رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح (بدھ) سیکڑوں اساتذہ اور معلمین کے ساتھ ملاقات میں شعبہ تعلیم کو تہذیب ساز نسل کا مربی قرار دیا اور اساتذہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے بالخصوص کورونا کے دوران ان کی معاش کو بہتر بنانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایک قومی اور اسلامی ایرانی شناخت کی حامل، خود اعتماد، استقامت کی حامل، امام کے افکار و نظریات سے آگاہ، دانشمند اور کارآمد نسل کی تربیت ہونی چاہیے۔
انہوں نے اساتذہ کو آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرنے والے قابل افتخار افراد قرار دیا اور مزید کہا: "اساتذہ سے ملاقات کا مقصد ان کے کردار کو اجاگر کرنا، رائے عامہ میں استاد کی قدر کو محفوظ کرنا اور اسے برقرار رکھنا ہے تاکہ استاد، ان کے خاندان دونوں کو ان کے کام پر فخر ہو اور تاکہ معاشرہ بھی استاد کو ایک قابل فخر فرد کے عنوان سے دیکھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے وزیر تعلیم کی تقریر میں بتائے گئے اچھے اقدامات کا شکریہ ادا کیا اور مزید فرمایا: ملک میں قانون، دستاویز اور اچھے فیصلوں کی کمی نہیں ہے، یہ ضروری ہے کہ ان فیصلوں اور قوانین پر سنجیدہ اور جہادی طرز پر عمل کیا جائے۔"
استادی کے پیشے کے تصور سے متعلق دو استعمالات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: "تعلیم دینے کے معنی میں استاد ایک بہت بڑی قدر ہے کیونکہ قرآن کی آیات کی روح سے خدا تعلیم دینے والا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام علماء، اسکالرز، سائنسدانوں اور ممتاز شخصیات جیسے استاد شہید مطہری بھی استادی کی اس بلند و بالا قدر کی حامل ہیں۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: استاد کا دوسرا استعمال درس و تدریس کے کام سے مطابقت رکھتا ہے، تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ قدر بھی وجود رکھتی ہے کیونکہ یہ تعلیم لینے والے، اس سے متاثر ہونے اور تربیت یافتہ قرار پانے اپنی عمر کے بہترین حصے میں ہوتے ہیں اور دوسرے گروہوں کی نسبت ان میں تعلیم زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔"
انہوں نے ایک نئی اور تر و تازہ اسلامی تہذیب کی تشکیل کے طویل المدتی ہدف کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "افرادی قوت کسی بھی تہذیب کا بنیادی ڈھانچہ ہوتی ہے اور نئی اسلامی تہذیب کی بانی وہ نسل ہیں جو ابھی اساتذہ کے تحت تربیت ہے، اس لیے اس پیشے کی اہمیت اور استاد کی قدر اس نقطہ نظر سے دیکھی جانی چاہیے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس عظیم مقصد کے ساتھ اس نسل کو ایرانی و اسلامی تشخص، مضبوط اور گہرے عقائد، پر اعتماد، خود اعتماد، مشرق و مغرب کی فرسودہ تہذیبوں سے آگاہ، دانشمند اور کارآمد ہونا چاہیے تاکہ اس عظیم تہذیب کو تشکیل دے سکے۔"
انقلاب کے بعد کے شعبہ تعلیم میں نمایاں عناصر کی تربیت کا ذکر کرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: "پچھلی چار دہائیوں میں اساتذہ کی کوششوں کی بدولت مختلف شعبوں میں موثر عناصر میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے، اور اس فروغ پذیر تہذیب کے لیے، اس طرح کی تربیتی عمل کو وسیع پیمانے پر انجام پانا چاہیے۔"
انہوں نے ایسی نسل کو تربیت دینے کیلئے بارہ سالہ مدت کو منفرد قرار دیتے ہوئے کہا: "تمام شہروں اور دیہاتوں میں وسیع تعلیمی نظام کی موجودگی انقلاب کی اقدار اور نظریات کو صحیح طریقے سے دلوں اور کانوں تک پہنچانے کے لیے ایک اچھا زمینہ ہے تاکہ اساتذہ کی کوششوں کی روشنی میں قوم کے بچوں میں اسلامی ایرانی تشخص کو جاگزین کیا جاسکے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے وزارت تعلیم کو ایک بہت ہی عظیم اور مستقبل ساز ادارہ قرار دیا اور فرمایا: ہم شعبہ تعلیم کے حال سے ملک کے مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اساتذہ کی کوششوں کی حقیقی تقدیر پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے مزید کہا: "یقیناً مطلوبہ صورت حال کے حصول کے لیے موجودہ مسائل کا تدبر، علم، کوشش، جدوجہد اور صبر سے حل ہونا ضروری ہے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے مشکلات کے حل کے لیے درکار وسائل کی وضاحت کرتے ہوئے مناسب تعلیمی نصاب کی تالیف اور تعلیم کے لیے درکار اساتذہ کی مقدار کی طرف اشارہ کیا اور مزید فرمایا: استاد کا معیار اور اس کی دین داری، اخلاقیات اور مہارتیں بہت اہم ہیں اور ایسا نہ ہو کہ صرف داخلہ امتحان میں کم نمبر لینے والے استادی کے پیشے کی طرف رغبت کریں، البتہ مختلف ادوار کی طرح آج ہمارے پاس پرعزم اور دلسوز اساتذہ کی کمی نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے تعلیمی عمل کے بارے میں چند نکات بیان کئے: "طلبہ میں قومی تشخص موجود ہونا چاہیے اور علم کے پرچم کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ، پورے اعتماد کے ساتھ، قومی اور قابل فخر ایرانی اسلامی تشخص کا پرچم بھی بلند ہونا چاہیے۔
انقلاب کے بعد قابل فخر محنتی عناصر سمیت ملک کے اعزازات سے طلباء کی ناواقفیت، امام خمینی کے راہ گشا افکار اور انقلاب کے نشیب و فراز سے ان کی ناواقفیت اور انقلاب کی تاریخ سے ان کی عدم واقفیت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اساتذہ کو جوان اور نوجوان نسل کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ایسے مسائل کو انکے دل و جان میں سمو دینا چاہیے۔
انہوں نے استقامت اور ثابت قدم کی قدر کا ادراک کو طلباء کی دیگر ضروریات قرار دیا اور مزید فرمایا: "ایسی دنیا میں جہاں ہر کوئی چاہے مشرق ہو یا مغرب، زور و زبردستی کرتا ہے، آنے والی نسل کو ابھی سے استقامت کی قدر اور اہمیت کو جاننا چاہیے تاکہ ان تعلیمات کی روشنی میں تہذیب سازی کرکے ملک کو باوقار بنا سکیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے وزارت تعلیم کو طلباء کے نصاب میں "نفع بخش علم" کو "غیر فائدہ مند علم" سے الگ کرنے کی تاکید کی اور فرمایا: "فائدہ مند علم ایک ایسا علم ہے جو جوانوں اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے اور ان کے مسقبل پر سرمایہ کاری کے ذریعے ملک کی ترقی اور پیشرفت کا باعث بنتا ہے."
انہوں نے مزید کہا: "موجودہ نصاب میں کچھ مواد صرف حفظی ہے جو طلباء کے حال یا مستقبل کیلئے کسی فائدے کا نہیں اور ان کے ذہنوں پر انڈیلا جارہا ہے، جن کی نشاندہی کرکے انہیں نصاب سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے غیر مفید مواد کے بجائے ہنر سکھانے کے لیے وقت مختص کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی طرز زندگی، سماجی تعاون اور تعامل، مطالعہ و تحقیق، مجاہدانہ سرگرمیاں، معاشرتی برائیوں کا مقابلہ اور نظم و انضباط جیسے مسائل ان مہارتوں میں سے ہیں جنہیں اسکولوں میں تعلیم دیا جانا چاہیے اور بچپن و نوجوانی سے افراد میں سمو دینا چاہیے۔
انہوں نے تعلیمی اصلاحات سے متعلق دستاویز پر عملدرآمد کی مقدار کو تسلی بخش نہیں جانا اور فرمایا: دستاویز کی تکمیل کے 10 سال سے زائد عرصے اور مختلف وزراء کی آنے جانے کے بعد، البتہ خود یہ عہدیداروں کی کثرت ایک قسم کی مشکل اور آفت ہے، اس دستاویز کو ایک مکمل اور باہم مربوط مجموعہ کے طور پر نافذ نہیں کیا جاسکا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: "اگر دستاویز میں ترمیم اور تکمیل کی ضرورت ہو تو حکام کو ایسا کرنا چاہیے، جب کہ دستاویز کی پیشرفت کی پیمائش کے لیے مقداری اشاریوں کا تعین ہونا چاہیے۔"
اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے اساتذہ کے مسائل کے بارے میں چند نکات کا اظہار کرتے ہوئے، نظام تعلیم کے اہم مسائل کو نافذ کرنے کی سنگین ذمہ داری کا بوجھ اساتذہ کے کندھوں پر قرار دیا اور فرمایا: محترم اساتذہ کرام، مختلف مراحل میں جیسے انقلاب، دفاع مقدس اور مختلف سیاسی واقعات کے دوران اپنا اہم کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے جوانوں اور نوجوانوں کی رہنمائی کی۔آج انہیں اپنے اہم کردار اور ذمہ داری سے پہلے سے زیادہ آگاہ ہونا چاہئے اور معاش کے مسائل جیسے مسائل کو انکی تھکاوٹ یا احساس کمتری یا ان کے عظیم کام کی تحقیر کا باعث نہیں بننا چاہئے۔
انہوں نے جوانوں اور نوجوانوں کو ملک کے ہیرے اور اساتذہ کے ہاتھوں میں عظیم امانتیں قرار دیتے ہوئے مزید کہا: “ان بیش قیمت امانتوں کو دین دار و دین محور اساتذہ کی تربیت کے نتیجے میں اعلیٰ سائنسی، اخلاقی اور عملی قدر کے حامل افراد میں تبدیل ہونا چاہیے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرہنگیان یونیورسٹی اور تمام اساتذہ کے تربیتی مراکز کو بھاری ذمہ داریوں کے حامل اور انکی ہمہ جہت تقویت کو ضرورت قرار دیا اور فرمایا: ان مراکز کو ہارڈویئر سہولیات، انتظامی، پروفیسرز، تعلیمی متن اور تعلیمی سرگرمیوں کے لحاظ سے مضبوط کیا جانا چاہیے تاکہ وہ "مطلوبہ اساتذہ" کی تربیت کر سکیں۔
انہوں نے کورونا کی زمانے میں تدریس کی مشکلات اور اساتذہ کی کوششوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اساتذہ کی تعلیم کے شعبے کو ان کی تدریس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرنے کی تاکید کی: اس مدت میں میں اساتذہ کی مشقتیں دگنی ہوگئیں اور اس سلسلے میں ہمیں تمام اساتذہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اساتذہ کی معاش کو بہتر بنانے کے اپنی مسلسل تاکید پر زور دیتے ہوئے مزید فرمایا: "حکومتی وسائل میں مشکلات کے باوجود، اساتذہ کی روزی، انشورنس، ریٹائرمنٹ اور علاج کے مسائل پر خصوصی توجہ دینہ چاہیے۔"
اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے اساتذہ کو نصیحت کی کہ وزارت تعلیم سے بہت زیادہ توقعات کے باوجود کہ وہ اپنی ذمہ داری پر عمل کرے گا، ان توقعات کے پورا ہونے کا انتظار نہ کریں اور طلباء کے لیے تعلیمی پروگراموں اور اپنے عظیم کاموں کو اپنی ذاتی خلاقیت اور خیرخواہانہ اور دردمندانہ جذبے سے آگے بڑھائیں۔
نشست کے آغاز میں وزیر تعلیم جناب نوری نے تعلیمی اصلاحات کی دستاویز کے نفاذ، سائبر اسپیس سے استفادہ اور تعلیم میں نئی ٹیکنالوجیز کے استعمال، تعلیمی عمل میں برابری کے حوالے سے وزارت کے اقدامات اور منصوبے، ہنر کے فروغ، ممتاز استعداد کے حامل افراد کی تربیت، اساتذہ کی معاش، درجہ بندی اور نصاب میں تبدیلیوں کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔