رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح (بدھ) اسلامی مشاورتی اسمبلی کے اسپیکر اور اراکین سے ملاقات میں خرمشہر کی فتح کو ایک مشکل صورتحال کے شیریں صورتحال میں بدلنے اور قومی فتح اور نجات کے متحقق ہونے کی علامت قرار دیا اور فرمایا:
مشکل، پیچیدہ اور تلخ حالات پر قابو پانے اور فتح و کامرانی حاصل کرنے کا اصول جہادی عمل، پختہ عزم، خلاقیت، ایثار و قربانی، طویل المدتی وژن اور سب سے بڑھ کر اخلاص اور اللہ تعالیٰ پر توکل ہے۔
انہوں نے اسلامی مشاورتی اسمبلی کو ملکی نظم و نسق کے اہم ستونوں میں سے ایک سمجھا اور موجودہ پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال میں ممالک کو سنبھالنے کی مشکلات اور پیچیدگیوں کا ذکر کرتے ہوئے تمام شاخوں اور اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عہدوں کی اہمیت کو سمجھیں اور آپس میں مخلصانہ تعاون کریں: توانائیوں اور کمزوریوں کا درست ادراک ایک اہم ترین مسئلہ ہے کیونکہ دشمن اپنی توانائیوں سے زیادہ ہماری غلطیوں سے امید لگائے بیٹھا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فتح خرمشہر کی سالگرہ کا ذکر کرتے ہوئے اس عظیم واقعہ کو ایک شہر کا قبضہ واپس لینے ہونے سے بالاتر قرار دیا اور فرمایا: خرمشہر کی فتح دراصل اسلامی جنگجوؤں کے حق میں ایک حساس اور مشکل صورتحال کی ایک خوشگوار صورتحال میں تبدیلی تھی۔
صورتحال میں اس تبدیلی کی وجہ بیان کرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: خرمشہر کی فتح سے حاصل شدہ قومی فتح کے عوامل یہ ہیں: جہادی عمل، ایثار و قربانی، پختہ عزم، خلاقانہ اقدام، اہداف اور نظریات سے متعلق طویل المدتی نظریہ، اور سب سے بڑھ کر اخلاص اور اللہ پر توکل۔
انہوں نے ان عوامل اور کلی اصول کو تمام معاملات اور اوقات میں نجات کا نسخہ سمجھا اور تاکید کی: اس نجات بخش اصول کی بنیاد قرآن میں خدا کا ناقابل تنسیخ وعدہ ہے جس کے تحت ان افراد اور معاشروں کو فتح دلائی جائے گی جو ان عوامل پر کاربند رہیں گے اور خدا ایسے معاشرے کے افراد کی جدوجہد کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: "قربانی کا مطلب چھوٹی چھوٹی خواہشات کے چنگل میں نہ پھنسنا ہے، اور افراد اور معاشروں کے بہت سے مسائل حقیرانہ خواہشات میں گرفتار ہونے سے شروع ہوتے ہیں۔"
آیت اللہ خامنہ ای اس کے بعد پارلیمنٹ کے موضوع پر متوجہ ہوئے اور اس بات پر زور دیا کہ اسلامی مشاورتی اسمبلی ملک کے نظم و نسق کے اہم ستونوں اور پہلوؤں میں سے ایک ہے اور اس کا ایک اہم مقام ہے، اس بات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: مختلف شہروں اور یہاں تک کہ کم آبادی والے شہروں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ کی اہمیت کے بارے میں اسی طرح کا نقطہ نظر رکھنا چاہئے اور انہیں ملک کو سنبھالنے کی مشکل اور پیچیدگی کا احساس ہونا چاہئے۔
انہوں نے ایران کی وسعت، آبادی، جغرافیہ، تاریخ اور متنوع آب و ہوا کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی: ایران کی حیثیت کے حامل ملک کو سنبھالنا ایک اہم کام ہے اور دنیا کے موجودہ خاص حالات کے پیش نظر قدرتی طور پر مشکل اور پیچیدہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس پر اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یقیناً آج کی دنیا میں تمام ممالک کے لیے ملک چلانا مشکل ہوگیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے دنیا کی غیر معمولی صورت حال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرمایا: طاقتوں کی آپسی دشمنی اور ایٹمی طاقتوں کی ایک دوسرے کے خلاف دھمکیاں، بڑھتی ہوئی عسکری نقل و حرکت اور خطرات اور دنیا کے سب سے زیادہ جنگ زدہ خطوں میں سے ایک کے طور پر یورپ کے قریب جنگ، دنیا بھر میں نادر بیماری کا پھیلاو اور خوراک کی قلت کے خطرات، وہ تمام عوامل ہیں جو موجودہ عالمی صورتحال کو خاص بناتے ہیں، اور ایسی صورت حال میں ممالک کا انتظامی معاملہ مزید مشکل اور پیچیدہ ہو گیا ہے۔
انہوں نے اشارہ کیا: تمام ممالک میں موجود حالات کے علاوہ ایران کو عالمی طاقتوں کی طرف سے ایک نئے طرز حکمرانی پیش کرنے کی وجہ سے، جو کہ مذہبی جمہوریت ہے جس نے استعماری نظام کے منصوبوں کو درہم برہم کر دیا ہے، مختلف زاویوں سے مسلسل چیلنج درپیش ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ نے تمام دشمنیوں کے مقابلے میں اپنے اپنا سینہ سپر کردیا ہے اور ترقی اور کامیابی حاصل کر رہا ہے، فرمایا: اراکین پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ اور دیگر اداروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس عظیم انتظامی سسٹم میں شامل ہیں اور اس مقام کے مطابق اپنی دیکھ بھال میں اضافہ کریں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: ہمیں توانائیوں اور کمزوریوں دونوں کو پہچاننا چاہیے اور کوتاہیوں سے بچنے کے لیے ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ دشمن اپنی صلاحیتوں سے زیادہ ہماری کوتاہیوں سے امید لگائے بیٹھا ہے۔
انقلابی اسمبلی کے طور پر گیارہویں مجلس کی اپنی سابقہ عنوان دہی کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم لیڈر نے مزید کہا: "کچھ لوگوں کو یہ عنوان دینا پسند نہیں آیا، لیکن یہ ایک حقیقی عنوان تھا کیونکہ عوام نے اس اسمبلی کے لیے ایسے نمائندے منتخب کیے جن کے نعرے اور رجحان انقلابی تھے۔"
انہوں نے بعض افراد کے ان بیانات کو رد کیا جو انقلابی نعروں کو ملک کیلئے دردسر کا باعث سمجھتے ہیں اور فرمایا: انقلاب کے نظریات کی طرف بڑھنا ملک کے مفاد میں ہے اور اس کے درد کو دور کرنے کا سبب بنتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے انقلابی رہنے کو انقلابی ہونے سے زیادہ اہم قرار دیا اور فرمایا: انقلاب کے ابتدائی سالوں میں کچھ لوگ بہت پرجوش اور ایک لحاظ سے انتہائی انقلابی تھے، لیکن ان میں اس راہ پر قائم رہنے کی ہمت نہیں تھی اور وہ اس راستے پر نہ ڈٹ سکے، تو لہذا، پارلیمنٹ کا انفرادی اور اجتماعی طور پر انقلابی رہنا انقلابی بننے سے زیادہ مشکل ہے۔
انہوں نے گیارہویں پارلیمنٹ کے گزشتہ دو سالوں میں کئے گئے اچھے کاموں کی تعریف کی اور ایک "انقلابی نمائندے" کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا: پہلا اشاریہ "سادگی، اور عیش و عشرت میں مبتلا نہ ہونا" ہے اور منتخب نمائندوں کا طرز زندگی نمائندگی کی مدت سے پہلے سے مختلف نہیں ہونا چاہیے۔
"احساس ذمہ داری" انقلابی نمائندے کا دوسرا اشاریہ تھا، جس پر رہبر انقلاب نے زور دیا: "آپ کے ذریعے پاس ہونے والے اچھے قانون پر ثابت قدم رہیں، اور دوسری طرف، اس طرح نہ ہو کہ یہ جانتے ہوئے کوئی قانون پاس کریں کہ اسے گارڈین کونسل نے مسترد کردے گا یا حکومت اس پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہے، تاکہ آپ صرف اس ذمہ داری سے سبک دوش ہوسکیں۔
انہوں نے "عوامی ہونے" کو نمائندے کے انقلابی ہونے کا ایک اور اشاریہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا: "عوامی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان
اٹھنے بیٹھنے کے علاوہ، آپ کو ان کی باتوں کو کھلے کانوں سے سننا ہوگا، لیکن جہاں عوام کے مطالبات پر عمل درآمد ممکن نہ ہو وہاں واضح الفاظ میں اس کی وجوہات بیان کریں جو کہ بیان و تشریح کے جہاد کی ایک مثال ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے "ملک کے مسائل کے بنیادی اور غیر اساسی مسائل کی درجہ بندی کرنا اور بنیادی مسائل کے حل کو ترجیح دینے" کو انقلابی نمائندے کی دیگر خصوصیت قرار دیا اور فرمایا: "ایک اور نشانی امتیازی سلوک روا رکھنے اور بدعنوانی سے پرہیز کرنا ہے"چاہے دوسروں کی بدعنوانی کا مقابلہ ہو یا خود کو بدعنوانی سے بچانا ہو۔
انہوں نے "دوسری شاخوں اور اداروں کے ساتھ ساتھ ان کی ذیلی انتظامیہ کے ساتھ مخلصانہ تعاون" اور رکاوٹیں ڈالنے اور بلا وجہ مخالفت سے اجتناب کو انقلابی اسمبلی کے تقاضوں میں شمار کیا اور کہا: انقلابی نمائندہ عام لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن وہ عوام زدہ یا ماحول زدہ نہیں ہوتا، اس لیے پارلیمنٹ کے قوانین اور اقدامات میں اگر اعتراضات معقول ہوں تو قبول کریں، لیکن دوسری صورت میں پارلیمنٹ اور قانون کے خلاف ماحول سازی آپ کو اپنا کام کرنے میں رکاوٹ کا باعث نہیں بننی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب نے "آئین اور اس کے فرائض کی مکمل پاسداری" کو انقلابی نمائندے کی ایک اور خصوصیت قرار دیا اور اپنی تقریر کے اس حصے کو ختم کرتے ہوئے فرمایا: البتہ ایک چیز جو انقلابی ہونے کی علامت نہیں ہے وہ ہے احتجاج اور غصے کے ساتھ پرجوش انٹرمیڈیٹ تقاریر۔
اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے قانون سازی کے امور پر کچھ نصیحتیں کیں۔
"جامع اور طویل المدتی نقطہ نظر کے ساتھ قوانین بنانے اور ہر چھوٹی بات کے لیے قانون سازی سے گریز" پر زور دیتے ہوئے انہوں نے قوانین سازی کے عمل میں بیان کردہ عمومی پالیسیوں پر توجہ دینے کو ضروری قرار دیا اور مزید کہا: پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ ان پالیسیوں کی بنیاد پر قانون سازی کرے، نہ ان سے متصادم اصولوں پر، کچھ عمومی پالیسیوں، جیسے عام انتخابات کی پالیسیاں یا عام قانون سازی کی پالیسیاں، کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے، لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے نفاذ کو کئی سال گزر چکے ہیں، متعلقہ قوانین ابھی تک منظور نہیں ہوسکے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے منتخب نمائندوں کی طرف سے پروگرام کی تجویز کو خاص طور پر ایسے معاملات میں جہاں ملک میں خلا اور ضرورت ہے لیکن حکومت نے کوئی بل پیش نہیں کیا ہے، پارلیمنٹ کے حقوق اور فرائض میں سے ایک قرار دیا اور فرمایا: البتہ میں نے سنا ہے کہ اس پارلیمنٹ میں مجوزہ منصوبوں اور پروگرام کی تعداد پچھلی پارلیمنٹ سے زیادہ ہے جو کہ زیادہ مناسب نہیں جس وجہ سے ان کی ماہرانہ جانچ پڑتال اور ان پر عملدرآمد مشکل ہو جاتا ہے اور قانون عملی نہ ہونے کی وجہ سے سے ذمہ داریاں معلق ہو جاتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: "نئی اسمبلیوں کی تشکیل کے ساتھ، پچھلی پارلیمنٹ کے منصوبوں اور پروگرام کو ترک کر دیا جائے گا، جس میں کافی وقت اور محنت صرف ہوئی ہوتی ہے، اس معاملے میں اصلاح کی ضرورت ہے۔"
آیت اللہ خامنہ ای کی ایک اور تاکید "بجٹ کے ڈھانچے کی اصلاح" تھی، آپ نے فرمایا: بجٹ کی غلط ترکیب کو ابھی تک درست نہیں کیا گیا ہے، جس میں حکومت زیادہ ذمہ دار ہے، لیکن پارلیمنٹ میں حقیقی اور قابل حصول سرمایہ کا تعین کیے بغیر اخراجات میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے جس سے بجٹ خسارے میں اضافہ ہوجائے کہ جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔
"تحقیقاتی مرکز اور خصوصی کمیشن دونوں میں پارلیمنٹ کی مہارت کو بہتر بنانے" پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے ساتویں ترقیاتی منصوبے کی تدوین کا حوالہ دیا اور کہا: "ان پانچ سالہ منصوبوں میں، کلی باتیں کرنا کافی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ حکومت اور پارلیمنٹ مسائل پر مبنی منصوبہ تیار کر کے ملک کے اسٹیک ہولڈرز کے لیے راستہ واضح کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان مسائل کی چند مثالیں بیان کیں جن پر ساتویں ترقیاتی منصوبے میں غور کیا جانا چاہیے اور فرمایا: ساتویں منصوبے میں، زراعت جیسے مسائل کے لیے، یا کان کنی کا مسئلہ، جس میں ملک کی توانائیاں اسی طرح برقرار ہیں یا بغیر کسی اضافی قدر کے استحصال کا شکار ہیں، یا صنعت کا مسئلہ، جس میں ملک کی حکمت عملی نامعلوم ہے، علمی کام کے بعد اور مسئلہ محور دستاویز اور پروگرام تیار کیا جانا چاہیے۔ البتہ ملک کی وسائل اور زمین کے انتظام کے معاملے پر بھی توجہ رکھی جانی چاہیے۔
اپنی اگلی تاکید میں، انہوں نے "پارلیمنٹ کی منظوریوں اور اقدامات کے میڈیا اثرات کے مختلف زاویوں پر توجہ دینے اور لوگوں کیلئے ان کی وضاحت کرنے" پر زور دیا اور کہا: لوگوں کو درست وضاحت نہ دینا باعث بنتا ہے کہ قانون کے خلاف ماحول سازی اور ہنگامہ آرائی کی جائے اور آپ اسے پاس کرنے پر پچھتائیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے حالیہ برسوں میں احتساب عدالت کی چستی اور بروقت رپورٹوں کی تعریف کرتے ہوئے مزید کہا: "حال ہی میں، احتساب عدالت نے کچھ سرکاری کمپنیوں کے بجٹ کا جائزہ لینا شروع کیا ہے، جسے اگر تمام سرکاری کمپنیوں تک بڑھا دیا جائے تو یہ اس پارلیمنٹ کی کارکردگی میں سے شمار ہوگا۔"
رہبر معظم انقلاب نے ارکان پارلیمنٹ کو تقرریوں میں مداخلت سے گریز کرنے کی اپنی سابقہ نصیحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: اسپیکر نے فرمایا کہ بعض ارکان پارلیمنٹ اس نصیحت سے رنجیدہ خاطر ہوئے ہیں جبکہ یہ مشورہ آپ کے اپنے فائدے میں ہی ہے کیونکہ اگر کسی علاقے میں کسی نمائندے کی جانب سے یا اس کے اصرار پر کسی اہلکار کی تقرری کی جائے لیکن اس کی کارکردگی مطلوبہ نہ ہو، یہ واضح نہیں ہوپائے گا اس مسئلے میں کہ کس کا احتساب کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا: "آئین کے اہم مسائل میں سے ایک اختیارات کی علیحدگی کا مسئلہ ہے، اور ہر ایک کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں، یقیناً ہم نے ہمیشہ حکومتوں کو نمائندوں کے مشوروں اور رائے سے بہرہ مند ہونے کی تاکید کی ہے"۔
آیت اللہ خامنہ ای نے افراد کے وقار کے تحفظ کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے اور پارلیمنٹ کے اہم ٹربیون سے غیر ثابت شدہ امور کے اظہار سے اجتناب کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: جتنی زیادہ ذمہ داری سنگین ہوتی جائے، اتنی ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انسان کی عبادت اور دعا اور ائمہ ہدیٰ سے شفاعت کے تقاضے میں اضافہ ہونا چاہیے۔
آخر میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام خمینی رح، انقلاب اور دفاع مقدس کے شہداء کی مقدس ارواح کو سلام پیش کرتے ہوئے شہید صیاد خدائی کو خراج تحسین پیش کیا جو تین روز قبل دہشت گردی کی کارروائی میں شہید ہوئے تھے۔
اجلاس کے آغاز میں اسلامی مشاورتی اسمبلی کے اسپیکر ڈاکٹر قالیباف نے گزشتہ دو سالوں میں 11ویں اسمبلی کے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے "پابندیوں کو بے اثر کرنے پر توجہ" کو اسمبلی کی اہم حکمت عملی قرار دیا اور کہا: اس حکمت عملی کے دائرے کے اندر، پارلیمنٹ "معاشی قوانین میں اصلاحات کے پیکیج" کے حصول کیلئے کوشاں ہے۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پارلیمنٹ مسائل کو جڑوں سے حل کرنے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ عوام کے موجودہ مسائل کو کم کرنے کے اقدامات پر بھی زور دیتی ہے، اور ضروری اجناس کوپن کی شکل میں ترجیحی کرنسی سبسڈی کی دوبارہ تقسیم کی منظوری کو اس ضمن میں منتخب نمائندوں کی فعالیت شمار کیا۔
کاروباری لائسنس کے اجراء میں سہولت فراہم کرنے کے لیے قانونی اقدامات کی وضاحت، خالی گھر ٹیکس پر قانون سازی، علم محور مراکز کی معاونت، شفافیت، گاڑیوں کی درآمد، گھرانوں اور افزائش نسل کی حمایت، بجٹ اور منظوریوں میں محروم اور پسماندہ علاقوں کو ترجیح دینا اور فوجیوں کے مسائل میں بہتری کے لیے قانونی پیروی ملاقات کے دوران جناب قالیباف کی پیش کردہ کارگردگی رپورٹ کے دیگر مسائل تھے۔