رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی یوم القدس کے موقع پر ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے خطاب میں فلسطینی عوام کے حق میں ایک مختلف مستقبل کی بہت امید افزا نشانیاں بیان کیں جن میں پورے فلسطین میں مزاحمت کے میدان کو وسعت ملنا اور غاصب حکومت اور اس کے اصل حامی، امریکہ کا کمزور ہونا شامل ہے، فلسطین میں حالیہ برسوں کے واقعات کا مطلب صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتے کے تمام منصوبوں کی ناکامی ہے اور مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت کے مظہر کی بے مثال برکات کو یاد کرتے ہوئے، انہوں نے تاکید کی: صرف مزاحمت کی طاقت سے ہی عالم اسلام اور فلسطین کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آغاز میں عظیم امام خمینی رہ جو یوم القدس کے بانی تھے کو سلام پیش کیا اور ایران کی عظیم قوم کو سلام پیش کیا جس نے آج پورے ملک میں اپنی حوصلہ افزا موجودگی سے ایک عظیم حماسہ تخلیق کیا۔ آپ نے مزید فرمایا: القدس کے حقیقی سیاسی اور عوامی دفاع کے میدان میں آپ کی عظیم اور بابرکت مشارکت مسجد اقصیٰ کا اپنے جسم و جان سے دفاع کرنے والوں کی استقامت کو تقویت بخشے گا اور ان شاء اللہ فلسطینیوں کی عظیم جدوجہد کامیاب ہو گی اور خدا سے امید ہے کہ فلسطینی اپنے حتمی اور بابرکت نتائج تک پہنچیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ آج وہ عالم اسلام بالخصوص عرب دنیا سے عربی میں بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس حقیقت پر زور دیتے ہوئے کہ جب تک غاصب اور مجرم صیہونی حکومت قدس پر غلبہ رکھتی ہے، سال کا ہر دن یوم القدس ہونا چاہیے۔ قدس شریف فلسطین کا دل ہے اور پورے ملک میں، سمندر سے لے کر دریا تک، قدس کی سرزمین ہے۔
فلسطینی عوام کی بے مثال استقامت اور حوصلے کو سراہتے ہوئے انہوں نے فلسطینی نوجوانوں کی فداکارانہ کارروائیوں کو فلسطین کے لیے دفاعی ڈھال بنانے اور ایک مختلف امید افزا مستقبل کی نوید قرار دیا اور فلسطین میں آج اور کل کے لیے ایک نئے مستقبل کے آثار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انھوں نے کہا: "آج فلسطین اور پورے مغربی ایشیا میں 'ناقابل تسخیر ارادہ' نے صیہونی 'ناقابل تسخیر فوج' کی جگہ لے لی ہے، اور مجرمانہ فوج کی جارحانہ لائن ایک دفاعی لائن میں تبدیل ہوجانے پر مجبور کردی گئی ہے۔"
صیہونی حکومت کے اہم ترین حامی امریکہ کی افغانستان جنگ، اسلامی ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی، ایشیائی طاقتوں کے خلاف، عالمی اقتصادی کنٹرول اور اپنے داخلی انتظام میں ہے در پے شکست، نیز امریکی نظام میں گہری دراڑ کا ظاہر ہونا، دوسرے مصادیق تھے جنھیں انہوں نے ایک مختلف مستقبل کی نشانیوں سے تعبیر کیا۔
انہوں نے صیہونی حکومت کے سیاسی اور عسکری متعدد مسائل میں ڈوبنے کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: "سابقہ جلاد اور مجرم جو حکومت کے سربراہ تھا، سیف القدس کے حماسے کے بعد کچرے کے ڈھیر میں پیوست ہو گیا اور آج اس کے جانشین بھی ہر لمحے ایک اور حماسے کی تیز دھار کا انتظار کر رہے ہیں۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے پورے فلسطین میں مزاحمت کے پھیلاؤ کی ٹھوس مثالوں کی طرف اشارہ کیا، جیسے جنین کیمپ کی تحریک جس نے صیہونیوں کو جنونی بنا دیا ہے، 70 فیصد فلسطینیوں کی قابض حکومت پر فوجی حملے کا تقاضا، 1948 کے شمالی اور جنوبی حصوں میں فلسطینیوں کی
جہادی تحریکیں، اردن اور مشرقی یروشلم میں عظیم ریلیاں، فلسطینی نوجوانوں کی مسجد اقصیٰ کا بھرپور دفاع اور غزہ میں فوجی مشقیں۔ انہوں نے زور دیا کہ: "پورا فلسطین مزاحمت کا منظر بن گیا ہے اور فلسطینی عوام جہاد جاری رکھنے کے لیے متحد ہیں۔‘‘ ان اہم مظاہر کا مطلب فلسطینیوں کی قابض حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل آمادگی ہے، اور مجاہدین تنظیمیں جب بھی مناسب سمجھیں ان کو کارروائی کرنے کے لیے مکمل اختیار کا مل جانا ہے۔
انہوں نے ان واقعات اور حالیہ برسوں میں فلسطین میں رونما ہونے والے واقعات کے پیغام کو صیہونی دشمن کے ساتھ تمام سمجھوتے کے منصوبوں کی ناکامی کا پیغام قرار دیا اور کہا: فلسطین کے بارے میں کوئی بھی منصوبہ اس کے اصل مالکان یعنی فلسطینی عوام کی عدم موجودگی یا رائے کے خلاف نافذ نہیں ہو سکتا اور اس کا مطلب ہے تمام سابقہ معاہدے جیسے اوسلو، یا دو ریاستی عرب منصوبہ، یا صدی کا معاہدہ، یا حالیہ ذلت آمیز تعلقات کی بحالی کے معاملات ناکام ہوگئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دم گھٹنے کے باوجود صیہونی حکومت کے تمام جرائم کے جاری رہنے کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا: یوکرین کے معاملے میں شور غل مچانے والے یورپ اور امریکہ میں انسانی حقوق کے جھوٹے دعویدار فلسطین میں ان تمام جرائم کے سامنے اپنے لب نہیں ہلا پارہے ہیں اور وہ مظلوموں کا دفاع نہیں کرتے بلکہ خونخوار بھیڑیوں کی مدد بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے نسل پرست مغربی طاقتوں کے اس فریب کارانہ رویے کو ان پر بھروسہ کرنے سے گریز کرنے کا ایک بڑا سبق سمجھا اور تاکید کی: صرف مزاحمت کی قوت سے جو قرآن کریم کی تعلیم اور اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہے، عالم اسلام اور بالخصوص فلسطین کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مغربی ایشیا میں مزاحمت کی تشکیل کو خطے کی سب سے بابرکت پیشرفت قرار دیا اور فرمایا: مزاحمت تھی جس نے لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو صیہونیوں سے پاک کیا، عراق کو امریکہ کے حلق سے نکالا اور اسے داعش کے شر سے بچایا، شام کے محافظوں کی امریکی منصوبوں کے خلاف مدد کی، بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کیا، یمنی مزاحمتی عوام کی ان پر مسلط کردہ جنگ میں مدد کرتے ہیں، صیہونی غاصبوں کے وجود سے جکڑ کر، وہ الہی توفیق کے سائے میں ان کے گھٹنے ٹیکتا ہے، اور اپنی مجاہدانہ کوششوں سے وہ قدس اور فلسطین کے مسئلے کو عالمی رائے عامہ میں روز بروز نمایاں کرتا ہے۔
قرآن کریم کی ان آیات کا تذکرہ کرتے ہوئے جن میں مومنین اور صبر کرنے والوں کے لیے خدا کی مدد کا اعلان کیا گیا ہے، انہوں نے فلسطینی عوام اور اس کے فداکار نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی: اسلامی جمہوریہ ایران جیسا کہ اس نے بارہا کہا ہے اور عملی طور پر اس پر زور دیا ہے، فلسطینی مزاحمتی محاذ کا حامی ہے اور قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے غدارانہ اقدام اور موافقت کی پالیسی کی مذمت کرتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ بعض عرب حکومتوں نے مسئلہ فلسطین کے حل میں امریکہ سے جلد بازی کرنے کا کہا ہے، فرمایا: اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ خطے سے نکلنے سے پہلے غاصب حکومت کے استحکام کی راہ میں حائل کوئی رکاوٹ دور کرے تو، سب سے پہلے انہوں نے خیانت کی اور عرب دنیا کے لیے رسوائی کا سامان پیدا کیا اور دوسرا یہ کہ انہوں نے سادگی کا مظاہرہ کیا کیونکہ ایک اندھا کسی دوسرے اندھے کی لاٹھی نہیں بن سکتا۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں فلسطینی شہداء کی ارواح کو سلام اور ان کے اہل خانہ کو خراج عقیدت پیش کیا اور فلسطینی اسیران اور قیدیوں کو مبارکباد دی جو ثابت قدمی کے ساتھ مزاحمت کر رہے ہیں اور مزید فرمایا: میں ان مزاحمتی فلسطینی گروہوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس عظیم ذمہ داری کا ایک بڑا حصہ اٹھایا ہوا ہے اور میں تمام اسلام بالخصوص نوجوانوں سے اس باوقار میدان میں حصہ لینے کی اپیل کرتا ہوں۔