آج صبح (ہفتہ) آیت اللہ خامنہ ای نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے مزار پر ان کی رحلت کی 33ویں برسی کے موقع پر، امام خمینی کو اسلامی جمہوریہ کے روح رواں، حقیقی طور پر ایک غیر معمولی شخصیت اور ایرانی قوم کے کل، آج اور آنے والا کل کا امام قرار دیا۔ انہوں نے تاکید کی: موجودہ اور ذہین جوان نسل کو ملک کے مستقبل کی حکمرانی اور قوم کی قیادت کرنے اور اسے بلندیوں کی چوٹی تک پہنچانے کیلئے قابل اعتماد، جامع، تیز رفتار اور تبدیلی لانے والے سافٹ ویئر یعنی امام کے اسباق، تقریر اور طرز عمل کی ضرورت ہے۔
انہوں نے عوام اور انقلابی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں سرگرم افرادی قوت کو انقلاب کی شناخت اور امام خمینی رح کی شخصیت کی تحریف کو روکنے، دشمن کے جھوٹ اور نفسیاتی جنگ کو بے نقاب کرنے، مغربی رجعت پسندوں اور طرز زندگی کی دراندازی کو روکنے اور انقلابی حکام کی قدردانی کرنے کے حوالے سے اہم نصیحتیں کیں۔
اس تقریب میں جو دو سال کے بعد عوامی طور پر منعقد ہوئی تھی، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام خمینی رح کی شخصیت کے ابھی تک غیر شناختہ شدہ پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس ہدایت دہندہ ہستی کے بارے میں بہت سے بیانات اور تحریروں کے باوجود ان کی شخصیت اور قیادت کی عظمت اور طاقت کے بارے میں بہت کچھ باقی ہے اور نوجوان نسل جو امام کو درست طرح نہیں جانتی ہے، قومی اور انقلابی ذمہ داری کو نبھانے اور انقلاب کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے، ملک کے بہترین نظم و نسق کے لیے، اسے ملک کے روشن مستقبل کی طرف اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے امام مکتب کے اہم اور تعین کنندہ اسباق سے درس حاصل کرنا چاہیے۔
انہوں نے انقلاب اسلامی کو انقلابات کی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب قرار دیا اور عصری دور کے دو مشہور انقلابات یعنی فرانس کے انقلاب اور سوویت انقلاب کے عمل کو اسلامی انقلاب سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا: ان انقلابات میں روحانیت کی نفی ہوئی اور دونوں انقلابات انحراف کا شکار ہوئے۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد عوام جو انکی فتح کا سبب بنے، انھیں کنارہ کردیا گیا اور وہ نظام عملی طور پر ماضی کی طرف پلٹ گئے، لیکن فتح کے بعد انقلاب اسلامی نے پے در پے انتخابات، عوام پر مسلسل انحصار اور انسان کے مادی اور روحانی پہلوؤں کی طرف توجہ کا سلسلہ جاری رکھا جو کہ اسلامی انقلاب کے تاریخ کے تمام انقلابات پر برتری کے نمایاں اسباب میں سے ہے اور یہ امام خمینی رح کی قیادت کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے قوم کی مشارکت کو انقلاب کی فتح کا یقینی عنصر قرار دیا لیکن کہا: وہ طاقتور ہاتھ، فولادی شخصیت، بااعتماد دل اور ذوالفقار جیسی زبان جو قوم کے عظیم سمندر کو میدان عمل میں لانے کے قابل ہوئی، ان میں تلاطم ایجاد کرسکی، مایوسی کے بغیر میدان میں برقرار رکھ سکی اور ترقی کی راہیں انہیں تعلیم دے سکی عظیم امام اور خمینی عظیم کی ذات تھی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی کی مکمل فکری قیادت کے مظاہر اور میدان جنگ کے تعین اور تعلیم میں ان کی اثر انگیز طاقت کو بیان کرتے ہوئے تحریک انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے حساس مراحل کی طرف اشارہ کیا اور مزید کہا: امام خمینی رح نے اپنی زندگی کے آخری سال کے بیانات اور اپنی وصیت میں اپنے بعد کے دور کے لیے بھی میدان جنگ کا تعین کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امام (رہ) حقیقی معنوں میں ذاتی خصوصیات کے لحاظ سے ممتاز تھے، ان کی بعض خصوصیات پر روشنی ڈالی اور فرمایا: "طہارت و تقویٰ"، "روحانیت اور عارفانہ کیفیتیں"، "شجاعت"، "حکمت و عقلمندی"، "دقیق حساب و کتاب"، "مستقبل کی امید"، "ایمانداری"، "وقت کی پابندی اور نظم و ضبط"، "خدا کے وعدے پر بھروسہ اور یقین" اور "مجاہدانہ شخصیت" امام مرحوم کی نمایاں خصوصیات تھیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امام کی بعض خاص خصوصیات بیان کرنے کے بعد، امام مکتب کے اصولوں کی وضاحت کی اور مزید فرمایا: زمانہ جدوجہد اور انقلاب کے دوران امام کے مکتب کی بنیاد "خدا کیلئے قیام کرنا" تھی اور یہ بنیاد ایک قرآنی بنیاد تھی۔
انہوں نے تمام مراحل میں خدا کے لیے قیام کا مقصد "حق کا قیام"، "عدل و انصاف کا قیام" اور "روحانیت کو فروغ دینا" قرار دیا اور کہا: امام خمینی رح ایک حقیقی مجاہد تھے اور خدا کیلئے قیام کے میدان میں مسلسل موجود رہتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: زمانہ جدوجہد کے دوران امام کی تحریک کے کئی نمایاں نکات تھے، جن میں خوفزدہ نہ ہونا، لوگوں کے ساتھ دوٹوک اور شفاف طرز عمل، لوگوں پر اعتماد کرنا، عوام کی جدوجہد کی قدردانی اور ان کے دلوں میں امید کو ابھارنا شامل تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس کے بعد اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد امام خمینی رح کی تحریک کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں بات کی اور کہا: اس دور میں امام کی سب سے اہم فکر اور روڈ میپ "اسلامی جمہوریہ" اور "مغربی ثقافت" کے اصولوں کے درمیان فرق کرنا تھا۔ اسی مناسبت سے امام نے تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ مغربی "جمہوریت" اور "عوامی خودمختاری" سے مستعار نہیں ہے بلکہ اسلام کے اصول سے ماخوذ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بظاہر متضاد دوئیوں میں ہم آہنگی کو امام خمینی رح کے نئے پیش کردہ نظام کی نمایاں خصوصیات میں شمار کیا اور فرمایا: امام کے پیش کردہ نئے سیاسی نمونے اور نظام میں، "روحانیت بھی ہے اور رائے عامہ بھی"، " احکام الہی کا نفاذ بھی اور عوامی ضروریات اور مفادات کی مراعات بھی"، "معاشی عدالت پر اصرار بھی، تنگدستوں کے حق پر تاکید بھی اور سرمایہ کی افزائش پر اصرار بھی"، "ظلم کا انکار اور ظلم کے آگے سر خم تسلیم کرنے انکار بھی"، "علم و معیشت کی ترقی بھی اور ملکی دفاع کی مضبوطی بھی"، "قومی ہم آہنگی اور اتحاد بھی، متنوع آراء اور مختلف سیاسی رجحانات کی قبولیت بھی"، "حکام کے تقویٰ اور پاکیزگی پر زور بھی اور ان کی مہارت اور تجربہ کاری پر تاکید بھی۔"
اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے ایک اہم سوال سامنے رکھا اور فرمایا: یہ مکتب اور نمونہ جو امام خمینی رح نے وضع کیا اور اس کی بنیاد رکھی، امام کے زمانے میں اور ان کے بعد کس حد تک متحقق ہوسکا ہے؟
انہوں نے مزید کہا: "ملک کے حقائق کو جانتے ہوئے، میرا جواب یہ ہے کہ" اسلامی جمہوریہ نے جمہوریت، علمی ترقی، سفارت کاری، اقتصادیات اور عوامی خدمات جیسے تمام شعبوں میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن سے انکار کرنا ناانصافی ہے۔ البتہ بہت ساری ناکامیاں بھی ہوئیں یعنی ہم نے ترقی بھی کی اور ناکامیاں و کمزوریاں بھی رہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کمزوریوں اور ناکامیوں کی وجہ بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا: اسباب تلاش کرنے کے لیے امام نے ہماری رہنمائی کی اور فرمایا کہ "تمہاری کارکردگی کوشش اور جدوجہد پر منحصر ہے" یعنی جہاں کہیں بھی قوم اور حکام قوت ارادی کے ساتھ میدان میں داخل ہو تو وہاں ترقی ہے اور جہاں قوت ارادی میں کمزوری ہوتی ہے وہ پسماندگی کا باعث بنتی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے واضح کیا کہ انقلاب کی فتح کے آغاز سے لے کر آج تک وسیع دشمن محاذ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: یہ دشمنی اسلامی جمہوریہ نے ایجاد نہیں کی ہے بلکہ اس لیے کہ اسلامی جمہوریہ کا جوہر ظلم و استکبار کا مخالف اور روحانیت سے متفق ہے، فطری طور پر ظالم، متکبر، بدکردار اور روحانیت کے مخالفین اس سے دشمنی رکھتے ہیں۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کا ایک اور عنصر امام اور اہل مغرب کے درمیان گہری حدبندی کو قرار دیا اور فرمایا: فلسطین کی حمایت اور غاصب حکومت کا سفارت خانہ فلسطینی عوام کو دینا، یورپی ممالک اور امریکہ کی منافقت اور جرائم پر تنقید اسلامی تہذیب و فکر اور نظام اور مغربی تہذیب و فکر کے مابین امام کی جانب سے حدبندی کی اہم مثالیں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کو مزاحمت کے تصور سے آشنا کرنے اور قوم میں مزاحمت کا جذبہ پیدا کرنے کو بھی امام کی عظیم کامیابی قرار دیا اور فرمایا: آج امام کی بدولت ایرانی قوم ایک بھرپور مقاوم اور مضبوط قوم ہے اور مزاحمت کا لفظ دنیا کے سیاسی ادب میں نمایاں اصطلاح میں تبدیل ہوچکا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی قوم کے لیے دشمنوں کی دو سازشوں اور خیالی خوابوں کو مزید بے نقاب کیا اور فرمایا: اس منصوبے کا پہلا حصہ میں، عوامی احتجاجوں سے دشمنوں کی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ سائبر اسپیس میں نفسیاتی کاموں، سرگرمیوں اور پیسوں، زرخرید آلہ کاروں اور ہر قسم کے حربوں کے ذریعے عوام کو اسلامی نظام کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے اس سازش کے دوسرے حصے کو اسلامی جمہوریہ کے زوال بجانب ہونے کے بارے میں غلط تصور قرار دیا اور کہا: انقلاب کے آغاز میں بدخواہوں نے کہا تھا کہ انقلاب چھ مہینوں میں ختم ہوجائے گا اور ان کی پیشن گوئیاں غلط ثابت ہونے کے بعد وہ مزید چھ ماہ کا وعدہ دیتے، جبکہ آج انقلاب کو چھیاسی شش ماہی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، اور یہ کمزور سا پودا ایک طاقتور درخت بن چکا ہے، اور آج بھی ان کا حساب کتاب ماضی کی طرح بالکل غلط ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ میں عوام کا عنصر بہت اہم ہے اور دشمن ملت کو اسلامی نظام کے مقابلے میں نہیں کھڑا کرسکیں گے۔
انہوں نے ایران کے دشمنوں کے پے در پے غلط اندازوں کی وجہ کا تجزیہ کرتے ہوئے ان حسابات کو ترتیب دینے میں متعدد غدار ایرانی مشیروں کے کردار کی طرف اشارہ کیا اور کہا: یہ غدار مشیر نہ صرف اپنے ملک بلکہ امریکیوں کے ساتھ بھی غداری کرتے ہیں کیونکہ ان کے غلط مشورے ان کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔
"مذہب، علماء اور اسلامی نظام سے ایرانی عوام کا منہ موڑنا" غلط مشوروں اور غلط تجزیوں کی ایک مثال تھی جس کی طرف آیت اللہ خامنہ ای نے اشارہ کیا: امریکیوں نے ناواقف اور غدار مشیروں کے زیر اثر جو کچھ کہا وہ کہا لیکن اس کے علاوہ ملک کے اندر چند سادہ لوح افراد بھی میڈیا میں یہ غلط سلط بیانات دیتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ آج دین اور انقلاب کی طرف عوام کا جھکاؤ یقیناً انقلاب کے آغاز سے زیادہ ہے، مقاومت اور علماء کی تجلیل و قدر دانی کرنے میں عوام کی شاندار شمولیت کی نمایاں مثالوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: شہید سلیمانی کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے جسد خاکی کی تدفین میں لاکھوں کی تعداد میں شرکت اور اس انقلابی، جنگجو اور مجاہد کی قدردانی، آیت اللہ صافی گلپائیگانی اور آیت اللہ بہجت جیسے عظیم مراجع اور فقہا کی رحلت پر عوام کے جذبات کے اظہار کا موازنہ ملک کی کسی اور سیاسی اور فنی شخصیت سے نہیں کیا جا سکتا اور یہ عوام کے علما، مذہب، جہاد اور مزاحمت پر یقین کو ظاہر کرتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اعتکاف کے مراکز، عظیم روحانی اجتماعات نیز 22 بہمن اور یوم قدس کے شاندار جلوسوں میں نوجوانوں کی پرجوش شرکت کو امام خمینی رح سے قوم کی وفاداری کی دوسری نشانیوں میں شمار کیا اور مزید کہا: ملک بھر کے بوڑھوں سے لے کر جوانوں اور بچوں تک کا حضرت ولی عصر (ع) کے دربار میں ایک ترانے کی شکل میں اظہار عقیدت جو ان دنوں چل رہا ہے عوام کی دین و مذہب سے لگا کی ایک اور مثال ہے۔
اپنی تقریر کے آخری حصے میں آیت اللہ خامنہ ای نے انقلابی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں سرگرم کارکنوں کو سات اہم نصیحتیں کیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ذہین اور عقلمند نوجوانوں کو پہلی نصیحت میں تاکید کی: دشمن اور ضد انقلاب کو اپنے انقلاب کی شناخت کمزور اور اس کی حقیقت کو مسخ نہ کریں۔ یہ نصیحت کرتے ہوئے کہ "امام کی یاد کو، جو انقلاب کی حقیقی روح ہے، معاشرے میں کم نہ ہونے دیں تاکہ امام کی تحریف نہ کی جاسکے"، اپنی تیسری نصیحت کو "ارتجاعی رجحان کے اثر کو خنثی کرنے" سے مخصوص کیا اور کہا: "ارتجاع کا مطلب ہے مغربی سیاست اور طرز زندگی کی طرف واپس پلٹنا اور کرپٹ پہلوی دور میں موجود مغربی طرز زندگی کی دراندازی کے ملک کو ارتجاع کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
اپنی چوتھی سفارش میں انہوں نے "دشمن کے جھوٹ اور فریب اور نفسیاتی جنگ کو بے نقاب کرنے" پر زور دیا اور اس نفسیاتی جنگ کی ایک نئی مثال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کچھ عرصہ قبل یونانی حکومت نے امریکیوں کے کہنے پر ہمارے ملک کا تیل چوری کیا، لیکن جب اسلامی جمہوریہ کے جان بر کف سربازوں نے جواب میں دشمن کی تیل کی کشتی کو ضبط کیا، تو دشمن نے اپنے وسیع پروپیگنڈے میں ایران پر چوری کا الزام لگایا، جب کہ وہ تھے جنھوں نے ہمارا تیل چوری کیا اور چوری کا مال واپس لینا چوری نہیں ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے "عوام کے ایمان کے سرمائے کو عمل صالح میں تبدیل کرنے" کی نصیحت کرتے ہوئے، "ملک کے تعطل کا شکار ہونے کے تصور کو روکنے پر" اپنی چھٹی نصیحت کو وقف کیا اور فرمایا: سائبر اسپیس میں، کچھ لوگ، یا تو غفلت کے وجہ سے یا پیسے کیلئے، انکا کام ملک میں تعطل کے وجود کے تصور کا پرچار کرنا ہے، البتہ امام کے زمانے میں بھی بعض لوگوں نے اخبارات میں لکھا کہ ملک تعطل کا شکار ہوچکا ہے، اور امام نے فرمایا کہ یہ تم ہو جو تعطل کا شکار ہوچکے ہو، اسلامی جمہوریہ نہیں۔
انہوں نے اپنی آخری نصیحت میں "انقلابی عہدیداروں کی قدر دانی کرنے کے فریضہ" کی یاد دہانی کرائی اور کہا: عظیم امام جس طرح عہدیداروں کو متنبہ فرماتے تھے، بعض صورتوں میں ان کی صراحت سے تعریف بھی کرتے تھے، چنانچہ آج جب دشمن انقلابی عہدیداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے، قردانی کرنے کا اہم فریضہ ادا کرنا ہوگا۔