقی، پیداوار اور اختراع، مذہبی رسومات جیسا کہ اربعین کی عظیم واک اور رہ جانے والوں کے جلوس میں لاکھوں کی تعداد میں موجودگی، وبائی بیماری کا مقابلہ، مومنانہ امدادی تحریک، ثقافتی جہاد اور قدرتی آفات میں امداد کی طرف اشارہ کیا اور مزید کہا: میدان کے بیچ میں یہ انتھک اور سرگرم نوجوان حاضر ہیں۔ کبھی مایوس نہیں ہوئے اور اپنی اقدار سے منقطع نہیں ہوئے اور بلاشبہ ان تمام شعبوں اور تحریکوں میں آگے رہنے والے یہ با ایمان نوجوان رہے ہیں۔
کمانڈر انچیف نے مسلح افواج کو قومی طاقت کے ستونوں میں شمار کیا اور اس طاقت کے عنصر کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ مسلح افواج کو مضبوط کرنا ہمارے ایران کے لیے دوہری اہمیت کا حامل ہے جو کہ امریکہ جیسے غنڈے اور بدمعاش دشمنوں کا سامنا کر رہا ہے۔ فوجی حکام کو نئی اور جدید تدابیر کا استعمال کرتے ہوئے، تمام پروگراموں، آلات اور سازوسامان کو بہتر بنا کر، سائنسی تحقیق کو مضبوط بنا کر، اور دشمن کی مشترکہ جنگ کے خلاف پیچیدہ مشترکہ جنگی پلیٹ فارم تیار کر کے ملک کی دفاعی طاقت میں اضافہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے قومی سلامتی کی برقراری کو مسلح افواج کی اہم ذمہ داری قرار دیا جس کے بنیادی ڈھانچہ میں انفرادی معاملات میں سیکورٹی اور اجتماعی معاملات میں سیکورٹی سمیت زندگی کے تمام پہلو شامل ہیں اور مزید کہا: سیکورٹی کے بغیر کسی بھی میدان میں ترقی ممکن نہیں ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ بڑے ممالک میں بھی عدم تحفظ موجود ہے اور سب سے زیادہ برا حال امریکہ کا ہے جہاں ہم ہمیشہ اسکولوں، دکانوں اور ریستورانوں پر حملے دیکھتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے مسلح افواج کو ملکی سلامتی فراہم کرنے والا ادارہ قرار دیا اور فرمایا: اس لیے مسلح افواج کو کمزور کرنا ملکی سلامتی کو کمزور کرنا ہے اور جو بھی پولیس اسٹیشن یا بسیج بیس پر حملہ کرتا ہے یا فوج یا پاسداران انقلاب کو اپنے بیانات میں طعنہ دیتا ہے وہ ملکی سلامتی پر حملہ کرتا ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے مزید فرمایا: پولیس مجرموں کے خلاف ڈٹ جانے اور معاشرے کی حفاظت کو یقینی بنانے کی پابند ہے، اس لیے پولیس کو کمزور کرنے کا مطلب مجرموں کو مضبوط کرنا ہے، اور جو کوئی پولیس پر حملہ کرتا ہے، وہ یقیناََ عوام کو مجرموں، اوباشوں، چوروں اور بھتہ خوروں کے سامنے بے دفاع بناتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر سے پیدا ہونے والی سیکورٹی کو، ملک کے لیے ایک بڑا اہم امتیاز بتایا اور کہا: ہماری سیکورٹی پوری طرح سے ملک کے اندر سے پیدا ہونے والی اور اغیار سے کسی بھی طرح سے سہارا لیے بغیر حاصل ہونے والی سیکورٹی ہے اور یہ سیکورٹی، اس سیکورٹی سے پوری طرح الگ ہے جو دوسرے، باہر سے مدد حاصل کر کے پیدا کرتے ہیں اور وہ باہری ملک انھیں دودھ دینے والی گائے کی طرح دیکھتا ہے۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی سلامتی کو خدا کی قدرت اور امام وقت حضرت ولی عصر (ع) کی پشت پناہی اور قوم اور مسلح افواج کی سوچ اور استقامت کا نتیجہ قرار دیا اور مزید کہا: وہ جو کسی غیر ملکی پر بھروسہ کرتا ہے حساس وقت میں غیر ملکی قوت کی جانب سے اسے تنہا چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ وہ نہ تو اس کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کر سکتے ہیں۔
اس تقریب میں مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل باقری نے اس بات پر زور دیا کہ چند غافل یا وابستہ لوگوں کی حرکتیں جو عدم تحفظ پیدا کرنے پر منحصر ہیں، ایران کی قابل فخر قوم کی راہ حق میں قابل فخر تحریک پر آنچ نہیں ڈال سکتیں اور مزید کہا: مسلح فورسز عوام کے ساتھ رہتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کے ساتھ سرگرم استقامت کے نفاز میں اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔
اس کے علاوہ اس تقریب میں آرمی کی یونیورسٹیوں کے کمانڈر ایڈمرل II شفقت، امام حسین یونیورسٹی کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل غلامی اور امام حسن یونیورسٹی کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل آہی نے ان یونیورسٹیوں کے ایکشن پلان اور تعلیمی پروگراموں کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ طلباء کا مشترکہ طور سے ترانے پیش کرنا اور منتخب دستوں کی پریڈ آج کی تقریب کے دیگر حصے تھے۔
مسلح افواج کی مشترکہ گریجویشن تقریب جو اس سال امام حسن آفیسر اینڈ پولیس ٹریننگ یونیورسٹی میں منعقد ہوئی تھی، مسلح افواج کی 9 دیگر یونیورسٹیوں میں براہ راست اور ویڈیو کمیونیکیشن کے ذریعے نشر ہوئی اور ان یونیورسٹیوں کے طلباء نے بھی کمانڈر انچیف رہبر معظم انقلاب کا خطاب سنا۔